حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ

idara letterhead universal2c

حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ

محترم جنید اشفاق اٹکی

الله تعالیٰ کی محبت میں دل کا ٹوٹ جانا دل کی سلامتی ہے۔ اپنے خالق ومالک کی چاہ میں لمحہ لمحہ بکھرتے رہنا قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ الله والوں کے دل ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں او ران ٹوٹے ہوئے دلوں سے معرفت کے وہ چشمے پھوٹتے ہیں کہ اک جہاں ان سے سیراب ہوتا ہے۔ حضرت حسن بصری بھی ان اولیائے کرام میں سے ہیں جنہیں خوف وحزن کا وافر حصہ عطا ہوا تھا۔ تصوف میں خوف وحزن کا مسلک آپ ہی کی طرف منسوب ہے۔ آپ سراپا سوز وگداز تھے۔ آہ وبکا آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ گویا چوٹوں اور اشکوں کا کوئی کارواں تھا، جس کا روکنا خود میر کارواں کے بس سے باہر ہو چکا تھا #
          یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
          کسی نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

حافظ ابو نعیم بھی” حلیة الاولیاء“ میں حضرت حسن بصری کا تعارف لکھتے وقت اپنے جذبات چھپا نہیں پائے۔ ذیل کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

”ومنھم حلیف الخوف والحزن، ألیف الھم والشجن عدیم النوم والسن ابو سعید الحسن بن ابی الحسن الفقیہ الزاھد المتشمر العابد کان لفضول الدنیا وزینتھا نابذا ولشھوة النفس ونخوتھا واقذا․“ (حلیة الاولیاء:2/153)

ترجمہ:”ان اولیائے کرام میں سے ایک خوف وحزن کے ہم جلیس، درد وغم کے انیس، شب زندہ دار، ابو سعید حسن بن ابی الحسن ہیں، جوکہ فقیہ، زاہد، عبادت کے خوگر، دنیا کی فضولیات اور اس کی زیب وزینت کو چھوڑنے والے اور نفس کی شہوت او راس کی برائیوں کو پچھاڑنے والے تھے۔“

آپ کی ولادت اس وقت ہوئی جب حضرت عمر رضی الله عنہ کی خلافت کے دو سال باقی تھے۔ (تہذیب التہذیب:1/388)
آپ کا نام حسن رکھا گیا۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں بنتا ہے:”حسن بن ابی الحسن یسار البصری“

آپ کے والد کا نام یسار تھا، جو کہ زید بن ثابت رضی الله تعالیٰ عنہ کے غلام تھے اور والدہ کا نام خیرہ تھا، جو کہ ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا کی خدمت کیا کرتی تھیں، بسا اوقات نگاہوں سے اوجھل ہو جاتیں تو آپ رونا شروع کر دیتے۔ ام المومنین ام سلمہ اٹھا کر سینے سے لگالیتیں اور دودھ پلاتیں۔

ان نسبتوں پر غور کیجیے! والد صحابی رسول کے غلام ہیں، والدہ ام المومنین کی خدمت گزار ہیں، حضرت عمر رضی الله عنہ کا لعاب منھ میں ہے، ام المومنین کا پلایا ہوا دودھ رگ وپے میں ہے، گویا آپ کی اصل میں عبدیت کو شامل کیا گیا، عدل وانصاف اور ہیبت وجلال کو آپ کی گھٹی میں ڈالا گیا اور سلامتی اور عافیت کو آپ کی رگ وپے میں بسا دیا گیا۔ ان تین نسبتوں کی برکت تھی کہ آپ بندگی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، گفت گو فصیح اور پر حکمت ہوتی تھی اور حجاج جیسے ظالم شخص کے زمانے میں لوگوں کو صبر ورضا کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ یوں حجاج کے ظلم وستم سے آپ اور آپ کی بات ماننے والے سلامت رہے۔ بچپن میں ہی تکوینی طور پر آپ کی ولایت کی علامات ظاہر ہو رہی تھیں۔ دیکھنے والے سمجھ رہے تھے کہ یہ پیدا ہونے والا بچہ معمولی انسان نہیں ہے۔ بچپن میں ام المومنین کے سامنے رونے والا بچہ ساری زندگی الله کی محبت میں رویا اور ایسا رویا کہ خوف وحزن کا مستقل سلسلہ وجود میں آگیا اورہزاروں رونے والے اس سلسلے سے منسوب ہوئے #
          ٹوٹنے پر کوئی آئے تو پھر ایسا ٹوٹے
          کہ جسے دیکھ کر ہر دیکھنے والا ٹوٹے

ابتدائی حالات

آپ کی زندگی کا ابتدائی دور مدینہ منورہ میں گزرا۔ صحابہ کرام کے درمیان پرورش پائی۔ بچپن میں حضرت عمررضی الله عنہ نے آپ کے لیے یہ دعا فرمائی کہ اے الله! حسن کو دین کافقیہ اور لوگوں میں ہر دل عزیز بنا دیجیے۔
آپ نے بڑے بڑے صحابہ کرام کی زیارت کی، جن میں حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت عائشہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین شامل ہیں۔

آپ کا بچپن ازواج مطہرات کے گھروں میں گزرا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان بن عفان کے زمانے میں ازواج مطہرات کے گھروں میں جاتا تھا اور گھروں کی چھتوں کو ہاتھ لگایا کرتا تھا۔

سبحان الله! کسی بچے نے اڑتی چڑیا سے دل بہلایا، کسی کو جگنواچھے لگے، کسی کو تتلی پکڑنا پسند آیا، کسی بچے کے سامنے کھلونوں کے ڈھیر لا کر بکھیر دیے گئے۔ اس بچے کا مقدر دیکھیے کہ کس کھلونے سے کھیل رہا ہے! یہ وہ درودیوار ہیں جہاںِ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی یادوں کے نقوش ابھی تازہ تھے، ان چھتوں کو جبرئیل علیہ السلام کی آمد یاد تھی، انہیں وہ منظر بھی یاد تھا جب رات کو جبیں سائی کے عالم میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زلف اطہر چہرہ انور کے آس پاس بکھر جاتی تھی۔ یہ بچہ اس کھلونے سے کھیل رہا تھا جسے چومنے کے لیے قدسیوں کی جماعتیں بے تاب رہتی تھیں، نجانے آپ کتنی ہی دفعہ اماں عائشہ صدیقہ کے حجرے میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی کچی قبر کی خوش بو سونگھنے گئے ہوں گے!

ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ میں پندرہ سال کا تھا کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔

ایک موقع پر فرمایا کہ میں ستر بدری صحابہ کرام سے ملا ہوں، اکثر کا لباس اون کا تھا۔

آپ کی تعلیم وتربیت صحابہ کرام کے زیر سایہ ہو رہی تھی اور آپ ایک ایسے دور میں پرورش پارہے تھے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے واقعات سنانے والے آپ کے آس پاس موجود تھے۔ خدا جانے کتنے ہی مبارک واقعات ہوں گے جو آپ نے سنے ہوں گے او رکتنے ہی جذبات ہوں گے جو آپ کے سینے میں جوش مارتے ہوں گے !! #
          کتنے نغمے ہیں جو پردوں میں چھپا رکھے ہیں
          آپ چھیڑیں تو یہ سازِ دلِ ناساز کبھی

محدث کی حیثیت سے آپ کا مقام ومرتبہ

محدث کی حیثیت سے آپ کا مقام نہایت بلند ہے۔ آپ نے صحابہ کرام اور تابعین کی ایک بڑی جماعت سے روایت حاصل کی ہے۔ آپ نے بعض صحابہ کرام سے بالواسطہ اور بعض سے بلاواسطہ روایت لی ہے۔ آپ روایت حدیث میں بکثرت ارسال فرمایا کرتے تھے، یعنی اوپر کا واسطہ حذف کر دیتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے آپ کو ثقہ فرمایا ہے اوریہ بھی لکھا ہے کہ آپ اکثرارسال فرمایا کرتے تھے۔

آپ روایت بالمعنی بھی فرماتے تھے۔ یعنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے تھے۔ ہشیم ، ابن عون سے نقل فرماتے ہیں کہ امام شعبی او رامام حسن بصری روایت بالمعنی کرتے تھے۔

روایت حدیث میں آپ کے شیوخ

آپ نے جن حضرات سے روایت لی ہے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
حضرت ابی بن کعب، حضرت سعد بن عبادہ، حضرت عمر بن خطاب(مگر آپ ان سے نہیں مل سکے) حضرت عمار بن یاسر، حضرت ابوہریرہ، حضرت عثمان بن ابی العاص، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابوموسیٰ، حضرت ابی بکرة، حضرت عمران بن حصین، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، حضرت معاویہ، حضرت معقل بن یسار، حضرت انس، حضرت جابر رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین۔

حضرت علی سے آپ کی روایت پر محدثین نے کلام کیا ہے۔ بعض حضرات سماع کا انکار کرتے ہیں ،لیکن یہ بات بعید از قیاس ہے کہ مدینہ منورہ میں حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے دور میں پیدا ہونے والا شخص، جو حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کے وقت بھی موجود ہو، وہ حضرت علی سے کوئی بات نہ سن سکا ہو۔ آپ نے مسجد نبوی میں نمازیں پڑھیں، خوشی غمی میں شریک رہے، صحابہ کرام سے براہ راست استفادہ کیا، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی سے آپ نے کچھ سیکھایا پایا نہ ہو؟ یونس بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ آپ سے پوچھا کہ اے ابوسعید! آپ کہتے ہیں کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا حالاں کہ آپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نہیں ملے؟ آپ نے فرمایا ،کہ اے بھتیجے! تم نے مجھ سے وہ بات پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی، اگر میرے نزدیک تمہارا کوئی مقام نہ ہوتا تو میں تمہیں نہ بتاتا۔ میں جس زمانے میں ہوں تمہیں پتہ ہے حجاج کا زمانہ تھا، ہر وہ بات جس میں تم مجھے یہ کہتے ہوئے سنو کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے وہ حضرت علی بن ابی طالب سے مروی ہوتی ہے ،لیکن میں ایسے زمانے میں ہوں کہ علی کا نام لینے کی ہمت نہیں ہوتی۔

روایت حدیث میں آپ کے تلامذہ

آپ سے روایت لینے والے حضرات کے نام درج ذیل ہیں:
حضرت حمید الطویل، حضرت برید بن ابی مریم، حضرت ایوب، حضرت قتادہ، حضرت عوف الاعرابی، حضرت بکر بن عبدالله المزنی، حضرت جریر بن حازم، حضرت ابو الاشہب، حضرت ربیع بنصبیح، حضرت سعید الحریری، حضرت سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف، حضرت سماک بن حرب، حضرت شیبان النحوی، حضرت خالد الخداء، حضرت عطاء بن سائب، حضرت عثمان البتی، حضرت قرة بن خالد، حضرت مبارک بن فضالہ، حضرت معلی بن زیاد، حضرت ہشام بن حسان، حضرت یونس بن عبید، حضرت منصور بن ذاذان، حضرت معبد بن ہلال رحمة الله تعالیٰ علیہم اجمعین۔

بصرہ کے فقیہ

حضرت علی رضی الله عنہ کے زمانہ خلافت میں آپ بصرہ منتقل ہو گئے تھے۔ بصرہ کی سر زمین آپ کے علم وفضل کی گواہ ہے۔ علامہ ابن قیم الجوزیة نے ”اعلام الموقعین“ میں حضرت حسن بصری کو بصرہ کے فقہاء میں شمار کیا ہے، حضرت ایوب کہتے ہیں کہ میری آنکھوں نے حسن سے زیادہ فقیہ انسان نہیں دیکھا۔

حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں حضرت انس بن مالک رضی الله تعالیلله عنہ کو بصرہ بھیج دیا تھا، تاکہ وہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیں۔ ایک دفعہ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ نے فرمایا کہ حسن سے پوچھو،اسے یاد ہے اور ہم بھول گئے ہیں۔

کاغذ کی ہزار اسناد حضرت انس بن مالک کے ان الفاظ پر قربان ہوں۔ علم وفضل کی کیا ہی عمدہ سند ہے جو حضرت حسن بصری کو اپنے استاد کی طرف سے ملی ہے !! #
          مجھ کو بھی پڑھ کتاب ہوں مضمون خاص ہوں
          مانا ترے نصاب میں شامل نہیں ہوں میں

سلسلہ آہ وبکاء

سلسلہ نقشبندیہ کے سوا تصوف کے سلاسل حضرت حسن بصری کے واسطے سے حضرت علی المرتضی تک پہنچتے ہیں۔ آپ سے منسوب ہر سلسلے میں الله تعالیٰ کی یاد میں رونے کا عنصر واضح دکھائی دیتا ہے۔
الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے، جو الله کے حضور روتے ہیں۔

سورہ مریم آیت(58) میں الله رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ:” آدم کی اولاد میں سے یہ وہ نبی ہیں جن پر الله نے انعام فرمایا اور ان میں سے کچھ ان لوگوں کی اولاد میں سے ہیں جن کو ہم نے ہدایت دی اور ( اپنے دین کے لیے) منتخب کیا۔ جب ان کے سامنے خدائے رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تو یہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔

پھر یہ قرآن جس عظیم ہستی کے قلب میں اتارا گیا وہ اس آہ وبکا کا مرجع اعظم کہلائی۔

حضرت مطرف اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور رونے کی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے سینے سے ایسی آواز آرہی تھی جیسے چکی چلنے کی آواز ہوتی ہے۔

حضرت علی المرتضیٰ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ غزوہٴ بدر کے دن سوائے مقداد کے ہم میں کوئی گھڑ سوار نہیں تھا او رہم نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر آدمی سو رہا تھا ،سوائے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے، جو درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے تھے او ررو رہے تھے، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔

بدر کے دن نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے سوز وگداز کا مشاہدہ کرنے والے حضرت علی المرتضیٰ کرم الله وجہہ کا اپنا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمة الله علیہ، حضرت علی المرتضیٰ کرم الله وجہہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
”عادت شریفہ تھی کہ جب نماز کا وقت آتا تو بدن میں کپکپی دوڑ جاتی، چہرہ کا رنگ زرد ہو جاتا، دریافت کرنے پر فرمایا کہ یہ اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جس کو حق تعالیٰ شانہ نے آسمانوں اور زمین وپہاڑ پر اتارا، مگر وہ اس کے تحمل سے عاجز ہو گئے اور میں نے اس کا تحمل کیا ہے“۔

کمیل کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت علی کے ساتھ چلا ،وہ ایک قبرستان میں پہنچے او رایک مقبرہ کی طرف ہو کر فرمایا۔ اے مقبرہ والو! بوسیدگی والو! اے وحشت وتنہائی والو! کیا حال ہے؟ ہماری خبر تو یہ ہے کہ تمہارے مرنے کے بعد اموال آپس میں تقسیم کر لیے گئے، اولادیں یتیم ہو گئیں، بیویوں نے دوسرے شوہر کر لیے۔ یہ تو ہماری خبر ہے ۔کچھ اپنی بھی کہو! اس کے بعد حضرت کمیل کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایاکہ اگر ان کو بات چیت کی اجازت ہوتی تو یوں کہتے کہ بہترین توشہ تقوی ہے، یہ فرماکر خوب روئے اور فرمایا! اے کمیل! قبر عمل کا صندوق ہے او رموت کے وقت اپنی زندگی کے گئے ہوئے اچھے او ربُرے اعمال معلوم ہو جاتے ہیں۔

آہ وبکاء کی یہ نسبت حضرت علی المرتضیٰ کے سینے سے حضرت حسن بصری کے سینے میں منتقل ہوئی۔
حضرت حمزہ الاعمی فرماتے ہیں کہ میں حسن بصری کے گھر آتا تو آپ رو رہے ہوتے تھے، لوگوں کے ساتھ آتا تو روتا ہوا پاتا۔ بعض اوقات میں آتا اور آپ نماز پڑھ رہے ہوتے اور میں رونے کی آواز سنتا تھا۔ ایک دن میں نے کہا کہ اے ابو سعید! آپ بہت زیادہ روتے ہیں، تو آپ نے رونا شروع کر دیا، فرمایا کہ اے بیٹے! اگر مومن روئے نہیں تو او رکیا کرے؟ اے بیٹے! یہ رونا دھونا رحمت کوپکارتا ہے، اگر تجھے ساری عمر رونے پر قدرت ہو تو روتا رہ، ممکن ہے کہ وہ کسی ایسی حالت میں دیکھ لیں کہ اس حالت کی وجہ سے رحمت فرما دیں۔ ایسا ہو گیا تو تم آگ سے نجات پاجاؤ گے #
          رویا کریں گے آپ بھی پہروں مری طرح
          اَٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح

مالک بن دینار فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حسن بصری کے ساتھ بازار گیا۔ ہمارا گزر عطر فروشوں پر ہوا۔ خوش بو آئی تو آپ نے رونا شروع کر دیا۔ مسلسل روتے رہے، یہاں تک مجھے ڈر ہوا کہ آپ بے ہوش ہو جائیں گے۔ پھر مجھے کہا کہ اے مالک! دو جگہوں میں سے ایک جگہ سب کو جانا ہے ،جنت میں یا دوزخ میں، تیسری جگہ کوئی نہیں ہے، جسے الله تعالیٰ کی رحمت نہ ملی وہ عذاب کی طرف جائے گا، پھر رونا شروع کر دیا۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ آپ کی وفات ہو گئی۔

حفص بن عمر کہتے ہیں حضرت حسن رو رہے تھے تو پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا کہ مجھے یہ خوف ہے کہ کہیں کل وہ مجھے آگ میں نہ پھینک دیں اور میری ذرا پروا نہ کریں۔

ملاحظہ فرمائیں کہ دامن صاف ہونے کے باوجود خشیت کا کیا عالم ہے! خدا جانے ہمارے سرپر رکھی دستاریں کل قیامت میں ہمارے کیا کام آئیں گی کہ ہمارے سینے اور دامن دونوں ہی خالی ہیں!! آہ وبکا کا یہ سلسلہ آگے بڑھا اور حضرت حسن بصری کے سینے میں وہ آگ پیدا ہوئی جس نے ہزاروں سینے پھونکے ،ہزاروں روئے، خوشی سے روئے اور آج تک رو رہے ہیں۔ اس رونے میں الله تعالیٰ نے وہ لذتیں پنہاں فرمائی ہیں کہ ہفت اقلیم کی لذتیں اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ بہت مبارک ہیں وہ سینے جو الله تعالیٰ کی یاد میں جوش ماریں اور بہت بابرکت ہیں وہ آنکھیں جو الله تعالیٰ کو یاد کرکے برس پڑیں #
          بڑی ہی شے ہے تجھے یاد کرکے رو پڑنا
          بڑی عطا ہے یہ نالے، یہ سوزِ پنہائی
          نشاط وکیف کا عالم ہے آج کل جاناں
          نوازشوں کی بڑی آج کل ہے ارزانی

فرمودات حضرت خواجہ حسن بصری رحمة الله علیہ

حضرت خواجہ حسن بصری کے ملفوظات دل کی گہرائیوں میں اترتے چلے جاتے ہیں، ذیل کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں! آپ فرماتے ہیں:

ابن آدم! اگر تو قرآن پڑھے، پھر اس پر ایمان لائے تو دنیا میں تیرا غم طویل ہو جائے، تیرا خوف شدید ہو جائے اور تیرا رونا زیادہ ہو جائے۔

دنیا کی حقیقت اول تا آخر اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ آدمی سویا ہو او رخواب میں اپنی پسندیدہ چیز دیکھے، پھر بیدار ہوجائے۔

اگر عبادت گزاروں کو یہ پتہ چل جائے کہ وہ قیامت میں اپنے رب کا دیدار نہیں کرسکیں گے تو ( صدمے سے ) مر جائیں۔
علما کے لیے عذاب دلوں کا مر جانا ہے اور دلوں کی موت اعمال آخرت سے دنیا طلب کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس قوم پر تعجب ہے جسے توشہ جمع کرنے کا حکم دیا گیا، ان کے درمیان کوچ کی منادی کر ادی گئی، پہلے آنے والوں کو بعد والوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا گیا اور وہ بیٹھے کھیل رہے ہیں۔

زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔

ابن آدم پر تعجب ہے! اپنے ہاتھ سے روزانہ ایک مرتبہ یاد و مرتبہ پاخانہ دھوتا ہے، پھرتکبر کرتا ہے اور جبار السماء سے معارضہ کرتا ہے۔

فتنوں کے زمانے میں سائبان

حضرت خواجہ حسن بصری کے زمانے میں حجاج کا ظلم وستم عروج پر تھا۔ اس دور میں آپ عوام خواص کے لیے ایک سائبان کی مانند تھے۔ یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن  فتنوں اور خوں ریزی کے زمانے میں علماء کے سردار تھے۔

ایسے علماء بڑی رحمت ہوتے ہیں جو جنگ وجدال میں نوجوانوں کی درست راہ نمائی کریں، حکمت اور بصیرت کا در س دیں اور آپس کی ٹوٹ پھوٹ سے بچالیں۔ حضرت حسن بصری بھی انہی علمائے کرام میں سے تھے جو صبر ورضا کی تلقین فرماتے تھے۔

بزدلی میں او رحکمت وبصیرت میں فرق ہوتا ہے، جس طرح جان دینے کے موقع پر پیچھے ہٹنا بزدلی ہے، اسی طرح جان نہ دینے کے موقع پر جان دینا بے وقوفی ہے ، علاوہ ازیں اس سے بڑی بہادری کیا ہو گی کہ جب جب اندر کا جوش او رجذبہ جان دینے کا تقاضا کرے اور شریعت جان بچانے کا کہے تو انسان اندر کے تقاضے کو روندتا ہوا اپنی جان بچالے۔ اہل الله بہادرہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ عقل مند او رحکیم ہوتے ہیں۔ حجاج کے مقابلے میں صبر ورضا کا درس دینے والے یہی حضرت حسن بصری میدان جہاد میں اپنے جوہر دکھاچکے تھے۔

ایک صاحب نے آپ سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ نے جہاد کیا؟ فرمایا: ہاں! عبدالرحمن بن سمرہ کے ساتھ غزوہ کابل میں شریک تھا۔

حضرت حسن بصری کے زمانے میں حجاج کے خلاف سب سے بڑی مزاحمت ابن الاشعت نے کی۔ بعض جگہ حجاج کے لشکر کو شکست بھی دی۔ ان حالات میں نوجوانوں کا جوش وجذبہ جاگا اور وہ مزاحمت پر آمادہ ہو گئے۔
طبقات ابن سعد میں ہے کہ عقبہ بن عبدالغافر، ابوالجوزاء اور عبدالله بن غالب سرداروں کے ساتھ حضرت حسن بصری کے پاس آئے اور پوچھا کہ اس گروہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جنہوں نے حرام خون بہایا، حرام مال لیا، نماز ترک کر دی، یہ کر دیا وہ کر دیا؟ حجاج کے افعال کا تذکرہ کیا فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ جنگ نہ کرو، اس لیے کہ اگر یہ فتنہ الله کا عذاب ہے تو تم عذاب کو اپنی تلواروں سے دور نہیں کرسکتے او راگر یہ آزمائش ہے تو صبر کرو! یہاں تک کہ الله فیصلہ فرما دے اور وہ بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ ہم اس کی اتباع کریں گے۔ سارے عرب نوجوان تھے۔ ابن الاشعث کی جنگ میں شریک ہو گئے اور سب مارے گئے۔

معتزلہ کا فتنہ بھی آپ کے زمانے میں وجود میں آیا۔ واصل بن عطا نے حضرت حسن بصری کی مجلس میں کہا:میں کہتا ہوں کہ کبیرہ گناہ کرنے والا کافر بھی نہیں اور مومن بھی نہیں، بلکہ ان دونوں کے درمیانی درجہ میں ہے۔ اس کے بعد وہ حضرت حسن بصری کی مجلس سے الگ ہو گیا او رمسجد میں اپنی مجلس الگ کر لی۔

یہ فتنہ اتنا بڑھا کہ آنے والے وقت میں اسلامی سلطنتوں کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ بڑے بڑے بادشاہ ان کے نام لیوا تھے۔ لیکن آج معتزلہ کا نام صرف تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے۔ حق دب تو سکتا ہے، مٹ نہیں سکتا۔ ہر زمانے میں ایسے فتنے معرض وجود میں آتے رہتے ہیں جن کا ڈنکا پورے عالم میں بجتا ہے، لیکن بالآخر حق اور سچ کے قافلے ان کو روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ ایک عرصہ تک تاریخ کے کاغذات میں دفن رہتے ہیں، پھر انہیں وہاں بھی بوجھ شمار کیا جاتا ہے او رایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کی داستان تاریخ کے صفحات میں ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی۔

علمائے کرام کی آراء

یزید بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے حسن بصری اور عمر بن عبدالعزیز سے زیادہ الله سے ڈرنے والا کوئی نہیں دیکھا ،گویا کہ آگ صرف ان دونوں کے لیے پیدا کی گئی تھی۔

حمید بن ہلال کہتے ہیں کہ مجھے حضرت قتادہ نے فرمایا کہ حسن  کی صحبت کو لازم پکڑو، میں نے فیصلہ کرنے میں ان سے زیادہ کوئی آدمی حضرت عمر کے مشابہ نہیں دیکھا۔

ابن عربی فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری صوفیاء او راہل اسرار واشارات کے امام ہیں۔

صاحب شذرات الذھب فرماتے ہیں کہ آپ کا سارا کلام حکمت اور وعظ پر مشتمل ہوتا تھا اور الفاظ پختہ اور فصیح ہوتے تھے۔

ایوب فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے حسن سے زیادہ فقیہ انسان نہیں دیکھا۔

اعمش فرماتے ہیں کہ جب آپ کا ذکر حضرت امام ابو جعفر کے سامنے کیا جاتا تو وہ فرماتے یہ آدمی ہیں جن کا کلام انبیاء کے کلام کے مشابہ ہے۔

عالم بالا روانگی

صبح کا چمکتا ہوا سورج شام کے ڈھلکتے سائے میں غروب ہو جاتا ہے، رات کے اندھیروں کو صبح کے اجالے دور کر دیتے ہیں، موسم بہار میں کھلتی ہوئی کلیاں خزاں میں بکھر جاتی ہیں، خزاں رسیدہ کلیاں ہواؤں کے حوالے ہو جاتی ہیں، جوش مارتا ہوا دریا سمندر میں جاکر گم ہو جاتا ہے، سمندرکی خاموشی کو بپھری ہوئی موجیں توڑ دیتی ہیں، اٹھتی ہوئی جوانیاں بڑھاپے کا شکار ہو جاتی ہیں اور ڈھلتی ہوئی عمریں مقبروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ یہی قانون قدرت ہے۔ ہر چلتی ہوئی سانس کو رکنا ہے اور ہر دیکھتی ہوئی آنکھ کو بند ہونا ہے۔ بصرہ کی فضائیں بھی اس سلسلے کا حصہ بننے جارہی تھیں۔ عمر کی آخری ساعتیں حضرت خواجہ بصری کے گھر تک پہنچ چکی تھیں۔ اہل دل سمجھ رہے تھے کہ اب آپ کا وقت رحیل قریب آچکا ہے۔

ایک آدمی نے علامہ ابن سیرین سے کہا کہ میں نے خواب میں ایک پرندہ دیکھا ہے، جومسجدسے کنکرلے رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تیرا خواب سچا ہے تو حسن بصری فوت ہو گئے۔ کچھ ہی عرصے بعد حضرت حسن بصری فوت ہو گئے۔ علامہ ابن سیرین آپ کے ہم عصر تھے او ران کی وفات آپ کی وفات سے سود ن بعد ہوئی۔

ابو طارق السعدیش کہتے ہیں کہ میں حضرت حسن بصری کی وفات کے وقت موجود تھا ،آپ نے کاتب سے وصیت لکھوائی کہ لکھو! ابوالحسن کا بیٹا حسن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں، جس نے اپنی موت کے وقت سچے دل سے یہ گواہی دی وہ جنت میں داخل ہو گیا۔

یہ وصیت سن کر آس پاس کا ماحول ضرور اشک بار ہوا ہو گا اور لکھنے والوں نے کلیجہ تھام کر یہ الفاظ لکھے ہوں گے۔ الله رب العزت نے آپ کے الفاظ کی ایسی لاج رکھی کہ آنے والے دور کے تمام اولیائے کرام تک ان الفاظ کو پہنچایا او رانہیں آپ کے ایمان پر گواہ بنا دیا۔ چودہ صدیاں ان الفاظ پر گواہ بن چکی ہیں۔

جس ذات کی جستجو میں ساری عمر کھپائی تھی، آج اس کے پاس جانے کا وقت آچکا تھا، شب جمعہ کی مبارک ساعتیں تھیں اور بصرہ میں برکتوں کا ایک باب بند ہورہا تھا، آخر کار الفاظ مدہم پڑے، چمکتی ہوئی آنکھیں بند ہوئیں اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ انا لله وانا الیہ راجعون․
          جان کر من جملہ خاصانِ مے خانہ مجھے
          مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے

بعض اولیائے کرام نے آپ کی وفات کی شب دیکھا کہ آسمان کے دروازے کھل گئے اور منادی نے آواز دی کہ سن لو! حضرت حسن بصری الله کے پاس پہنچ گئے اور وہ اس سے راضی ہے۔

حماد بن زید فرماتے ہیں کہ آپ کی وفات شب جمعہ کو ہوئی اورحضرت حمید الطویل نے غسل دیا۔

محمد بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت سنہ110ھ میں فوت ہوئے۔

آپ کا جنازہ اٹھایا گیا او ربصرہ کی گلیاں چاہنے والوں سے بھر گئیں۔ لوگ جنازے کے لیے چلے او راس دن جامع مسجد میں عصر کی نماز نہیں ہوسکی۔

الله تعالیٰ آپ کی مرقد کو بقعہ نور بنائے اور آپ کے فیض سے ہم سب کو مستفید فرمائے۔ آمین!

روشن مینار سے متعلق