علم وحکمت کے بے مثال نمونے

علم وحکمت کے بے مثال نمونے

مولانا بدر الحسن القاسمی

دین کے ساتھ”دانش“ کا ملنا الله کی بڑی نعمت ہے، حقیقی معنوں میں ”دانش ور“ کہلانے کا مستحق تو وہی ہے جس کی نظر انجام کا ر پر ہو او رمحض دنیا کی چمک دمک پر ریجھ نہ گیا ہو، بلکہ اس نے اپنی زندگی میں دین ودنیا کا توازن برقرار کھا ہو اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دی ہو، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت ”دانش ور“ کا اطلاق ان لوگوں پر کیا جانے لگا ہے، جو دینی تقاضوں سے غافل، دینی معلومات سے بے بہرہ، لیکن دنیا کے معاملہ میں شاطر اور چالاک ہوں، وہ لوگ جو مال ودولت یا جاہ وشوکت میں دوسروں سے امتیاز رکھتے ہوں، خواہ وہ آخرت کے تقاضوں کو فراموش کرکے کتنی ہی بے دانشی کا ارتکاب کیوں نہ کر رہے ہو۔

انسان کا دماغ ایمان کے نور سے منور اور دل اخلاص سے معمور ہو، تو اس کی زبان سے حکمت ودانائی کی ایسی باتیں نکلنے لگتی ہیں، جن کو سن کر لوگوں کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں اور لوگ ان کی ذہانت وذکاوت پر واہ واہ کرنے لگتے ہیں۔

آئیے! ذیل میں چند حقیقی ”دانش وروں“ کی زبان سے جاری ہوئے حکمت ریزوں کا جائزہ لیتے ہیں:
قاضی یحییٰ بن اَکثم… تاریخ ِ اسلامی کے ایک نامور عالم، فقیہ اورماہر ونکتہ رَس قاضی گزرے ہیں، ان کی عمر صرف 20 سال کی تھی، جب انہیں بصرہ کا قاضی متعین کیا گیا تھا، چناں چہ جب وہ اپنے عہدے کا چارج لینے کے لیے بصرہ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے انہیں کمسن سمجھ کر مذاق اڑانا چاہا، ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت قاضی صاحب کا سن شریف اس وقت کیا ہے؟ یا آپ کتنی عمر کے ہیں؟ قاضی یحییٰ چوں کہ بلا کے ذہین اور حاضر جواب تھے، انہوں نے کہا کہ :

”میری عمر اس وقت حضرت عتاب بن اسید  سے زیادہ ہے،جب نبی اکرم صلی الله علیہ و سلم نے ان کو فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ کا قاضی متعین فرمایا تھا اور میر ی عمر اس وقت حضرت معاذ بن جبل  سے بھی زیادہ ہے،جن کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا اورمیری عمر حضرت کعب بن ثور سے بھی زیادہ ہے جن کو حضرت عمر نے بصرہ کا قاضی بنا کر بھیجا تھا“۔

ان کے علم او ران کی ذہانت پر مبنی اس جواب کے بعد اب کس میں ہمت تھی کہ ان کی کمسنی پر اعتراض کرے یا ان کا مذاق اڑائے؟ انہوں نے اپنے پیش روتین ایسے قاضیوں کے نام لیے جن کی عمریں قضا کے منصب پر فائز ہونے کے وقت ان سے کم تھیں، پھر نہایت کام یابی سے انہوں نے اپنے منصب کے تقاضوں کو پورا کیا؛ چناں چہ کام یاب ترین قاضیوں میں ان کا شمار ہوا۔

قاضی یحییٰ بن اَکثم سے ایک شخص نے سوا ل کیا کہ:
عزت مآب قاضی صاحب! مجھے کتنا کھانا چاہیے؟
انہوں نے برجستہ کہا کہ : ”بھوک سے زیادہ اور شکم سیری سے کم“۔

پھر اس نے سوال کیا کہ مجھے کتنا ہنسنا چاہیے؟
”اتنا کہ جس سے تمہارے چہرے پر بشاشت ظاہر ہو جائے اور زیادہ آواز نہ نکلے“۔

پھر اس نے کہا کہ مجھے کتنا رونا چاہیے؟
قاضی صاحب نے کہا کہ :” الله کے خوف سے رونے سے اکتایا نہ کرو“۔

پھر اس سر پھرے نے کہا کہ مجھے اپنے اچھے عمل کو کس حد تک چھپانا چاہیے؟
قاضی صاحب نے فرمایا کہ:”جنا چھپا سکو“۔

اس نے کہا کہ کتنا ظاہر کرنا چاہیے؟
تو قاضی صاحب نے فرمایا کہ : ”اتنا جس سے دوسروں کو نیکی کی ترغیب ہو اور تمہارے بارے میں لوگ چہ مگوئیاں نہ کریں“۔ (طبقات الحنابلہ:1/412)

اس سے بھی قاضی یحییٰ بن أکثم کی بے پناہ ذکاوت اور غیرمعمولی حاضر جوابی کا اندازہ ہوتا ہے ،یعنی الله نے ان کو علم دین کے ساتھ ”دانش“ کی دولت سے بھی بہرہ ور کیا تھا۔

امام احمد بن حنبل… نامور محدث اور فقیہ گزرے ہیں، ان کا شمار چار معتمد فقہی دبستانوں میں سے ایک کے بانیوں میں ہوتا ہے، انہوں نے مسند احمد بن حنبل کے نام سے چالیس ہزار حدیثوں پر مشتمل ایک گراں قدر مجموعہ مرتب فرمایا، انہوں نے فتنہ خلق قرآن کے موقع پر غیر معمولی عزیمت کا ثبوت دیا، ان کے بیٹے عبدالله کا بیان ہے کہ میں ایک دن اُن کی خدمت میں بیٹا ہوا تھا کہ ”کرخ“ کے رہنے والوں کا ایک قافلہ آیا اور انہوں نے خلفائے راشدین کی خلافت کے بارے میں اور خاص طور پر حضرت علی بن ابی طالب کے بارے میں بحث وگفت گو شروع کر دی، امام عالی مقام سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی، انہوں نے فرمایا کہ :
قد أکثر تم القول فی علی وخلافة علی
إن الخلافة لم تزین علیاً بل علی زینھا

”تم لوگوں نے حضرت علی او ران کی خلافت کے بارے میں غیر ضروری باتیں شروع کر دی ہیں، یاد رکھو کہ خلافت نے حضرت علی  کی شان نہیں بڑھائی، بلکہ حضرت علی  کی وجہ سے خلافت کی شان میں اضافہ ہوا تھا۔“
امام احمد کی اس تنبیہ نے لوگوں کی زبانیں بند کر دیں اور فتنہ رفع دفع ہو گیا اور حقیقت یہ ہے کہ گزرے ہوؤں کی تاریخ پر تنقید وتبصرہ میں ہمہ وقت مشغول رہنے والوں کو قرآن کی اس حکیمانہ ہدایت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ:
﴿تلک امة قد خلت لھا ماکسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون﴾․

”یہ وہ قوم ہے جو گزر چکی ، اس کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا اورتمہار ے لیے وہ ہے جو تم عمل کرو گے او ران کے اعمال کے بارے میں تم سے باز پرس نہیں ہوگی۔“

اور خاص طور پر صحابہ کرام کی زندگیوں کو نقد وطعن کا نشانہ بنانا دین کے بھی منافی ہے اور ”دانش“ کے بھی۔
عبدالله بن المبارک… اپنے علم وفضل، تقویٰ وطہارت اورجذبہٴ جہاد واخلاص کے لحاظ سے اسلامی تاریخ میں امتیازی شان رکھتے تھے، ان سے کسی نے سوال کیا کہ کب تک آپ علمی مشغلہ جاری رکھیں گے؟ اور علمی مسائل لکھتے رہیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ:”لعل الکلمة التي أنتفع بھا لم أکتبھا بعد․“ (سیر أ علام النبلاء:8/360)
”شاید کہ جو بات میرے لیے نفع بخش ہو وہ ابھی میں نے لکھی ہی نہ ہو۔“

یعنی یہ کام تو مرتے دم تک جاری رہنے والا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”علم“ سے نفع بھی انسان کو اسی وقت پہنچتا ہے جب وہ صحیح نیت رکھتا ہو، ورنہ اس کے علم سے دوسرے تو مستفید ہوسکتے ہیں، لیکن خود اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بڑے بڑے سائنس دانوں کی ایجادات سے ایک دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے، لیکن خود ان کو اس دنیا کی دولت وشہرت کے علاوہ ابدی زندگی کی راحت اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ حقیقت کی دریافت میں کام یاب ہو گئے ہوں اور دل ایمان کے نور سے معمور ہو گیا ہو۔

امام عبدالله بن المبارک کا ایک قدم حصول علم کے لیے اٹھتا تھا تو دوسرا جہاد اور الله کی راہ میں قتال کے لیے، ان کا ایک زریں ارشاد یہ بھی ہے کہ :
”جب کسی شخص کی اچھائیاں اس کی برائیوں پر غالب آجائیں تو اچھائیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا ، اسی طرح اگر اس کی برائیاں اچھائیوں پر غالب آجائیں تو اچھائیاں چھپ جایا کرتی ہیں“ ۔ (المحاسن:8/352)

دین نے انسانوں کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے سے منع نہیں کیا ہے، البتہ نعمتوں کے استعمال میں فضول خرچی واسراف اور نمود ونمائش سے ضرور منع کیا ہے، حضرت عبدالله بن عباس  کا ارشاد ہے:”کل ماشئت ، والبس ما شئت، ما أخطأتک خصلتان: سرف ومخیلة․“

”تمہارا جو جی چاہے کھاؤ اور جو چاہو پہنو، بشرطیکہ تم میں دوخصلتیں نہ ہوں، فضول خرچی اور دوسرے تکبر وخود نمائی۔“

میمون بن مہران کا کہنا ہے کہ:…”مال کے معاملہ میں پہلی بات تو ضروری یہ ہے کہ پاک اور حلال ہو، دوسرے یہ کہ انسان پر جو مالی حقوق ہیں، ان کی ادائیگی میں انسان چاق وچوبند رہے، تیسرے یہ کہ اسراف اور فضول خرچی سے باز رہے، یہ تینوں امور اگر صحیح ہوں تو آدمی کام یاب کہلا سکتا ہے۔“

”دین“ بھی یہی کہتا ہے اور ”دانش“ کا تقاضا بھی یہ ہے کہ آدمی”مال“ کو الله کی نعمت سمجھے، سیر چشمی کے ساتھ مال کو برتے اور حلال وحرام کے درمیان تمیز کو بھی ترک نہ کرے،”روزی“ کی مقدار الله نے طے کر دی ہے ، ”حرام“ کی آمیزش سے اس میں اضافہ نہیں ہو گا، بلکہ ایسا کرنا اصل کی بھی تباہی کا ذریعہ بن جائے گا، اس لیے روزی کی طلب میں ”خوش اسلوبی“ کی راہ اپنانی چاہیے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد (أجملوا فی الطلب) کا مطلب بھی یہی ہے، یعنی طلب ِ رزق میں خوش اسلوبی اختیار کرو۔

مشہور نیک خصال بزرگ معروف کرخی فرماتے ہیں:” إذا أراد الله بعبد خیراً فتح علیہ باب العمل، وأغلق عنہ باب الجدل، وإذا أراد بعبد شراً أغلق علیہ باب العمل، وفتح علیہ باب الجدل․ (حلیة الأولیاء:8/361)

”جب الله تعالیٰ کسی بندہ کے بارے میں خیر کا ارادہ فرماتا ہے، تو اس کے لیے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے او رکج بحثی کی راہ بند کر دیتا ہے اوراگر کسی بندہ کے لیے برائی کا فیصلہ کرتا ہے تو اس پر عمل کا دروازہ بند کر دیتا ہے اور کج بحثی کی راہ کھول دیتا ہے۔“

اور حقیقت یہی ہے کہ جو قوم ترقی او رعروج کی راہ پر گام زن ہو اس کی قوت ِ عمل بڑھ جایا کرتی ہے اور لا یعنی بحثوں، غیر ضروری مناظرہ بازیوں سے وہ باز رہا کرتی ہے، جب کہ روبہ زوال قوم تعمیری کاموں اور اچھے عمل سے دور اور روز وشب غیر ضروری بحثوں اور کٹ حجتیوں میں مشغول رہا کرتی ہے اور عام لوگ ہی نہیں، پڑھے لکھے حضرات او رعلمائے دین بھی مرغوں کی طرح ”چونچ زنی“ اور مینڈھوں کی طرح ”سینگ بازی“ کے ذریعہ ارباب ِ دنیا کی خوش نودی حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں؛ جو”دین“ کی تعلیمات کے بھی منافی ہے اور عقل ودانش کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔

امام عبدالرحمن ابن الجوزی… تاریخ اسلام کی نامور شخصتیوں میں سے ہیں، مفسر ، محدث، فقیہ ہونے کے ساتھ بلند پایہ واعظ اور ادیب بھی تھے، ان کے وعظوں میں بلا کی تاثیر ہوا کرتی تھی، ان کی تقریروں میں عام لوگوں کے ساتھ علماء اور امراء بھی ذوق وشوق سے شرکت کیا کرتے تھے اوران کی وعظ کی مجلس سے ہزاروں افراد اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اٹھتے تھے۔ ان کے بارے میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں:”کان رأسا فی التذکیر بلا منازعة، یقول النظم الرائق، والنثر الفائق بدیھاً، ویسھب ویعجب ویطرب ویطنب، لم یأت قبلہ ولا بعدہ مثلہ، فھو حامل لواء الوعظ والقیم بفنونہ․“

”واعظوں کے سرخیل اور خطیبوں کے پیشوا تھے، ان کا کوئی مثیل نہیں تھا، نہایت شان دار نظم اور بڑی شگفتہ نثر فی البدیہہ لکھنے او رکہنے پر قادر تھے، لمبی تقریر کرتے اور دلوں کو جیت لیا کرتے تھے او ران کی طویل گفت گو پر لوگ وجد کرنے لگتے تھے، اس فن میں نہ تو ان سے پہلے کوئی ان کا ہم پلہ شخص آیا اور نہ ان کے بعد، وہ یقینا وعظ ونصیحت کے میدان کے شہسوار اور اس کی انواع واقسام پر دست رس رکھنے والے عظیم انسان تھے۔“

ان کے نواسے ابوالمظفر کا بیان ہے کہ: ”سمعت جدی علی المنبر یقول: کتبت بأصبعی ھاتین ألفی مجلدة، وتاب علی ویدی مأة ألف، وأسلم علی یدی عشرون ألفا․“(سیرأعلام النبلاء:2/367)

”میں نے اپنے نانا کو ممبر پر یہ کہتے سنا کہ میں نے اپنی ان دو انگلیوں سے دو ہزار جلدیں لکھی ہیں او رمیرے ہاتھوں پر ایک لاکھ آدمی تائب ہوئے اور کم از کم بیس ہزار افراد نے اسلام قبول کیا ہے۔“

علامہ ابن جوزی سے جو حکیمانہ باتیں منقول ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ :” من قنع طاب عیشہ، ومن طمع طال طیشہ․“ (21/372)

”جو شخص قناعت کو اپنا شیوہ بنالے اس کی زندگی خوش گوار ہو جاتی ہے اور جو حرص وآرزوکا غلام بن جائے اس کی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔“

اپنے وقت کے ایک حکم راں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”یا أمیر! اذکر عند القدرة عدل الله فیک، وعند العقوبة قدرة الله علیک، ولا تشف غیظک بسقم دینک․“(21/371)

”اے شاہزادے! قدرت کے وقت اپنے بارے میں الله کے عدل کو فراموش نہ کیا کر واور سزا دیتے وقت اپنے اوپر الله کی قدرت کو نہ بھولا کرو او راپنے غصہ پر عمل کرکے اپنے دین کو خراب نہ کیا کرو۔“

ایک شخص نے امام ابن الجوزی سے کہا کہ آپ کی مجلس ِ وعظ کے شوق میں رات مجھے نیند نہیں آئی تو بجائے خوش ہونے کے انہوں نے کہا کہ:” لأنک ترید الفرجة، وإنما ینبغی أن لا تنام اللیلة․“

”یہ اس وجہ سے تھا کہ تم تماشا دیکھنا چاہتے ہو، ورنہ چاہیے تو یہ تھا کہ ( تقریر سننے کے بعد) تم آج کی رات نہ سوتے۔“

خلیفہ وقت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:” إن تکلمت خفت منک، وإن سکت ّ خفت علیک، وأنا أقدم خوفی علیک علی خوف منک، فقول الناصح: اتق الله خیر من قول القائل: أنتم أھل بیت مغفور لکم․“(21/322)

”اگر میں ( حق بات ) بولوں تو آپ سے ڈر لگتا ہے او رخاموش رہوں تو آپ کے بارے میں اندیشہ ہوتا ہے؛ اس لیے میں آج آپ سے خوف پر آپ کے بارے میں خوف کو ترجیح دیتا ہوں، کیوں کہ کسی نصیحت کرنے والے کا یہ کہنا کہ : الله سے ڈرو، اس سے بہتر ہے کہ وہ کہے کہ آپ تو ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی مغفرت ہوچکی ہے، آپ کو کسی اندیشہ کی ضرورت نہیں ہے۔“

بادشاہ ِ وقت کو نصیحت کرنے کے لیے اس بلیغ تمہید سے اندازہ ہوتا ہے کہ الله نے ان لوگوں کو دلوں تک پہنچنے کا کیسا بے پناہ ملکہ دیا تھا اور کیسا بیش بہا نسخہ عطا فرمایا تھا او ران میں ”دین“ کے ساتھ ”دانش“ اور علم کے ساتھ ”جرأت“ اور”بے باکی“ کو کس طرح جمع کر دیا تھا۔