حضرت ہشام بن عروة رحمةالله علیہ

idara letterhead universal2c

حضرت ہشام بن عروة رحمةالله علیہ

محترم جنید اشفاق اٹکی

ولادت

حضرت ہشام بن عروة  کی ولادت60ھ یا61ھ میں ہوئی۔ (الثقات لابن حبان:5/502)

صاحب”شذرات الذھب“ فرماتے ہیں کہ حضرت ہشام بن عروہ ، حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت امام زہری  اور حضرت امام اعمش  کی ولادت محرم61ھ کی ان راتوں میں ہوئی جن میں امام حسین  کی شہادت ہوئی تھی۔ (شذرات الذھب فی اخبار من ذھب:2/212)

پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی اور وہیں زندگی گزاری۔ (الاعلام للزرکلی:8/87)

آپ کا سلسلہ نسب یوں بنتا ہے:
ہشام بن عروہ بن الزبیر بن العوام ۔ (الکنی والاسماء للامام مسلم:2/771)

آپ کی کنیت ابو منذر ہے، بعض نے کنیت ابو عبدالله بتلائی ہے۔ (تہذیب التہذیب:4/275)

خاندانی شرف

حضرت ہشام کی والدہ ام ولد تھیں، خراسان سے تعلق تھا اور نام صافیة تھا۔ ( التمہید لابن عبدالبرج:14/22)
آپ کے والد، حضرت عروہ بن زبیر کا شمار مدینہ منورہ کے سات بڑے فقہاء میں ہوتا تھا، دادا حضرت زبیر بن العوام کا لقب حواری رسول تھا اور عشرة مبشرہ صحابہ کرام میں شامل تھے، یعنی وہ دس حضرات جن کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے دنیا میں جنت کی بشارت دی تھی ان میں سے ایک حضرت ہشام  کے دادا حضرت زبیر بن العوام بھی تھے۔ اس لحاظ سے حضرت ہشام  ایک جلیل القدر تابعی کے بیٹے اور ایک جلیل القدر صحابی کے پوتے تھے۔

آپ کے دادا حضرت زبیر بن العوام کے نکاح میں حضرت صدیق اکبر کی بڑی صاحب زادی، حضرت اسماء  تھیں۔ حضرت اسماء  کی چھوٹی بہن حضرت عائشہ صدیقہ  نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں۔ یعنی حضرت ہشام  کے دادا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ہم زلف تھے۔ حضرت اسماء کے بیٹے حضرت عبدالله بن زبیر، ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والے پہلے بچے تھے۔ بڑے بہادر او رصاحب عزیمت صحابہ کرام میں شامل تھے۔

صاحب صفة الصفوة لکھتے ہیں کہ عبدالله بن زبیر مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والے پہلے بچے تھے، جن کے کان میں ابوبکر صدیق نے اذان کہی تھی او رنبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے تحنیک فرمائی (گھٹی دی) تھی۔ (صفة الصفوة:1/302)

یہ رشتے میں حضرت ہشام بن عروة  کے چچا تھے۔

آپ کی بیوی کا نام فاطمہ تھا ،جو آپ کے چچا کی بیٹی تھیں اور آپ سے عمر میں تیرہ سال بڑی تھیں۔ حضرت ہشام  فرماتے ہیں کہ فاطمہ بنت المنذر مجھ سے تیرہ سال بڑی تھیں۔ ( رجال صحیح البخاری:2/770، رقم الترجمہ:1291)
فاطمہ کا سلسلہ نسب یوں بنتا ہے فاطمہ بنت المنذر بن الزبیر بن العوام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی۔ ( الطبقات الکبری: 8/348، رقم الترجمہ:4657)

فاطمہ سے حضرت ہشام کے دو بیٹے عروہ اور محمد پیدا ہوئے تھے۔ ( الطبقات الکبری:8/348، رقم الترجمہ:4657)
یہ ہیں حضرت ہشام بن عروة… والد جلیل القدر تابعی اور مدینہ منورہ کے بڑ ے فقیہ ہیں، دادا عشرہ مبشرہ صحابہ کرام  میں شامل ہیں، دادی صدیق اکبر کی صاحب زادی ہے، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ آپ کی دادی کی بہن ہیں۔ چچا جلیل القدر صحابی ہیں، ایسے گھرانے میں پیدائش ہی آپ کے لیے بڑے شرف کی بات تھی، پھر اس پر مستزاد یہ کہ خود بھی علوم ومعارف کی بلندیوں پر فائز ہوئے۔ اور آج تک آپ کا فیض جاری وساری ہے #
            وہ گنج گراں مایہ علومِ نبوی کا
            عالم میں اسی فیض کے دریا ہیں رواں آج

ابتدائی حالات

حضرت ہشام بن عروة  فرماتے ہیں کہ مجھے او رمیر ے بھائی محمد کو حضرت عبدالله بن عمر  کے پاس لایا گیا ، وہ مروہ پر تھے، ہمیں ان کی طرف اٹھایا گیا، انہوں نے ہمیں پکڑا، گود میں بٹھایا اور ہمارا بوسہ لیا۔ ( تاریخ بغداد:16/56، الرقم:7335)

ایک موقع پر آپ  نے فرمایا کہ میں نے حضرت عبدالله بن عمر  کی زیارت کی، آپ کی زلفیں دونوں کندھوں کے اطراف میں لہرا رہی تھیں۔ (سیر اعلام النبلاء:6/45)

آپ نے حضرت ابن عمر، حضرت سہل بن سعد، حضرت جابر اورحضرت انس رضوان الله تعالیٰ علہیم اجمعین کی زیارت کی تھی۔ (تہذیب التہذیب:4/275)

وہ تمام رنگ جو آپ کو کسی ایک رنگ میں رنگنے والے تھے، وہ آپ کو گھر کی چوکھٹ پر فراہم کر دیے گئے تھے #
            جو سات رنگ سے گزرے تو ایک رنگ ملا
            اس ایک رنگ سے گزرے تو دیدہ ور ٹھہرے

آپ کا علمی مقام ومرتبہ

حضرت ہشام بن عروہ  کے خاندان کی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے گھرانے سے براہ راست نسبتیں تھیں، خاندان کے اکثر افراد حدیث بیان کیا کرتے تھے۔ آپ کے والد مدینہ منورہ کے بڑے فقیہ تھے اور اپنی خالہ ام المومنین حضرت عائشہ  سے کثرت سے روایت نقل کرتے تھے۔ گویا علوم ومعارف کے وہ تمام دریا، جنہوں نے پور ی امت کو سیراب کرنا تھا وہ آپ کے گھر سے ہو کر گزرتے تھے۔ علمِ حدیث کا وافر حصہ آپ کو اپنے خاندان سے نصیب ہوا تھا۔ آپ نے جن حضرات سے روایت لی ہے ان کے نام درج ذیل ہیں:

آپ کے والد حضرت عروہ بن الزبیر، آپ کے چچا حضرت عبدالله بن الزبیر، آپ کے دو بھائی حضرت عبدالله بن عروة اور حضرت عثمان بن عروة، آپ کے چچا زاد حضرت عباد بن حمزہ بن عبدالله بن الزبیر، آپ کی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت المنذر( اور خاندان کے علاوہ افراد میں ) حضرت عمرو بن خزیمہ، حضرت عوف بن الحارث بن الطفیل، حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابن المنکدر، حضرت وہب بن کیسان، حضرت صالح بن ابی صالح السمان، حضرت عبدالله بن ابی بکر بن حزم، حضرت عبدالرحمن بن سعد، حضرت محمد بن ابراہیم بن حارث التیمی، حضرت محمد بن علی بن عبدالله بن عباس رحمة الله تعالیٰ علیہم اجمعین۔ (تہذیب التہذیب:4/275)

جن حضرات نے آپ سے روایت لی ہے ان کی بھی طویل فہرست ہے اور صرف نام لکھنے کے لیے کئی صفحات چاہییں۔
صاحب ”تہذیب التہذیب“ نے بھی کافی نام ذکر فرمانے کے بعد آخری میں ”خلق کثیر“ کے الفاظ ذکر فرما دیے۔ ( تہذیب التہذیب:4/275)

صاحب ِ”سیر اعلام النبلاء“ فرماتے ہیں کہ حضرت ہشام  سے بڑی تعداد میں لوگوں نے روایت لی ہے، جن کے نام ابو القاسم العبدی نے ذکر فرمائے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء:6/36)

اس کے بعد کئی صفحات صرف ان ناموں پرمشتمل ہیں جنہوں نے حضرت ہشام  سے روایت لی ہے۔

چند حضرات کے نام تبرکا نقل کیے جاتے ہیں:
حضرت ایوب سختیانی ( ان کی وفات آپ سے پہلے ہوئی)، حضرت عبیدالله بن عمر، حضرت معمر، حضرت ابن جریج، حضرت ابن اسحاق، حضرت ابن عجلان، حضرت ہشام بن حسان، حضرت یونس بن یزید الایلی، حضرت شعبہ، حضرت عمرو بن الحارث، حضرت لیث بن سعد، حضرت فلیح بن سلیمان، حضرت محمد بن جعفر بن ابی کثیر، حضرت یحییٰ بن عبدالله بن سالم، حضرت یحییٰ بن زکریا الغسانی، حضرت مالک بن انس، حضرت زائدہ رحمة الله تعالیٰ علہیم اجمعین وغیرہ۔ ( تہذیب التہذیب:4/275)

آپ کے والد مدینہ منورہ کے بڑے فقیہ تھے، فقیہ کی پرورش اور صحبت کی برکت تھی کہ آپ کا شمار بھی مدینہ منورہ کے بڑے فقہاء میں ہوتا تھا۔

وقت کے بڑے علماء آپ کی توثیق ، جلالت او رامامت پر متفق تھے۔ ( تہذیب الاسماء :2/137)

خاندانی شرافتیں ہوں یا علوم ومعارف کی بلندیاں، حضرت ہشام بن عروة اپنے تمام معاصرین پر فائق تھے #
            وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
            پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

علمائے کرام کی آرا

ابن خلکان لکھتے ہیں کہ حضرت ہشام مدینہ منورہ کے مشہور تابعین میں سے ہیں اور کثرت سے حدیث بیان کرنے والوں میں شامل ہیں، آپ کا شمار اکابر علماء اور چوٹی کے تابعین میں ہوتا ہے۔آپ کا شمار مدینہ منورہ کے تابعین کے طبقہ رابعہ میں ہوتا ہے۔ ( وفیات الاعیان:6/80)

علامہ ذہبی آپ کا تعارف ” امام، ثقة، شیخ الاسلام“ کے الفاظ سے کراتے ہیں۔ ( سیر اعلام النبلاء:6/34)

اسماعیل الاصبہانی آپ کو ”ورعا حافظا متقنا“ کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ (سیر سلف الصالحین:3/955)

ابن سعد  فرماتے ہیں:”ثقة، ثبتا، کثیر الحدیث، حجة․“

ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں: ثقة، امام فی الحدیث“․

یحییٰ بن معین او رایک بڑی تعداد آپ کو ثقہ بتلاتی ہے۔ (سیراعلام النبلاء:6/34)

نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے

بسا اوقات الله والے کسی انسان میں پوشیدہ جوہر کا ادراک کر لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ جوہر کام آجائے او رکسی خیر کے کام میں صرف ہو جائے، قدرت اس کے لیے اسباب مہیا کر دیتی ہے او روہی انسان جس کا رخ کسی او رجانب ہوتا ہے ایک ہی آواز سے اس کا قبلہ تبدیل ہو جاتا ہے۔

یہاں یہ بات سمجھنی بھی ضروری ہے کہ لازمی نہیں کہ ہر کسی کے ساتھ ایسا معاملہ ہو۔ ایک چنگاری سے آگ اسی وقت بھڑک سکتی ہے جب اس میں کچھ حدت کا اثر موجو دہو۔ ذاتی جوہر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہی جو ہر وقت آنے پر سامنے آجاتا ہے، جسے ” اچانک زندگی تبدیل ہونے“ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اچانک پیدانہیں ہوا کرتا، اگرچہ اس کا ظہور اچانک ہو جاتا ہے۔ جس طرح لکڑی کو راکھ بننے میں وقت لگتا ہے او رپھر اس راکھ میں دبی چنگاری سے آگ اچانک بھڑک اٹھتی ہے، اسی طرح انسان کے اندر کی صلاحیت پیدا ہونے میں وقت لگتا ہے اور بسا اوقات اس کا ظہور اچانک ہوجاتا ہے۔ جسے اچانک زندگی تبدیل ہونے سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔

حضرت منذر بن عبدالله  کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا، حضرت ہشام بن عروہ  نے ان کے پوشیدہ جوہر کا ادراک کر لیا تھا۔ حضرت منذر  فرماتے ہیں کہ میں حدیث روایت کرنے سے پہلے تیرہ سال تک شعر نقل کیا کرتا تھا۔ میرے والد حضرت ہشام بن عروہ سے ملے ، انہوں نے فرمایا کہ کیا تیرا بیٹا شعر نقل کرتا ہے؟ والد نے جواب دیا کہ جی ہاں! فرمایا: اسے میرے پاس بھیج دینا۔ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ ہشام بن عروہ  تم سے ملنا چاہتے ہیں، ان کے پاس جاو، وہ وادی عقیق میں ہیں۔ میں سواری پر سوار ہو کر ان کی طرف پہنچا۔ میں نے سلام کیا اور بیٹھ گیا۔ حضرت ہشام نے فرمایا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ تم شعر نقل کرتے ہو توبتلاؤ کہ عرب میں سب سے زیادہ کن کے اشعار نقل کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ بنو سلیم کے ۔ فرمایا کہ پھر تو تم فلاں کا یہ شعر اور فلاں کا وہ شعر بھی نقل کرتے ہو گے اور بنو سلیم کے ان شعراء کے شعر پڑھنا شروع کر دیے جن کو کبھی میں نے سنا نہیں تھا۔ پھر فرمایا کہ بھتیجے! حدیث حاصل کرو!! اس دن سے آج تک میں حدیث بیان کر رہا ہوں۔ (التمہید لابن عبدالبر:14/22)

سبحان الله! حضرت منذر کے دل پر وہی چوٹ پڑی ” جو مولائے روم کے دل پر زرکوب کی دوکان سے پڑی تھی“، زندگی تبدیل ہوئی اور ساری زندگی حدیث ِ مبارکہ کی خدمت میں گزار دی #
            نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے
            وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

سخاوت

حضرت ہشام بن عروة  کی سخاوت کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت ہشام خلیفہ ابو جعفر منصور کے پاس آئے او رکہا کہ مجھ پر قرضہ ہے اس کی ادائیگی کا انتظام فرما دیں۔ خلیفہ نے سوال کیا کہ کتنا ہے؟ جواب دیا: ایک لاکھ۔ خلیفہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ اتنا قرضہ آپ نے لیا ہی کیوں تھا؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ ہمارے خاندان میں کئی لڑکے جوان تھے، میں نے ان کی شادی کروائی اور ان کا ولیمہ کیا، یہ سارا قرضہ اسی کا ہے۔ خلیفہ نے رقم کا انتظام کر دیا او رمزید دس ہزار دیے۔ اس پر آپ نے سوال کیا کہ کیا یہ آپ خوش دلی سے دے رہے ہیں؟ میں نے اپنے والد سے حدیث سنی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص خوش دلی سے ہدیہ دے تو دینے والے اور لینے والے کے لیے برکت ہوتی ہے۔ اس پر خلیفہ نے جواب دیا کہ میں نے خوش دلی سے دیا ہے۔ یہ سن کر آپ نے قبول فرمالیا۔(المنتظم فی تاریخ الملوک والامم:8/101 مع التغییر)․

قارئین کرام! سخاوت کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ دوسروں کے لیے قرضوں کے بوجھ تلے دبنا گوارا کر لیا جائے۔ اس طرح دوسروں کا غم کھانے والے اب کہاں ملتے ہیں!! #
            آئے عشاق گئے وعدہِ فروا لے کر
            اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر

سفر آخرت

طبری کہتے ہیں کہ حضرت ہشام بن عروة  مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے، آخری عمر میں بغداد تشریف لے گئے او رابراہیم بن عبدالله کے شکست کھانے کے بعد 146ھ میں وہیں وفات پائی۔ تدفین مقبرة الخیزران میں ہوئی۔ (التمہید لابن عبدالبر:14/23)

تاریخ وفات میں مزید اقوال(145ھ147ھ) بھی نقل کیے جاتے ہیں۔ ( تہدیب التہذیب:4/276)

خلیفہ منصور نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس دن عباسیوں کا ایک غلام فوت ہوا تھا، جس کی بڑی قدرو منزلت تھی، اس کی چار پائی بھی حضرت ہشام  کی چار پائی کے ساتھ لائی گئی۔ خلیفہ نے ( تعظیم کی وجہ سے) پہلے حضرت ہشام  کی ،پھر غلام کی نماز جنازہ پڑھائی۔( تاریخ بغداد: 16/56چ، الرقم:7335)

آپ کی قبر کی تعیین میں اختلا ف ہے بعض حضرات مقبرے کی مشرقی جانب او ربعض مغربی جانب بتلاتے ہیں۔ اکثر حضرات مشرق کی جانب میں بتلاتے ہیں۔

”وفیات الاعیان“ میں لکھا ہے کہ جو حضرات کہتے ہیں کہ قبر مشرق کی جانب میں ہے ان کے نزدیک مغرب کی جانب میں حضرت ہشام المروزی  کی قبر ہے جو حضرت عبدالله بن مبارک کے شاگردوں میں سے تھے۔ (وفیات الاعیان:6/81)

آپ کی وفات کے ساتھ علم ومعرفت کا ایک عہد تمام ہوا۔ الله تعالیٰ آپ کی قبر کو بقعہ نور بنائے اور آپ کے فیض کو تاقیامت جاری وساری رکھے۔ آمین یار ب العالمین!

روشن مینار سے متعلق