حضرت خواجہ باقی بالله رحمة الله علیہ

حضرت خواجہ باقی بالله رحمة الله علیہ

محترم سید عمران فیصل

نام رضی الدین،972ہجری میں شہر کابل میں پیدائش، والد ماجد کا نام قاضی عبدالسلام۔ والد اپنے علاقے کے چیف جسٹس ہونے کے ساتھ ساتھ عالم ِ باعمل اور صاحب ِ وجدوحال وفضل وکمال بزرگ تھے۔ والدہ بھی بہت پرہیز گار خاتون تھیں۔ اگرچہ نقش بندی سلسلہ کے بانی حضرت بہاء الدین نقش بندی ہیں، لیکن اس سلسلہ کی اشاعت آپ نے ہی کی اور نقش بندی سلسلہ میں ذکر کے طریقہ کو بھی آپ نے ہی تجویز کیا۔

تحصیل ِ علم
لڑکپن ہی سے آپ کے چہرہ سے جذب ِ الہٰی کے آثار عیاں تھے۔ آپ نے حضرت مُلاّ محمد صادق حلوائی رحمة الله علیہ سے علوم ظاہری کی تحصیل کی۔ آپ نے آٹھ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں علم وعمل کا آفتاب بن کر چمکنے لگے اوراپنے زمانے کے اہل علم میں شہرت ِ عام حاصل کر لی۔ علم کی جستجو میں آپ نے ماوراء النہر، سمر قند، بلخ، بدخشاں اور ہندوستان کے علاوہ مختلف علاقوں کا سفر اختیار فرمایا۔۔ مختلف اکابر اولیاء کی صحبت وخدمت میں رہ کر بے شمار روحانی فیوض وبرکات حاصل کیے۔

آپ کے عزیز واقارب اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے اوران کی خواہش تھی کہ تکمیل تعلیم کے بعد آپ بھی سرکار سے منسلک ہو جائیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ تحصیل ِ علوم ابھی جاری تھی کہ بعض ایسے معامالات پیش آئے جن سے آپ کی توجہ حقیقت ومعرفت کی طرف ہوگئی۔

تلاشِ حق کا سفر
اب کسی مرشد وراہ نما کی تلاش ہوئی ۔ مختلف بزرگوں کی خدمت میں حاضری دی، لیکن صفائی قلب اور تسکین میسر نہ آئی۔ بالآخر امیر عبدالله بلخی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہاں طبیعت کو کچھ استقامت حاصل ہوئی، آئینہٴ دل صاف ہوا اور مدارج ِ روحانی میں ترقی ہوئی، تاہم دلی پیاس کم نہ ہو سکی۔ چناں چہ پیر ِ کامل کی جستجو جاری رہی۔ اسی تلا ش میں ہندوستان آگئے اور کشمیر میں شیخ بابا ولی رحمة الله علیہ سے کسب فیض کیا۔

شیخ بابا ولی رحمة الله علیہ ترکستان کے باسی اور شیخ حسین خوار زمی رحمة الله علیہ کے خلیفہٴ خاص تھے۔999ء میں کشمیر تشریف لائے۔ دو سال بعد مرزا یادگار نے، جس نے اکبر کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا تھا ،انہیں زہر دے دیا۔ خواجہ محمد اعظم لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب دو سال تک شیخ بابا ولی کی صحبت میں رہے۔ بعد ازاں سنبھل میں شیخ الہٰ بخش سنبھلی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مرشد کی تلاش میں وہ جا بجا گئے۔ آخر دہلی پہنچے، چشتیہ سلسلے کے نام ور بزرگ شیخ عبدالعزیز کی خانقاہ میں مقیم ہوئے او ران کے صاحب زادے شیخ قطب العالم کی خدمت میں رہ کر عبادت ِ الہٰی میں مشغول ہو گئے۔

شاہ ولی الله رحمة الله علیہ اپنی تصنیف ”انفاس العارفین“ میں لکھتے ہیں: ”ایک رات شیخ قطب العالم پر منکشف ہوا کہ حضرت خواجہ کا حصہ بخارا میں ہے۔ وہ اسی وقت باہر آئے اور حضرت خواجہ سے کہا کہ آپ کو مشائخ بخارا بلاتے ہیں ، روانہ ہو جائیے۔ یہ سن کرحضرات خواجہ اسی وقت بخارا روانہ ہو گئے۔“

ماوراء النہر میں آپ امکنہ(مضافات ِ سمرقند) کے قریب مولانا خواجگی رحمة الله علیہ کی خدمت میں پہنچے۔ انہوں نے کمال ِ محبت سے آپ کو نقش بندی سلسلے کی تعلیم دی، خلافت عطا کی اور ہندوستان واپسی کا حکم دیا۔

مولانا ہاشم اپنی تصنیف ”زبدة المقامات“ میں مولانا خواجگی رحمة الله علیہ کے بعض عزیزوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جب حضرت خواجہ رحمة الله علیہ کو چند روز کی حاضری کے بعد خلافت مل گئی تو مولانا کے قدیمی دوستوں نے شکایت کی۔ مولانا نے فرمایا کہ اس کا معاملہٴ تربیت کمال کو پہنچا ہوا تھا ،فقط تصحیح احوال کی ضرورت تھی۔

ہندوستان آمد
ایک دن حضرت خواجگی رحمة الله علیہ نے فرمایا:”اب تم بلاد ِ ہند میں جاؤ، وہاں تم سے طریق ِ نقش بندیہ کی رونق ظاہر ہو گی۔“ چوں کہ آپ کی مزاج میں انکساری بہت تھی، اس لیے اس خدمت کے اختیار کرنے سے معذرت کی۔ حضرت خواجگی رحمة الله علیہ نے استخارہ کے لیے فرمایا۔ استخارہ کرنے سے عالم رویا میں معلوم ہوا کہ ہند میں ایک کامل الاستعداد مجدد الف ثانی رحمة الله علیہ تمہاری صحبت میں رہیں گے، تمہارے کمالات اُن کے ذریعہ سے ظاہر ہوں گے، تم کو اُن سے اور اُن کو تم سے ایک حلاوت ملے گی۔

آپ نے اپنے مرشد کے حسب الارشاد بلادِ ہند کا ارادہ فرمایا، پہلے لاہور میں رونق افروز رہے، وہاں بہت لوگ آپ سے فیض یاب ہوئے، وہاں سے شہر دہلی میں تشریف لے آئے۔ دہلی قلعہ کے قریب جمنا کنارے فیروزیہ ایک خو شنما مقام تھا اور وہاں ایک بہت بڑی مسجد بھی واقع ہے۔ الله والوں کو ایسے ہی مقام کی خواہش رہتی ہے، اس لیے آپ کو بھی یہی مقام پسند آیا اور وصال تک یہیں تشریف فرمارہے۔

دربار ِ اکبری میں دین ِ الہٰی کا سدِّ باب
آپ کی دہلی تشریف آوری کے پانچ چھ سال کے اندر روحانی حلقوں میں انقلاب برپا ہو گیا۔ علماء ومشائخ اور عامة المسلمین کے علاوہ اُمرائے سلطنت بھی آپ کے حلقہٴ بیعت میں شامل ہونے لگے۔ نواب مرتضیٰ خان فرید بخاری، عبدالرحیم خان خاناں، مرزا قلیج خان اور صدر جہاں وغیرہم بھی آپ کے نیاز مندوں میں شامل ہونے لگے۔ آپ نے دور ِ اکبری کے منفی اثرات کو زائل کرنے کے لیے ایک خاص حکمت عملی کے تحت، بشمول انہی راسخ العقیدہ امراء وعلماء وصوفیا کے، ایک جماعت تیار کی، جن میں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی بھی شامل تھے۔

آپ نے اکبر کے دربار سے وابستہ امراء کے طبقے کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دی۔ یہ آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اکبر کے عہد میں دین ِ الہٰی کے نام پر جو لامذہبیت پیدا ہو رہی تھی اس کا خاطر خواہ سد باب ہوا اور طبقہ امراء میں مذہب سے وہ اُنس پیدا ہو گیا جس کے سامنے اکبر کے دین الہٰی خیالات فروغ نہ پاسکے۔

اکبر نے ابوالفضل اور فیضی کی مدد سے ”دین الہٰی“ کے نام سے مذہب کے اندر جو بدعتیں ایجاد کیں، انہیں دور کرنے کے لیے فوری طور پر کوئی شخصیت سامنے نہیں آئی تھی۔ اگرچہ عہد ِ اکبری میں علماء وصلحاء کی کوئی کمی نہ تھی۔ مؤرخین ِ عہد نے ان کے ناموں کی طویل فہرستیں دی ہیں، لیکن زیادہ تر بزرگوں نے عہد ِ اکبر ی کی مذہبی بوالعجبیاں روکنے کے لیے مؤثر کوششیں نہیں کیں۔ ان میں سے جو غالی وحدت الوجودی خیالات رکھتے تھے، مثلاً شیخ امان پانی پتی کے مرید تو اکبر کی مذہبی اختراعات میں اس کے شریک کار ہو گئے۔ جو شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کی طرح اس تصرف ِ دین سے متنفر تھے، وہ دربار سے کنارہ کش ہو کر گوشہٴ تنہائی میں الله الله یاد رس وتدریس کرنے لگے۔

مخدوم الملک اور شیخ عبدالنبی، صد الصدور کو آپس کی مخالفتوں اور دوسری کم زوریوں نے بے اثر کر دیا تھا۔ جون پور کے ملّا محمد یزدی اور پنجاب کے علماء اکبر کی تعزیری کارروائیوں کا شکار ہو گئے۔ لہٰذا فتنے کا سدباب اور حالات کی اصلاح کسی سے نہ ہو سکی۔ ایسے پُرآشوب دور میں صرف ایک بزرگ نے دربار ِ اکبری کے مذہبی رحجانات کے خلاف مستحکم محاذ قائم کیا اور وہ تھے حضرت خواجہ باقی بالله رحمة الله علیہ۔

انہوں نے اپنی روحانی پاکیزگی، حکمت اور عظمت ِ کردار سے اکبر کے ارکان ِ سلطنت مثلاً شیخ فرید، قلیج خاں، صدر جہاں اور علماء ومشائخ، مثلاً حضرت مجدد الف ثانی رحمة الله علیہ اور شیخ عبدالحق محدث رحمة الله علیہ کے قلوب کو مسخر کر لیا۔ ہندوستان میں اسلامی روحانیت کی ایسی زبردست لہر دوڑادی اور اکبر کی براہِ راست مخالفت کیے بغیر اس طرح نئی دینی زندگی کا آغاز کیا کہ اس فضا میں اکبری رجحانات کا فروغ پاناناممکن ہو گیا۔

اکبری بدعتوں نے اگرچہ عام مسلمانوں کو متأثر نہیں کیا، لیکن اونچے طبقوں میں خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ عامة الناس بھی ان سے متأثر ہو جائیں۔ اس لیے اس طبقے کو اسلام سے قریب لانے کی بڑی ضرورت تھی۔ حضرت خواجہ رحمة الله علیہ نے اس طرف خاص دھیان رکھا اور خدا نے ان کی کوششوں میں بڑی برکت دی۔

ان حضرات نے علمائے سوء کے منفی کردار کے اثرات زائل کرنے کے لیے، اکبر بادشاہ کے بعد جہانگیر کی جانشینی پر، اس شرط کے ساتھ حمایت کی کہ وہ دین اسلام کی ترویج واشاعت میں ان کا حامی ہو گا۔

مزاج وخواص
آپ کی نظر کیمیا، توجہ اکسیر اور دعا مستجاب تھی۔ آپ سے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا۔ آپ بہت کم گو، کم خور اور کم خواب تھے۔

حضرت خواجہ باقی بالله رحمة الله علیہ دہلی میں رہتے تھے، ان کی خانقاہ میں ایک نان بائی حضرت کی خدمت کیا کرتا تھا، خصوصاً جب بھی کوئی وقت بے وقت مہمان آجاتا تو وہ مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر حاضر ہو جاتا،حضرت اس سے بہت خوش تھے۔ ایک مرتبہ حضرت خواجہ صاحب کے یہاں کچھ اہم مہمان آگئے، اس نان بائی نے دیکھا کہ موسم خراب ہے، مگر کچھ نیک قسم کے مہمان بے وقت آئے ہیں تو اس نے کھانا پکا کر حضرت خواجہ باقی بالله صاحب نوّرالله مرقدہ کی خدمت میں پیش کیا۔ خواجہ صاحب نے پوچھا: یہ کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ حضرت کے یہاں مہمان آئے ہیں، میں ان کے لیے کھانا لایا ہوں، قبول فرمالیں۔حضرت کو بہت مسرت ہوئی او ربے اختیار فرمایا کہ مانگ کیا مانگتا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے اپنے جیسا بنا دیجیے۔حضرت نے تھوڑی دیر تامل کرکے فرمایا کہ کچھ اور مانگ لو۔ اس نے کہا کہ نہیں، حضرت! بس یہی چاہیے۔ چوں کہ حضرت زبان ِ مبارک سے یہ فرماچکے تھے کہ مانگ کیا مانگتا ہے، اس لیے اس کو حجرہٴ مبارک میں لے گئے۔ نہ جانے وہاں کیسی توجہ دی کہ آدھ گھنٹے کے بعد جب حجرہ کھول کر باہر تشریف لائے تو دونوں کی صورت تک ایک ہو گئی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ حضرت خواجہ صاحب جیسے حجرے میں گئے تھے ویسے ہی باہر تشریف لے آئے، لیکن وہ طباخ مدہوشی کی حالت میں تھا اور کچھ دیربعد اسی حالت میں انتقال ہو گیا۔

دُکھی انسانیت کا درد
جس زمانے میں آپ لاہور پہنچے اس وقت اکبر بادشاہ اپنے درباریوں کے ساتھ وہیں مقیم تھا۔ اکبر بادشاہ کے بخشی بیگی، شیخ فرید بخاری نے جو نہایت رعایا پرور اور غریب دوست تھے، آپ کے روزینہٴ مصارف کی ذمے داری اٹھالی۔

”زبدة المقامات“ میں لکھا ہے کہ حضرت باقی بالله رحمة الله علیہ کی شفقت ورحم دلی کی کیفیت یہ تھی کہ ایک دفعہ لاہور میں سخت قحط پڑا، تو کئی روز تک آپ نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ جب آپ کے سامنے کھانا لایا جاتا، تو فرماتے:” یہ بات انصاف سے بعید ہے کہ کوئی بھوکا پیاسا گلی کوچے میں جان دے اور ہم کھانا کھائیں۔“ جس قدر کھانا ہوتا، وہ سارا مساکین کے لیے بھجوادیتے۔ شمالی ہندوستان میں یہ قحط 1595ء سے 1598ء تک رہا۔

دوگراں قدر موتی
شیخ قطب ِ عالم جن کی خانقاہ میں کچھ عرصہ حضرت نے یاد ِ خدا میں گزارا تھا۔ ان کے بیٹے شیخ رفیع الدین محمد کی شادی تھی۔ وہ مُصر ہوئے کہ حضرت خواجہ بھی اس میں شرکت کریں۔ ایک تو آپ کی طبیعت ناساز تھی، دوسرا شادی دہلی سے دور کے علاقے میں تھی۔ آپ نے ضعف وعلالت کی بنا پر معذرت چاہی، لیکن شیخ نہ مانے، بلکہ یہاں تک کہ کہا کہ اگر آپ نہیں آتے تو وہ شادی ہی نہیں کرتے۔ ان کے اصرار کو حضرت خواجہ رد نہ کرسکے۔ اس موقع کا ذکر کرتے ہوئے شاہ ولی الله رحمة الله علیہ ”انفاس العارفین“ میں لکھتے ہیں:”جب دیگر صوفیاء کو معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ اس تقریب میں آرہے ہیں، تو اہل الله کا بڑا ہجوم ہوا اور سو سو کوس تک کوئی مشہور صوفی نہ تھا جو حضرت خواجہ کی زیارت کے لیے اس تقریب میں شریک نہ ہوا ہو۔“

الله تعالیٰ نے اس شادی کو اسلامی ہندوستان کے لیے بڑا مبارک بنایا۔ شیخ رفیع الدین محمد کے ہاں اس زوجہ سے جو بیٹی پیدا ہوئی اس سے شاہ ولی الله جیسا یگانہٴ روز گار نواسا عطا ہوا۔

کچھ عرصے بعد حضرت مجدد الف ثانی رحمة الله علیہ نے آپ سے بیعت کی۔ اس بیعت کا دن ”زبدة المقامات“ میں 24جولائی1599ء درج ہے۔ مکتوبات امام ربانی میں آپ کے نام حضرت مجدد الف ثانی رحمة الله علیہ کے لکھے ہوئے 20 مکتوبات ہیں، جو دفتر اوّل یعنی پہلی جلد میں ادباً واحتراماً شروع میں رکھے گئے ہیں۔ ان میں آپ کے ذاتی احوال کے علاوہ علوم ومعارف کے بے شمار جواہر گراں مایہ شامل ہیں۔

عاجزی کا مرقع
حضرت خواجہ رحمة الله علیہ کی طبیعت میں مسکنت وانکسار بہت تھا اور وہ تالیف ِ قلوب کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ انہوں نے حضرت مجدد الف ثانی رحمة الله علیہ کی اتنی تعریف کی ہے کہ بعض کوتاہ فہم یہ امتیاز نہیں کر پاتے کہ دونوں میں حقیقی مرشد کون ہے۔

وہ عجز وانکسار میں اتنا غلو کرتے کہ جب کوئی طالب ان کے پاس بیعت کی غرض سے آتا تو وہ کسر نفسی سے یہی کہتے کہ :”میں اس کار ِ عظیم کے لائق نہیں، دوسری جگہ طلب کا دامن بڑھاؤ اور اگر کسی مرد کامل کا پتا ملے تو مجھے بھی خبر دینا، تاکہ اس کی خدمت میں پہنچوں۔“

ایک خراسانی نوجوان حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر معتکف تھا او رکسی مرشد سے ملنے کا طالب۔ اسے خواب میں اشارہ ہوا کہ نقش بندیہ سلسلے کے ایک مرد ِ کامل اس شہر میں آئے ہیں تو جاکر ان کی خدمت میں حاضر ہو۔ وہ خواجہ صاحب کی خدمت میں پہنچا اور اپنے خواب کا ماجرا بیان کیا۔

آپ نے کہا:” میں مرد ِ کامل کہاں؟ وہ کوئی اور بزرگ ہوں گے۔“ یہ کہا او رکثرت ِ انکسار سے اس طرح معذرت کی کہ وہ نوجوان بھی پلٹ گیا۔ دوسری رات اسے پھر اشارہ ہوا کہ یہ بزرگ وہی ہیں جن کی خدمت میں تم پہنچے تھے۔ عاجزی تو ان کا زیور ہے۔ چناں چہ وہ نوجوان پھر واپس آیا اور جب تک آپ نے اس کی را ہ نمائی قبول نہ کر لی وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔

ایک رات آپ نوافل پڑھنے کے لیے اُٹھے۔ سردی بہت زیادہ تھی، اس لیے آپ نے سوچا کہ باقی وظائف بستر پر بیٹھ کر پڑھ لینے چاہییں۔ آپ بستر پر گئے تودیکھا کہ ایک بلی آپ کے بستر پر سو رہی ہے۔ آپ نے اس کو سونے دیا اور باقی وظائف سخت سردی میں بستر سے باہر پڑھے۔

وصال
آپ کو طویل عمر نصیب نہیں ہوئی۔ دہلی میں آپ کا قیام تین چار سال سے زیادہ نہیں رہا۔ ابھی آپ نے عمر ِ عزیز کے چالیس سال ہی پورے کیے تھے کہ تمام روحانی نظام حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ کے سپرد فرماکر بروز شنبہ25/جمادی الثانی،1012 ہجری بعد نماز ِ عصر ذکراسم ذات کرتے ہوئے عالم ِ قدس میں جاپہنچے۔ آپ کا مزار دہلی میں فیروز شاہ کے قبرستان میں صحن ِ مسجد کے متصل واقع ہے۔