سوشل میڈیا کا نہیں، کتابوں کا مطالعہ کریں!

سوشل میڈیا کا نہیں، کتابوں کا مطالعہ کریں!

محترم عابد محمود عزام

دولت سے محبت تو انسان کو ہر دور میں رہی ہے، لیکن موجود ہ حالات میں یہ محبت اپنی انتہاؤں تک پہنچی ہوئی ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے او رجمع کرنے میں مصروف ہیں۔ کتابوں کا مطالعہ کرنا ان کے لیے وقت کے ضیاع سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے او رجمع کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ کسی قسم کی بدعنوانی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں کتابوں کے مطالعے کی بات کی جائے تو سوال کیا جاتا ہے کہ کتابوں کے مطالعہ سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور کتابوں کا مطالعہ کیوں کیا جائے؟ حیرت ہوتی ہے کہ آج کا انسان صرف پیسوں کو دولت سمجھتا ہے۔ سکون، علم او رمہارت کو دولت نہیں سمجھتا، حالاں کہ صرف پیسے ہی دولت نہیں، دولت کی بہت سی اقسام ہیں، جن میں سے علم بہت بڑی دولت ہے اور یہ دولت کتابوں کے مطالعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے ان گنت فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ کتابوں کے مطالعہ سے چھپی ہوئی صلاحیتیں بے دار ہوتی ہیں او رانسان اپنا کیریئر بہتر بنا سکتا ہے۔ کسی شعبے میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے اس شعبے سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کرنا بے حد مفید اور مدد گار ثابت ہوتا ہے اورنئے نئے آئیڈیاز ملتے ہیں۔

اچھی کتابیں انسان کی زندگی کا بہترین سرمایہ ہوتی ہیں۔ کتابیں انسان کو کام یاب شخصیت بننے میں مدد دیتی ہیں۔ زندگی کو بدلنے او را س کی تعمیر وتشکیل میں اہم کر دار ادا کرتی ہیں۔ کتابوں کے بغیر زندگی میں تبدیلی اوررنگینی کا عنصر پیدا کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان کو علم وآگہی ملتی ہے اور وہ خود کو ذہنی طور پر مکمل پُر سکون محسو س کرتا ہے۔ صرف آگہی ہی نہیں، بلکہ اچھی کتب شعور بھی پیدا کرتی ہیں۔

اچھی کتاب انسان کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انسان کی اخلاقیات کو سنوارتی ہے۔ عادات واطوار میں نکھار پیدا کرتی ہے اور اچھے اوصاف پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے، مطالعہ ذہنی او راخلاقی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے، ہم جو کچھ پڑھتے رہتے ہیں ، وہ ہمارے عمل کی صورت میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔ صاحب مطالعہ شخصیت کی فکر ونظر اور اس کی سوچ کا زاویہ بھی وسیع ہوتا جاتا ہے، اس کا انداز ایک عام آدمی سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔

کتاب ایک ایسا دوست ہے جو خوش آمدانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ برائی کے راستے پر ڈالتا ہے اور اکتاہٹ میں مبتلا بھی نہیں ہونے دیتا۔ کتب بینی سے معلومات اور ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے، یادداشت میں وسعت اور معاملہ فہمی میں تیزی آتی ہے۔ کتابوں کا مطالعہ جتنا زیادہ کیا جائے، علم اس قدر زیادہ اور پختہ ہو گا۔ کتابیں پڑھنے سے دوسروں کی نفسیات کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے او راپنے مخاطب کے احساسات اور جذبات کا اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے، انسان میں تحقیقی اور تجزیاتی سوچ پروان چڑھتی ہے اور انسان دینی ، قومی اور بین الاقوامی امور پر ایک واضح سوچ رکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ایک کثیرالمطالعہ شخص کو کسی جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے متاثرنہیں کیا جاسکتا ہے، ایسا شخص کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ کتابوں کا مطالعہ سوچ بچار اور قوت ارتکاز کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ مطالعہ کے دوران انسان علماء اور حکماء سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اس سے عالی دماغ دانش وروں، مفکروں اور مایہ ناز شخصیات کی طرح صاحب علم اور کام یاب انسان بننے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ انسان کو تنگ نظری اور تعصب کے بھنور سے نکال کر وسعت قلبی عطا کرتا ہے۔ کتب بینی کے نتیجے میں انسان اپنا مقصد حیات متعین کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔

موجودہ دور میں جوں جوں ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، نوجوان کتاب سے دو رہوتے جارہے ہیں، ان کی کتب بینی صرف نصاب کی کتابوں تک رہ گئی ہے۔ کتابوں کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔ کتب بینی صرف لائبریریوں یا چند اہل ذوق افراد تک محددو ہو گئی ہے۔ اپنے پیسوں سے کتابیں خرید کر پڑھنا تو دور کی بات ہے ، لوگ مفت کی لائبریریوں میں جانے اورکتابیں پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اول تو ملک بھر میں لائبریریاں ہیں ہی بہت کم او رجو ہیں ان میں بھی چند لوگ ہی جاتے ہیں۔معاشرے میں ہر فورم پر تبدیلی کی بات کی جاتی ہے او رمعاشرے کو بدلنے کی بات کی جاتی ہے، لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ تبدیلی آئے گی کیسے؟ جب ملک کی اکثریت ہی شعور سے عاری ہوگی۔ نوجوان کتاب سے دور بھاگتے ہوں گے۔ شعور تو علم کا محتاجہوتا او رعلم کتاب میں پنہا ہے۔ علم کی روشنی کو جب تک سماج میں پھیلایا ہی نہیں جائے گا، جہالت کے اندھیرے کبھی ختم نہیں ہوسکتے او رنہ کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔ بہت سے نوجوان کہتے ہیں کہ وقت کی کمی کے باعث ہم مطالعہ نہیں کر پاتے، تعلیمی مصروفیات بہت زیادہ ہوتی ہیں اور کئی لوگ کاروبار او رنوکری کی مصروفیات کا بہانہ بناتے ہیں۔ حیرت ہے گھنٹوں انٹرنیٹ، موبائل فون اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر تو برباد کرتے ہوئے وقت کی کمی کا رونا نہیں روتے، لیکن مطالعہ کرنے کی باری آتی ہے تو کئی طرح کے بہانے بنانے لگتے ہیں۔ بہت سی معلومات ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی علم کا خزانہ ہے۔

یہاں بھی بہت سی تحاریر پڑھنے کو مل جاتی ہیں، جن کا مطالعہ کتاب کا مطالعہ کرنے کے مترادف ہی تو ہے۔ یہ بجا کہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ معلومات ہیں، لیکن ا ن کے سچ پر یقین نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر معلومات کا ایک سیل رواں ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا معلومات کی ترسیل کے اہم ذرائع ہیں، لیکن معلومات کے اس امڈتے سیلاب سے ہر بات پڑھنے کی نہیں، اس میں سے ہمیں کیا اورکتنا پڑھنا ہے او رکون سے مطالعے سے اجتناب کی ضرورت ہے۔ اس پر سوچ بچار کرنا بھی ضرور ی ہے۔

سوشل میڈیا پر لکھنے والوں میں بیشتر اوسط علم وذہانت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو محض پروپیگنڈے کے لیے لکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موضوعات اکثر ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں او رہم اپنے انتخاب کا اختیار کسی حد تک دوسروں کو دے دیتے ہیں۔ یہاں موضوعات میں تنوع بہت کم ہوتا ہے او راکثر تحریریں محض بہاؤ میں بہنے والے مضامین ہوتی ہیں۔ ان مضامین کے پیچھے اکثر سطحی ذہنیت کار فرما ہوتی ہے او رہمیں عموماً ایسی تحاریرپڑھنے کو نہیں ملتیں جن میں واقعتا گہرائی اور گیرائی کا عنصر موجو دہو۔ سوشل میڈیا کی تحریر عموماً یک تہی او راکثر ناقص الخیال ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اگرچہ بہت سے صاحب علم لوگ موجود ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہاں مذہبی اور سیاسی اختلاف پرمشتمل تحریروں کی بہتات ہے، جن سے معاشرہ میں محبت کے بجائے نفرتیں پھیل رہی ہیں اور تعمیر کے بجائے تخریب کا عمل جاری ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ سوشل میڈیا پر محض مجہول اور اختلافات اور نفرتوں سے لبریز تحریریں پڑھنا کتابوں کے مطالعے کے متبادل ہے تو ایسے انسان کو اپنی رائے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ باقاعدہ کتابیں باقاعدہ مصنفین کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر اوسط علم وذہانت سے زیادہ ذہین وفطین ہوتے ہیں۔ کتاب کسی موضوع پر مکمل تحقیق کرکے، بھرپور غور وفکر کے ساتھ لکھی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کی بہ نسبت، کتابوں میں اثر پذیری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کتاب اپنے موضوعات کا احاطہ بڑی جامعیت کے ساتھ کرتی ہے، لیکن سوشل میڈیا پر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔