مہنگائی وبدامنی کے اسباب اور ہماری ذمہ داری

مہنگائی وبدامنی کے اسباب اور ہماری ذمہ داری

مولانا محمد اعجاز مصطفی

بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ
قیام پاکستان سے اب تک اس ملک کی تاریخ میں کئی موڑآئے، لیکن اب معاشی تنگی کا ایک ایسا موڑ آیا جو بظاہر یوں لگتا ہے کہ جلدی جانے کا نام نہیں لے رہا۔ ہر دور میں یہ بات سننے میں آتی رہی ہے کہ پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ خدا جانے یہ موڑ کب کٹے گا اور یہ ملک اپنے قیام کے مقصد ومنزل کی جانب کب گام زن ہو سکے گا؟! آج کل وطن عزیز جن معاشی ومعاشرتی مسائل کا شکارہے او رمہنگائی ودہشت گردی کے عفریت نے جس طرح اسے گھیر رکھا ہے، اس طرح کی معاشی تنگی پچھلے ادوار میں بہت کم دیکھنے اور سننے میں آئی ہے۔ بہرحال! پیچیدہ مسائل ہر دور میں پیدا ہوتے آئے ہیں اور کسی نہ کسی درجے میں ان کا حل بھی پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس وقت بھی بدامنی اور دہشت گردی نے عوام کا جینا محال او رمہنگائی کے طوفان نے سکون کا سانس لینامشکل کر رکھا ہے، لیکن راقم الحروف یہ سمجھتا ہے کہ ان سب کا حل وہی ہے جو ساڑھے چودہ سو سال پہلے شفیق الامة، خاتم الانبیاء، حضرت محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں پیش فرمایا ہے۔

اگر ہم مہنگائی او رمعاشی مشکلات ومسائل کی بات کریں، ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہونے لگے، کاروبار سے برکت ختم ہو جائے تو اس کا ایک بہت بڑا سبب خود ہمارے اعمال بھی ہیں۔ شہر کراچی میں عرصہ دراز سے یہ فضا عام ہے کہ کاروبار اور دکانیں دوپہر سے قبل شروع کرنا او ررات گئے تک اس میں مشغول رہنا، یہ عام سی بات بن گئی ہے۔ حالاں کہ حدیث نبوی میں ہے:”اللّٰھم بارک لامتی فی بکورھا“ (اے الله! میری امت کے لیے اس کے اول وقت ( صبح میں برکت عطا فرما)۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی، مسند احمد) اب خود سوچنا چاہیے کہ جب برکت رکھی ہی صبح کے اوقات میں گئی ہے اور وہ وقت ہم آرام کرنے او رنیند پوری کرنے میں گزار دیں، ناشتہ، دکان کی تیاری او ربارہ ایک بجے بمشکل کاروبار شروع کریں گے تو برکت کہاں سے آئے گی؟ برکت تو ہم نے اپنے کردار سے خود کھودی، اب وہ کہاں سے آئے گی؟ ہمارا یہ عمومی رویہ معیشت کے زوال کا سبب نہیں بنے گا تو او رکیا بنے گا؟

گزشتہ دنوں حکومت پاکستان نے بھی کاروبار صبح جلد شروع کرنے اور رات کوجلدبند کرنے کے احکامات دیے تو پورے ملک کی طرح کراچی کے تاجروں اورسیاسی جماعتوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا۔ یقینا کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں سے ہے او ربلاشبہ اس شہر کو غریبوں کی ماں کہلانے کا پورا حق حاصل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رات گئے تک دکانیں کھول کر رکھیں اورصبح دیر سے بیدار ہوں۔ یہ چیز تو نظام قدرت اور فطرت کائنات کے بھی خلاف ہے۔ کیوں کہ ارشاد الہٰی ہے:﴿وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ لِبَاسًا، وَجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا﴾(او ربنایا ہم نے رات کو اوڑھنا اوربنایا ہم نے دن کمائی کرنے کو ) (النباء:11-10) جب اصولی طور پر رات آرام کرنے اور دن کمائی کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں او رہم اس قانونِ فطرت کی خلاف ورزی کریں گے تو بھلا کس طرح اپنے کاروبار ومعیشت کی ترقی ممکن بناپائیں گے؟

دوسری جانب کراچی سے خیبر تک دہشت گردی وبدامنی کا عفریت پھیلا ہوا ہے۔شمالی علاقہ جات میں آئے دن دہشت گردوں کی کارروائیاں جاری ہیں تو شہرکراچی میں عوام اپنے گھر کی دہلیز پر لٹ جاتے ہیں یا جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کتنے نوجوانوں کی قیمتی جانیں حالیہ واقعات میں چلی گئیں او رکتنے ایسے ہیں، جنہیں اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ خصوصاًمتوسط طبقہ جو چند ہزاروں روپوں کی تنخواہ پر پورا مہینا گھر کا خرچ چلانے کی منصوبہ بندی کرتا ہے، جب یک لخت اسے اس سے محروم کر دیا جائے تو بتلائیے کہ اس کے دل سے کتنی آہیں اور بد دعائیں اس معاشرے، سماج اور نظام ِ مملکت چلانے والوں کوملتی ہوں گی۔ اسی طرح بالائی طبقہ اور اہل ثروت جب اپنی آمدنی میں غربا، مساکین، یتامیٰ اورمحتاجوں کی ضروریات کا خیال نہیں رکھے گا، الٹا الله تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناقدری او رپامالی کرے گا تو الله تعالیٰ کی طرف سے کفر ان نعمت کی سزا نہیں ملے گی تو اور کیا ہو گا؟ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : ترجمہ:”اور الله تعالیٰ ایک ایسی بستی والوں کی حالت عجیبہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ امن واطمینان میں تھے، ان کے کھانے پینے کی چیزیں بڑی فراغت سے ہر چہار طرف سے ان کے پاس پہنچا کرتی تھیں، سو انہوں نے خدا کی نعمتوں کی بے قدری کی، اس پر الله تعالیٰ نے ان کو ان حرکات کے سبب ایک محیط قحط اور خوف کا مزہ چکھایا۔“ (النمل:112)

خدا کی نعمتوں کی ناقدری وناشکری قحط وخوف کا بڑا سبب ہے۔ کہیں ہم ان شامت ِ اعمال میں مبتلا تو نہیں ہو گئے؟ اس پر غور وفکر کر لینا چاہیے۔ عوام الناس کے ساتھ ساتھ حکم رانوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ مثلاً بیرونی قرضوں کی لعنت سے چھٹکارا پا کرخود انحصاری کا ماحول پیدا کریں، اپنے زرعی زرخیز ملک کی سر زمین سے اُگنے والی معدنیات پر قناعت کریں، غیر ضروری اخراجات سے بچیں، اپنے پروٹوکول اور سیکورٹی کے اخراجات کو کم کرنا، حکومتی کابینہ کے افراد کی تعداد او ران کی مراعات کو محدود کریں، غرض یہ کہ عوام کو پابند کرنے کے ساتھ ساتھ حکم ران بھی ان کے لیے نمونہ عمل بنیں گے، تب ہی ان مشکلات سے نکلناآسان ہو گا۔ الله تعالیٰ کی طرف رجوع، دعاؤں کا اہتمام، فرائض کی پابندی او راقتصاد ومعیشت کے معاملات میں میانہ روی اختیار کرنے کے علاوہ عوام کو نیک حکم ران منتخب کرنے اور اس کی جدوجہد میں بھی مقدور بھر حصہ شامل کرنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ ہماری حالت علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق بن جائے #
          تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
          ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

بہرحال جہاں ہم خود نیک عمل کریں اور برائیوں سے بچیں، وہاں ہم دوسروں کو بھی اچھی باتوں کا حکم او ربری باتوں سے منع کریں، ورنہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوں گی ، جیسا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ مومن مسلمانوں کی جماعت کے لیے دعا کرے گا مگر اس کی دعا قبول نہیں کی جائے گی۔ الله تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ تم اپنی ذات کے لیے او راپنی پیش آمدہ ضروریات کے لیے دعا کر و تو میں تیری دعا قبول کروں گا، لیکن عام لوگوں کے حق میں نہیں، اس لیے کہ انہوں نے مجھے ناراض کر رکھا ہے او رایک روایت میں ہے کہ میں ان پر غضب ناک ہوں گا۔“(کتاب الرقاق، بحوالہ عصر حاضر حدیث نبوی کے آئینہ میں)

پس ہمیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری دعائیں قبول نہ ہونے کی وجہ ہمارے وہ کون سے اعمال ہیں جن کے سبب ہمارا رب ہم سے ناراض ہے۔ ا لله تعالیٰ ہمیں ان اعمال سے بچنے کی او راپنے رب کو راضی کرنے والے اعمال کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین!
وصلی الله تعالیٰ علٰی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ ا جمعین․