تیری رہبری کا سوال ہے!

idara letterhead universal2c

تیری رہبری کا سوال ہے!

مولانا مصدق القاسمی

علمائے کرام وارثین انبیاء اور نائبین رسول ہیں

حضرات انبیاء علیہم السلام جس مقصد سے دنیا میں مبعوث ہوئے تھے، وہ مقصد ہمیشہ علماء کے پیش نظر رہنا چاہیے، اگر وہ مقصد ائمہ مساجد اورخدام ِ دین کے سامنے رہے گا تو پھر حالات کتنے ہی پر خطر او رناموافق کیوں نہ ہوں، ان تمام حالات میں دین کا صحیح کام ہو سکتا ہے ؛ کیوں کہ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی انبیائے کرام علیہم السلام نے دین کی او رایک الله کی دعوت دی ہے پھولوں کی سیج نہیں؛ کانٹوں کے انبار تھے، قوم کی طرف سے ابتدا میں کسی بھی نبی کا استقبال نہیں ہوا، ہمیشہ انہیں ایذا پہنچائی گئی اوربالخصوص ہمارے آقا صلی الله علیہ وسلم کو تو شاعر کہا گیا، کاہن بتلایا گیا، مجنون قرار دیاگیا، کانٹے بچھائے گئے اوپر سے پتھر گرانے کی سازشیں رچائی گئیں، زہر دیا گیا، یہ سب کچھ ہوا، لیکن کبھی کوئی حرف ِ شکایت زبان پر نہ آیا، لہٰذا جب علمائے کرام کو وراثت نبوی کا حق دار بتایا گیا تو ان کے لیے یہ بات بالکل روا او رمناسب نہیں کہ نامساعد حالات سے پریشان ہو کر شکایتیں کرنے لگیں، بلکہ حالات کی سنگینی میں بھی دین پر جم کر خدمت ِ دین کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ یہی مزاج نبوت ہے۔

صبر وتحمل کا لباس زیب تن کر لیں

جب خدمت ِ دین کو اپنا مشن بنا کر میدان ِ عمل میں اتر گئے تو پھر صبر وبرداشت سے آراستہ ہو جانا چاہیے، لوگوں کی اول فول، بکواس اور دشنام طرازیوں کی پروا کیے بغیر اور مصلیوں کی تلخ نوائی اور سخت کلامی پر بے قابو ہو جانے کے بجائے صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے او راپنے بزر گان ِ دین اور سلف صالحین کی قربانیوں سے بھری زندگی کو پڑھنے کی ضرورت ہے، اور بالخصوص امام احمد بن حنبل کی بے مثال ولا جواب ثابت قدمی اور مستقل مزاجیہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان پر مسئلہٴ خلقِ قرآن کا انکار کرنے کی پاداش میں وہ ظلم وتعدی اور جو روستم ڈھائے گئے او رکوڑے مارے گئے کہ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ اگر ایک کوڑہ ہاتھی پر مارا جاتا تو وہ بھی بلبلاتا، ایسے سو کوڑے مارے جاتے ہیں تب بھی آپ کے پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ آئی، ان سب کے باوجود آپ اپنے مسلک ومشرب پر بالکل جمے رہے، لہٰذا ہمیں بھی حالات کی سنگینی کا رونا رونے کے بجائے اولو العزم شخصیات کو پڑھنا چاہیے، کیوں کہ انہوں نے اعلائے کلمة الله کے لیے صبر واستقامت اور عزم واستقلال کا وہ مظاہرہ پیش کیا جو نو فارغین کے لیے لائقِ تقلید امر او ربہترین نمونہ ہے۔

عالم دین کو قطب نما ہونا چاہیے

مفکر اسلام حضرت علی میاں ندوی رقم طراز ہیں کہ عالم دین کو قطب نما ہونا چاہیے، کیوں کہ اس کی دو خصوصیات بہت ممتاز ہیں:

مثلاً آپ سفر میں ہوں حضر میں ہوں، گاڑی میں ہوں کہیں بھی ہوں وہ اپنا کام (راستہ بتانا) نہیں چھوڑتا، بلکہ ہمیشہ صحیح سمت بتاتا ہے، ایسے ہی ہمیں بھی احوال زمانہ کے فرق کے بغیر صحیح راہ بتانا ہے، دین کا صحیح پیغام ان تک پہنچانا ہے ۔

دوسری خصوصیت: قطب نما اپنی راہ نمائی میں امیر وغریب کا فرق نہیں کرتا کہ تمہارا قبلہ ادھر ہے اور غریب کا قبلہ ادھر ، اس لیے علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے امیر وغریب کے تعلق میں بھید بھاؤ نہ کریں، یکساں سلوک کریں، ورنہ ہوتا تو یہ ہے کہ ہم امتیازِ امیر وغریب کے چکر توہین ِ علم کے مرتکب ہو جاتے ہیں، نیز علم دین کی قدر وقیمت سے نا آشنا مال داروں کا دروازہ کھٹکھٹانے سے احتراز کرنا چاہیے او ربالخصوص آج کے دور میں اپنے اندر صفت ِ استغنا پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے، کبھی مخلوق پر نظر نہ جائے، مخلوق سے امیدیں قائم کرنے کے بجائے خالق سے تعلق استوار کرنا چاہیے، اس سلسلہ میں سلف صالحین اور علماء کاملین کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

حضرت سعید حلبی جامع اموی میں درس دے رہے تھے، ایک مرتبہ حضرت سعید حلبی  کے پیر میں کچھ تکلیف تھی، پیر پھیلائے ہوئے درس دے رہے تھے، دوران ِ درس شام کا گورنر (جو بڑا ،جلاد اور سفاک تھا) آیا تو آپ نے اپنا پیر سمیٹا نہیں، تو تمام شاگرد گھبرا گئے اور ڈرنے لگے کہ کہیں ظالم وسفاک ہمارے شیخ کی گردن نہ اڑا دے اور اس کے خون کے چھینٹے ہم پر پڑیں، لیکن استغنا اس درجہ تھی کہ پیر علی حالہ  باقی رکھا، پھر وہ چلا گیا اورحضرت  کی خدمت میں اشرفی وغیرہ کی ایک تھیلی بطورِ ہدیہ بھیجی، تو حضرت نے آنے والے قاصد سے کہا: واپس لے جاؤ اور یہ کہہ کر دے دو:”جو لوگوں کے سامنے پیر پھیلاتا ہے وہ ہاتھ نہیں پھیلاتا“۔ الله اکبر! یہ تھی ہمارے اکابر کی استغنا اور بے نیازی۔

امت پر رحم کا جذبہ ہو

الله رب العزت والجلال کا ارشاد ہے:﴿الرحمن، علم القرآن﴾ یہاں پر باری تعالیٰ نے صفت رحمان کا تذکر ہ کیا ہے۔ اگر وہ چاہتے تو لفظ الله بھی ذکر کر دیتے یا اپنی او رکوئی صفت مثلاً الغفور بھی کہہ سکتے تھے، لیکن آپ اہل علم جانتے ہیں کہ یہاں صفت ِ رحمان کے ذکر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا فضل مطیع، فرماں بردار اور سرکش ونافرمان ہر ایک پر عام ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ یہاں ر حمن نے تعلیم ِ قرآن کی نسبت کے ساتھ صفت ِ رحمن کو ذکر کیا ہے، بہ قول صاحب روح المعانی کے، قرآن پڑھانے والے کو رحمن والی صفت اپنے اندر پیدا کرناچاہیے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ماننے والوں کو پڑھائے اور نہ ماننے والوں کو اپنے مدرسہ سے نکال دیں، بلکہ معلم کی طبیعت میں شفقت ومہربانی کے لیے بھی آنا ہے اور اپنے طلبا کے لیے بھی یہ مزاج اگر ہم اپنا بنا لیں تو ان شاء الله درس وتدریس میں بڑی کام یابی ہو گی۔

علماء کو مثل چراغ کے ہیں

عربی کا ایک مقولہ ہے: العلماء مصباح ھذہ الامة (علمائے کرام اس امت کے چراغ ہیں) یعنی جس طرح موم بتی سب کو روشنی دیتی ہے، لیکن خود پگھلتی ہے، چراغ میں تیل جلتا ہے، تب جاکر روشنی ہوتی ہے، ایسے ہی علماء کو خود کو مٹانا چاہیے، اپنے آپ کو مٹا کر قوم کو روشنی پہنچانی ہے، اس طرح ہم کریں گے تو ان شاء الله روشنی کے پھیلانے والوں میں ہم بھی شامل ہو جائیں گے۔

اپنے تمام اعمال وخدمات پر اخلاص کا رنگ چڑھانا

کام میں اخلاص نہ ہو تو کتنی تحریکیں بن جائیں کام نہیں چلتا، پوری دنیا میں تبلیغی جماعت کا جو کام چل رہا ہے وہ حضرت مولانا الیاس صاحب  کے اخلاص کا اثر ہے۔ اسی طرح اگر ہم کوئی تحریک لے کر چلیں (مثلاً تحریک علماء ہو، جمعیہ العلماء ہو، یا لجنة العلماء ہو) اگر ہم اس میں اپنی شان بگھارنے کے لیے، اپنے عہدوں کے لیے کام کریں گے تو یاد رکھنا کہ وہ کام نہیں ہو گا۔ ہاں! اگر کام ملت کے مفاد کے پیش نظر ہو اور اخلاص ہو کہ ( الله دیکھ رہے ہیں، مخلوق نہیں) تو ان شاء الله وہ کام ترقی کرے گا۔

الله تعالیٰ ہمیں توفیق عمل ارزانی فرمائے او رپاک دامنی کے ساتھ اخلاص واستقامت کی دولت نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی الله علیہ وسلم۔

تعمیر حیات سے متعلق