ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

idara letterhead universal2c

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

مولانا محمد سفیان قاسمی

دورِ قدیم کے صدر مقامات میں سلطان یا والی سلطنت کی طرف سے جو عہد ے دار مقرر ہوتے تھے ان میں ایک بڑا اہم عہدہ” صاحب الخبر“ کے نام سے معروف ہوا کرتا تھا۔ شعبہ کے مرکزی عہدے پر فائز کیے جانے والے شخص کی جہاں مختلف زاویوں سے جانچ کا عمل ہوتا تھا، اس میں سب سے اہم ترین پہلو کا تعلق معین شخص کی دیانت وامانت کے امتحان اور اس کے کردار وگفتار سے ہوتا تھا، جو اس کے چال چلن کے جائزے کی روشنی میں طے کیے جانے کے ساتھ ساتھ گرداگرد مختلف طبقات کی گواہیوں کا اس عہدے کی تقرری پر بڑا گہرا دخل واثر ہوا کرتا تھا اور مرکزی منصب سے لے کر نچلے درجے تک جانچ کے عمل کا پیمانہ ایک ہی ہوتا تھا۔ اس محکمہ کا فرض تھا کہ وہ والی سلطنت اور ارکانِ حکومت کو ہر دم پیش آنے والے واقعات اوراس کے اسباب واثرات کی صحیح صحیح اور بر وقت خبریں پہنچائے۔

اس زمانے میں مرکزی عہدے دار کی ہی نہیں، بلکہ پورے محکمہ کے لوگوں کی تنخواہیں عام سرکاری شرح وظائف سے خاصی زائد ہوتی تھیں، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ غضب کا توازن برقرار رکھا جاتا تھا۔ اس سلسلے کے قوانین نہ صرف نہایت سخت گیر تھے، بلکہ سریع النفاذ بھی تھے۔ اس سلسلے میں قانون کی سختی کا عالم یہ تھا کہ والی سلطنت کو پہنچائی جانے والی خبر اگر کسی بھی درجہ میں جھوٹی ثابت ہوئی یا غلط پائی گئی یا سازش والزام ثابت ہو گیا تو کم سے کم درجہ میں حبسِ دوام کی سزا یا پھر سیدھے سیدھے سزائے موت تھی، کیوں کہ محکمہ کی ہی فراہم کردہ خبروں پر حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کا انحصار ہوتا تھا، انہی خبروں پر سلطنت کے فیصلوں کا استوار واختلال منحصر ہوتا تھا، گویا کہ ایک غلط خبر کے نتیجے میں بسا اوقات بڑے بڑے طوفان برپا ہو جایا کرتے تھے۔ دوملکوں میں ہول ناک جنگیں برپا ہو جایاکرتی تھیں، ماضی سے حال تک مختلف تاریخی شہادتیں موجود ہیں۔ خوارزم شاہ کے دربار میں چنگیزی سفیر کے تعلق سے محض ایک شخص کے ذاتی جذبہ غضب وعناد کے زیر اثر جھوٹی اور بے بنیاد خبر کے نتیجہ میں بھرے دربار میں سفیر کو قتل کیے جانے کے سنگین ترین جرم کے سبب ایک ایسا ہلاکت خیز طوفان آیا الامان والحفیظ!!! اپنے دور کی دو عظیم سلطنتیں ایسی تاخت وتاراج ہوئیں کہ آنے والے ہر دور میں نشان عبرت کے طور پر یاد کی جانے لگی، لاکھوں بے گناہ انسان تہہ تیغ کر دیے گئے اور لاکھوں لاکھ خانماں بردار ہو گئے۔ صرف یہ ایک ہی مثال نہیں، بلکہ ہر دور میں مختلف علاقوں اور مختلف اقوام وملل کے تاریخی وقائع ان حقائق پر شاہد عدل اور تاریخ کے صفحات پر قوموں کی آبادی وبربادی اور عروج وزوال کی بے شمار دل خراش داستانیں رقم ہیں۔

بالفاظ مختصر… ذرائع ابلاغ کو حدود وقیود اور سخت قسم کے قانون کی جکڑ بندیوں اور ضابطہ اخلاق کے دوائر میں رکھنا بقائے امن کے لیے اتنا ہی ضروری ہے کہ جیسے کسی خوں خوار شیر کو پابہ زنجیر رکھنا۔ جب جب اس شعبہ کو آزاد چھوڑا گیا تب تب امن عامہ میں اختلال کی روز بروز نئی نئی صورتیں پیدا ہوتی گئیں، جس سے ثابت ہوا کہ ابلاغ میں دروغ گوئی کے سبب انسانیت کو اکثر اوقات انتہائی سنگین نتائج بھگتنے پڑ جاتے ہیں، جس کے نقصانات اور خوں آشام مضرتوں کا سلسلہ بسا اوقات نسلوں اور صدیوں پر محیط ہوتا ہے اور لمحوں کی خطا کی سزا صدیوں کو جھیلنی پڑتی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، حقیقت تک پہنچنے کے لیے تاریخ کا بغور مطالعہ او راپنے ہی ارد گرد ہر پل نت نئے پیش آنے والے واقعات کا بصیرت کے ساتھ مشاہدہ ہی کافی ہے۔ اقوام وملل کی تاریخ میں واقعات شاہد عدل ہیں۔ نیل کے ساحل سے لے کرتابہ خاک کاشغر ، لمحہ بہ لمحہ ” پیش آنے والے“ یا ” پیش کیے جانے والے“ واقعات اصول شرافت ودیانت سے عاری ابلاغ وصحافت کی دروغ گوئیوں کا ایسا گورکھ دھندہ ہیں اور منظر نامہ کچھ یوں ہے #
          ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

گزرے دور میں مشل مشہور تھی کہ کانوں سے سنے کا یقین نہ کرے، بلکہ آنکھوں دیکھے پر اعتماد کرے، لیکن عہد حاضر میں متنوع ذرائع ابلاغ کے ہلاکت خیز ارتقا اور اس کے دروغ باف استعمال نے اس مثل کو بھی فرسودہ کیا ہے، قطعاً ضروری نہیں کہ آج کے دور میں جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں یاد کھایا جارہا ہے وہ سب کچھ صحیح ہو، پیش نظر کی حقیقت کا بسا اوقات پس منظر کی نوعیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے، اسی دجل آمیر ہنر کو اصول صحافت کے سرنامے سے سجا کرر کھا گیا ہے۔

اس طویل ترین موضوع کے مختصر ترین اقتباساتی بالائی سطور کی روشنی میں دینی واسلامی نقطہٴ نظر سے جائزہ ہی دراصل مقصد تحریر کی کلید ہے۔ حیات بنی نوع انسانی کے اس بے انتہا اہم اور حساس موضوع پر دین اسلام میں بہت ہی روشن اور واضح تعلیم وہدایات موجود ہیں۔ اگر صحافت وابلاغ میں ان زرّیں اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیانت کے ساتھ اپنے فریضہ کو انجام دیا جائے تو آج کے اس دورِ انحطاط میں بھی دنیا کو امن وسکون کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے، اگرچہ یہ بات دیگر ہے کہ اخلاص ودیانت اور امن وایمان کے دشمنوں کے تمام تر کاروبار کی بنیاد ہی انتشار وافتراق پر رکھی ہے اورخالص مفاد پرستانہ ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے بظاہر اسباب حقیقت کی دنیا میں اس خواب کی تعبیر کے معرض شہود پر آجانے کی آرزو اگرچہ دیوانے کے خواب یا نقارخانے میں طوطی کی آواز کے ہی مترادف ہے، لیکن ” ایک پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے“ کم از کم دل کی خلش کو کسی درجے میں یک گونہ سکون توہو … کی سعی کا تو عنوان دیا جاسکتا ہے، کوئی بھی ہوش مند انسان اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ صحافت کسی قوم کی تعمیر وترقی، تخریب وتنزلی، بلندی فکر وشعور، پستی وبدامنی، ایک روشن وتاب ناک خواب کو شرمندہٴ تعبیر کرنے میں موثر کردار اور قوم کی اجتماعی محنتوں کے نتیجے میں روشن منصوبوں کو لمحوں میں تیرہ وتاریک کر دینا… غرضیکہ صحافت وابلاغ میں تعمیر وتخریب دونوں کی بھرپور صلاحیت اور اس کی اثر انگیزیوں کے رموز پوشیدہ ہیں اور آج کے گلوبلائزیشن کے دو رمیں اصول دیانت وامانت کے تمام مذہبی واخلاقی، معاشرتی وسماجی اصولوں سے آزاد خالص تاجرانہ بنیادوں پر، برسر عمل میڈیا سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کی ہاتھ کی کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے جب کہ اسلامی نقطہ نظر سے صحافت کا بنیادی نقطہ اور محور عمل امر بالمعروف اورنہی عن المنکر ہے، بالفاظ دیگر اچھائی کے فروغ او ربرائی کی روک تھام کے لیے قلمی ، فکری، علمی او رعملی صلاحیتوں کے ذریعہ مثبت سوچ کے فروغ کی اور ذرائع ابلاغ کے استعمال کی جدوجہد کرنا ہی صحافت کا بنیادی فریضہ ہے اور واقعتا یہ اس قدر عظیم الشان اور فیع المرتبت فریضہ ہے کہ قرآن کریم کی تصریحات وتشریحات کے مطابق فریضہٴ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی بجا آوری ہی تمام انبیاء ورسل علیہم الصلوٰة والسلام کی بعثت کے بنیادی مقاصد کے اہم ترین اجزائے ترکیبی کا جزو کلید ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صحافت کس قدر مقصدِ میدان عمل ہے او رچوں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہی اسلامی صحافت کا بنیادی مقصد ہے، اس لیے ایک داعی حق کی جو صفات قرآن وسنت سے معلوم ہوتی ہیں وہ تمام صفات ایک مسلم صحافی میں پائی جانی چاہییں۔

بنیادی طور پر یہاں ایک سوال کا پید اہوناایک فطری تقاضا ہے کہ صحافت کا بنیادی مقصد محض اچھائی کا فروغ اور برائی کی روک تھام نہیں ہے، بلکہ بر وقت صحیح معلومات فراہم کرنا او رتازہ ترین سچی خبریں مہیا کرنا صحافت کا بنیادی رکن ہے۔ یقینا اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ صحیح معلومات او رخبروں سے قارئین وناظرین کو آگاہ وباخبر کرنا ہی صحافت کا بنیادی مقصد وفریضہ ہے، لیکن بقول حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی رحمة الله علیہ کے ہر خبر اگرچہ لفظوں کے اعتبار سے خبر ہو، لیکن اس کا مقصد حقیقت میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی ترغیب ہوتا ہے۔ علی سبیل المثال اگر میڈیا آپ کو خبر دیتا ہے کہ آپ کے پڑوسی ملک نے فلاں فلاں اہم ترین ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں کام یابی حاصل کر لی ہے تویہ محض ایک خبر یا اطلاع نہیں، بلکہ بنیادی طور پر آپ کے لیے پیغام ہے کہ آپ بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس جیسی یا اس سے اعلیٰ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔ بصورت دیگر علاقائی طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور اسی فریضہ کی ادائیگی کا نام امر بالمعروف ہے کہ اس خطرے سے نبرد آزما ہونے لیے آپ کو مناسب انتظام کر لینا چاہیے۔ لہٰذا سچی خبریں بر وقت فراہم کرنے اورصحیح معلومات بہم پہنچانے سے بھی مآل کار امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان صحافی کو ان تمام اوصاف وکمالات کا نمونہ ہونا چاہیے کہ قرآن و سنت میں داعیٴ حق کے لیے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں بنیادی بات یہ ہے کہ داعی حق کو ناساز گار حالات سے دل گیر ومایوس ہو کر اپنا کام نہیں چھوڑنا چاہیے ،بلکہ حق بات کو کہنے او رپھیلانے کی کوشش انتہائی مایوس کن ماحول میں بھی جاری رکھنی چاہیے، کیوں کہ اچھائی کے فروغ کے لیے کی جانے والی جدوجہد رائیگاں نہیں جاتی ، جلد یا بہ دیر اس کا اثرہو کر رہتا ہے، بشرطیکہ اس عظیم ذمہ داری کی تمام نزاکتوں کا خیال رکھا جائے۔

عصر حاضر سے متعلق