اخلاقی ورُوحانی تعلیم کی ضرورت

اخلاقی ورُوحانی تعلیم کی ضرورت

مولانا اسرار الحق قاسمی 

عصر ِ حاضر میں تعلیم کے حصول کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، اسی لیے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھنے والوں کی بڑی تعداد نظر آرہی ہے۔ یہ ایک بہترین بات ہے کہ تیزی کے ساتھ تعلیم عام ہوتی جارہی ہے اور بلا تفریق امیروغریب اور خواص وعوام سب اس میں دلچسپی لے رہے ہیں، جب کہ گزشتہ اَدوار میں تعلیم حاصل کرنے والے گنے چنے لوگ ہوتے تھے اور وہ بھی مخصوص خاندانوں کے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

تعلیم کی موجودہ صورت َ حال کو دیکھ کر اُمید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں تعلیم کا رواج اور زیادہ بڑھے گا اور نئی نسلیں مزید تعلیم کی طرف متوجہ ہوں گی! تعلیم کے میدان میں یہ بڑھتی ترقی یقینا خوش آئند ہے، لیکن حیران کن اَمر یہ ہے کہ تعلیم کے جس قدر فوائد سامنے آنے چاہیے تھے، وہ نہیں آرہے ہیں، مادّی شعبہ میں تو یقینا ترقی ہو رہی ہے ،لیکن رُوحانی اعتبار سے موجودہ دور کا انسان انحطاط پذیر ہے، صرف وہ لوگ ہی اخلاقی ورُوحانی لحاظ سے کم زور نہیں جونا خواندہ ہیں، بلکہ وہ لوگ جو تعلیم یافتہ ہیں اُن میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کی اخلاقی ورُوحانی حالت ناگفتہ بہ ہے!!

سوال یہ کہ آخر حصول ِ تعلیم کے بعد یا اعلیٰ ڈگریوں کے حاصل کرنے کے بعد اُن کی زندگی میں انقلاب برپا کیوں نہیں ہوتا؟ کیوں کر اُن کے انسانی واخلاقی اوصاف میں نکھار پیدا نہیں ہوتا؟؟ دراصل اس کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ تعلیم تو حاصل کرتے ہیں ،لیکن تعلیم کا جو مقصد انہوں نے متعین کیا، اُس نے تعلیم کو غیر مفید بنا دیا ہے ! آج زیادہ تر لوگ تعلیم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ اُن کی معاشی حالت بہتر ہو جائے، انہیں عمدہ بڑی پوسٹ مل جائے، وہ آسانی سے زیادہ دولت کما سکیں، حصول ِ تعلیم کے اس مقصد نے انہیں ایسے مضامین کے انتخاب کرنے پر مجبور کر دیا جن میں انسانی واخلاقی معاملات پر مشتمل اسباق نہیں پڑھائے جاتے، بلکہ دولت کمانے، سیر وتفریح کرنے اور زندگی کو تعیشات کے ساتھ گزارنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں، جس کے سبب طلباء کا ذہن شروع سے ہی مادّی خواہشات کی تکمیل کی طرف مائل ہو جاتا ہے ! فارغ ہونے کے بعد اُن کا سب سے پہلا مقصد اُونچی عمارتیں یا کشادہ کوٹھیاں بنانے کا ہوتا ہے، اے سی گاڑیوں میں چلنے اور شان دار ماکولات ومشروبات کے استعمال کا خواب بھی اُن کے لیے اہم ہوتا ہے۔ یہی چیز آگے چل کر اُنہیں وعدہ خلافی، عہد شکنی اورکذب گوئی کی طرف راغب کر دیتی ہے۔
جب سے تعلیم کو برائے تجارت بنایا گیا ہے اُس وقت سے تعلیم مہنگی ہو گئی! دُوسرے معیاری تعلیم حاصل کرنا متوسطہ آمدنی والے لوگوں کے بس سے باہر کی بات ہے ! تیسرے یہ کہ اعلیٰ اسکولوں وکالجوں میں حصول ِ تعلیم کے بعد مادّی لحاظ سے تو بچوں کے مستقبل کے بہتر ہونے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں، مگر رُوحانی، اخلاقی او رانسانی اعتبار سے اُن کے زوال پذیر ہو جانے کے خدشات لاحق ہو جاتے ہیں ! کیوں کہ اس طرح کے اسکولوں میں جہاں تعلیم پر بڑی رقم خرچ ہوتی ہے وہاں کا ماحول عام طور سے بہتر نہیں ہوتا، مخلوط تعلیم دی جاتی ہے، ایسی ایکٹی وٹیز (Activities) جاری رکھی جاتی ہیں جو طلباء کو ایسے کاموں پر آمادہ کرتی ہیں جو تعلیم یافتہ شخص کے لیے مفید نہیں ہوتیں! اس کے علاوہ ایسے سکولوں میں بد قسمتی سے اخلاقی ودینی مضامین یا تو سرے سے پڑھائے ہی نہیں جاتے یا پھر اُن پر توجہ نہیں دی جاتی!

نئی نسل میں مثبت رجحان پیدا کرنے او رانہیں زیادہ سے زیادہ ایمان دار بنانے کے لیے ایسی تعلیم کو رواج دینے کی ضرورت ہے جو اُنہیں پورے طور پر صاحب ِ کردار شخص بنادے! تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلباء ہمیشہ سچ بولتے دکھائی دیں، بھولے سے بھی وہ جھوٹ نہ بولیں، خوش خلقی سے لوگوں کے ساتھ پیش آئیں، چھوٹوں سے محبت کا سلوک کریں اور بڑوں کے لیے اپنے دل میں احترام رکھیں، اگر کوئی مدد کا طالب ہو تو اُس کی مدد کریں۔

تعلیم یافتہ لوگ پورے طور پر معاشرہ کے لیے آئیڈیل ہوں ! اگر کسی سے بات کریں تو اُن کی زبان پر معیاری الفاظ ہوں، چہرہ پر مسکراہٹ ہو اور نرم لہجہ ہو! اگر تجارت کریں تو دیانت داری کا ثبوت دیں، وعدوں کو پورا کریں، معاملات کو صاف رکھیں، حلال طریقہ سے رزق حاصل کریں، رزق کے حصول میں نہ جھوٹ بولیں، نہ رشوت لیں، نہ ملاوٹ کریں اور نہ کسی کی رقم کو اپنے پاس رکھیں، مزدور کی اُجرت اُس کے پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کریں، اُن کی سماجی زندگی بھی آئینہ کی طرح صاف ہو، کوئی مذموم فعل اُن سے سر زد نہ ہو۔

اُن تمام چیزوں کا بہتر طور پر اُسی وقت خیال رکھا جاسکتا ہے جب کہ تعلیمی نصاب میں ایسے مضامین کو شامل کیا گیا ہو جو انسان کو انسانی واخلاقی اقدار کی تعلیم دیتے ہیں ! عہد ِ حاضر میں جب کہ جدت کے نام پر ہر طرح کی بے راہ روی دیکھنے کو مل رہی ہے، اخلاقی تعلیم کی ضرورت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے! اخلاقی تعلیم کے ساتھ اگر دینی تعلیم بھی اسکولوں وکالجوں میں دی جانے لگے تو اس کے بڑے مثبت فوائد سامنے آئیں گے، کیوں کہ ”مذہب“ انسانی زندگی کے لیے انتہائی اہم ہے، وہ ہمیشہ انسان کو اچھی باتوں کا درس دیتا ہے۔ مذہب کا مطمح ِ نظر ہی انسان کی کام یابی ہے، اس لیے وہ انسان کی کام یابی کے لیے عمدہ تعلیم دیتا ہے او رمختلف انداز سے انسان کو اچھی باتیں سکھاتا ہے ! دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ مذہب کے پابند ہوتے ہیں وہ نہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ عہد شکنی کرتے ہیں، نہ لغو باتوں میں وقت ضائع کرتے ہیں، نہ بد اخلاقی کا مظاہر کرتے ہیں، نہ الله کے بندوں کو ستاتے ہیں، نہ ناجائز کھاتے ہیں، بلکہ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خلق خدا کی زیادہ سے زیادہ خدمت کریں اور بڑے اجر کے مستحق بنیں! حقیقت یہی ہے کہ اگر تعلیم کے ساتھ انسانی واخلاقی اقدار انسان کی زندگی میں داخل ہو جائیں تو سمجھا جائے کہ اُسے دُنیا کی بیش بہا نعمتیں مل گئیں!!

”تعلیم“ الله کی طرف سے بنی نوع ِ انسان کے لیے اہم انعام ہے، کیوں کہ تعلیم دیگر مخلوقات سے انسان کو ممتاز کرتی ہے، تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی انسان اپنے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے زندگی گزارنے کے قابل ہوتا ہے، اسی لیے اسلام نے مسلمانوں کوحصول ِ تعلیم کی ترغیب دی ہے، لیکن یہ بات قابل ِ غور ہے کہ اگر تعلیم انسان کو انسان بناتی ہو، اُس کے اوصاف وصلاحیتوں کو نکھارتی ہو تو وہ تعلیم انتہائی اہم ہے، لیکن جو تعلیم انسان کو انسانیت کے تقاضوں کی تکمیل کے بجائے غیر انسانی حرکتوں کے ارتکاب پر آمادہ کرتی ہو اور اُس تعلیم کے حصول کے بعد انسان میں انسانی قدروں کی تکمیل کا جذبہ پیدا نہ ہوتا ہو تو وہ تعلیم بے سود ہے!!!