شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کی شہادت

شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کی شہادت
ملک وملّت کے خلاف ایک بھیانک سازش

محترم محمد اسماعیل ریحان

سرزمین پاکستان میں علمائے دین کا لہو ایک بار پھر ارزاں ہو گیا۔ تحریک دفاع صحابہ کے راہ نما مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کو 10/اکتوبر2020ء بعد نماز مغرب، کراچی میں شاہ فیصل کالونی کی بھری پَری سڑک پر، نہایت بے رحمی سے شہید کر دیا گیا۔

حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان، شیخ الحدیث، استاذ الاساتذہ، حضرت مولانا سلیم الله خان رحمہ الله کے فرزند ارجمند تھے۔ وہ بڑے متحرک، بصیرت مند، دوراندیش او رملنسار انسان تھے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ دیگر اسلامی علوم کے علاوہ وہ تاریخ اور حاضر العالم الاسلامی کے بھی بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے بیرونی دُنیا گھوم پھر کر دیکھی تھی اور صف اوّل کے عالمی مسلم راہ نماؤں سے ان کے قریبی روابط تھے۔ وہ عالمی حالات، مغربی طاقتوں کی سازشوں اور مسلمانوں کو باہم لڑانے کے ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف تھے۔ تمام دینی کاموں کی سرپرستی فرماتے اور سب کی نہ صرف حوصلہ افزائی فرماتے، بلکہ عملاً بھی حصہ لیتے۔ انہوں نے کم وقت میں اس قدر کام کر لیا کہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے۔ وہ دینی وعصری دونوں علوم کے جامع تھے۔ عربی او رانگریزی مادری زبان کی طرح روانی سے بولتے تھے اور اس حوالے سے وہ اپنا پیغام عالمی میڈیا تک پہنچانے کی صلاحیت رکھنے والے چند علماء میں سے ایک تھے۔

اپنے والد ماجد کی حیات میں وہ ایک مدت تک جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی میں تدریسی اور انتظامی امور انجام دیتے رہے۔ پھر ملائیشیا چلے گئے اور وہاں ایک یونی ورسٹی میں طلبہ کو اپنے علم وفضل سے سیراب کرتے رہے۔ والد ماجد کی وفات کے بعد وہ پاکستان واپس آئے او رجامعہ فاروقیہ فیز ٹو (حب ریور روڈ، کیماڑی ٹاؤن، کراچی) کو کچھ ہی عرصے میں ایک قابل ِ رشک تعلیمی ادارہ بنا دیا۔

شہید کے بہت سے کارنامے او ربہت کچھ خصوصیات تھیں، جن کی یہ تحریر متحمل نہیں۔ گزشتہ سال انہیں یہ فکر ستانے لگی کہ ہمارے طلبہ اور نوجوان اپنی تاریخ، خاص کر تحریک پاکستان اور مملکت ِ خداداد کی قدر وقیمت سے ناواقف ہیں، جس کی بنا پر ایک بڑا ذہنی خلا پیدا ہو رہا ہے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ کس طرح نوجوان حکومت سے ہی نہیں، ریاست سے مایوس ہو رہے ہیں اوران کی مثبت صلاحیتیں ماضی کی شان دار روایات سے ناواقفیت اور مستقبل میں امید کی کوئی کرن دکھائی نہ دینے کے سبب جامد ہوتی جارہی ہیں۔ چناں چہ انہوں نے اپنی ہمہ جہت مصروفیات میں ایک مصروفیت کا مزید اضافہ کر لیا او رتحریک پاکستان پر ایک ضخیم او رجامع کتاب کی ترتیب میں مشغول ہو گئے۔ کورونا کی وبا کے یکسوئی کے دنوں کو وہ پوری طرح کام میں لائے اور ابھی وبا کا اثر ختم نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب کا مسودہ مکمل کر چکے تھے۔ اب انہوں نے ”المنہل“ کے ڈائیریکٹر جناب مولانا الطاف میمن سے رابطہ کیا او رکہا کہ مجھے یہ کتاب چودہ اگست کو قوم کے ہاتھوں میں دینی ہے۔ آپ اسے جلد از جلد طبع کرائیں۔ اس وقت ادارہ ”المنہل“ راقم کی ”تاریخ اُمت ِ مسلمہ“ کی قرآنی پیپر پر طباعت کی تیاری کر رہا تھا، مگر مولانا الطاف میمن نے حضرت مولانا عادل خان کے ایماء کو تمام کاموں پر فوقیت دی اور اپنی سعادت سمجھتے ہوئے ”المنہل“ کی پوری ٹیم کو اس کا م پر لگا دیا۔ اسے بہتر سے بہتر بنانے میں راقم سے بھی مشورے جاری رہے۔آخر بحمدالله کتاب بروقت طبع ہو گئی اور حضرت ڈاکٹر صاحب کی دلی تمنا پوری ہوئی۔

مگر ابھی ان کی زندگی کا سب سے بڑا محاذ باقی تھا۔ دس محرم الحرام چودہ سو بیالیس ہجری کو جس طرح سڑکوں پر صحابہ کرام کی توہین کی گئی، اس نے ویسے تو ہر مسلمان کو تڑپا دیا، مگر حضرت ڈاکٹر صاحب کی حالت دگرگوں تھی۔ انہوں نے پیچ وتاب کھانے پر اکتفا کرنے کی بجائے یہ عزم کر لیا کہ زندگی کے جتنے دن باقی ہیں ، وہ اس امر کے لیے وقف ہیں کہ آئندہ پاکستان کی سڑکوں پر اس طرح کی گھناؤنی حرکات کا اعادہ نہ ہو۔ ان کی فکر مندی رنگ لائی اور چند دنوں میں پاکستان کے تمام مکاتب فکر اس امر پر متفق ہو گئے او رملک بھر میں اس حوالے سے عظیم الشان جلسوں نے دُنیا کو دکھا دیا کہ پاکستان میں لادینیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ ان جلسوں میں انہوں نے جو تقاریر کیں، وہ ان کی زندگی بھر کی تمام جدوجہد کا ”کلائمکس“ تھیں۔ اس وقت وہ فکر وتدبر، جرأت وعزیمت اور جوش وحمیت کی جس بلندی پر دکھائی دیتے تھے، اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔

آخری وقت تک ان کا یہ مشن جاری تھا۔ شہادت سے بیس گھنٹے قبل انہوں نے درج ذیل ٹویٹ کیا تھا” یاالله! اس زبان سے قوت ِ گویائی کو ختم کر جس زبان سے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم، حضرت ابوبکر ، عمر، عثمان، علی اور اَمی عائشہ کے بارے میں برُا لفظ نکلے۔“

شہادت سے کچھ دیر پہلے وہ دارالعلوم کراچی میں حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی خدمت میں تھے۔لگ بھگ آٹھ بجے وہاں سے روانہ ہوئے اور کچھ دیر بعد یہ افسوس ناک خبر آگئی کہ وہ شہید کر دیے گئے۔ یوں ہفتہ دس اکتوبر دو ہزار بیس عیسوی کا دن جاتے جاتے ایک نہ مٹنے والا غم دے گیا۔ شہادت کی خبر چند منٹ میں پوری دُنیا میں پھیل گئی اور ہر طرف صف ِ ماتم بچھ گئی۔ بروز اتوار جامعہ فاروقیہ فیزٹو میں بے شمار فرزندان توحید شہید کے جنازے میں شریک تھے او راس سانحہ فاجعہ پر ہر کسی کا دل خون کے آنسو رورہا تھا۔

بلاشبہ یہ سانحہ اُس پس منظر میں جسے ہر شخص دیکھتا اور محسوس کرتا ہے، ایک منظم عالمی سازش کا شاخسانہ ہے۔ یہ ایک عظیم درس گاہ کے مہتمم، ایک بہت بڑی ہستی کے فرزند وجانشین، ایک زبردست دینی تحریک کے قائد اور اسلام کے سربکف سپاہی کا قتل ہے۔ جس ملک کی عظمت وترقی کے لیے وہ زندگی بھرکوشاں رہے او رجس کی بنیادوں سے نئی نسل کا تعلق پختہ تر کرنے کے لیے انہوں نے اپنی حیات کے آخری کئی ماہ وقف کرکے ایک شان دار کتاب لکھی اُسی ملک کی سڑک پر ایسے ظلم کا ہونا ارباب اقتدار کے لیے انتہائی شرم ناک ہے۔ ایک سال قبل اسی طرح حضرت شیخ الاسلامفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، جس میں وہمعجزانہ طور پر محفوظ رہے تھے۔ آج تک تحقیقات سامنے نہیں آسکیں کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔اگر ان ہاتھوں کو وہیں قلم کر دیا جاتا تو اس قسم کے سانحوں کا اعادہ نہ ہوتا۔ اس وقت مسلمانان پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا کے مسلمانوں کی حالت مرغ بسمل کی سی ہے۔ بھارت کے علماء اور طلبہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے علماء ہندوؤں کی آبادیوں میں بھی اس قدر غیر محفوظ نہیں۔ وہاں بھی علماء کا اس قدر قتل عام نہیں ہوا۔ ایک مسلم اکثریتی ملک میں با ربار ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا جواب ”ریاست مدینہ“ کے قیام کی دعوے دار حکومت کے ذمے ہے۔ اگر عالمی طاغوتوں کے ان گماشتوں کو، جو ایسے مظالم کے ذریعے ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں، لگام نہ دی گئی تو عوام کی بے چینی طوفان بن سکتی ہے اورپھر حالات سنبھالے نہیں سنبھلیں گے۔ بقول اقبال #
        چھپا کر آستین میں بجلیاں رکھ دی ہیں گردوں نے
        عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
        وطن کی کر فکر ناداں، مصیبت آنے والی ہے
        تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

الله نہ کرے کہ ہمارے اجتماعی گناہوں اور حکم رانوں کی سیاسی حماقتوں کے سبب یہ خدشات درست نکلیں۔ الله گناہوں کو معاف کر دیتا ہے ،مگر جب لوگ کھلم کھلا سرکشی پر اُتر آتے ہیں اور سربراہان مجرمانہ خاموشی برتنا اپنا وطیرہ بنا لیتے ہیں تو قانون مکافات ِ عمل انہیں نشان ِ عبرت بنا دیتا ہے۔