شاہ ولی الله صاحب او ران کی دینی خدمات

idara letterhead universal2c

شاہ ولی الله صاحب او ران کی دینی خدمات

مولانا سحبان محمود

الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ، أما بعد:
امام الہند حضرت شاہ ولی الله صاحب رحمة الله علیہ دہلی میں 4 شوال، بدھ کے دن1114ھ مطابق1704ء میں پیدا ہوئے، آپ کا اصلی نام احمد ولد عبدالرحیم ہے، تاریخی نام عظیم الدین ہے، آپ کا ایک لقب خواجہ بختیارکاکی کی وجہ سے قطب الدین اور دوسرا ”ولی الله“ ہے، یہ لقب ایسا مشہور ہوا کہ اصلی نام پر غالب آگیا، آپ کے والد ماجد شاہ عبدالرحیم بن وجیہ الدین ہیں، شاہ وجیہ الدین یعنی آپ کے دادا عالمگیر کی فوج میں ممتاز عسکری منصب پر فائر تھے، ریٹائر ہو جانے کے باوجود شوق شہادت میں جہادوں میں شرکت کرتے، ان کی یہ آرزو پوری ہوئی او رایک معرکہ میں شہید ہو گئے۔ آپ کے والد شاہ عبدالرحیم صاحب  نے سپہ گری کے ساتھ علوم دینیہ حاصل کیے او رتمام علوم اسلامیہ میں ایسا کمال حاصل ہوا کہ جب عالم گیر رحمة الله علیہ نے فتاوی عالم گیری مرتب کرائے تو اس پر نظر ثانی جیسی اہم خدمات شاہ عبدالرحیم صاحب  کے سپرد کی گئی، آپ جس طرح قرآن وسنت کے علوم میں سند تھے اسی طرح تصوف وسلوک میں سلسلہٴ نقش بندیہ کے بلند پایہ اور صاحب کشف وکرامات بزرگ تھے… شاہ عبدالرحیم صاحب  کو بشارت ہوئی کہ تمہارے یہاں ایک فرزندارجمند بلند اقبال پیدا ہو گا۔ جب آپ کی بیوی بوڑھی ہو گئیں اور فرزند پیدا نہ ہوا تو آپ نے دوسرا نکاح کیا۔ اس وقت ساٹھ سال کی عمر ہو چکی تھی، لوگوں نے کہا بھی کہ اس عمر میں نکاح سے کیا فائدہ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ابھی میری کافی عمر باقیہے اور میری اولاد بھی ہونے والی ہے، چناں چہ شاہ ولی الله صاحب تولد ہوئے، چوں کہ آپ کی ولادت کی بشارت منجانب الله دی گئی تھی، اس لیے آپ کا لقب”ولی الله“ تجویز ہوا۔

شاہ ولی الله رحمة الله علیہ دوسرے بچوں کے برخلاف نہایت تیزی سے نشو ونما پانے لگے، کھیل کود سے متنفر او راپنے ہم عصر ساتھیوں سے بالکل جدا رہتے، آپ نے سات سال کی عمر میں پورا قرآن کریم حفظ کر لیا، پھر عربی، فارسی او راس زمانہ کے مروجہ علوم کی تکمیل دس سال کی عمر میں کر لی، اس کے بعد اپنے والد صاحب سے حدیث ،تفسیر اور فقہ وغیرہ کو حاصل کیا اور بارہ سال کی عمرمیں فارغ التحصیل ہو گئے، پھر والد محترم کے سلسلہ میں داخل ہو کر سلوک وطریقت کے منازل طے کیے، چودہ سال کی عمر میں اس میں بھی کامل ہو گئے او رخلافت سے نوازے گئے، اسی عمر میں اپنے والد صاحب کے مدرسہ میں استاد مقرر ہوئے اور درس وتدریس کے ذریعہ اس کم عمری میں آپ کا فیض جاری ہو گیا، سترہ سال کی عمر میں آپ کا نکاح ہوا اوراسی سال والد صاحب کی وفات ہو گئی، اس کے بعد ہر طرف سے یکسو ہو کر درس وتدریس کے ذریعہ ہمہ تن دین کی خدمت میں مشغول ہو گئے، 1143ھ میں جب آپ کی عمر انتیس کی تھی، حج کے ارادے سے حجاز مقدس کا سفر کیا، وہاں ایک سال دو مہینے قیام رہا، جس میں آپ نے دو حج کیے اوروہاں کے علماء ومشائخ او رالله والوں سے بھی پوری طرح فیض حاصل کیا، 1146ھ میں آپ دہلی واپس آگئے اور تصنیف وتالیف اورامت کے اصلاحِ حال میں مشغول ہو گئے، 29 محرم1476ھ میں اکسٹھ سال کی عمرمیں آپ کی وفات ہو گئی۔

حضرت شاہ ولی الله رحمة الله علیہ کی ہمہ پہلو او رجامع شخصیت اور آپ کی دینی وملی خدمات کا اندازہ لگانے کے لیے اُس زمانہ کے سیاسی، تاریخی اور ملکی حالات، مسلمانوں کے مختلف طبقوں کے جذبات اور طرز عمل ، پیش آنے والے سنگین انقلابات اور ان کے ردّ عمل او رحضرت شاہ صاحب کی اصلاحی کوششوں کا انداز معلوم ہونا ضروری ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ اور نگ زیب عالم گیر کے بعد سلطنتِ مغلیہ روبزوال ہونا شروع ہوئی، خود عالم گیر کے دور میں بھی فتنوں نے سر اٹھایا، جن کی سرکوبی کے لیے ان کو مسلسل جہاد کرنا پڑا۔ جنوبی ہند سے ایک غیر اسلامی سیاسی تحریک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑی قوت اور شان وشوکت کے ساتھ اٹھی اور پنجاب میں ایک تحریک جو ابتداءً مذہبی تھی عالم گیر کے بعد وہ بھی سیاسی قوت بن کر ابھری، جس نے مسلمانوں اور سلطنت ِ مغلیہ سے تصادم کا راستہ اپنایا، خود حکومت نااتفاقی اورحکام کی عیاشیوں کی وجہ سے روز بروز کم زور ہونے لگی، مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ برائے نام اسلام کے نام لیوا تھے، خود غرض اور غلط راہ نماؤں نے مسلمانوں کی دینی حمیت، اسلامی غیرت اور کفر کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہونے کی حیثیت کو نہ صرف کم زور کیا، بلکہ ان کا رخ معمولی معمولی باتوں میں باہمی خانہ جنگی کی طرف موڑ دیا۔ اُدھر بنگال اورمدراس کے ساحلی علاقوں پر سفید سام راج اپنی گرفت مضبوط کرکے للچائی ہوئی نظروں سے ملک کے اندرونی علاقوں خصوصاً دہلی کو دیکھنے لگا۔ اور غیر مسلم ریاستیں بھی خونی انتقام کا انتظام درپردہ کر رہی تھیں، سیاسی، بصیرت رکھنے والوں کی نظر سے نوشتہٴ دیوار پوشیدہ نہیں تھا اور درد مند مسلمان ان حالات کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل سے خوف زدہ تھے… ظاہر ہے کہ یہ حالات او ران کے نتائج شاہ صاحب جیسے ذکی، ذہین اور دور بین نگاہ رکھنے والے سے کیسے پوشیدہ رہ جاتے؟!

اس ماحول کی روشنی میں حضرت شاہ صاحب کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک والد صاحب کی وفات سے سفر حج تک، جب کہ آپ کی عمرصرف انتیس سال تھی، یہ زمانہ آپ کی خاموش ،لیکن فکر وتدبیر کی زندگی کا ہے، جس میں علوم دینیہ اور اُس زمانہ میں رائج علوم کی تدریس وتعلیم آپ کا مشغلہ تھا۔ جس سے ایک جانب آپ کو ان علوم میں ایسا رسوخ اورکمال حاصل ہوا جس کی نظیر ہم عصر علماء میں نہیں ملتی، دوسری جانب ملکی حالات کے پس منظر میں آنے والے طوفانوں کے خفیہ اشارے محسوس کرکے ان سے نبرد آزما او رعہدہ برآہونے کی تدابیر پر بھی غوروغوض فرماتے رہے، جب آپ نے فیصلہ کن اقدام کا ارادہ فرمالیا تو کسی غیبی اشارہ کے ماتحت آپ نے ناساز گار حالات کے باوجود سفر حجاز کا ارادہ کر لیا، حالاں کہ اس وقت خشکی کے راستے محفوظ تھے نہ سمندری، باہمی خانہ جنگی کی وجہ سے جنگل تو جنگل دیہات اور بستی کا سفر بھی خطرناک تھا، سمندر بھی اس زمانہ میں پرت گیزی ، فرانسیسی اور دلندیزی جہازوں کی جو لانگاہ بنا ہوا تھا، جو حاجیوں کے جہازوں کو بھی نہیں بخشتے تھے، ان حالات میں صرف شاہ صاحب نے دوستوں کے منع کرنے کے باوجود سفر کیا اور حجاز مقدس پہنچ گئے۔ وہاں ظاہری وباطنی فیوض حاصل کیے اورگنبد خضرا کے قریب وہاں کے قیام کا اکثر حصہ حالت مراقبہ میں رہ کر گزارا۔ کون جانے کہ وہاں سے کیا کیا ہدایتیں ملیں، کیا کیا نوازشیں ہوئیں او رکیا کیا دیا گیا۔

وہاں سے واپسی کے بعد آپ کی زندگی کا دوسرا حصہ شروع ہوا جو وفات تک رہا، اس زمانہ میں حضرت شاہ صاحب نے اسلام اور مسلمانوں کی ہر لحاظ سے ایک خاص انداز میں خدمت کی اور تصنیف وتالیف کے ذریعہ قرآن وحدیث اور عقائد ومسائل کو مؤثر انداز اور سہل وسلیس زبان میں پیش کرنا شروع کیا۔ ابھی آپ کو حجاز سے واپس آئے ہوئے تین سال گزرے تھے کہ دہلی نادر شاہی یلغار کا شکار ہو کر برباد ہوئی، اس موقعہ پر عام مسلمانوں کی حضرت شاہ صاحب  نے ڈھارس بندھائی، ورنہ شرفا نے تو خود کشی کا تمام انتظام کر لیاتھا، اسی طرح آپ کی وفات سے تین سال پہلے جنوبی ہند سے ایک سیل بیکراں ایک لاکھ سے زیادہ لشکر پر مشتمل دہلی کو تباہ و برباد کرنے کے لیے امڈا تو آپ کی اور آپ کے ساتھ دوسرے اہل درد مسلمانوں کی کوشش سے غازی اعظم شاہ ابدالی رحمة الله علیہ نے اس سیلاب کو پانی پت کے میدان میں نیست ونابود کر دیا۔

اس دوران حضرت شاہ صاحب  کی دینی اور اصلاحی خدمات کا محور چند بنیادی باتیں ہیں ،جو آپ کی تصانیف میں جا بجا ملتی ہیں:
بادشاہ ، وزراء ا ور حکام کو خواب غفلت سے بیدار کرنا او ران کو الله تعالیٰ اور آخرت کا خوف دلا کر اخلاص او رانصاف کے ساتھ رعایا سے معاملہ کرنا کیوں کہ اس طبقہ کی اصلاح پورے ملک کی اصلاح کی ضمانت ہے۔

فوج کے افسران او رعام سپاہیوں کو سچا او رپکا مسلمان، اسلام کا سچا خادم بننے او راپنی تمام تر توانائیوں اورصلاحیتوں کو الله کا دین سربلند کرانے کے لیے وقف کرنے کی ترغیب دینا۔

صوفیا ومشائخ او راہل علم وفضل کو باہمی معمولی اختلافات کو پس پشت ڈال کر، امت کے منتشر شیرازہ کو جمع کرنے اور امت کے اتحاد کو مضبوط تر بنانے کی تلقین کرنا۔

عام مسلمان جو مختلف گروہی اختلاف کی دلدل میں پھنس کر مسلسل زوال پذیر ہو رہے تھے ان کو اس اختلاف سے دور رہنے کی تعلیم دینا، چوں کہ یہ اختلاف مزاج ِ دین اور علم دین سے ناواقفیت کی وجہ سے اکثر وبیشتر ہوتا ہے، اس لیے آپ نے ہر پہلو اور لحاظ سے امت کو دعوت دی کہ وہ اپنے آپ کو علم دین سے آراستہکرے اور دین کے تقاضوں پر زندگی کے تمام شعبوں میں عمل کرے اورآخر میں آپ کی دور بیں نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ جلد یا بدیر اس خطہٴ زمین پر اہل یورپ کا تسلط ہو جائے گا، جس کے ساتھ لا محالہ مغربی الحاد مسلمانوں کی ذہنی مرعوبیت کا عالم لائے گا، اُس الحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ نے مسلمانوں کو دو ہتھیار دیے، ایک آنے والے شبہات کا پیشگی جواب، جن کو اپنی مایہٴ ناز کتاب ”حجة الله البالغة“ میں جمع کر دیا، جس میں آپ نے احکام شریعت اور اس کے نظام کو عقل کی کسوٹی پر پیش کیا ہے، دوسری چیز قرآن کریم کا ترجمہ، جو آپ سے پہلے نہیں ہوا تھااوربعض مفاد پرستوں کی دھمکیوں کے باوجود اس کو آپ نے نہ چھوڑا، تاکہ عربی سے ناواقف پڑھے لکھے مسلمان اس ترجمہ کو پڑھ کر اپنے اسلامی عقائد پر مضبوط رہیں اور آنے والے الحاد سے متأثر نہ ہوں، تاریخ شاہد ہے کہ حضرت شاہ صاحب کی یہ کوششیں بار آور ہوئیں اور آج اسلام کی جڑیں جتنی اس خطہ میں مضبوط ہیں کہیں اور نظر نہیں آتیں۔الا ماشاء الله۔ وآخر دعوانا أن الحمدلله رب العلمین․

روشن مینار سے متعلق