اپنی خبر لیجیے

idara letterhead universal2c

اپنی خبر لیجیے

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

”زمانہ بڑا خراب ہے“”امانت اور دیانت لوگوں کے دل سے اٹھ چکی ہے “ ”رشوت کا بازار گرم ہے“”دفتروں میں پیسے یا سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا“” ہر شخص زیادہ سے زیادہ بٹورنے کی فکر میں لگا ہوا ہے “” شرافت اور اخلاق کا جنازہ نکل گیا ہے “” بے دینی کا سیلاب چاروں طرف امڈا ہوا ہے“” لوگ خدا اور آخرت سے غافل ہو بیٹھے ہیں“۔

اس قسم کے جملے ہیں جو ہم دن رات کسی نہ کسی اسلوب سے کہتے یا سنتے رہتے ہیں، ہمار ی کوئی محفل شاید ہی حالات کی خرابی کے اس شکوے سے خالی ہو تی ہو اور یہ شکوہ کچھ غلط بھی نہیں، واقعةً زندگی کے جس شعبے کی طرف نظر ڈالیے ایک نمایاں انحطاط دکھائی دیتا ہے او رمعاشرتی خرابیاں ہمیں گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔

دوسری طرف اصلاح معاشرہ کی کوششوں کا جائزہ لیجیے، تو بہ ظاہر ان میں بھی کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ نہ جانے کتنے ادارے، کتنی جماعتیں، کتنی انجمنیں اسی معاشرے کی اصلاح کے لیے قائم ہیں او راپنے اپنے دائرے میں اپنی اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ کر رہی ہیں، شاید ملک کا کوئی قابل ِ ذکر حصہ اس قسم کی کوششوں سے خالی نہ ہو او ران میں سے بعض کوششوں کا محدود سا اثر کہیں کہیں نظر بھی آجاتا ہے، لیکن اگر بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کو دیکھا جائے تو بہ ظاہر یہ ساری کوششیں رائیگاں محسوس ہوتی ہیں اور معاشرے کی مجموعی فضا پر نہ صرف یہ کہ ان کا کوئی نمایاں اثر ظاہر نہیں ہوتا، بلکہ اُفق پر اُمید کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آتی۔

اس صورت َ حال کے یوں تو بہت سے اسباب ہیں اور یہ اسباب اب اتنے اُلجھ گئے ہیں کہ اس اُلجھی ہوئی ڈور کا سرا پکڑنا بھی آسان نہیں رہا، لیکن اس وقت میں صرف ایک اہم سبب کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، جس کی طرف بسا اوقات ہمارا دھیان نہیں جاتا۔

وہ سبب یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی مزاج کچھ ایسا بن گیا ہے کہ ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے، ان کے عیوب تلاش کرنے او ران کی برائیوں پر تبصرہ کرنے میں جوحظ آتا ہے وہ کسی حقیقی اصلاحی عمل میں نہیں آتا۔ حالات کی خرابی کا شکوہ ہمارے لیے وقت گزاری کا ایک مشغلہ ہے، جس کے نت نئے اسلوب ہم ایجاد کرتے رہتے ہیں، لیکن ان خرابیوں کی اصلاح کے لیے کوئی بامعنی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے او راگر اصلاح ِ احوال کے لیے کوئی جھنڈا بلند کرتے بھی ہیں تو ہماری خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اصلاح کے عمل کا آغاز کسی دوسرے سے ہو۔ ہماری اصلاحی جدوجہد اس ذہنی مفروضے کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے کہ ہمارے سوا ساری دنیا کے لوگ خراب ہو گئے ہیں او ران کے اعمال واخلاق کو درست کرنے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، یہ سب کچھ سوچتے او رکہتے ہوئے یہ خیال بہت کم لوگوں کو آتا ہے کہ کچھ خرابیاں خود ہمارے اند ربھی ہو سکتی ہیں اور ہمیں سب سے پہلے ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، چناں چہ جو اصلاحی تحریک اپنے آپ سے بے خبر ہو کر صرف دوسروں کو اپنا ہدف بناتی ہے، اس میں دوسروں کے لیے کوئی کشش او رتاثیر نہیں ہوتی اور وہ محض ایک رسمی کارروائی ہو کر رہ جاتی ہے۔

معاشرے کے حالات اور لوگوں کے طرز عمل پرتنقیدکا سب سے خطرناک اور نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو خود اپنی غلط کاری کے لیے وجہ جواز بنا لیا جاتا ہے، چناں چہ یہ فقرہ بکثرت سننے میں آتا رہتا ہے کہ ” یہ کام ٹھیک تو نہیں ہے، لیکن زمانے کے حالات کو دیکھتے ہوئے کرنا ہی پڑتا ہے“ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے زمانے اورزمانے کی ساری برائیوں کا تذکرہ تو اس انداز سے کرتے ہیں جیسے ہم ان تمام برائیوں سے معصوم او رمحفوظ ہیں، لیکن اس تذکرے کے بعد جب عملی زندگی میں پہنچتے ہیں تو ان کاموں کا بے تکان ارتکاب کرتے جاتے ہیں، جن کی برائی بیان کرتے ہوئے ہم نے اپنا سارا زور بیان خرچ کیا تھا۔

اگر ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ہول ناک آگ بھڑک رہی ہو اور ہم یقین سے جانتے ہوں کہ اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی تو کیا پھر بھی ہمارا طرزِ عمل یہ ہو گا کہ ہم اطمینان سے بیٹھ کر اظہار افسوس کرتے رہیں اور ہاتھ پاؤں ہلانے کی کوشش نہ کریں؟ ایسے موقع پر بے وقوف سے بے وقوف شخص بھی آگ کی تفصیلات کو نمک مرچ لگا کر بیان کرنے سے پہلے اسے بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کو فون کرے گا اور خود بھی اسے بجھانے کا جو طریقہ ممکن ہو اختیار کرے گا اور اگر آگ بجھتی نظر نہ آئے تو کم از کم خود تو وہاں سے بھاگ ہی کھڑا ہو گا، لیکن یہ کام کوئی بدترین دیوانہ ہی کرسکتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بجائے وہ آگ کا قصہ لوگوں کو سنا کر خود اسی آگ میں چھلانگ لگا دے۔

لیکن معاشرتی برائیوں کی جس آگ کا تذکرہ ہم دن رات کرتے ہیں عجیب بات ہے کہ اس کے بارے میں ہمارا طرز عمل یہی ہے کہ یہ تذکرہ کرنے کے بعد ہم خود بھی اسی میں کود جاتے ہیں، ہم دن رات رشوت خوروں کو صلواتیں سناتے ہیں ،لیکن اگر کبھی وقت پڑ جائے تو خود رشوت لینے یا دینے میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جھوٹ، خیانت اور حرام خوری کی مذمت ہمارے وردِ زبان رہتی ہے،لیکن اگر کبھی داؤں چل جائے تو خود ان برائیوں سے نہیں چوکتے او راگر کبھی اس پر اعتراض ہو تو ٹکسالی جواب یہ ہے کہ سارا معاشرہ جس ڈھپ پر چل رہا ہے ہم اس سے کٹ کر کس طرح رہ سکتے ہیں؟ کیا اس طرز عمل کی مثال بالکل ایسی نہیں ہے کہ کوئی شخص بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر خود اس میں چھلانگ لگا دے؟

جب معاشرے میں برائیوں اور گم راہیوں کا چلن عام ہو جائے تو ایسے موقع کے لیے قرآن کریم نے ایک بڑی اصولی ہدایت عطا فرمائی ہے، جس سے غفلت کے نتیجے میں ہم موجودہ حالات سے دو چار ہیں، وہ ہدایت قرآن کریم ہی کے الفاظ میں یہ ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُم مَّن ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ إِلَی اللَّہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾․(سورة المائدہ، آیت:105)

ترجمہ:” اے ایمان والو! خود اپنی خبر لو، اگر تم ہدایت کے راستے پر ہو تو جو لوگ گم راہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے، تم سب کو الله ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ “
اس آیت ِ کریمہ نے یہ زرّیں حقیقت ارشاد فرمائی ہے کہ دوسروں کی بد عملی تمہاری بد عملی کے لیے وجہ ِ جواز نہیں بن سکتی، نہ صرف اس کا تذکرہ کر دینے سے کوئی مقصد حاصل ہو سکتا ہے، تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنی خبر لو اور کم از کم اپنی ذات کی حد تک بد اعمالیوں سے پرہیز کرو او راپنا سارا زورخود اپنے آپ کو درست کرنے میں خرچ کر دو۔ جن برائیوں سے فوراً بچ سکتے ہو ان سے فوراً بچ جاؤ۔ جن سے بچنے کے لیے کسی کوشش او رمحنت کی ضرورت ہے، ان کے لیے کوشش شروع کر دو، اگر کوئی دوسرا شخص رشوت لے رہا ہے تو کم از کم خود رشوت کیگناہ سے بچ جاؤ، اگر کوئی دوسرا خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے تو کم از کم خود خیانت سے اجتناب کرو، اگر کوئی دوسرا جھوٹ بول رہا ہے تو کم از کم تم سچائی کو اپنا شعار بنالو، اگر کوئی دوسرا حرام خوری میں مبتلا ہے تو کم از کم تم یہ طے کر لو کہ حرام کا کوئی لقمہ میرے پیٹ میں نہیں جائے گا۔

یہی ہدایت ایک حدیث میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دی ہے:”اذا رایت شحا مطاعا وھوی متبعا ودنیا مؤثرة واعجاب کل ذی رأی برایہ فعلیک بخاصة نفسک، ودع عنک أمر العامة․“(سنن الترمذی، کتاب التفسیر، حدیث:2984، سنن ابی داود:3778، سنن ابن ماجہ:4004)

”جب تم دیکھو کہ لوگ جذبہٴ بخل کی اطاعت کر رہے ہیں اور خواہشاتِ نفسانی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، دنیا کو ہر معاملے میں ترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے پر گھمنڈ میں مبتلا ہے تو ایسے میں خاص طور پر اپنی اصلاح کی فکر کرو اور عام لوگوں کے معاملے کو چھوڑ دو“۔

مطلب یہ ہے کہ ایسے موقع پر عام لوگوں کی برائی کرتے رہنا مسئلے کا کوئی حل نہیں، مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہر شخص اپنی اصلاح کی فکر کرے اوراپنے آپ کو ان پھیلی ہوئی برائیوں سے بچانے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دے۔

ایک اور حدیث میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”من قال: ھلک الناس، فھو أھلکھم․“

جو شخص یہ کہتا پھرے کہ لوگ برباد ہو گئے تو درحقیقت اُن سب سے زیادہ برباد خود وہ شخص ہے۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلة والأداب، حدیث:4755 میں یہ الفاظ ہیں:” إذا قال الرجل: ھلک الناس فھو أھلکم․“ یہی الفاظ سنن أبی داود حدیث:4331 میں ہیں)

یعنی جو شخص ہر وقت دوسروں کی برائیوں کا راگ الاپتا رہتا ہو اور خود اپنے عیوب کی پروانہ کرے، وہ سب سے زیادہ تباہ حال ہے، اس کے بجائے اگر وہ اپنی اصلاح کی فکر کر لے او راپنے طرز عمل کا جائزہ لے کر اپنی برائیاں دور کر لے تو کم ازکم معاشرے سے ایک فرد کی برائی ختم ہو جائے گی اور تجربہ یہ ہے کہ معاشرے میں ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا ہے او رایک فرد کی اصلاح کسی دوسرے کی اصلاح کا بھی ذریعہ بن جاتی ہے، معاشرہ درحقیقت افراد ہی کے مجموعے سے عبارت ہے او راگر افراد میں اپنی اصلاح کی فکر عام ہو جائے تو دھیرے دھیرے پورا معاشرہ بھی سنور سکتا ہے۔

لہٰذا مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم معاشرے او راس کی برائیوں کو ہر وقت کوستے ہی رہیں، اس سے نہ صرف یہ کہ کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، بلکہ بسا اوقات لوگوں میں مایوسی پھیلتی ہے او ربد عملی کو فروغ ملتا ہے، اس کے بجائے مسئلے کا حل قرآن وسنتکے مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے حالات کا جائزہ لے او راپنے گریبان میں منھ ڈالنے کی عادت ڈال کر یہ دیکھے کہ اس کے ذمے الله او را س کے بندوں کے کیا کیا حقوق وفرائض ہیں؟ اور کیا وہ اقعةً ان حقوق وفرائض کوٹھیک ادا کر رہا ہے؟ معاشرے کی جن برائیوں کا شکوہ اس کی زبان پر ہے، ان میں سے کن کن برائیوں میں وہ خود حصہ دار ہے؟

چوں کہ ہم نے کبھی اس نقطہٴ نظر سے اپنا جائزہ لینے کی کوشش ہی نہیں کی، اس لیے یہ اجمالی بہانہ ہم دن رات پیش کرتے رہتے ہیں کہ چار سو پھیلی ہوئی بد عنوانیوں میں ایک اکیلا شخص کیا کرسکتا ہے؟ حالاں کہ اگر انصاف کے ساتھ اس طرح جائزہ لے کر دیکھیں تو پتہ چلے کہ ان گئے گزرے حالات میں بھی اکیلا ایک شخص بہت کچھ کر سکتا ہے، جائزہ لینے سے معلوم ہو گا کہ ہماری بہت سی غلطیاں او رکوتاہیاں ایسی ہیں جن کا ہم فوری طور پر تدارک کرسکتے ہیں اور کوئی نہیں ہے جو اس تدارک کے راستے میں رکاوٹ بن سکے۔

او ربہت سی غلطیاں ایسی ہیں جن کا اگر فوری تدارک ممکن نہیں ہے توکم از کم ان کی مقدار ا ور سنگینی میں فوری طور سے کمی کی جاسکتی ہے اور بہت سی ایسی بھی ہیں جن کی تلافی اور تدارک میں کچھ دشواریاں ہیں، لیکن وہ دشواریاں ایسی نہیں ہیں جو حل نہ ہوسکیں، ان دشواریوں کو دور کرنے کی راہیں سوچی جاسکتی ہیں، آخر اسی گئے گزرے معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو برائیوں کی اس بھڑکی ہوئی آگ میں بھی اپنا دامن بچا کر زندگی گزار رہے ہیں، ایسے لوگ اپنی پاک باز زندگی کی وجہ سے مر نہیں گئے، وہ بھی اس معاشرے میں زندہ ہیں، بلکہ اگر حقیقت شناس نگاہ ہو تو بہت اچھی طرح زندہ ہیں۔

لیکن ان ساری باتوں کا احساس اسی وقت جاگ سکتا ہے جب دل میں اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہو جائے اور اس فکر کے نتیجے میں اپنا جائزہ لینے کی عادت پڑ جائے، جس دن ضمیر کی یہ طاقت بیدار ہو گئی اور اس کی آواز سننے کے لیے قلب وذہن کے دریچے کھل گئے اس دن صحیح معنی میں اس حقیقت کا انکشاف ہو گا کہ معاشرے کی خرابی کا جو ہوا ہم نے اپنے سروں پر مسلط کر رکھا تھا او رجس نے ہمیں اپنی صحت کی ہر تدبیر سے روکا ہوا تھا، وہ کتنا بے حقیقت اورکتنا بے وزن تھا؟ بیمار کا سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنی بیماری کا احساس ہو اور اس بات کا یقین اس کے دل میں پیدا ہو کہ اس کی بیماری ناقابل ِ علاج نہیں ہے اور آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم اس احساس اور اس یقین سے مسلح ہو کر اپنی بیماری کا علاج تلاش کرنے کی فکر کریں۔

تعمیر حیات سے متعلق