تکبر او راس کا علاج

idara letterhead universal2c

تکبر او راس کا علاج

مولانا عبدالماجد

الحمدلله وکفٰی، وسلام علی عبادہ الذین اصطفی، اما بعد․
فاعوذبالله من الشیٰن الرجیم
بسم الله الرحمن رحیم
فقال الله تعالیٰ:﴿إِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِّن طِینٍ، فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِینَ، فَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّہُمْ أَجْمَعُونَ ، إِلَّا إِبْلِیسَ اسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِینَ﴾․(سورہ ص:74-71)

عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: قال الله عزوجل: الکبریاء ردائی، والعظمة إزاری، فمن نازعنی واحدا منھما قذفتہ فی النار․

جس طرح ہمارے ظاہری اعمال میں سے الله تعالیٰ نے بعض اعمال کو فرض اور واجب قرار دیا ہے او ربعض کو حرام او رگناہ قرار دیا ہے، اسی طرح باطنی اعمال میں سے بعض کو فرض اور بعض کو حرام او رگناہ قرار دیا ہے، جن کا ازالہ فرض عین ہے، لیکن ان باطنی بیماریوں کی پہچان بہت مشکل ہے۔ اس لیے انہیں جاننے کے لیے کسی ماہر نیک مصلح کی صحبت ضروری ہے۔

ان باطنی اعمال میں سے ایک خطرناک بیماری تکبر ہے، جو گناہوں کی جڑ ہے اور اس کا ازالہ کرنا فرض عین ہے۔ تکبر کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں کو کم سمجھنا۔

تکبر او رعجب میں فرق
ان دونوں میں صرف یہ فرق ہے کہ عجب میں دوسرے کو حقیر نہیں سمجھتا، اپنے کو عظیم سمجھتا ہے او رکبر میں دوسرے کو بھی حقیر سمجھتا ہے۔

اور اس تکبر کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، مثلاً اس کی وجہ سے دوسروں سے بغض، تعصب اور ضد پیدا ہوتا ہے او راس کی وجہ سے دوسروں کی غیبت اور دل آزاری کی جاتی ہے او رمتکبر آدمی فخر وغرور کی بیماری میں مبتلا ہو کر، خواہشات نفسانی پر عمل کرتا ہے اور دوسروں پر ظلم کرنے لگ جاتا ہے او راس سے ایک خطرناک بیماری، حسد کی بیماری، پیدا ہو جاتی ہے، کیوں کہ متکبر جب اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور دوسروں سے اپنے آپ کو زیادہ مستحق سمجھتا ہے، پھر جب ایسی نعمت دیکھتا ہے جو اس کو ملی نہ ہو تو اپنے آپ کو اس نعمت کا زیادہ مستحق سمجھتا ہے اور یہ تمنا کرنے لگتا ہے کہ اس سے چھن جائے او رمجھے مل جائے اور یہ حسد بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے، مثلاً: اس کی وجہ سے دوسروں کی ساتھ بغض، کینہ، نفرت اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے اورحاسد آدمی کو جس سے حسد ہوتا ہے اس کو تکلیف اور نقصان پہنچانے میں لگا رہتا ہے کہ وہ نعمت کسی طریقے سے اس سے چھن جائے او رمجھے مل جائے اور اس حوالے سے پریشانی اور بے چینی میں مبتلا رہتا ہے۔

پھر کبھی یہ تکبر اور حسد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اس سے حق کو بھی ٹھکرا دیا جاتا ہے، جیسا کہ شیطان نے الله تعالیٰ کے اس حکم کو کہ: وہ آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرے“ تکبر اور حسد کی بنیاد پر ٹھکرایا اور کہا:﴿أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِینٍ﴾․(سورہ الاعراف:12) یعنی میں اس (آدم علیہ السلام) سے زیادہ بہتر ہوں کیوں کہ آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اور ذخیرہ احادیث میں اس بات پر صراحت موجود ہے کہ تکبر جیسے گناہ کی وجہ سے آدمی جنت سے محروم ہو جاتا ہے ، جیسا کہ اس بارے میں مروی ہے :

عن عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ، عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال: لا یدخل الجنة من کان فی قلبہ مثقال ذرة من کبر، وقال رجل: إن الرجل یحب أن یکون ثوبہ حسنا ونعلہ حسنة قال: إن الله جمیل یحب الجمال، الکبربطرالحق وغمط الناس․

ترجمہ:” حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جنت میں داخل نہیں ہو گا وہ شخص جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا، تو ایک شخص نے کہا کہ آدمی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں، تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر حق کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔

عن أبي ھریرة رضی الله عنہ أن رجلا أتی النبی صلی الله علیہ وسلم وکان رجلا جمیل فقال: یا رسول الله إنی رجل حبب إلی الجمال، وأعطیت منہ ماتری حتی ما أحب أن یفوقنی أحد إما قال: بشراک نعلی، وإما قال: بشسع نعلی، أفمن الکبر ذلک؟ قال:لا، ولکن الکبر من بطرالحق وغمط الناس․

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک حسین وجمیل آدمی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا او رکہا: یا رسول الله! میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میرے د ل میں حسن و جمال کی محبت ڈالی گئی ہے او رمجھے حسن وجمال میں وہ کچھ دیا گیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں، یہاں تک میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی اپنے جوتے کے تسمہ پر مجھ سے فوقیت حاصل کرے، تو کیا یہ تکبر میں سے ہے؟ تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تکبر یہ ہے کہ جو حق کو ٹھکرائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔

تکبر کا علاج تواضع سے
تکبر کی ضد تواضع ہے اور شریعت نے تکبر کا علاج تواضع سے سکھایا ہے۔ تواضع عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو کم تر سمجھنا، مثلاً یہ سمجھے کہ میری کوئی حیثیت نہیں، میری کوئی حقیقت نہیں، اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہوں تویہ الله تعالیٰ کی توفیق ہے او رالله تعالیٰ کا فضل وکرم ہے، میرا اس میں کوئی ذاتی کمال نہیں ہے۔

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾․ (سورة الذرایات:51)

ترجمہ:” میں نے جنات او رانسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔“

عبادت کا مطلب: بندگی کرنا، عاجزی کرنا، الله تعالیٰ کو مالک وخالق اور واجب الوجود ماننا، الله تعالیٰ کے اوامر ونواہی کو بجالانا۔ تو معلوم ہوا کہ جنات او رانسانوں کا اعلیٰ مقام عبدیت ہے اور یہی زندگی کا مقصد ہے اورتکبر جنات او رانسانوں کی تخلیق کے خلاف ہے۔

تواضع کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے آپ کو بظاہر کم تر کہتا ہو اورباطن میں آپ اپنے کو عظیم سمجھتا ہو، کیوں کہ یہ دھوکہ ہے، جو ناجائز ہے ، ہاں! اگر باطن میں بھی عجز کا اعتراف ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنے نیک اعمال کو بیکار سمجھے؛ کیوں کہ یہ ناشکری ہے ،جو ناجائز ہے۔

اور یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنے نیک اعمال کو سب کچھ سمجھے اور کافی سمجھے۔

غرض یہ ہے کہ ناشکر ی بھی نہ ہو او رتکبر بھی نہ ہو، صرف اور صرف تواضع ہو، جیسا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس ارشاد میں دونوں ( شکر اور تواضع) کو جمع کیا ہے :عن أبی سعید رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : أنا سید ولد آدم یوم القیامة، ولا فخر، وبیدی لواء الحمد ولا فخر، وما من نبی یومئذ آدم فمن سواہ إلا تحت لوائی، وأنا أول من تنشق عنہ الأرض ولا فخر․

یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم قیامت کے دن تمام لوگوں کے سردار ہوں گے اور اس کے باوجود فرماتے ہیں : ولا فخر یعنی اس پر فخر نہیں کرتا، تو ان سب نعمتوں کو الله کا فضل وکرم سمجھا او راپنا ذاتی کمال نہیں سمجھا اور ان کو تحدیث بالنعمةکے طور پر بیان کیا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تواضع احساس کم تری کو کہتے ہیں، حالاں کہ ان دونوں میں فرق ہے۔

تواضع اور احساس کم تری میں فرق
پہلا فرق یہ ہے کہ احساس کم تری میں تخلیق پر شکوہ ہوتا ہے او ریہ خیال کیا جاتا ہے کہ مجھے محروم رکھا گیا ہے او رمجھے پیچھے رکھا گیا ہے، مثلاً یہ احساس کہ مجھے بد صورت پیدا کیا گیا ہے، مجھے بیمار پیدا کیا گیا ہے، مجھے دولت کم دی گئی، میرا رتبہ کم رکھا گیا ہے، میں تو اس سے زیادہ کا مستحق تھا، لیکن مجھے کم ملا۔

اور جب اس قسم کے شکوے دل میں پیدا ہو جاتے ہیں تو اس سے مختلف قسم کی بیماریاں جنم پاتی ہیں، مثلاً بے چینی ، مایوسی، حسد او رمختلف قسم کی پریشانیاں۔

اور دوسرا فرق یہ ہے کہ تواضع شکر کا نتیجہ ہے، کیوں کہ انسان جب کسی نعمت کو الله تعالیٰ کا فضل واحسان سمجھتا ہے او راپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں سمجھتا ، تو یہی تواضع ہوتا ہے ،جو شکر کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔
جب کہ احساسِ کم ترمی ناشکری کا نتیجہ ہوتا ہے، کیوں کہ جب انسان حاصل شدہ نعمتوں کی ناقدری کرتا ہے او راپنے آپ کو ان سے زیادہ کا مستحق سمجھتا ہے، تو یہ الله کی تخلیق پر شکوہ ہوتا ہے ،جو ناشکری کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ الله تعالیٰ نے تکبر سے روکا ہے، جس کی وجہ سے آدمی ذلیل ورسواہو جاتا ہے اور تواضع اختیار کرنے کاحکم دیا ہے، جس کی وجہ سے آدمی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔

عن عیاض بن حمار رضی الله عنہ أنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: إن الله أوحی إلی أن: تواضعوا حتی لا یبغی أحد علی أحد، ولا یفخر أحد علی أحد․

حضرت عیاض بن حمار رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ الله تعالیٰ نے مجھ پر یہ وحی کی کہ تواضع اختیار کرو، یہاں تک کہ کوئی شخص دوسرے پر ظلم نہ کرے او رکوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے۔

عن أبی ھریرة رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ما نقصت صدقة من مال، ومازاد رجلا بعفوإلا عزا، وما تواضع أحد لله إلا رفعہ الله․

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ مال کو کم نہیں کرتا او رمعاف کرنا آدمی کی عزت ہی کو بڑھاتا ہے او رکوئی الله تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار نہیں کرتا، مگر یہ کہ الله تعالیٰ اس کو بلند مقام ومرتبہ عطا کر دیتا ہے۔

ہم سب کو تکبر سے بچنے کے لیے الله تعالیٰ کا یہ حکم ہر وقت یاد رکھنا چاہیے:﴿وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا،کُلُّ ذَٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہُ عِندَ رَبِّکَ مَکْرُوہًا﴾․ (سورہ الاسراء:38-37)

الله تعالیٰ ہم سب کو تکبر سے محفوظ فرمائیں او رتواضع نصیب فرمائیں، آمین!

تعمیر حیات سے متعلق