علم دین سے بے رغبتی عصر حاضر کا المیہ

علم دین سے بے رغبتی عصر حاضر کا المیہ

مفتی احمد عبیدالله یاسر قاسمی

علم ،خواہ دینی ہو یا دنیوی، انسان کو عالی مرتبت بناتا ہے، علم کی اہمیت وحی الہٰی کے آغاز سے مسلم ہے،علیم و حکیم پروردگار نے انبیاء و رسل کو علم کی شمع جلانے،نور ہدایت کو عام کرنے اور جہالت کی ظلمت کو کافور کرنے کے لیے معلمین انسانیت بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا،علم کے بارے میں آپ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:”العلم نور والجھل ظلمة“ ․علم ایک نور اور جہالت ایک تاریکی ہے،علم وہ شے ہے جسے نہ چرایا جاسکتا ہے،نہ چھینا جا سکتا ہے اور نہ ہی آگ علم کو جلا سکتی ہے،نہ دریا ڈبو سکتا ہے، نہ سمندر غرق کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے کیڑے کھا سکتے ہیں، علم ہی کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے” العلم باق لا یزال“ (علم باقی رہنے والا جوہر ہے، جو کبھی فنا اور ختم نہیں ہوگا)کیوں کہ یہ انبیاء کی میراث ہے اور نبیوں کی دین ہے۔ ارشاد گرامی ہے:”إنَّ العلماء َ ورثةُ الأنبیاء ِ، وإنَّ الأنبیاء َ لم یُوَرِّثوا دینارًا، ولا درہمًا، إنما وَرّثوا العلمَ، فمن أخذہ أخذ بحظٍّ وافرٍ“․ (رواہ أبو داود 3641، والترمذی (2682

علم دین کی اہمیت و فضیلت مسلم ہے، قرآن و حدیث کے صفحات علم دین کی فضیلت سے بھرے پڑے ہیں، علم جہاں نعمت خداوندی ہے وہیں رحمت ربانی بھی ہے، جہاں ذریعہ برکت ہے تو وہیں باعث نجات اور وجہِ سربلندی ہے، اصل علم تو علمِ دین ہے،یہی علم دین انسان کو گم راہی سے ہدایت تک پہنچاتا ہے، تاریکی کے قعر مذلت سے نکال کر نور ہدایت سے روشناس کرتا ہے،اسی علم دین سے وابستگی نے قومِ مسلم کو ہرمحاذ پر کام یاب کیا،اسی علم دین سے جُڑے رہنے کی بنیاد پر اسلامی شوکت کا علَم بنجر وادیوں کی سربلند چوٹیوں پر لہرایا،اسی علم دین سے رشتہ و تعلق نے مسلم اُمہ کو عظیم مناصب اور کام یابی کی بلند منازل پر فائز کیا،اسی علم دین سے وابستگی کی بنیاد پر کبھی ساری دنیا میں تہذیبِ اسلامی کا سویرا تھا،مغرب کی گم راہ کن تہذیب وادیِ ضلالت میں غرقاب تھی۔

معاشرے کی الم ناک صورت حال
ان سب فضائل کے باوجود بھی آج معاشرہ علم دین سے کوسوں دور ہوتا جارہا ہے اور دن بہ دن دینی علوم سے دوری میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے کہ ایک بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود صحیح کلمہ پڑھنا نہیں جانتا ، طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتا ہے، قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں پڑھ پاتا، اسلام کے بنیادی عقائد اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتا، کیا شہر، کیا گاؤں اور دیہات ،ہر جگہ بقدر ضرورت دینی تعلیم کا فقدان ہے اور افسوس صد افسوس یہ ہے کہ مسلم معاشرہ دینی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت ہی کو سرے نظر انداز کررہا ہے اور سارا زور صرف اور صرف عصری علوم کو حاصل کرنے پر لگا رہا ہے،اعلی نوکری اور عمدہ جاب کے چکر میں دین و شریعت کی پاس داری کا لحاظ بھلا بیٹھا ہے، دنیوی تعلیم کا حصول شریعت میں منع نہیں ہے، لیکن شریعت کو پس پشت ڈال دینا اور دینی تعلیم سے یکسر غافل ہوکر زندگی گذارنا دنیا میں بھی نقصان دہ اور آخرت میں بھی موجب عقاب ہے،حالاں کہ دین کا اتنا علم سیکھنا کہ جس کے ذریعہ انسان شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے، ہر کلمہ گو پر فرض ہے، خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے، معاملات سے ہو یا معاشرت سے، چناں چہ ارشاد نبوی ہے:”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“․(رواہ ابن ماجہ)

علم دین سے بے زاری اور اس کے نقصانات
یہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان کو احکام خداوندی اور تعلیماتِ نبوی کا علم نہیں ہوگا اس وقت تک یقینا ان پر عمل پیرا ہونا بھی ناممکن اور مشکل ہوگا اور جب دین سے ناواقفیت کی وبا عام ہوگی تو امت طرح طرح کی پریشانیوں اور دشواریوں کا شکار ہو جائے گی،

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے نبی کریم علیہ السلام کا یہ فرمان مروی ہے کہ اللہ رب العزت علم دین کو اچانک (بندوں کے سینوں سے) نہیں ختم کرے گا، لیکن وہ علمائے کرام کو وفات دے کر علم دین کو ختم فرمائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم ( دین کا ضروری علم رکھنے والا) باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا راہ نما اور راہ بر بنالیں گے اور ان ہی سے مسائل پوچھیں گے ، وہ لوگوں کو بغیر جان کاری کے فتوی دیں گے اور مسائل بتائیں گے، جس کی وجہ سے خود بھی گم راہ ہوں گے اور عوام کو بھی گم راہ کریں گے۔(متفق علیہ)

ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس جامع فرمان پر غورکیجیے!! اور دیکھیے کہ علم دین کے سلسلے میں معاشرہ کی کیا صورت حال ہے؟در حقیقت حدیث شریف میں جو صورت حال بتائی گئی ہے اس وقت من وعن اسی صورت حال سے ہمارا معاشرہ گذر رہا ہے، علوم دینیہ سے بے رغبتی عام ہوگئی ہے، لوگوں کو دین اور علم دین سے کوئی رغبت نہیں رہی اور عام لوگ جاہلوں کو ہی اپنا سردار اورراہ نما بناچکے ہیں،ان ہی سے مشورے کرتے ہیں، حد تو یہ ہوگئی کہ اب ان ہی سے مسائل بھی پوچھ رہے ہیں، بے دینی کے عام ہونے اور علم دین سے بے رغبتی اور علمائے دین کی تحقیر کی بنا پر آج عوام خود بھی گم راہی کے شکار ہیں اور اوروں کو بھی اس گم راہی میں گھسیٹ رہے ہیں، جس کے نتیجہ میں آج مسلمان عقائد و احکام میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں،عبادات و معاملات کی ادائیگی سے غافل ہیں،معاشرت و معیشت کے اسلامی اصول سے بالکلیہ ناواقف ہیں،حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد… دونوں کی ادائیگی پر کوئی توجہ باقی نہیں ہے، ذہنوں میں صبح وشام،رات ودن حرام اور حلال کی تمیز کے بغیر صرف دولت جمع کرنے کی فکر سوار ہے (الا ماشاء اللہ)۔

علم دین سے دوری امت مسلمہ کے زوال کا سبب
مسلم اُمہ کے زوال کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قوم مسلم کی تباہی میں جہاں اغیار کی سازشیں رہیں وہیں ہماری کوتاہیوں کا بھی عمل دخل رہا، ہمارا زوال ہماری غفلت کا ہی نتیجہ ہے، ہم اس وقت مٹائے گئے جب ہم نے اپنے دین سے رشتہ کمزور کرلیا،ہم اس وقت فنا کیے گئے جب ہم نے اپنی ہی شناخت مٹا دی، اپنا چہرہ، اپنا وقار، اپنا لباس، اپنی تہذیب و تمدن سے بغاوت نے ہمیں ذلت کی پستی میں ڈال دیا،جب تک علم دین سے وابستگی رہی؛مسلمانوں نے علم و فضل کی بلند چوٹیوں پر کام یابیوں کے علم لہرائے۔

یاد رکھیں!
دنیوی علم مادی دنیا تک ہی وفا کرتا ہے، دنیوی علم سے احکام خداوندی اور تعلیماتِ نبوی کا علم ہونا تو کیا کبھی کبھی انسان اس کا منکر بھی ہوجاتا ہے،توحید، رسالت اور آخرت یہ تین بنیادی عقائد علم دین سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں، علم دین ہی سے حلال و حرام کی تمیز ہوسکتی ہے، مقصد تخلیق کی ادائیگی کا راز علم دین کے حصول میں ہی پنہاں ہے، یہی وہ علم ہے جسے رب رحمان نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کو اقرأ کے ذریعے سکھلایا ہے ،لہٰذا ضرورت ہے کہ ہم علم دین سے روگردانی کے بجائے اس کی اہمیت،ضرورت اور افادیت کو تسلیم کریں، نہ صرف تسلیم کریں، بلکہ اس سے منقطع رشتہ استوار کریں، علم دین کے حصول میں اپنے آپ کو اپنی اولاد کو، اپنے خاندان کو تیار کریں۔ اگر ہم آج اس سے روگردانی کریں گے تو شاید آنے والی نسلوں کا دین اسلام اور شریعت محمدی پر باقی رہنا مشکل ہوجائے گا، مغربیت کے اس طوفان بلاخیز میں ایمان کا باقی رہنا کافی مشکل ہے، لہٰذا بقدر ضرورت دنیوی تعلیم کے حصول کے ساتھ دینی تعلیم کو ہر شخص اپنی ضرورت سمجھ کر حاصل کرے اور دنیوی و اخروی فلاح حاصل کرنے کی سعی کرے۔

دعا ہے کہ اللہ پاک علم دین کی صحیح قدردانی کی توفیق عطا فرمائے اور مادیت کے اس خطرناک دور میں علم دین کی شمع کو ہر تاریک گھر میں پہنچائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین!