حضرت بِشر حافی رحمة الله علیہ

حضرت بِشر حافی رحمة الله علیہ

محترم سیّد عمران فیصل

نام ونسب… نام بشر بن حارث، کنیت ابو نصر، لقب حافی۔ والد کا نام حارث بن عبدالرحمن تھا۔

تاریخ ِ ولادت… آپ150ھ کو ”مَرو“ میں پیدا ہوئے۔ مروقدیم خراسان کا شہر تھا۔ خراسان کا علاقہ اب ترکمانستان کہلاتا ہے۔ مرو سلجوق دور ِ حکومت میں عالم اسلام کا ایک متمدن شہر تھا، جس میں بہت سے مسلمان علماء، فضلاء او رمحققین پیدا ہوئے۔ منگولوں نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔

بشر حافی کی توبہ… بشر حافی رحمة الله علیہ شراب کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ مختلف شہروں میں آپ کے کارخانے تھے، جہاں کثرت سے شراب کشیدکی جاتی تھی۔ شراب کی تجارت سے لاکھوں کماتے تھے۔ اس شراب نوشی اور حرام خوری کے باعث ان کا دل فکر آخرت سے بالکل غافل ہو چکا تھا۔

ایک مرتبہ آپ شراب کے نشہ میں دھت جارہے تھے کہ راستے میں کاغذ کا ٹکڑا ملا، جس پر ”بسم الله الرحمن الرحیم“ لکھا تھا۔ آپ نے اسے عزّت سے اٹھایا اور عطر لگا کر پاک جگہ پر رکھ دیا۔ رات کو خواب میں کہا گیا کہ اے بشر! تونے میرے نام کو معطر کیا، میری عزت کی قسم !میں نے بھی تیرے نام کو دنیا اور آخرت میں معطرکیا، اب جو کوئی تیرا نام سنے گا اس کا نام بھی معطر ہوجائے گا۔ (ابن خلکان، وفیات الاعیان:1/275) جب آپ خواب سے بیدار ہوئے تو فورا توبہ کی اور تقویٰ کاراستہ اختیار کیا اورتمام شراب خانوں کو آگ لگا دی۔ الله تعالیٰ نے آپ کے نام میں ایسی لذت رکھ دی کہ جو سنتا ہے اسے راحت حاصل ہوتی ہے۔

آپ کی توبہ کے بارے میں ایک روایت اس طرح بھی ملتی ہے کہ جب آپ نے کاغذ کے اس ٹکڑے کو راستہ سے اٹھا کر عزت سے صاف جگہ پر رکھا تو اسی رات خواب میں الله تعالیٰ نے اپنے ایک ولی کو حکم دیا کہ جاکر بشر سے کہو کہ تم نے ہمارے نام کی عزت کی اور اس کو معطر کرکے بلند جگہ پر رکھا ہم بھی اسی طرح تم کو پاک کرکے تمہارا مرتبہ بلند کریں گے۔ یہ حکم سن کر وہ بزرگ حیران ہو گئے ، دل میں سوچا کہ بشر تو فاسق فاجر آدمی ہے، وہ نہ صرف شراب پیتا ہے، بلکہ شراب خانے کا مالک بھی ہے، یقینا میرا خواب غلط ہے، چناں چہ دوبارہ سو گئے۔ پھر خواب میں و ہی حکم ہوا، لیکن وہ اپنی سمجھ کی غلطی جان کر پھر سو گئے۔ تیسری بار پھر دہی خواب دیکھا۔ اب وہ بزرگ صبح اٹھ کر آپ کے گھر تشریف لے گئے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ شراب خانے میں ہیں۔ وہاں گئے تو پتہ چلا کہ آپ نشے میں بے سدھ پڑے ہیں۔ بزرگ نے لوگوں سے کہا بشر سے کہو کہ میں تمہارے لیے الله تعالیٰ کا پیغام لایا ہوں۔ الله تعالیٰ کا نام سنتے ہی آپ ڈر گئے اور روپڑے کہ نہ جانے موت کا پیغام ہے یا عتاب الہٰی کا۔ ڈر کی وجہ سے سارا نشہ ختم ہو گیا۔ مگر جب پیغام سنا تو فوراً توبہ کر لی۔ دوستوں سے کہا اب تم مجھے اس کام میں کبھی نہ دیکھو گے۔ توبہ کے بعد آپ نے ریاضت ومجاہدہ شروع کر دیا۔ (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ،ج:10)

عربی زبان میں حافی ننگے پاؤں والے کو کہتے ہیں۔ آپ پر مشاہدات ِ حق کا اس قدر غلبہ تھا کہ ساری عمر جو تانہ پہنا اور ننگے پاؤں رہے۔ کسی نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ میں نے قرآن مجید میں پڑھا ہے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰھَا﴾․(الذّاریات:48) ہم نے زمین کو فرش بنا دیا۔ تو جس زمین کو شہنشاہ ِ حقیقی نے فرش بنایا اس فرش پر جوتے کے ساتھ چلتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے کہ میں الله کے بنائے ہوئے فرش پر جوتے لے کر چلوں۔ جب تک آپ زندہ رہے کسی چوپائے نے بغداد میں گوبر نہیں کیا کہ کہیں بشر کے پاؤں پر نجاست نہ لگ جائے۔ایک دن کسی آدمی کے ایک چوپائے نے راستے میں گوبر کر دیا۔ شور ہوا کہ لگتا ہے آج بشر دنیا سے اٹھ گئے۔ تحقیق کی تو یہ بات صحیح نکلی۔

مقام ومرتبہ
بشر کو صوفیوں کے مشائخ او رمقتدا میں سے قرار دیا جاتا ہے۔ (ابن خلکان، وفیات الاعیان:1/275)

آپ عالی مرتبت اولیاء میں سے تھے، علوم اصول کے زبردست عالم، کشف وکرامات او رمجاہدہ وریاضت میں کامل دست رس رکھتے تھے۔ عراق کے اوتاد اولیاء الله کا ایک خاص درجہ)میں سے تھے۔ آپ علی بن خُشْرَم رحمة الله علیہ کے بھانجے تھے اور گناہوں سے تائب ہونے کے بعد ان ہی سے بیعت ہوئے۔ اگرچہ آپ کی ولادت مرو میں ہوئی تھی، تاہم آپ نے ساری زندگی بغداد میں گزاری۔ آپ امام احمد بن حنبل اور فضیل بن عیاض رحمة الله علیہما کی صحبتوں میں بیٹھتے تھے۔ آپ راتوں کو اتنا طویل قیام فرماتے کہ تھک کر گر جاتے، پاؤں پر ورم آجاتا اور ایڑیاں پھٹ کر ان سے خون بہنا شروع ہو جاتا تھا، مگر آپ نہایت اطمینان سے عبادت ِ الہٰی میں مصروف رہتے تھے۔ آپ زُہد وتقویٰ اور ریاضت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔

حضرت بشر حافی نے احادیث سننے کے لیے کوفہ، بصرہ او رمکہ کا سفر کیا۔( ابن جوزی، صفوة الصفوہ:2) آپ نے حماد بن زید، عبدالله بن مبارک، مالک بن انس اور ابوبکر عیاش جیسی شخصیات سے احادیث سنیں۔ (البدایہ والنہایہ:10) آپ نے بغداد کے مشہور ائمہ شریک او رحماد بن زید سے بھی حدیث سنی۔ آپ کو ائمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی، جنید بغدادی، فضیل بن عیاض اور بشر حافی کی امام ابن تیمیہ نے بہت تعریف کی ہے او ران کا ناممتصوفة علی طریقة أھل السنة،یعنی اہل سنت کے طریقہ پر قائم صوفی رکھا۔(مجموعہ فتاوی شیخ الاسلام:3/377)

حضرت امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ بھی آپ کی خدمت میں آجایا کرتے تھے۔ اس پر آپ کے شاگرد کہتے کہ باوجود اس کے کہ علم ، فقہ حدیث اور اجتہاد میں آپ کی نظیر نہیں، آپ کا ایک مجذوب کے پاس جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ” میں کتاب الله کا عالم ہوں، لیکن بشر حافی الله کے عار ف ہیں۔ یعنی الله تعالیٰ کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔“ اسی وجہ سے امام صاحب آپ سے استدعا کرتے تھے کہ مجھے خدا کی معرفت کی باتیں بتائیں۔

حضرت بشر حافی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ نے فرمایا:” اے بشر! تو جانتا ہے کہ الله تعالیٰ نے تیرے ہم عصروں پر تجھے کیوں فوقیت دی؟“ میں نے عرض کیا کہ یا رسول الله! میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا:”باتباعک لسنتی، وخدمتک للصالحین، ونصیحتک لاخوانک، ومحبتک لاصحابی واھل بیتی، وھو الذی بلغک منازل الابرار“ میری سنت کی اتباع، صالحین کی خدمت، مسلمان بھائیوں کو نصیحت او رمیر ے اصحاب واہل بیت کی محبت کرنے کے سبب الله تعالیٰ نے تجھے پاک لوگوں کے مرتبہ میں پہنچایا۔ (سیر اعلام النبلاء:10/469)

حضرت بِشر حافی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ راہ ِ سُلوک کی ابتداء میں جزیرہٴ عبّادان کا قصد کیا۔ وہاں ایک اندھا، کوڑھی مجنون شخص زمین پر پڑا ہوا ہے اور چیونٹیاں اس کا گوشت کھا رہی ہیں۔ میں نے اس کا سر زمین سے اُٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور بار بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی۔ جب اس کو کچھ افاقہ ہوا تو کہنے لگا:” میرے اور رب عزوجل کے درمیان دخل اندازی کرنے والا یہ کون ہے؟ اگر وہ میرا ایک ایک عضو کاٹ ڈالے تو بھی میری محبت میں اضافہ ہی ہوگا۔“

حضرت بشر حافی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:”اس واقعے کے بعد سے میں نے بندے او ررب عزوجل کے درمیان کسی معاملے کو اذیت سمجھ کر اس کو ناپسند نہیں کیا۔“ (احیاء العلوم،ج:5)

وصال
بشر سن227 ہجری کو بغداد میں رحلت کر گئے۔ (ابن جوزی، صفوة الصفوہ،ج:2) اور بغداد میں باب الحرب نامی مقام پر دفن ہوئے۔ جب آپ کا وصال ہوا تو لوگوں نے آپ کے مکان سے جنوں کے رونے کی آواز سنی۔ آپ کا جنازہ نماز فجر کے بعد روانہ ہوا او رعشاء کے بعد قبرستان پہنچا، حالاں کہ اس زمانے میں قبرستان آبادی سے زیادہ دور نہیں ہوتے تھے۔ یہ روح پر ور منظر دیکھ کر علی بن المدینی ، ابو نصر التمارو دیگر ائمہ حدیث نے کہا کہ یہ آخرت کے شرف سے پہلے دنیا کا شرف ہے۔ (البدایہ والنہایہ ج:10)

امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابن عیینہ او رائمہ حدیث جن کے ناموں سے بخاری، مسلم اور دیگر کتب صحاح ستہ بھری پڑی ہیں ، وہ سب بشر الحافی کے جنازے کو کندھے دینے کے لیے موجود تھے۔ اس میں ائمہ حدیث کی حضرت بشر الحافی اور دیگر ائمہ تصوف سے عقیدت کی جھلک نظر آتی ہے۔

آپ کا انتقال ہوا تو تمام محدثین کو انتہائی رنج ہوا۔ امام احمد بن حنبل نے ان کی موت کی خبر سن کر فرمایا:”انہوں نے اپنی مثال نہیں چھوڑی۔“

بشر حافی کے انتقال کے بعد ایک الله والے نے خواب میں د یکھا اور پوچھا کہ الله تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ فرمایا کہ مجھے میرے مالک نے بخش دیا اور فرمایا کہ اے بشر! کیا تجھے مجھ سے شرم نہیں آتی کہ تو مجھ سے اس قدر ڈرتا ہے۔ (احیاء علوم، امام غزالی:4/510)

وصال کے بعد کسی نے آپ کو خواب میں دیکھا اور آپ سے پوچھا کہ خدا نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمایا میری بھی مغفرت کر دی اور ان کی بھی جو میرے جنازے میں شریک تھے او ران کی بھی جو مجھے قیامت تک دوست رکھیں گے۔ (سفینة الاولیاء:163)