اِنتخاب حکم ران کے زریں اصول

idara letterhead universal2c

اِنتخاب حکم ران کے زریں اصول

مولانا زبیر احمد صدیقی

﴿وَرَاوَدَتْہُ الَّتِی ہُوَ فِی بَیْتِہَا عَن نَّفْسِہِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اللَّہِ إِنَّہُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّہُ لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ﴾․(یوسف:23)

ترجمہ:” اور جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے، اُس نے اُن کو ورغلانے کی کوشش کی اور سارے دروازوں کو بند کر دیا او رکہنے لگی: ”آبھی جاؤ!“ یوسف علیہ السلا م نے کہا:” الله کی پناہ! وہ میرا آقا ہے، اُس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جو لوگ ظلم کرتے ہیں، اُنہیں فلا ح حاصل نہیں ہوتی۔“

شیخ التفسیر، اِمام الاولیاء حضرت مولانا حمد علی لاہوری نے مذکورہ بالا آیت سے اِنتخاب وتقرر حکم ران کے لیے پہلی شرط کا استنباط کیا ہے۔ حضرت کی تقریر کا حاصل یہ ہے کہ اِنتخاب امیر کے لیے دو شرائط کا بنیادی طور پر یایا جانا ضروری ہے:
1.. امانت ودیانت۔
2.. فراست وتدبیر۔

الله تعالیٰ نے سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام کو نبوت، حکمت کے ساتھ اقتدار وحکومت کا منصب بھی عطا کرنا تھا، اس لیے پہلے مذکورہ بالا معیار پر پورے اُترنے یا نہ اُترنے کے لیے مراحل امتحان سے گزارا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام مذکورہ بالا مراحل سے نہ صرف کام یاب ہو کر گزرے، بلکہ آپ کی نمایاں دیانت وامانت، صلاحیت وتدبیر ، فراست وذکاوت ظاہر ہونے سے دنیا عش عش کر اُٹھی، تب حضرت یوسف علیہ السلام کو منصب اقتدار پر فائز کیا گیا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام جب منصب وزارت او رپھر منصب ِ امامت پر فائز ہوئے تو آپ کے عہد مبارک میں خلق ِ خدا کی خوش حالی، ملک کی ترقی، عوام کی بہبود اور انسانی عظمت کا ناقابل مثال مظاہرہ ہوا۔

ایک حکم ران کو منصب حکومت سونپنے سے پہلے مذکورہ بالا دونوں شرائط کی کسوٹی پر تولنا ضرور ی ہے۔ انتخاب امیر کا یہ قرآنی معیار حکومتوں کی کام یابی کی کلید وبنیاد ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو اس معیار کی کسوٹی پر کیسے تولا گیا؟ آئیے! اس کا مطالعہ کرتے ہیں:

امانت ودیانت

حکم رانوں کے لیے اہم ترین شرط ہے، اس کے بغیر کوئی بھی شخص ذمہ داری سونپے جانے کے قابل نہیں۔ بد دیانت اور خائن شخص ناقابل اعتبار ہوتا ہے۔ ایسا شخص وطن، ملک وملت سبھی کے لیے نہ صرف خطرناک ہوتا ہے، بلکہ ننگ ِ دین وملت بھی بن جاتا ہے۔ اہل عقل ودانش جانتے ہیں کہ خیانت کی اقسام میں سے سب سے بدتر خیانت ”کردار واخلاق“ کی خیانت ہوتی ہے، اسے آج کل کی اصطلاح میں ( Sexual Cruption) کہتے ہیں۔

سیدنا یوسف علیہ السلام کا زمانہٴ شباب میں کردار واخلاق کی دیانت وامانت کا امتحان ہوا۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ ایک نوجوان حسینہ وجمیلہ، گھرانے کی مدبرہ خاتون نے اپنے ہی گھرانے میں گھر کے سب دروازے بند کرکے سیدنا یوسف علیہ لاسلام کو دعوت گناہ دی۔ اس موقع پر گناہ کے تمام اسباب جمع تھے او رگناہ سے کسی قسم کی رکاوٹ نہ تھی ،لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے نہ صرف گناہ کی اس پیش کش کو ٹھکرا دیا، بلکہ گناہ سے دور بھاگتے ہوئے باہر کی جانب دوڑ پڑے۔ الله تعالیٰ نے ان کی دست گیری فرمائی اور کنڈیاں، تالے کھول دیے، لیکن دعوت ِ گناہ دینے والی خاتون نے اپنے شوہر کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام پر جھوٹا الزام لگا کر آپ علیہ السلام کی عصمت ، امانت ودیانت کو داغ دار کرنا چاہا، جس کا جواب حق تعالیٰ نے ایک بچے کی شہادت سے دلوایا۔ شیر خوار بچے کی شہادت بھی عقلی اصول پر مبنی تھی۔ تاہم معاشرہ میں بد نامی کے اندیشے کے پیش نظر سیدنا یوسف علیہ السلام کو پابند سلا سل کر دیا گیا۔ وہ برسہا برس تک جیل میں رہے او ررہائی سے انکار کرتے ہوئے اپنی صفائی کے بارے میں اعلانیہ وضاحت طلب فرمائی، جس پر حکومتی طور پر سیدنا یوسف علیہ لاسلام کی صفائی کا باقاعدہ اعلان ہوا، یوں حضرت یوسف علیہ السلام میں پہلی شرط خوب نمایاں ہو کر سامنے آئی۔

فراست وتدبیر

حکم رانی کے لیے دوسری شرط فراست ، ذکاوت او رحسن ِ تدبیر ہے۔ حکم ران اگر سمجھ دار نہ ہوں اور اُن میں انتظامی صلاحیتوں کا فقدان ہو، منصوبہ بندی اور حکمت عملی نہ پائی جاتی ہو تو نظام مملکت کبھی درست نہیں رہ سکتا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام میں بھی مذکورہ بالا اشیاء کا امتحان لے کر ان صلاحیتوں کونمایاں کیا گیا۔ امتحان کی صورت یہہوئی کہ بادشاہ نے خواب دیکھا اور گویا ہوا:

” میں ( خواب میں ) دیکھتا ہوں کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں، جنہیں سات دُبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں، نیز سات خوشے ہرے بھرے ہیں او رسات اور ہیں جو سوکھے ہوئے ہیں۔ اے درباریو! اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو تو میرے اس خواب کا مطلب بتاؤ“۔ (یوسف:43)

اس پر بادشاہ کے ایک ملازم نے حضرت یوسف علیہ السلام کی جانب راہ نمائی کی اور ان سے خواب کی تعبیر دریافت کرنے کا مشورہ دیا۔ بادشاہ کی اجازت سے مذکورہ شخص حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضرا ہوا اور خواب کی تعبیر دریافت کی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے نہ صرف خواب کی تعبیر بتائی، بلکہ تعبیر کے ساتھ تدبیر او رانتظامات کی بھی تعلیم دی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”شروع کے سات سال خوش حالی کے ہوں گے، خوب فصلیں اُگیں گی لہٰذا غلہ کی حفاظت کے لیے غلہ خوشوں میں ہی رہنے دو، تاکہ اسے نقصان نہ پہنچے۔ اور پھر سات سال قحط کے آئیں گے، جس میں پہلے سات سال کا غلہ استعمال ہوجائے گا۔“

بادشاہ تک خواب کی تعبیر پہنچی اور ساتھ ہی حضرت یوسف علیہ السلام کی حسن ِ تدبیر اور انتظامی مشورے پہنچے تو وہ متاثر ہوا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو رہائی دے کر وزارت خزانہ کا قلم دان ان کے سپرد کر دیا او رپھر حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے حاکم بن گئے اور مثالی حکومت فرمائی۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی یہ حکومت مذکورہ بالا دونوں خصوصیات کا ثمر تھی۔

تعمیر حیات سے متعلق