حضرت سلیمان بن یسار رحمة الله علیہ

idara letterhead universal2c

حضرت سلیمان بن یسار رحمة الله علیہ

محترم جنید اشفاق اٹکی

ولادت

علامہ ذہبی رحمہ الله”سیر أعلام النبلاء“ میں لکھتے ہیں :” ولد في خلافة عثمان․“(سیر اعلام النبلاء:4/444)

”حضرت سلیمان بن یسار کی ولادت حضرت عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنہ کے عہد ِ خلافت میں ہوئی۔“

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله علیہ نے آپ کی پیدائش، ابن حبان کے حوالے سے 24ھ اور امام بیہقی کے حوالے سے 27ھ نقل فرمائی ہے۔ ( تہذیب التہذیب:2/113)

نام ونسب

آپ کا نام سلیمان اور والد کا نام یسار تھا۔

احمد بن صالح المصری فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان کے والد ”یسار“ فارس کے رہنے والے تھے۔ ( تاریخ الاسلام:101 تا120ھ، ص:100، الرقم:85)

آپ کی کنیت ابو ایوب ہے، آپ کوابوعبدالرحمن اور ابو عبدالله المدنی بھی کہا جاتا تھا۔ (تہذیب التہذیب:2/112)

قدرت نے آپ کے حصے میں ام المومنین رضی الله تعالیٰ عنہا کی غلامی کا شرف رکھا تھا۔ آپ ام المومنین حضرت میمونہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے۔ (الطبقات الکبری:5/174) آپ چار بھائی تھے، سلیمان بن یسار، عطاء بن یسار، عبدالله بن یسار اور عبدالملک بن یسار، چاروں بھائی حضرت میمونہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ (التاریخ الکبیر المعروف بہ تاریخ ابن أبی خیثمة:2/328، الرقم:3177)

قارئین کرام! کیا ہی خوش قسمتی ہے کہ آنکھ کھولتے ہی نگاہ ام المومنین کے چہرہ پر پڑی اور بچپن کی گھڑیاں کا شانہ ِ نبوت میں بسر ہو گئیں۔ یہ شرف ملاحظہ فرمائیں کہ آپ کی معصومانہ اداؤں کو ام المومنین کی شفقتوں کا سہارا تھا، آپ کے بچپن میں رنگ بھرنے کے لیے ” روضة من ریاض الجنة“ کی کرنوں کا انتخاب کیا گیا، آپ کی پرورش کے لیے علم، حکمت، معرفت، طہارت، عفت، تقدس، اخلاق، کردار، وقار، زہد، ورع، تفقہ کے خزانوں کے منھ کھول دیے گئے۔ یقینا آپ ایک ایسی غلامی کے مالک تھے کہ ہزاروں آزادیاں آپ کے قدموں پر قربان ہیں #
          ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
        تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

ابتدائی تعلیم

آپ نے غلامی کی حالت میں آنکھ کھولی، اسی غلامی نے آپ کو علوم ومعارف کی بلندیوں پر فائز کیا۔ اسلام کی تاریخ بھی عجب ہے، یہاں ایسے غلاموں کی ایک طویل فہرست ہے جن کی غلامی ان کے لیے نعمت ثابت ہوئی، اسی غلامی نے انہیں فرصت فراہم کی اور حصول علم کے راستے ہم وار کیے۔

جرجی زیدان لکھتے ہیں:
”اسلام میں غلاموں کا بڑا حصہ ہے، اس لیے کہ بڑے بڑے حفاظ، مفسر، ادیب، شاعر، بڑی تعداد میں علماء اوراکثرتابعین کا تعلق اسی طبقے سے ہے“۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، ج:2،جز: رابع، ص:329)

اس کی سیاسی طور پر وجہ یہ تھی کہ ان غلاموں کے مالک فتوحات اورحکومتوں کے انتظام وانصرام میں مصروف رہے او ران کے غلام خانگی امور سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ حصول ِ علم کے لیے کوشاں رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے خاندانوں کے لوگوں نے علاقوں پر حکومت کی او ران کے غلاموں نے علم کی برکت سے دلوں پر راج کیا۔ یہاں امام زہری اور خلیفہ عبدالملک بن مروان کا ایک مکالمہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔

امام زہری فرماتے ہیں کہ میں عبدالملک بن مروان کے پاس آیا تو اس نے پوچھا:

عبدالمالک: اے زہری! تم کہاں سے آئے ہو؟

امام زہری: میں مکہ سے آیا ہوں۔

عبدالملک: مکہ میں اپنے پیچھے کس کو بڑا چھوڑ کر آئے ہو؟

امام زہری: عطا بن ابی رباح کو۔

عبدالملک: ان کا تعلق عرب سے ہے یا آزاد کردہ غلاموں سے؟

امام زہری: آزاد کردہ غلاموں سے۔

عبدالملک: عطا بن ابی رباح کس وجہ سے بڑے بنے؟

امام زہری: دیانت اور روایت کی وجہ سے۔

عبدالملک: بے شک دیانت اور روایت کے حامل افراد اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں بڑا بنایا جائے۔

عبدالملک: یمن والوں کے بڑے کون ہیں؟

امام زہری : طاؤس بن کیسان۔

عبدالملک : ان کا تعلق عرب سے ہے یا آزاد کردہ غلاموں سے؟

امام زہری: آزاد کردہ غلاموں سے۔

عبدالملک: یہ کس وجہ سے بڑے بنے؟

امام زہری: جس وجہ سے عطا بڑے بنے، اسی وجہ سے یہ بھی بڑے بنے۔

عبدالملک: بے شک وہ اسی کے مستحق ہیں۔

عبدالملک: مصر والوں کے بڑے کون ہیں؟

امام زہری: یزید بن ابی حبیب۔

عبدالملک : ان کا تعلق عرب سے ہے یا آزاد کردہ غلاموں سے؟

امام زہری: آزاد کردہ غلاموں سے۔

عبدالملک: شام والوں کے بڑے کون ہیں؟

امام زہری: مکحول۔

عبدالملک: ان کا تعلق عرب سے ہے یا آزاد کردہ غلاموں سے؟

امام زہری: آزاد کردہ غلاموں سے، افریقی غلام ہیں اور قبیلہ ہذیل کی عورت نے انہیں آزاد کیا ہے۔

عبدالملک: اہل جزیرہ کے بڑے کون ہیں؟

امام زہری: میمون بن مہران۔

عبد الملک: ان کا تعلق عرب سے ہے یا آزاد کردہ غلاموں سے؟

امام زہری: آزاد کردہ غلاموں سے۔

عبدالملک: خراسان والوں کے بڑے کون ہیں؟

امام زہری: ضحاک بن مزاحم۔

عدبالملک: ان کا تعلق عرب سے ہے یا آزاد کردہ غلاموں سے؟

امام زہری: آزاد کردہ غلاموں سے۔

عبدالملک: بصرہ والوں کے بڑے کون ہیں؟

امام زہری: حسن بن ابی الحسن۔

عبدالملک: ان کا تعلق عرب سے ہے یا آزاد کردہ غلاموں سے؟

امام زہری: آزادہ کردہ غلاموں سے۔

عبدالملک: ہلاکت ہو!! کوفہ والوں کے بڑے کون ہیں؟

امام زہری: ابراہیم نخعی۔

عبدالملک: ان کا تعلق عرب سے ہے یا آزاد کردہ غلاموں سے؟

امام زہری: عرب سے۔

عبدالملک: اے زہری! تیرے لیے ہلاکت ہو! تم نے میرے لیے تنگی کر دی، الله کی قسم! غلام ضرور عرب پر سرداری کریں گے، یہاں تک کہ منبر پر ان کے سامنے خطبہ دیں گے او رعرب نیچے ہوں گے۔

امام زہری: اے امیر المؤمنین! یہ الله کا امر اور اس کا دین ہے، جس نے اس کی حفاظت کی وہ بڑا بنا او رجس نے اس کو ضائع کیا وہ ذلیل ہوا۔ (علوم الحدیث لابن صلاح:5/436)

اس مکالمے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس دور کے غلام علوم ومعارف کی کن بلندیوں پر فائز تھے!

حضرت سلیمان بن یسار کی ابتدائی تعلیم کاشانہٴ نبوت میں مکمل ہوئی۔ آپ کے اساتذہ کرام میں مشاہیر صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین شامل ہیں۔ صحابہ کرام  کی صحبت کی برکت تھی کہ آپ  کا شمار مدینہ منورہ کے سات بڑے فقہاء میں ہوتا تھا۔

خدا جانے دنیا میں کتنے ہی غلام آئے اور چلے گئے، وقت کی رفتار نے ان کی بساط کو لپیٹ کر رکھ دیا، تاریخ کے اوراق ان کا پتہ بتلانے سے عاجز ہو گئے اور وہ دنیا سے یوں مٹے گویا کبھی آئے ہی نہ تھے او رایک طرف یہ الله والے ہیں، جن کی غلامی ان کی عزت ورفعت کے لیے رکاوٹ نہیں بنی، ان کے تذکرے جاری وساری ہیں، ان کے لیے آنکھیں برس رہی ہیں، دل دھڑک رہے ہیں، ہاتھ اٹھ رہے ہیں او رتا قیامت یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ان شاء الله تعالیٰ #
          فنا ہو کے ایسا ہوا اوج حاصل
          فلک پہ ہے خاکِ مزار الله الله

منصب قراء ت

مولانا معین الدین احمد ندوی لکھتے ہیں:
”ان کو قرآن مجید، حدیث نبوی، فقہ، جملہ علوم میں درک تھا، قرآن کے ممتاز قاریوں میں سے تھے۔“ (سیر الصحابہ:7/201)

علامہ اصبہانی  فرماتے ہیں:” کان من فقھاء المدینة وقرائھم․“ ( رجال صحیح مسلم، ج:1، رقم الترجمہ:570)

”حضرت سلیمان بن یسار مدینہ منورہ کے فقہاء اور قاریوں میں سے تھے۔“

منصب حدیث

آپ کے زمانے کے فقہاء حدیث میں بھی امام ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ منورہ میں آپ کی شہرت کی اصل وجہ فقہ تھی ، لیکن آپ حدیث میں بھی درجہ امامت پر فائر تھے۔

امام ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر البغدادی  فرماتے ہیں:” فانھم کانوا مع فقھھم أئمة فی الحدیث․“ (اصول الدین، ص:313)

تابعین فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ حدیث میں بھی امام تھے“ حضرت سلیمان بن یسار نے بڑے بڑے مشاہیر صحابہ کرام سے کسب ِ فیوض کیا، ان ناموں کو پڑھتے ہی آپ کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ کتنی عظیم ہستیوں کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہ فرمایا تھا۔

آپ نے جن حضرات سے روایت لی ہے ان کے نام درج ذیل ہیں:
حضرت میمونہ، حضرت ام سلمہ، حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ بنت قیس، حضرت حمزہ بن عمر والا سلمی، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت جابر، حضرت عبدالله بن عباس، حضرت مقداد بن اسود، حضرت ابوسعید، حضرت ابوہریرہ، حضرت ربیع بنت معوذ، حضرت عبدالله بن حارث بن نوفل، حضرت عبدالرحمن بن جابر بن عبدالله، حضرت عراک بن مالک، حضرت مالک بن ابی عامر الاصبحی، حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن وغیرھم۔(تہذیب التہذیب:2/112)

آپ نے صحابہ کرام سے حدیث کی مبارک نسبتیں حاصل کیں، اورپھر ان نسبتوں سے ہزاروں نسبتیں وابستہ ہوئیں۔ آپ کے شاگردوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے او رہر شاگرد اپنی ذات میں ایک مستقل جہان ہے۔

جن حضرات نے آپ سے حدیث روایت کی ہے ان کے نام درج ذیل ہیں:
حضرت عمروبن دینار، حضرت عبدالله بن دینار، حضرت عبدالله بن فضل الہاشمی، حضرت ابو الزناد، حضرت بکیر بن الاشج، حضرت جعفر بن عبدالله بن حکیم ، حضرت سالم ابو النضر، حضرت صالح بن کیسان، حضرت عمروبن میمون، حضرت محمد بن ابی حرملہ، حضرت امام زہری، حضرت مکحول، حضرت نافع، حضرت یحییٰ بن سعید، حضرت یعلی بن حکیم ، حضرت یونس بن یوسف رحمة الله علیہم اجمعین اور دیگر حضرات نے۔ (تہذیب التہذیب:2/112)

اساتذہ کرام اور شاگردوں کی فہرست میں جلیل القدر شخصیات کی موجودگی ہی آپ کے علمی مقام ومرتبہ کی غماز ہے۔

منصب فقہ

آپ کا شمار مدینہ منورہ کے سات بڑے فقہاء میں ہوتا تھا ”اعلام الموقعین“ کے مصنف نے درج ذیل سات حضرات کو مدینہ منورہ کے فقہاء میں شمار فرمایا ہے:

سعید بن مسیب، عروة بن الزبیر، قاسم بن محمد، خارجہ بن زید بن ثابت، ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، سلیمان بن یسار،عبیدالله بن عبدالله بن عتبہ بن مسعود (رحمة الله تعالیٰ علیہم اجمعین)۔(اعلام الموقعین:1/47)
علامہ ذہبی فرماتے ہیں:”کان من أئمة الاجتھاد“․ (تذکرة الحفاظ:1 /91)

”سلیمان بن یسار ائمہ مجتہدین میں سے تھے۔“

حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ آیا اور سوال کیا کہ طلاق کے مسائل کا علم سب سے زیادہ کس کے پاس ہے ؟ تو لوگوں نے کہا سلیمان بن یسار کے پاس۔ ( وفیات الاعیان:2/399)

آپ نے حضرت زید رضی الله تعالیٰ عنہ کی فقہ سے وافر حصہ حاصل کیا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ نبی کریم صلی الله علیہ و سلم سے فقہ کا جو نور فقہاء ِ صحابہ کرام تک منتقل ہوا تھا وہ سارے کا سارا نور حضرت زید رضی الله تعالیٰ کے واسطے سے آپ کو نصیب ہوا۔

عبدالله مر جانی  نے ” بھجة النفوس والاسرار“ میں مدینہ منورہ کے فقہاء کی ترتیب بڑے احسن انداز میں ذکر فرمائی ہے۔ تحریر فرماتے ہیں:

”نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں چودہ حضرات فتوی دیا کرتے تھے:

خلفائے اربعہ، عبدالرحمن بن عوف، ابن مسعود، عمار، اُبی، معاذ، سلمان، ابوموسی ، حذیفہ، ابو دردا، زید ( رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین) اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی موجودگی میں ابوبکر صدیق  کے علاہ کوئی صحابی فتوی نہیں دیا کرتے تھے۔

علی بن مدینی  کہتے ہیں: رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب کی تمام فقہ تین اصحاب پر پوری ہوتی ہے، ابن مسعود، زید، ابن عباس (رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین) اور ابن مسعود سے چھ حضرات نے علم حاصل کیا، علقمہ، اسود، عبیدہ، مسروق، حارث بن قیس، عمر وبن شرحبیل (رحمة الله تعالیٰ علیہم اجمعین)۔

ان تمام حضرات کا علم نخعی اور شعبی پر، نخعی اور شعبی کا علم ابو اسحاق اور اعمش پر او ران دونوں کا علم ثوری پر پورا ہوا۔

حضرت زید سے گیارہ حضرات نے علم حاصل کیا: قبیصہ، خارجة، عبیدالله بن عبدالله، عروة، ابو سلمة، ابوبکر بن عبدالرحمن، قاسم، سالم، ابن المسیب، أبان بن عثمان، سلیمان بن یسار، ان تمام حضرات کا علم زہری، ابو الزناد اور بکیراشج تک منتقل ہوا او رپھر ان تمام کا علم مالک کے پاس آیا۔

ابن عباس  سے چھ حضرات نے علم حاصل کیا: سعید بن جبیر، عطاء بن أبی رباح، عکرمہ، مجاہد، طاؤس، حماد بن زید، پھر ان تمام حضرات کا علم عمرو بن دینار کے پاس آیا۔ ( بہجة النفوس والاسرار:1/273-272)

قارئین کرام! غور فرمائیے گا کہ حضرت سلیمان بن یسار سمیت مدینہ منورہ کے تقریباً تمام بڑے فقہاء حضرت زید  کے شاگردوں میں شامل ہیں اور امام مالک نے اسی سلسلہ نور سے روشنی حاصل کی تھی۔ یہاں سے یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ امام مالک کی فقہ کی بنیاد فقہائے مدینہ کے علوم پر ہے او را س تمام پس منظر میں یہ بات سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ مالکیہ کی طرف سے ”تعامل مدینہ“ کو دلیل کے طور پر کیوں پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس تمام پسمنظر کو سمجھنے کے بعد ” تعامل مدینہ“ فقط ایک اصطلاح نہیں رہتی، بلکہ ایک نظریے اور فکر کے طو رپر سامنے آتی ہے، ایک ایسی فکر جس پر وقت کے بڑے فقہاء کا اجماع ہوتا ہے۔

حضرت سلیمان بن یسار کے دامن میں ہزاروں نسبتیں موجود تھیں اور آپ ہر ایک نسبت سے خوب خوب مستفید ہوئے تھے #
          آئے عشاق گئے وعدہِ فردا لے کر
          اب اُنہیں ڈھونڈ چراغ رخِ زیبا لے کر

زہد وورع

حضرت سلیمان بن یسار تقوی وورع کے اعلیٰ مقام پرفائز تھے۔

سلمان بن یسار ہر روز روزہ رکھا کرتے تھے اور ( ان کے بھائی) عطاء بن یسار ایک دن روزہ رکھتے تھے او رایک دن افطار کرتے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء:4/448، رقم الترجمہ:173)

رجال کی تقریباً تمام کتب میں ایک واقعہ لکھا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان بن یسار بہت خوب صورت تھے، ایک دفعہ ایک ساتھی کے ساتھ سفر پر نکلے، ساتھی کسی کام سے بازار گیا، اسی دوران ایک عورت ان کے خیمے میں گئی اور دعوت ِ گناہ دی۔ حضرت سلیمان بن یسار الله کے خوف سے رونے لگے او راتنا روئے کہ عورت شرمندہ ہو کر واپس چلی گئی۔ رونے کی وجہ سے آپ کی آنکھیں سوج چکی تھیں۔ ساتھی نے واپس آکر وجہ پوچھی تو آپ نے ٹالنے کی کوشش کی، لیکن برابر اصرار پر وجہ بتادی۔ وجہ سن کر ساتھی نے بھی رونا شروع کر دیا۔ حضرت سلیمان بن یسار کے وجہ پوچھنے پر بتایا کہ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو صبر نہ کرسکتا۔ (حلیة الاولیاء:2/218)

صفة الصفوة میں اس قسم کا واقعہ آپ کے بھائی عطاء بن یسار کی طرف بھی منسوب ہے۔ ( صفة الصفوة، رقم الترجمہ:160)

تہذیب الکمال میں لکھا ہے کہ اس واقعے کے بعد آپ کو خواب میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی زیارت ہوئی۔ ( تہذیب الکمال: 12/104، رقم الترجمہ:2574)

قارئین کرام خشیت کا اندازہ کیجیے کہ تنہائی میں الله رب العزت کا کس قدر ڈر ہے!! گناہ کے سارے اسباب موجود ہیں، تنہائی ہے، جانب ِ آخر سے آمادگی ہے، اس کے باوجود گناہ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ پھر الله رب العزت نے ایسی بلندیوں سے نوازا کہ آج چودہ سو سال گزر گئے ہیں اور آپ کا ذکرِ خیر جار ی ہے۔

یقینا جو الله رب العزت کے لیے اپنی آرزؤوں کا خون کرتے ہیں الله تعالیٰ ایسے ٹوٹے ہوئے دلوں کی بڑی قدر فرماتے ہیں #
          تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
          کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

حق گوئی وبے باکی

علمائے ربانین کی ایک صفت حق گوئی بھی ہے، جو حضرت سلیمان بن یسار میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ کسی ظالم کا خوف آپ کو حق کہنے سے روک نہیں سکا۔

ابو العرب کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت سلیمان بن یسار کسی حاکم کے سامنے لائے گئے تو اس نے زبان کاٹنے کا حکم دے دیا، یہاں تک کہ عمربن عبدالعزیز نے سفارش فرمائی۔ (کتاب المحن، ص:314)

علمائے کرام کی آرا

ابو زرعہ فرماتے ہیں: حضرت سلیمان بنیسار ثقہ، مامون، فاضل اور عابد ہیں۔

امام نسائی  فرماتے ہیں: آپ ائمہ میں سے ایک ہیں ۔ (تہذیب التہذیب:2/112)

امام مالک فرماتے ہیں: حضرت سلیمان بن یسار، سعید بن مسیب کے بعد بڑے عالم تھے۔

عمر وبن دینار  فرماتے ہیں کہ حسن بن محمد بن علی نے فرمایا کہ حضرت سلیمان بن یسار، سعید بن مسیب سے زیادہ علم والے تھے۔ (الطبقات الکبری:5/174)

علامہ ذہبی  فرماتے ہیں: آپ ائمہ مجتہدین میں سے تھے۔ (تذکرة الحفاظ:1/91)

حسن بصری فرماتے ہیں کہ کبھی آدمی عالم ہوتا ہے او رعابد نہیں ہوتا، کبھی عابد ہوتا ہے او رعالم نہیں ہوتا، کبھی عالم اور عابد تو ہوتا ہے، لیکن عاقل نہیں ہوتا، حضرت سلیمان بن یسار عالم بھی تھے، عابد بھی تھے اور عاقل بھی تھے۔ ( ثمار القلوب فی المضاف والمنسوب:1/172)

وفات

عمر عزیز کی 73 بہاریں گزرنے کے بعد آپ نے اجل کی دعوت پر لبیک کہا اور صدقہ جاریہ کی ہزاروں صورتیں چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔

آپ کی وفات107ھ میں ہوئی۔ بعض نے سن وفات100ھ اوربعض نے 104 ھ بتلایا ہے۔ (وفیات الاعیان:2/399)

واقدی کہتے ہیں:
مجھے اس میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا کہ آپ نے 107ھ میں وفات پائی اور آپ کی عمر73 سال تھی۔ (الطبقات الصغیر:1/86 ،رقم الترجمہ:464)

آپ کی وفات کے ساتھ ہی علم ومعرفت کا ایک عہد تمام ہوا #
          مسافر ترا ذکر کرتے رہے
          مہکتا رہا راستہ دیر تک

روشن مینار سے متعلق