فحاشی وعریانی کی ترویج اور ہماری ذمہ داریاں

فحاشی وعریانی کی ترویج اور ہماری ذمہ داریاں

مولانا زبیر احمد صدیقی

ایک عرصہ سے اسلام وکلمہ طیبہ کے نام اور دو قومی نظریہ کے فلسفہ پر معرض وجود میں آنے والی مملکت ِ خداداد”پاکستان“ کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے ، اسلامی اقدار کو مسخ کرنے اور اسلامی تہذیب وثقافت کو مغرب کے حیا باختہ کلچر میں بدل دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، عرصہ دراز سے لادینی قوتیں اپنے غیر ملکی آقاؤں کی سرپرستی میں اس تگ دور میں لگی ہوئی ہیں کہ کسی بھی طرح سے اس ملک کی اسلامی، دینی، مذہبی اور مشرقی، الغرض ہر قسم کی اساسی شناخت کو نہ صرف ختم کیا جائے، بلکہ اس ملک کو خالصتاً سیکولر اور لادین ریاست کا درجہ دلایا جائے، اس وطن کے باسی بھی مادر پدر آزاد ہوں، ان کا لباس، وضع قطع، فکر ونظر اور بودوباش، ہمہ قسم طور طریقے مغربی او رغیر اسلامی بن جائیں۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ان شیطانی قوتوں نے جہاں ایک جانب آئین پاکستان سے اسلامی دفعات کے اخراج، پاکستان کے نام سے ”اسلامی جمہوریہ“ کے خاتمہ، حقوق نسواں کے نام پر آزاد خیالی، بے راہ روی او رہم جنس پرستی جیسے خبیث او رمکروہ اعمال کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں بل پاس کروانے کی کوششیں کیں، وہاں ان مقاصد کے حصول کے لیے معاشرہ کو بے راہ روی او ربد کاری میں مبتلا کرکے نسل نو کو بگاڑنے کے لیے بھی ہر ممکن اقدام کیے ہیں، ان شیطانی قوتوں کے مغربی آقا مذکورہ بالا مقاصد کی تکمیل کے لیے منصوبہ بند پالیسی مسلط کرچکے ہیں، نیز اس پالیسی کے لیے لاکھوں ڈالر کی رقم صرف کی جارہی ہے، صہیونی آلہ کاروں کی اس جہد مسلسل کی وجہ سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران معاشرہ میں جس قدر تیزی سے تبدیلی آئی ہے اس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے، فحاشی وعریانی کے فروغ کے لیے جس قد رتدابیر اختیار کی جارہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جس کے اندر عقل وشعور موجود ہے ، وہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی چینلز پرتفریح کے نام سے نشر ہونے والے پروگرام تک نہیں دیکھ سکتا، حتی کہ ارباب حکومت میں سے بھی بہت سی شخصیات اسی قسم کے احساسات کا اظہار کرچکی ہیں، نوبت جب یہاں تک پہنچ گئی ہے تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فحاشی، عریانی اور بے راہ روی کو کس طرح مسلمانوں کے رگ وپے میں اتارنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ بے حیائی کے اس سیلابی کے سامنے بند کیوں نہیں باندھا جاتا؟ حالاں کہ اس نے باشندگان پاکستان کے ایمان، عمل، حیا، غیرت، عزت… الغرض دین ودنیا کو برباد کر دیا ہے، نسل نو تباہی کے دھانے پر ہے، جوانیاں او رعزتیں لٹ چکی ہیں، شہوانیت کے بھوت نے ثقافت، تمدن، تہذیب، مذہب سبھی کو روند ڈالا ہے، فیشن شو، ڈراموں، ایڈورٹائز منٹ، اشتہارات ، میراتھن ریس ، سنڈے میگزین، رسائل، جرائد، پورٹریٹ او رمختلف اشیاء کے پیکٹوں پر شائع شدہ نیم عریاں تصاویر، ٹی پروگراموں میں مردوزن کے غیر شائستہ او رناقابل بیان مناظر، انٹر نیٹ پر دست یاب فحش مواد اور اس کی باسہولت دست یابی ، یہ سبھی اشیاء فحاشی وعریانی کے بحر بیکراں کا حصہ بن چکی ہیں، سرکاری اداروں میں خواتین ومرد کے بلا روک ٹوک اختلاط اور عورتوں مردوں کا ایک ہی دفتر میں سینئر جونیئر کی صورت میں باہم ڈیوٹی سرانجام دینے جیسے معاملات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ملکی آئین میں خواتین کی اسمبلیوں میں نمائندگی کا مخصوص کوٹہ، نیز با اختیار طبقہ کا لیڈی سیکریٹری رکھنے کا فیشن اس بے حیائی کے فروغ کا ایک اور دروازہ ہیں۔ ہم جنس پرستی کا نعرہ ، تحفظ نسواں کے نام پر بننے والے غیر اسلامی اور غیر فطری قوانین اور اس خوب صورت نعرہ کے پس منظر میں مزید دین کُش اقدامات کے حکومتی عزائم اور موبائل کمپنیوں کے نائٹ پیکجز وغیرہ معاشرتی بے راہ روی کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔

فحاشی وعریانی، زنا کا موجب ہیں، زنا وبد کاری عذابِ الہٰی کا ذریعہ اورفساد فی الارض کا سبب ہے، قرآن کریم نے جا بجا فحاشی کی مذمت فرمائی، ذیل میں ایسی چند آیات بطور نمونہ پیش کی جارہی ہیں۔

﴿إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاء ِ ذِی الْقُرْبَیٰ وَیَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاء ِ وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ﴾․ (النحل:90)
ترجمہ:”بے شک الله انصاف کا، احسان کا اور رشتہ داروں کو (اُن کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے او ربے حیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔“

﴿الشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُم بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّہُ یَعِدُکُم مَّغْفِرَةً مِّنْہُ وَفَضْلًا وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ﴾․ (البقرہ:268)
ترجمہ:” شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور الله تم سے اپنی مغفرت اور فضل کاو عدہ کرتا ہے۔ الله بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔“

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَن یَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَإِنَّہُ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء ِ وَالْمُنکَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ مَا زَکَیٰ مِنکُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰکِنَّ اللَّہَ یُزَکِّی مَن یَشَاء ُ وَاللَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ﴾․(النور:21)
ترجمہ:” اے ایمان والو! تم شیطان کے پیچھے نہ چلو اور جو شخص شیطان کے پیچھے چلے، تو شیطان تو ہمیشہ بے حیائی او ربدی کی تلقین کرے گا۔ اور اگر تم پر الله کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک صاف نہ ہوتا، لیکن الله جس کو چاہتا ہے، پاک صاف کر دیتا ہے اور الله ہر بات سنتا، ہر چیز جانتا ہے۔“

﴿وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَٰلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ﴾․ (الانعام:151)
ترجمہ:” اور بے حیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی اور جس جان کو الله نے حرمت عطا کی ہے اسے کسی برحق اور شرعی وجہ کے بغیر قتل نہ کرو۔ لوگو! یہ ہیں وہ باتیں جن کی الله نے تاکید کی ہے، تاکہ تمہیں کچھ سمجھ آجائے۔“

﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَةً وَسَاء َ سَبِیلًا﴾․(بنی اسرائیل:32)
ترجمہ:” اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو۔ وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اور بے راہ روی ہے۔“

حضور صلی الله علیہ وسلم نے فواحش، زنا، بد کاری کی جو قباحتیں اورمذمتیں بیان فرمائی ہیں انہیں بھی ایک نظر ملاحظہ فرمائیں:
”عن عبد اللہ بن عمر قال: أقبل علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، فقال، یامعشر المہاجرین، خمس إذا ابتلیتم بہن وأعوذ باللہ أن تدرکوہن: لم تظہر الفاحشة فی قوم قط حتی یعلنوا بہا إلا فشا فیہم الطاعون والأوجاع التی لم تکن مضت فی أسلافہم الذین مضوا، ولم ینقصوا المکیال والمیزان إلا أخذوا بالسنین وشدة المئونة وجور السلطان علیہم، ولم یمنعوا زکاة أموالہم إلا منعوا القطر من السماء، ولولا البہائم لم یمطروا، ولم ینقضوا عہد اللہ وعہد رسولہ إلا سلط اللہ علیہم عدوا من غیرہم، فأخذوا بعض مافی بأیدیہم، وما لم تحکم أئمتہم بکتاب اللہ ویتخیروا مما أنزل اللہ إلا جعل اللہ بأسہم بینہم “․(سنن ابی ماجہ:4019)

ترجمہ:” حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہمارے سامنے تشریف لائے، پھر فرمایا،”اے مہاجرین کی جماعت! پانچ کاموں میں جب تم مبتلا کر دیے جاؤ گے تو … اور میں الله کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم ان پانچ کاموں کو پاؤ۔ کسی قوم میں اعلانیہ فحاشی ظاہر نہیں ہوتی، مگر ( ان کی پاداش میں) اس قوم کے اندر طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے بڑوں میں نہیں پائی جا تی تھیں، کوئی قوم ناپ تول میں کمی نہیں کرتی، مگرقحط سالی، شدید مشقتوں او رحکومتی جبر سے ان کی سرزنش کی جاتی ہے، جو لوگ زکوٰة ادا نہیں کرتے ان سے بارش روک لی جاتی ہے، یہاں تک کہ اگر جانور نہ ہو تو بالکل ہی بارش نہ برسے، جو قوم الله اور اس کے رسول کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے توڑتی ہے تو یقینا الله ان پر بیرونی دشمن مسلط کرتے ہیں، جو ان کی بعض ملکیتی اشیاء غصب کر لیتے ہیں اورجو لوگ الله کی کتاب پر فیصلہ نہیں کرتے اور الله کے اتارے ہوئے احکام کو پسند نہیں کرتے تو الله ان کی لڑائیاں انہیں کے درمیان کر دیتے ہیں۔“

لیجیے! اس حدیث سے ہمارے اکثر مسائل کا سبب او رحل بھی دریافت ہو گیا، آج سے چند بر س پہلے تک حفظان صحت کے اصول وضوابط کی رعایت تھی نہ غذا اور خوراک پر کوئی خاص تحقیق، صاف پانی کا اہتمام کیا جاتا تھا اور نہ ہی جراثیم کش ادویات، اس کے باوجود وہ بیماریاں جوآج ظاہر ہو رہی ہیں کبھی سنی بھی نہ گئی تھیں، مہلک او رمتعدی بیماریوں کی شرح اور ان کی وجہ سے غیر طبعی اموات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں، آج دل، جگر اور گردہ کی بیماریاں وبا کی شکل اختیار کرچکی ہیں، ڈینگی جیسے نئے مرض نے قوم کوتشویش میں مبتلا کر دیا ہے، بعض علاقوں میں ہر تیسرا آدمی کالے یرقان میں مبتلا ہے، یقینا ان اسقام سیئہ اور خطرناک بیماریوں کا حقیقی سبب وہی ہے جو اس حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے اور وہ ہے اعلانیہ بے حیائی، فحاشی اورعریانی۔

اس فحاشی وعریانی کے سد باب کے لیے پوری قوم پر انفرادی واجتماعی طور درج ذیل اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جنہیں پورا کرنا نہایت ہی ضروری ہے، بصورت دیگر جس قدر دینی ودنیوی انحطاط ہو گا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا:
1.. پوری قوم بے حیائی کے سیلاب کے خلاف صف آرا ہو کر حیا باختہ ، نام نہاد ثقافت کا بائیکاٹ کرے۔

2.. فحاشی، عریانی پھیلانے والے اخبارات وجرائد کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے، ایسے اخبارات وجرائددفاتر او رگھر میں داخل نہ ہونے دیے جائیں، جو فحاشی پھیلانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔

3.. ایسے ٹی وی چینل جو مغرب پرستی او رقوم کو مغربی تہذیب کا دل دادہ بنانے میں مصروف عمل ہیں نہ صرف ان کا بائیکاٹ کیا جائے، بلکہ درد مندان ِ وطن انہیں اشتہارات اور تعاون دینے سے بھی گریز کریں، تاکہ انہیں یہ احساس دلایا جاسکے کہ وہ ایک برائی کی تحریک کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔

4.. باشعور اور دین دار صحافی بھی ایسے چینلز کا بائیکاٹ کریں۔

5.. کمپنیوں کے مالکان اپنی اشیاء کی تشہیر کے لیے اپنے ایمان وعمل اور قوم کے ایمان وعمل کے تحفظ کے لیے غیر شرعی ذرائع استعمال کرکے اپنے رزق کو حرام کے ساتھ آلودہ نہ کریں۔

6.. والدین اپنے بچوں کی مناسب تربیت اور دیکھ بھال کا انتظام کریں، نیز بچوں کو، اخلاق بگاڑ نے والی جملہ اشیاء سے حتی الامکان محفوظ رکھا جائے۔

7.. اہل علم، اہل قلم او راہل لسان اپنی تقریر وتحریر میں فحاشی وعریانی کے نقصانات سے نسل نو کو آگاہ فرمائیں۔

8.. حکومتی سطح پر ایسے اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے جن سے اس سلسلہ کو روکا جاسکے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے اگر مندرجہ ذیل اقدامات پوری نیک نیتی کے ساتھ اٹھائے جائیں تو اس سے نہ صرف یہ کہ پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے گا، بلکہ معاشی طور پر استحکام کے ساتھ ساتھ بیماریوں سے پاک، صحت مند قوم پروان چڑھے گی۔

(الف) مخرب اخلاق ویب سائٹس کو بند کرنے کے لیے انٹرنیٹ فلٹریشن کا مضبوط نظام۔

(ب) فحش مواد پر مشتمل ٹی وی چینلز اور کیبلز پر پابندی اوربھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ لائسنس کی منسوخی۔

(ج) پانچویں جماعت سے اوپر مخلوط تعلیم پر پابندی۔

(د) اداروں میں مردوزن کی ملازمتوں کے لیے الگ الگ انتظامات۔

(ر) قوم کی نسل نو کے دینی اور قومی تشخص کی حفاظت کے لیے معتبر اور باعمل علماء کا میڈیا پر سلسلہ وار درس کا انتظام۔

الله تبارک وتعالیٰ اس پر عمل کی توفیق نصیب فرمائیں او رہم سب کو اس مخرب ِ اخلاق اور حیا باختہ تہذیب سے نبرد آزما ہو کر ایمانی، اسلامی، قومی اور تہذیبی اقدار کے تحفظ کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی الله علیہ وسلم۔