دور جدید کے فتنے او ران سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

دور جدید کے فتنے او ران سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

محترم منفعت احمد

ہر ذی شعور مؤمن مسلمان پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عصر حاضر میں جان لیوافتنوں سے زیادہ ایمان لیوا فتنوں کی بھر مار ہے، ایک راسخ العقیدہ اور پختہ ایمان والے کے لیے جان کا نقصان کوئی اتنا بڑا خسارہ نہیں، لیکن ایمان کا نقصان عظیم خسارہ ہے، فتنے تو خلافت راشدہ کے ختم ہوتے ہی رونما ہونا شروع ہوئے تھے، تاہم سترہویں صدی کے بعد پوری دنیا پر مغرب، مغربی تہذیب او رمغربی افکار کے غلبے کے نتیجے میں اب امت مسلمہ کی جو حالت ہم دیکھ رہے ہیں کہ آئے روز کسی نئے رنگ وروپ میں ایسے فتنے رونما ہو رہے ہیں جو مسلمانوں کے لیے ایمان لیوا اور گم راہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔

ان میں سے بعض فتنے وہ ہیں جن کا تعلق اعمال سے ہے اور مسلمان آئے روز ان کے شکار ہوتے جارہے ہیں، جیسے چغل خوری، بددیانتی، شراب نوشی، زنا کاری، بے حیائی، فحاشی، بدنظری، جھوٹی گواہی، بے پردگی، کذب بیانی، خود نمائی، سود خوری، قتل وغارت گری، جوا، ریا کاری، حب مال، حب جاہ، رشوت، ظلم وغیرہ…، یہ سب وہ کبیرہ گناہ ہیں جن کی رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ان کے واقع ہونے کی پیشن گوئی فرمائی تھی، جو آج پوری ہوتی نظر آرہی ہے او ربعض فتنے وہ ہیں جن کا تعلق علم سے ہے، جو عقلیت پرستی کی بنیاد پر رونما ہوتے ہیں، تاریخ اسلام کے اوراق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتنے رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں اپنے پَر پھیلانے لگے، جس کی تفصیلات یہاں بیان کرنا ضروری نہیں، تاہم سترہویں صدی کے بعد وہی عقلیت پرستی کی کوکھ سے جنم لینے والے فتنے اب نئی شکل وصورت میں امت مسلمہ کے نوجوانوں کو گم راہی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں اور شعوری لا شعوری طور پر مسلمان اس کا شکار ہو رہے ہیں اور مؤمنین کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک جسارت کی جارہی ہیں، چوں کہ عقلیت پسندی کی بنیاد پر رونما ہونے والے فتنوں کا اثر انسان کے عقیدہ وایمان پر ہوتا ہے، جس کے سبب انسان اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ (ایمان) سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اس لیے ایک مؤمن مسلمان کے لیے اپنے عصر کے فتنوں سے آگاہی اور واقفیت از حد ضروری ہے، تاکہ ایمان صحیح اور سالم رہے۔

ہمارے مشفق ومہربان پیغمبر، رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم نے بہت پہلے اپنی امت کو ہر طرح کے فتنوں سے باخبر کرکے ان سے بچاؤ او راپنے ایمان کی حفاظت کے لیے راہ عمل بھی بتا دیا ہے، آج امت مسلمہ ہر طرف سے ہر طرح کے فتنوں میں گھر ی ہوئی ہے، اگر ایک طرف جان لیوا فتنوں کی یلغار ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی اولاد بے دینی والحاد، گم راہی وبے راہ روی، لادینیت اور بے دینی کی دہلیز سے قریب تر ہوتی جارہی ہے، مسلمان بچے بچیاں نت نئے فتنوں میں مبتلا ہو کر اپنا مستقبل تاریک کر رہے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی پیشن گوئی کہ ”آدمی صبح حالت ایمان پر کرے گا اور شام ہوتے ہوتے کافر ہو جائے گا اور شام حالت ایمان پر کرے گا اور صبح ہوتے ہوتے کافر ہو جائے گا“ حرف بہ حرف صادق آرہی ہے، ایسے فتنوں کے دور میں ایمان پر جمے رہنا بھی رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی اس حدیث کا مصداق ہے کہ ”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں اپنے دین پر جمنے والا گویا اپنے ہاتھ میں انگارہ پکڑنے والا ہو گا اور ایسے زمانے میں ایمان پر جمے رہ کر الله رب العزت کی عبادت کرنے کو رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم نے اپنی طرف ہجرت کرنا قرار دیا ہے“ الغرض ایسے زمانے اور ایسے دور میں ایک مؤمن مسلمان کے لیے ایسا کون سا لائحہ عمل اور تدبیر اپنانی چاہیے، جس سے وہ ان فتنوں کے زمانے میں اپنے ایمان کی نگہ داشت، حفاظت اور دین حق پر ثابت قدم رہے، عصر حاضر کے فتنوں سے بچنے او راپنے ایمان کی حفاظت اور دین حق پر ثابت قدم رہنے کے لیے چند باتیں اور تدبیریں پیش خدمت ہیں، جن کو اپنا کر ہم اپنے ایمان کو صحیح سلامت رکھ سکتے ہیں۔

∗…روز وشب الله رب العزت کی یاد میں بسر کی جائے، اگر الله کی یاد (ذکر الله) سے اعراض ہو گا تو حالات بد سے بد تر ہوتے جائیں گے۔
∗…قرآن مجید سے اپنا تعلق ایسا استوار کیا جائے کہ قرآن ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن جائے، قرآن کی تلاوت، علمائے ربانیین ومستند مفسرین کی تفسیر وترجمہ پڑھ کر اس کے احکامات کو اپنی زندگی میں لائیں تو تمام فتنوں سے حفاظت آسان ہو جائے گی۔
∗… عصر حاضر کے فتنوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں، کیوں کہ جو شخص جتنا فتنوں سے اپنے آپ کو دور رکھے گا، وہ فتنوں سے اتنا زیادہ محفوظ رہے گا۔
∗… متقی او رمخلص علمائے کرام کی صحبت میں رہ کر دین کے بنیادی عقائد کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں، کیوں کہ صالحین کی صحبت سے انسان خود بھی صالح بن جاتا ہے۔
∗…اسلام کے بنیادی عقائد ومعلومات پر مشتمل مستند ومعتبر کتابوں کے مطالعہ کا معمول بنائیں۔
∗…روزانہ اپنے گھروں میں کسی وقت بنیادی عقائد او رگم راہ فتنوں سے متعلق لکھی گئی کتابوں کی تعلیم کریں۔
∗… سوشل میڈیا ( واٹس ایپ، فیس بک، انٹر نیٹ) سے حتی الوسع اپنے آپ کو دور رکھیں۔
∗… سیکولر، لبرل، ماڈرن نام نہاد دانش وروں کے مذہبی موضوعات کو نہ سنیں ، نہ پڑھیں، ورنہ ان کی کتابیں اور گفت گو آپ کو جلد یا بدیر گم راہ کردے گی گا۔
∗… اسلام سے وابستگی او رایمان پر ثابت قدمی کے لیے ہر نماز کے بعد خصوصی دعاؤں کا اہتمام رکھیں، خصوصاً یہ دعا ہر وقت کریں:”اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقّاً وَ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَہ، اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَہ“․

اے الله! ہمیں حق کو حق بتا کر اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطافرما، باطل کو باطل کی شکل میں دکھا اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔

حاصل یہ کہ آج امت ِ مسلمہ جن مصائب ومشکلات کا شکار ہے، وہ کسی دیدہ وراور ذی شعور سے مخفی نہیں، ہر دن اپنے جلو میں نت نئے فتنے لیے جلوہ گرہ ہو رہا ہے او رہر رات اپنے ساتھ آزمائشوں کی نئی ظلمت لیے چلی آرہی ہے، جس طرح تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جانے پر ایک کے بعد ایک دانے گرنے لگتے ہیں، اسی طرح نئے نئے فتنے ایک کے بعد ایک اس امت میں پیدا ہوتے جارہے ہیں، ان فتنوں سے بچنے کی صورت میں ہی ہمارے ایمان کی حفاظت کا دار ومدار ہے اور جب تک ہم گناہوں سے تائب ہو کر نیکی کی راہ پر نہیں چلیں گے، تب تک فتنوں سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے کی غلط فہمی کے شکار نہ ہوں، جب تک معاشرہ کبیرہ گناہوں سے تائب نہ ہو گا، اس وقت تک ہم فتنوں سے نہیں بچ سکیں گے، اگر یہی حالات رہے تو ایک دن وہ بھی آسکتا ہے کہ جس دن ہمارے دلوں سے ایمان کا نور ختم ہو کر فتنوں کی تاریکی قائم ہو جائے گی، بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہوں کہ وہ امت مسلمہ کی ہر طرح کے داخلی وخارجی فتنوں سے حفاظت فرمائے۔ (آمین)

آخری بات یہ کہ گزشتہ سال سے اب تک درجنوں علمائے کرام اورصلحائے امت یکے بعد دیگرے اس دارفنا سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے اور یہ بھی علامات قیامت میں سے ایک ہے کہ آخری دور میں علمائے ربانیین ووارثان علوم نبوت یکے بعد دیگرے دنیا سے اٹھتے چلے جائیں گے، ان علمائے ربانیین کے دنیا سے اٹھ چلے جانے سے علم بھی اٹھ جائے گا اور کثرت سے فتنے بھی رونما ہوں گے۔

اب آئے روز کثرت سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا علمائے ربانیین اورعلمائے حق سے خالی ہوتی جارہی ہے، صرف گزشتہ ایک سال میں ملک وبیرون ملک بڑے بڑے علماء او رعظیم شخصیات کا دنیا سے کوچ کرکے چلے جانا صرف ایک صدمہ نہیں، بلکہ یہ اس امت کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے، الله تعالیٰ ان سب کو اپنے جوار رحمت او رجنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات عطافرمائے اور ان صدمات پر ان کے پسماند گان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)