کتب بینی کے زوال پذیر رویّے

idara letterhead universal2c

کتب بینی کے زوال پذیر رویّے

محترم محمد فاروق رانا

دنیا جتنی بھی ترقی کر لے کتاب اور قلم کی ضرورت ہمیشہ قائم رہے گی۔ ان دو چیزوں کے بغیر انسان کا گزارا ہی نہیں ہو سکتا۔ آج دنیا کو جو کچھ میسر ہے وہ کتاب کی بدولت ہے۔ اگر کتاب نہ ہوتی تو انسان ترقی کی منازل کیسے طے کرتا؟ اگر کتاب نہ ہوتی انسان اپنی زندگی کو گزارنے کے راہ نما اصول کیسے سیکھتا؟ اگر کتاب نہ ہوتی تو انسان او رحیوان میں کیا فرق ہوتا؟ کتاب کا تعلق انسان کے ساتھ جسم اور روح کی مانند ہمیشہ جُڑارہے گا۔ انسان کو تمام تر طاقت کتاب سے حاصل ہوتی ہے۔ کتاب کو پڑھ کر وہ اپنی اصلاح کرتا ہے، اپنی فکر بناتا ہے اور مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ گویا کتاب کے بغیر انسان ناقص ہے۔ الله تبارک وتعالیٰ نے اسی لیے قسم کھاتے ہوئے قرآن مجید میں فرمایا:﴿نوَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ﴾․(1/68)

”نون(حقیقی معنی الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، قلم کی قسم اور اس (مضمون) کی قسم جو ( فرشتے) لکھتے ہیں“۔

انسان کی علمی اور عملی زندگی مطالعہ کتاب سے لازم وملزوم ہے۔ کتاب ایک ایسا انسانی ورثہ ہے جس کے بغیرانسان بہتری کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ اور قلم کے بغیر انسانی زندگی اپنے معمولات میں جمود اور فتنہ وفساد کا شکار ہو جائے گی۔

کتاب کی ضرورت واہمیت

ارشاد نبوی ہے:”قَیِّدُوْا الْعِلْمَ بَالْکِتَابَةِ“․

”علم کو کتاب میں قید کرو، یعنی لکھا کرو۔“

اسی بنا پر علماء ومفکرین کتاب کوکنز او رخزانہ قرار دیتے تھے۔

علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں:
”اِذَا وَجَدْتُ کِتَابَا جَدِیْداَ، فَکَاَنی وَقَعْتُ عَلَیَّ کَنْزٍ․“

”جب مجھے کوئی نئی کتاب ملتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا مجھے کوئی خزانہ مل گیا ہے۔“

کتاب قاری کو اپنے دور کے مصنفین کے افکار ونظریات اور احوال زمانہ سے آگاہ رکھتی ہے او راس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نئے افراد کی مضبوط کھیپ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں قاری کتب کے ذریعے حالات ِ حاضرہ سے آگاہی حاصل کرتا ہے، وہاں کچھ کتب اسے دور قدیم کے نامور ائمہ، محدثین، فلاسفہ، حکماء اور مفکرین سے بھی فیض یاب ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یعنی دور جدید میں رہتے ہوئے اگر دور قدیم تک کوئی رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا واحد ذریعہ کتاب ہے۔ چناں چہ علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں:

”لوگ جتنا علم اپنے اسلاف کی کتابوں میں پاتے ہیں اتنا علم اپنے اساتذہ او رمشائخ سے نہیں لیتے۔“

اچھی کتب کا مطالعہ نہ صرف انسان کے ذہن وشعور کو جلا بخشتا ہے، بلکہ انسان کو مہذب بھی بناتا ہے۔ بہترین کتب انسانی شخصیت میں نکھار اور وقار عطا کرتی ہیں۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کرواتی ہے۔ الغرض! کتاب ہی انسان کی بہترین مونس اورر فیق ہے۔

کن کتب کا مطالعہ مفید ہے؟

اس بارے میں حتمی طور پر کوئی بات کہنا تو دشوار ہے، کیوں کہ ہر شخص کا ذوق دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک آدمی ایک فن سے دلچسپی رکھتا ہے تو دوسرا کسی دوسرے سے۔ البتہ چند ایسے امور ذکر کیے جاسکتے ہیں جن کی روشنی میں اس جہت کا تعین ممکن ہے:

قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے او راسے ترجمے کے ساتھ پڑھا اور سمجھا جائے۔ اگر کلام الله کو Bed Book بنا لیا جائے تو دنیا وآخرت میں کام یابی مقدر ہو جائے گی۔

کتب احادیث او رکتب سیرت کو مطالعہ میں رکھا جائے تاکہ اکمل ترین انسان صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے شناسائی ہو اور اسوہ کامل کی پیروی کی جاسکے۔

صحابہ وصحابیات او راہل بیت اطہار علیہم السلام کے حالات وواقعات پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔

سلف صالحین اور دیگر ائمہ وعلماء کی زندگیوں کو پڑھا جائے، جنہوں نے امت وانسانیت کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔

تاریخ کی کتب کو ضرور پڑھا جائے، کیوں کہ جو قوم اپنی شان دار روایات اور تاریخ کو زندہ رکھتی ہے، وہ زندہ رہتی ہے او رجو قوم اپنی تاریخ فراموش کر دیتی ہے، وہ خود بھی نسیا منسیا ہو جاتی ہے۔

قدیم کتب کے ساتھ ساتھ جدید کتب اور موضوعات کو بھی زیرمطالعہ لائیں، تاکہ علوم کے میدان میں ہونے والی جدید تحقیقات سے آگہی ہوتی رہے۔

جس فن سے دلچسپی ہو، اس کے ماہرین کی مشاورت سے متعلقہ کتب کو زیرمطالعہ لائیں۔

اخلاق وآداب(Morality and Noble Character) کے موضوع پر کتب کا ضرو رمطالعہ کیا جائے، تاکہ ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے مثالی افراد تیار کیے جاسکیں۔

کتابی ذوق رکھنے والے افراد سے وابستگی اختیار کی جائے اورکتابوں کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ان سے راہ نمائی لی جا ئے ،کیوں کہ جیسے اچھی کتاب کے مطالعے سے آدمی فکری بلندیاں حاصل کر لیتا ہے، اسی طرح کسی غیر موزوں کتاب کے پڑھنے سے وہ اخلاقی پستیوں کا بھیشکار ہو سکتا ہے۔ بقول اکبر الہٰ آبادی #
          دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے

اچھی کتابوں کا مطالعہ انسان کو مہذب بناتا ہے، شخصیت میں نکھار اور وقار عطا کرتا ہے۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے۔ اچھی کتابیں زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ انسانی مزاج میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔ ذہن پر خوش گوار اورصحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مطالعے سے انسان کے اندر مثبت اور مضبوط سوچ پیدا ہوتی ہے۔ مطالعہ سے انسان کے اندر دلیل کے ساتھ بات کرنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ آج ہم سنی سنائی باتوں کی بجائے مطالعے کے ذریعے اپنے اندر تحقیق کا رحجان پیدا کریں تو بہت سے مسائل اورجھگڑوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ دوبارہ سے دنیا میں عزت او رعروج حاصل کرنا چاہتی ہے تو ہمیں چاہیے کہ علم کی اس متاع گم گشتہ کو پھر سے حاصل کرنے کی فکر کریں، کیوں کہ علم کے اس زینے سے گزرے بغیر کام یابی کی بلندی تک پہنچنا ایک ناممکن عمل ہے۔

دوران ِ مطالعہ کن اُمور کو ملحوظ رکھا جائے؟

کتاب کی تعیین کے بعد جب قاری اُسے پڑھنا شروع کرے تو چند باتوں کا اہتمام ضرور کرے:

جو مطالعہ کر رہے ہوں، اس کے مفید او رکار آمد ہونے کا یقین دل میں موجود ہو۔

اس تصور کے ساتھ مطالعے کا آغاز کریں کہ یہ پڑھنا ہی اس وقت میرے لیے دنیا کا اہم ترین مشغلہ ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ ہجوم میں بھی ہوں گے تو یک سوئی آپ کو خود بہ خود حاصل ہو جائے گی۔

مطالعے کے لیے ایک متعین لائحہ عمل اور دن میں ایک وقت ضرور مقرر ہونا چاہیے، تاکہ پڑھنے کی عادت پیدا ہو جائے۔ اس کے علاوہ بھی جب وقت اور موقع میسر آئے کچھ نہ کچھ پڑھ ڈالیے۔ ایسا کرنے سے تسلسل قائم رہے گا او رکتاب سے رشتہ مضبوط تر ہو گا۔

مطالعہ سے قبل اپنے ہاتھ میں قلم تھام لیجیے۔

سب سے پہلے کتاب کی فہرست، اس پر درج مقدمہ ، پیش لفظ، دیباچہ یا کسی کا تبصرہ وتقریظ ہو تو اسے پڑھیں۔

دورانِ مطالعہ اہم باتوں کو نشان زد کرتے جائیں۔ جب فارغ ہو جائیں تو ان مفید امور کو اپنی مخصوص ڈائری میں قلم بند کیجیے، تاکہ مکرر تلاش کی مشقت سے محفوظ ہوجائیں۔

مطالعے کے بعد دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مطالعہ شدہ مواد سے نتائج اخذ کریں او رپھر حاصل مطالعہ او رنتائج کو ذہن نشین کر لیں۔ بہتر ہو گا کہ اسے بھی کاغذ پر منتقل کر لیا جائے۔

مطالعہ کیسے کریں؟

حضرت انسان علم کے باعث ہی زمین کی گہرائیوں میں جھانکتا، سمندر کی تہوں کو بے نقاب کرتا او رکائنات کے ذرے ذرے میں پوشیدہ اسرار کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ اس کا دار ومدار وسیع مشاہدے، ذاتی کاوشوں اور خصوصاً مطالعے کے چند اہم اصولوں پر ہے۔ مطالعہ ایک فن ہے۔ جو لوگ اس فن کو جانتے ہیں، وہ بہت کم وقت میں زیادہ فائدہ حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ پوری پوری کتاب پڑھ بیٹھتے ہیں، مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس مطالعہ سے کیا حاصل کیا ہے۔ ذیل میں چند راہ نما اصول درج کیے جارہے ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر مطالعہ میں دلچسپی بڑھائی جاسکتی ہے۔

کوئی بھی تحریر پڑھنے سے پہلے خود سے یہ سوال کیجیے کہ اس کے پڑھنے سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ کو خاص معلومات کی تلاش ہے یا آپ نے کچھ سیکھنا ہے یا محض وقت گزاری کے لیے پڑھ رہے ہیں؟ یہ بہت اہم سوالات ہیں اور آپ کے مقصد کو واضح کرتے ہیں۔

ہمیشہ شوروغل سے پاک ماحول میں مطالعہ کریں۔ دوران مطالعہ مکمل توجہ مرکوز رکھیں۔ توجہ ہٹانے والی اشیا، موبائل، لیپ ٹاپ، وغیرہ کو دوران مطالعہ خود سے دور رکھیں۔

اگر آپ تھکے ہوئے ہیں یا کسی بھی قسم کا ذہنی دباؤ ہے تو مطالعہ موقوف کر دیں۔

زیرمطالعہ کتاب میں اہم حصوں کو نشان زد کریں یا پوائنٹر سے نمایاں کریں، تاکہ بعد میں خاص نکات کو تلاش کرنے میں آسانی رہے اور اگر کتاب لائبریری کی ہے یا کسی دوست سے مستعارلی ہے تو نشان زد کرنے کے بجائے خاص جملوں اور پیرا گراف وغیرہ کو اپنے پاس کاپی میں نوٹ کر لیں۔

جو چیز یاد کرنی ہو اسے بار بار دہرائیں۔ بہتر ہے کہ چوبیس گھنٹے کے اندر دوباردہرالیں۔ ماہرین کے مطابق ہمارا دماغ چوبیس گھنٹے بعد چیزوں کو بھولنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر ایک باران کی تکرار کر لی جائے تو اس کو ہفتوں یاد رکھا جاسکتا ہے۔

دوسروں کوپڑھانے ، پڑھا ہوا سنانے یا لکھنے سے بھی کوئی بات یا تحریر زیادہ عرصے تک ہمارے ذہن میں محفوظ رہتی ہے۔

کسی بھی مضمون یا تحریرکو پڑھتے وقت اس میں اپنی ذات کو شامل کر لیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق جس کام میں ہماری اپنی ذات شامل ہوتی ہے وہ ہمیں زیادہ دیر تک یاد رہتی ہے۔

مطالعہ کرنے کے بعد خود سے سوال کریں کہ آپ نے کیا سیکھا؟ کیا حاصل کیا؟ یا یہ کہ اگر مجھے متعلقہ تحریر کے بارے کسی کو بتانا ہو تو کیا بتاؤں گا؟

عہد حاضر میں کتاب بینی کی ناگزیریت

ایک مشہور مقولہ ہے کہ اگر دو دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تیسرے دن گفت گو میں وہ شیرینی باقی نہیں رہتی، یعنی انداز تکلم تبدیل ہو جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کتابوں کے مطالعے سے ہمیں ٹھوس دلائل دینے او ربات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں آج انٹرنیٹ کے دو رمیں بھی کتابیں پڑھنے کے رحجان میں غیر معمولی کمی نہیں ہوئی۔ وہاں زیادہ تر گھروں میں کتابوں کا کچھ نہ کچھ ذخیرہ دکھائی دیتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب ان کی ضروریات زندگی میں شامل ہے۔

کتابیں ہماری محسن اور غم خوار ہیں۔ گوشہٴ تنہائی میں ہمارے لیے ایک بہترین انیس ثابت ہوتی ہیں۔ ہم بلند پایہ مصنفوں کے خیالات، عظیم شعراء کے کلام او ربزرگوں کے حالات زندگی کے بارے میں جان پاتے ہیں، جو ہمارے لیے علم کی لازوال دولت محفوظ کر گئے۔ ان ہستیوں نے دنیا کو دیکھا، پرکھا، دنیا کی تلخیوں کے گھونٹ پیے، ملکوں ملکوں کی مسافت طے کی، قوانین قدرت کا مطالعہ کیا او رپھر برسوں کے غور وفکر کے بعد فطرت کے سر بستہ رازوں کو منکشف کیا او راپنے مشاہدات وتجربات کا نچوڑ کتابوں کی صورت میں ہمارے سامنے رکھا، تاکہ ہم ان مشاہدات
وتجربات سے مستفید ہو سکیں۔

کتاب بینی کے فوائد

کتابوں کا بڑا اور اولین مقصد یہی ہے کہ انہیں پڑھا جائے او ران سے علمی زندگی میں استفادہ کیا جائے۔ وہ مصنف کے طویل مطالعے کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ قاری ان سے کم وقت میں بہت سے فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ مثلاً:

مطالعہ سے متعددو متنوع افکار سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔

ایک ہی مضمون کو کئی اسالیب میں اظہار کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔

فکر او رسوچ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے، دماغی صلاحیتیں جلاپاتی ہیں۔

پڑھنے سے قوتِ حافظہ کو تقویت ملتی ہے۔ امام بخاری سے حافظے کی دوا کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے:”لا أعلم شیئا أنفع للحفظ من نھمة الرجل، ومداومة النظر“․

”حافظہ کے لیے آدمی کے انہماک اور دائمی نظر ومطالعہ سے بہتر کوئی شے میرے علم میں نہیں۔“

اپنی کم زوریوں او رجہالت کا ادراک ہوتا ہے او رحصول علم کی جستجو میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

صحیح او رغلط کی پہچان او رتنقید کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

وقت فضولیات میں ضائع ہونے سے محفوظ ہوتا ہے۔

مختلف لوگوں کے اسالیب تحریر سامنے آتے ہیں، جس سے لکھنے کا صحیح ڈھنگ آجاتا ہے۔

مطالعہ سے فن تخلیق کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

آدمی کی ہمت اور حوصلے میں اضافہ ہوتا ہے، کچھ کر دکھانے کا جذبہ اس میں جوش مارنے لگتا ہے کہ جب دنیا یہ کارنامے انجام دے سکتی ہے تو میں بھی کرسکتا ہوں۔

انسان میں چھپی صلاحیتیں ظاہر ہوتی ہیں اور ظاہری صلاحیات مزید نکھرتی ہیں۔

مطالعہ انسانی ذہن کی بند گرہ کو کھولتا ہے اور شعور بیدار کرتا ہے، جس سے انسان معاشرے کا کار آمد فرد، قوم کا ہو نہار سپوت اور راز نکتہ سے واقف ہوتا ہے۔ اچھی علمی کتاب کا مطالعہ ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان کو کسی بھی نقصان کا خدشہ نہیں ہوتا، بلکہ اہل دانش کے نزدیک کتاب سے بہترین اور کوئی دوست نہیں ہوتا۔
          سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر
          کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

کتب سے لگاؤ او رہمارا مستقبل

جدید دور میں اگرچہ مطالعہ کے لیے نئے نئے ذرائع متعارف کروائے گئے ہیں او رپھر ٹیکنالوجی کے باعث علم کے حصول میں انقلاب برپا ہو چکا ہے ،مگر یہ کہنا غلط نہیں کہ کتابوں کی دائمی اہمیت وافادیت اپنی جگہ قائم ودائم ہے او راس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اورکتاب کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب وتمدن کا سفر او رعلم وآگہی کی تاریخ قدیم ہے۔ کتب بینی سے جذبہ کو ترغیب ملتی ہے۔

ہمارے عہد کی نسل کو کتابوں کی دنیا بہت روکھی پھیکی دکھائی دیتی ہے۔ وہ بڑی چھوٹی اسکرین میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ لطف جو کتب بینی میں پنہاں ہے اسے سمجھنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ لکھاری کی انگلی پکڑ کر قاری فہم وفراست اور درون بینی کی جن وادیوں سے گزرتا ہے وہ وادیاں کارٹون کے شوخ رنگوں میں کہیں گم ہو کے رہ گئی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ایک دن کتاب بھی نوادرات میں شامل ہو جائے، جب کہ مغربی ممالک میں پاکستان کے برعکس صورت حال ہے۔ وہاں کتاب کو اہمیت اور مقبولیت حاصل ہے۔ کثیر
تعداد میں کتابیں چھاپی اور پڑھی جاتی ہیں۔

اخبار پڑھنے کا رحجان بھی موبائل فونز او رکیبل کی سہولت کی نظر ہو چکا ہے۔خبر سنائی او ردکھائی دیتی ہیں تو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟

لیکن تیزی سے بڑھتے ہوئے یہ سب رحجانات صحت مندانہ نہیں ہیں، بلکہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔

حکم الامت علامہ محمد اقبال نے جب ورثہ اسلامی کو مغرب کی دیواروں میں مقید پایا تو ان کا قلب لخت لخت ہو گیا۔ جو علوم وفنون کی بہترین کتب ہمارے اسلاف نے رقم کیں وہ اہل مغرب کے لیے استفادہ کا باعث بن رہی ہیں او رہم اپنے ہی ورثے سے لا تعلق ہیں، جس کی وجہ سے ترقی اور وقار دونوں ہم سے چھین لیے گئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں #
          مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
          جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

کتب بینی کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر عوامی کتب خانے قائم کیے جائیں ،جہاں مختلف موضوعات پر کتب موجود ہوں۔

اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس نام نہاد جدید دور میں ہماری آنے والی نسلوں پر علم کے دریچے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے او رجس معاشرے میں علم کے دریچے بند ہو جائیں وہاں صرف جہالت، اندھیرا اورپسماندگی چھا جاتی ہے۔

آج ہمار ی نئی نسل میں ذہنی تناؤ اور وباؤ جیسی بیماریاں بھی اسی لیے عام ہو رہی ہیں کہ وہ حقیقت پسندی سے کوسوں دور ہیں۔ وہ زندگی کے نشیب وفراز کے بارے میں بالکل آگہی نہیں رکھتے، کیوں کہ وہ مطالعہ نہیں کرتے۔ اگر روزانہ مختصر وقت کے لیے کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو(depression, damnesia, anxiety) اورAlzheimer جیسی بیماریاں لاحق ہونے کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ذہن کو صحت مند رکھنے کے لیے اچھی کتابوں کا مطالعہ اسی طرح ضروری ہے، جیسے جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ورزش ضروری ہے۔ اس سے ناصرف انسان کا شعوربے دا رہوتا ہے، بلکہ سوچ کا زاویہ بھی وسیع ہوتا جاتا ہے۔

کتب بینی سے انسان کے اندر تحقیقی اور تجزیاتی سوچ پروان چڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان دینی، قومی او ربین الاقوامی امور پر ایک واضح سوچ رکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ ایک کثیر المطالعہ شخص کو کسی جھوٹے پراپیگنڈے سے متاثر نہیں کیا جاسکتا، ایسا شخص بڑی تیزی سے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔

کتب بینی کے نتیجے میں انسان اپنے مقصد حیات کو متعین کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے، جو ایک با مقصد زندگی گزارنے کے لیے از حد ضروری ہے۔ جب کہ مطالعہ کے دوران میں کسی ایسے فرد کی زندگی کے بارے میں پڑھنا جو اپنی زندگی میں آنے والی رکاوٹوں کو عبور کرکے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر لیتا ہے۔ در حقیقت یہ شے انسان کے اند راپنے مقاصد کے حصول کے لیے عزم کو بڑھا دیتی ہے، جس سے انسان کو یک گونا تحریک ملتی ہے اوراپنے مقصد میں کام یابی کے حصول کے لیے جستجو میں لگ جاتا ہے۔

لمحہٴ فکریہ

محترم قارئین! یہ صرف لمحہ فکریہ ہی نہیں، بلکہ ارزل ترین المیہ ہے، بلکہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ جس دین کا پہلا حکم اقرا یعنی پڑھنے کا تھا، اس دین کے پیروکار آج علم سے کوسوں نہیں، میلوں دور ہیں۔ محنت سے جی چُرارہے ہیں۔ شارٹ کٹس کی تلاش میں رہتے ہیں، اصول ہے کہ ترقی صرف اور صرف علم کے راستے سے ہوتی ہے۔ یہ ایک صبر آزما اور تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے والا عمل ہے۔ امام ابویوسف کا یہ قول آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے:”لایعطیک العلم بعضہ حتی تعطیہ کلک“ (الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب البغدادی)

”علم اُس وقت تک تمہیں اپنا کچھ حصہ بھی عطا نہیں کرے گا جب تک تم اپنا سب کچھ علم کے لیے وقف نہیں کر دو۔“

ہمیں سوچنا ہو گا کہ کتب بینی صرف ایک شوق یا ضرورت ہی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی زندگی کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی میں زندگی اور بقا مضمر ہے۔ جب اجتماعی زندگی کا مدارا س پر ہے تو اس کے لیے کاوشیں بھی اجتماعی طور پر کی جائیں گی تو بار آور ہوں گی۔ ہمیں علم او رکتاب سے محبت کا کلچر زندہ کرنا ہو گا۔ علم سے محبت اور علم سیکھنے سکھانے میں ہماری ملی حیات کا راز پوشیدہ ہے۔ اگر اس راز کو نہ سمجھے اور علم کو اپنی ترجیح نہ بنایا تو صدیوں سے سوئی ملت کے لیے تقدیر کا قاضی اجتماعی خود کشی کا فیصلہ صادر کرے
گا!

عصر حاضر سے متعلق