شاہراہ ِ انسانیت کی روشن قندیلیں

شاہراہ ِ انسانیت کی روشن قندیلیں

مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید

معلم انسانیت صلی الله علیہ وسلم کے فیضان ِ نبوت سے رشد وہدایت کی جو شمعیں روشن ہوئیں اور صاحب خلق عظیم صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کی اقتداسے جن سعادت مندوں کے قلب وقالب پر صبغة الله کا رنگ چڑھا، ان کا وجود سراپا خیر وبرکت، ان کی زندگی انسانیت کے لیے مایہٴ فخر او ران کا نقش پا قافلہ انسانیت کے لیے نشان منزل ہے۔ ان اکابر نے ایثار وقربانی، ہم دردی وخیر خواہی ، صبر وشکر، زہد وقناعت، ورع وتقویٰ اور اعلیٰ انسانی اقدار کا جو بلند معیار قائم کیا اسے ”شاہراہ ِ انسانیت کی روشن قندیلیں“ کہیے تو بجا ہے او رملت مسلمہ کے لیے مینارہٴ نور کہیے تو درست ہے۔

ان مقبولان ِ بارگاہ خدا وندی کے ذکر سے رحمت نازل ہوتی ہے او ران کے حالات و واقعات ان کی صحبت کا بدل ہیں او ران کی صحبت بارگاہ قدس میں حاضری، بقول عارف رومی قدس سرہ:
ہر کہ خواہد ہم نشینی باخدا
گو نشیند در حضورِ اولیاء

وفاومروّت
مولانا غلام علی آزاد رحمہ الله، میر سید طیب رحمہ الله کے حالات میں لکھتے ہیں: شیخ عبدالحق (محدث) دہلوی قدس سرہ اور حضرت میر طیب رحمہ الله کے مابین بڑا گہرا دوستانہ تعلق تھا، شیخ عبدالحق قدس سرہ برعایت بزرگی انہیں، ”شیخ طیب“ کہا کرتے تھے، شیخ عبدالحق قدس سرہ پیرانہ سالی کے زمانے میں کسی کتاب کا درس دے رہے تھے کہ کسی مقام میں شیخ کو تأمل ہوا، شیخ نے حضرت میر رحمہ الله کو یاد کرکے فرمایا: ”اگر شیخ طیب اس وقت موجود ہوتے تو اس مقام کو آسانی سے حل کر دیتے ۔“

اِدھر شیخ کے منھ سے یہ بات نکلی او راُدھر حضرت میر طیب رحمہ الله جو وطن ومالوف (بلگرام) سے بقصد دہلی تشریف لار ہے تھے، کمر بستہ شیخ کی خدمت میں پہنچ گئے، شیخ بہت خوش ہوئے، انہیں خوش آمدید کہا اورفرمایا: ”ہم تو آپ کو یاد ہی کر رہے تھے۔“ قصہ بیان فرمایا، کتاب پیش کی گئی، حضرت میر سید طیب رحمہ الله نے کتاب ہاتھ میں لے کر قدرے تامل کیا اورپھر ”عبارت رابنہجے خواند کہ مطلب بے آنکہ تقریر کنند خود بخود واضح گشت“۔ عبارت اس انداز سے پڑھی کہ مطلب بغیر تقریر کے آپ سے آپ واضح ہو گیا۔

شیخ نے فرط مسرت میں حاضرین سے فرمایا:”دیکھا! ہم نہ کہتے تھے کہ شیخ طیب اس مقام کو با آسانی حل کرسکتے ہیں۔“

مولانا آزاد رحمہ الله آگے لکھتے ہیں:
”شیخ عبدالحق کے صاحب زادے شیخ نور الحق ان دنوں بادشاہ وقت کے اصرار سے دارالحکومت آگرہ میں منصب قضا پر فائز تھے، شیخ عبدالحق رحمہ الله نے میر سید طیب رحمہ الله سے دریافت کیا ”کس راستے سے آنا ہوا؟“ ”آگرہ کے راستے سے !“ ، ”نور الحق سے بھی ملاقات ہوئی؟“، ”جی نہیں! موانع سفر سے ملاقات کا موقع نہ مل سکا۔“ ظاہر ہے کہ میر سید رحمہ الله اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے تھے۔

شیخ نے فرمایا:”بظاہر اس کا سبب یہ ہے کہ وہ قضا کا مرتکب ہے، اس لیے اعراض فرمایا گیا، بعد ازاں شیخ نے فرزند ارجمند کی شان میں کچھ توصیفی کلمات فرمائے کہ وہ اگر چہ میرا بیٹا ہے مگر ہے باپ کی جگہ، اگرچہ میرا شاگرد ہے، مگر بجائے استاذ کے ہے او راگرچہ میرا مرید ہے، مگر بمنزل مرشد کے سمجھتا ہوں۔“

میر سید رحمہ الله نے اس دوستانہ شکوہ کا کیا اثر لیا؟ وہ خود مولانا آزاد بگرامی رحمہ الله کی زبان سے سنئے:
”میر سید طیب رحمہ الله از پیش شیخ برخاست بعنوا نے کہ گویا برائے کمر واکر دن می رود، اطلاع شیخ ہما طور کمر بستہ بہ رجع القہقہری گرفت، وبا شیخ نور الحق ملاقات کردہ برگشت۔

شیخ عبدالحق از حسن خلق میر خیلے خوش نود، گرچہ معذرتہا بر زبان آورد۔“ (مأثر الکرم، ص:26)
ترجمہ:”میر سید طیب رحمہ الله شیخ کے پاس سے ایسے اٹھے گویا کمر جو باندھ رکھی تھی، اسے کھولنے جارہے ہیں اور شیخ کو اطلاع کیے بغیر اسی طرح بندھی بندھائی الٹے پاؤں آگرہ کی راہ لی، نور الحق سے ملاقات کرکے واپس آئے۔

شیخ عبدالحق رحمہ الله حضرت میر رحمہ الله کے حسن خلق سے بہت خوش ہوئے اور دیرتک معذرت کرتے رہے۔“

گھر کی بات بازار میں
انہی میر سید طیب قدس سرہ کے تذکرہ میں مولانا غلام علی آزاد رحمہ الله نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ایک دن ایک بزگ، میر سید رحمہ الله کی مشتاقانہ زیارت کو آئے، دورانِ گفت گو”مشکلے ازمسائل توحید پرسید“۔(مسائل توحید کا کوئی نازک مسئلہ پوچھ بیٹھے) مگر حضرت میر رحمہ الله طرح دیے گئے اور باند از تجاہل فرمایا:” مجھے اس مسئلے کی خبر نہیں“۔ اور اس امر کی مطلق پروا نہیں کی لوگوں کے حسن عقیدت کو ٹھیس پہنچے گی۔ یا کوتاہ علمی کا یہ اعتراف لوگوں کی نظر سے انہیں گرادے گا۔ بہرحال مجلس ختم ہوئی اور خلوت میسر آئی تو حضرت میر رحمہ الله نے مہمان سائل سے فرمایا: ”گھر کی بات بازار میں نہیں کہا کرتے، ہاں! اب پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟“(مآثر الکرام، ص:46)

اشراف نفس
مولانا غلام علی آزاد رحمة الله علیہ، میر مبارک محدث بلگرامی قدس سرہ کے حالات میں تحریر فرماتے ہیں:
”استاذ المحققین میر طفیل محمد بلگرامی طاب ثراہ فرماتے تھے کہ ایک روز حضرت میر ( سید مبارک رحمہ الله) کی خدمت میں باریاب ہوا، وضو کے ارادے سے اٹھے تھے کہ اچانک زمین پر گر گئے۔ میں اٹھ کر پاس گیا، کچھ دیر کے بعد افاقہ ہوا تو میں نے سبب دریافت کیا، تو بتانے سے گریز فرمایا، بالآخر بڑے اصرار کے بعد فرمایا کہ تین دن سے کسی قسم کی کوئی غذا حلق سے نیچے نہیں اتری۔ ان تین دنوں میں نہ کسی سے اس فاقہ کا اظہار کیا نہ قرض لیا۔ مجھ پر بڑی رقت طاری ہوئی، وہاں سے فوراً اپنے مکان پر پہنچا اور نہایت عمدہ کھانا، جو حضرت رحمہ الله کو مرغوب تھا، تیار کیا اور لے کر حاضر خدمت ہوا، پہلے تو بہت ہی مسرت وبشاشت کا اظہار فرمایا اور بڑی دعائیں دیں، بعد ازاں فرمایا: ” اگر تمہیں ناگوار نہ ہو تو ایک بات کہوں؟“ عرض کیا ضرور۔

فرمایا:”ایسے کھانے کا نام فقراکی اصطلاح میں ”طعام اشراف“ ہے، ہر چند کہ فقہاء کے نزدیک اس کا کھانا جائز ہے اور شریعت میں تین دن کے بعد تو مردار بھی حلال ہے، مگر طریقہ فقرا میں ” طعام اشراف“ کا کھانا جائز نہیں۔“
میں نے حضرت کا یہ ارشاد سنا تو بغیر کسی ردوقدح اور چون وچرا کے وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا او رکھانا اٹھا کر باہر لے آیا، تھوڑی دیر توقف کے بعد کھانا لے کر پھر حاضر ہو گیا اور عرض کیا کہ جب بندہ اس کھانے کو اٹھا کر لے گیا تھا تو کیا حضرت کو یہ توقع تھی کہ دوبارہ واپس لائے گا؟ فرمایا: نہیں! عرض کیا: اب تو یہ حضرت کی توقع کے بغیر آیا ہے، اس لیے ”طعام اشراف“ نہیں رہا۔ حضرت میر رحمہ الله اس تاویل سے بہت محظوظ ہوئے اور فرمایا کہ : تم نے عجیب فراست سے کام لیا، چناں چہ اس کھانے کو بہ رغبت تمام تناول فرمایا۔“ (مآثر الکرام،ص:89,88)

فائدہ…”اشراف“ کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر سے جھانک کر دیکھنا اور جب کسی چیز کے حصول کو دل للچائے یا کسی شخص سے کسی چیز کے حاصل ہونے کی توقع ہو تو اس کو ”اشراف نفس“ کہتے ہیں اور یہ اصطلاح مندرجہ ذیل احادیث سے لی گئی ہے:”عن حکیم بن حزام قال: سألت رسول الله صلی الله علیہ وسلم فاعطانی، ثم سألتہ فاعطانی، ثم قال لی: یا حکیم! ان ھذا المال خضر حلو، فمن اخذہ بسخاوة نفس بورک لہ فیہ، ومن اخذہ باشراف نفسٍ لم یبارک لہ فیہ، وکان کالذی یأکل ولا یشبع، والید العلیا خیر من الید السفلیٰ، قال حکیم، فقلت: یا رسول الله! والذی بعثک بالحق! لا ازرأ احداً بعدک شیئاً حتیٰ اُفارق الدنیا“․ متفق علیہ․(مشکوٰة، ص:162)

ترجمہ:”حضرت حکیم بن حزام رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں دست سوال دراز کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے مال عطا کر دیا، میں نے دوبارہ سوال کیا، پھر عطا فرمایا۔ پھر ارشاد فرمایا:”اے حکیم! یہ مال بڑا سر سبز، دل فریب اور شیریں ہے، جو شخص اس کو سیر چشمی کے ساتھ لے اس کے لیے تو اس مال میں برکت ہو گی اور جو نفس کی حرص وطمع( اشراف نفس) کے ساتھ لے، اس کے لیے مال میں کبھی برکت نہ ہوگی او راس کی حالت جوع البقر کے اس مریض کی ہے جو کھاتا جائے مگر پیٹ نہ بھرے اور اوپر کا ہاتھ ( یعنی دینے والا) بہتر ہے نیچے کے ہاتھ سے (یعنی لینے والے سے )۔“

ایک او رحدیث حضرت عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ:
” عن عمر بن الخطاب قال:کان النبی صلی الله علیہ وسلم یعطیني العطاء، فاقول أعطہ أفقر إلیہ مني! فقال: خذہ فتمولہ وتصدق بہ، فما جاء ک من ھذا المال وأنت غیر مشرف ولاسائل فخذہ ومالا فلا تتبعہ نفسک“ ․ متفق علیہ․(مشکوٰة، ص:162)

ترجمہ:” آں حضرت صلی الله علیہ وسلم مجھے مال کا کچھ عطیہ دیتے، تو میں عرض کرتا کہ کسی ایسے شخص کو دیجیے جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا حرج ہے، اس کو لے لو، اپنے پاس رکھو اور صدقہ خیرات کرو۔ (بعدازاں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ایک اصولی ضابطہ بیان فرمایا کہ ) جو مال بغیر طمع نفس اور سوال کے تیرے پاس آجائے اس کو لے لیا کرو اور جو اس شرط پر پورا نہ اترے، اس کے پیچھے رال نہ ٹپکاؤ۔“
ان احادیث میں تصریح فرمائی گئی ہے کہ جس طرح بغیر ضرورت واضطرار کے سوال کرنا جائز نہیں، اسی طرح کسی کی چیز پر نظر رکھنا، اس کے حصول کی حرص اور طمع رکھنا بھی ناپسندیدہ ہے او راس طرح جو مال حاصل ہو، وہ کبھی خیر وبرکت کا موجب نہیں ہوتا، اس سے نفس کو تسکین نہیں ہوتی، بلکہ اس کی جوع البقر میں او راضافہ ہوتا ہے۔ الغرض شریعت میں زبان کا سوال جس طرح ناجائز ہے، اسی طرح دل کا سوال بھی مکروہ ہے، اسی کو ”اشراف نفس“ کہتے ہیں، جس سے بچنے کا اہل الله کے یہاں خاص اہتمام ہے۔

ایک پیسہ اور دو کام
میر سید مبارک محدث بلگرامی قدس سرہ ہی کا ایک اور واقعہ مولانا آزاد رحمة الله علیہ نے اس طرح نقل کیا ہے کہ موصوف نے اپنے قدیم محلہ”سید واڑہ“ سے ترک سکونت کرکے شہر کی مشرقی جانب ایک میدان میں سکونت اختیار کر لی تھی، وہاں رعایا آباد کی، مسجد بنوائی، رہائشی مکانات بنوائے اور چوروں اور درندوں سے حفاظت کے لیے آبادی کے گرد پختہ دیوار بنوائی۔ اس بستی میں بیشتر نور بافوں کو آباد کیا، کیوں کہ وہ اکثر دین دار اورنمازی ہوتے ہیں او رتمام آباد کاروں کے لیے قانون مقرر کردیا کہ پنجگانہ نماز باجماعت مسجد میں ادا کیا کریں۔ ایک جولا ہے نے عذر کیا کہ میں پنج وقتہ حاضری سے معذور ہوں، میر رحمة الله علیہ نے وجہ دریافت کی تو جولاہا بولا: جتنی دیر نماز کو جاتا ہوں کام میں حرج ہوتا ہے او راجرت میں نقصان۔ حضرت میر رحمہ الله نے پوچھا کہ روزانہ نماز کے وقت کام بند رہنے سے کتنی کمی واقع ہو جاتی ہے؟ جواب دیا کہ ایک پیسہ ! حضرت میر رحمہ الله نے فرمایا: ایک پیسہ ہم سے لے لیا کرو، مگر نماز پڑھا کرو، اس نے قبول کر لیا۔

ایک روز یہ جولاہا مسجد میں آیا اور وضو کیے بغیر نماز میں کھڑا ہو گیا، حضرت میر رحمہ الله نے ڈانٹا کہ بغیر وضو کے نماز پڑھتے ہو؟ جواب دیا ایک پیسے میں دو کام نہیں ہو سکتے کہ وضو بھی کروں اور نماز بھی پڑھوں، حضرت رحمہ الله کو بے اختیار ہنسی آئی اور وضو کے لیے مزید ایک پیسے کا اضافہ فرما دیا۔

دعوت وتبلیغ کا ایک اہم اصول
یہ تو خیر ایک لطیفہ ہوا، مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ مولانا آزاد رحمہ الله نے آگے لکھا ہے :
”رفتہ رفتہ حائک رار غبت دلی درنماز بہم رسید، واز تقاضائے اجرت درگزشت۔“ (مآثر الکرام،ص:97)
یعنی وہ مسکین جولاہا جو نماز کے علاوہ وضو کے لیے الگ پیسے کا مطالبہ کرتا تھا، رفتہ رفتہ ظاہر کا اثر اس کے باطن پر ہوا، نماز اس کے قالب سے قلب تک پہنچ گئی اور جو نماز صرف ایک پیسے کے لالچ میں پڑھی جارہی تھے، وہی بالآخر دلی رغبت کے ساتھ اداہونے لگی اور یوں اس کے اجرومزدوری کا معاملہ بجائے میر صاحب کے براہ راست اس ذات عالی سے طے ہو گیا، جس کی نماز پڑھانا مقصود تھی۔

بظاہر جو نماز ایک پیسے کے بدلے پڑھی پڑھائی گئی وہ ایک پیسے کی بھی نہیں تھی، لیکن شروع ہی سے اسے یہ مسئلہ سمجھایا جاتا تو بعید نہیں وہ تمام عمر نماز سے محروم رہتا، مگر حضرت میر قدس سرہ نے حکیمانہ تدریج سے اسے نماز کا عادی بنا دیا۔ اس تدریجی حکمت سے کم ہمتوں کی ہمت بڑھانا اور بے راہوں کو راہ پر ڈالنا اسوہٴ نبوت ہے۔
چناں چہ حدیث میں آتا ہے کہ بنو ثقیف کا وفد بارگاہ نبوی صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو انہوں نے اسلام لانے کے لیے یہ شرط رکھی کہ نہ تو انہیں کبھی جہاد کے لیے بلایا جائے گا، نہ ان سے زکوٰة وعشر لیا جائے گا اور نہ انہیں نماز پڑھنے کے لیے کہا جائے گا۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں جہاد وعشر کی معافی دی جاتی ہے، رہی نماز تو اس کی معافی نہیں ہو سکتی ، کیوں کہ اس دین میں ذرا بھی خیر نہیں جس میں نماز نہ ہو:”فانہ لاخیر فی دین لارکوع فیہ․“

دوسری روایت میں ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے جہاد وعشر کی معافی کی شرط پر ان کا اسلام قبول فرمایا، مگر ساتھ ہی فرمایاکہ یہ لوگ اسلام لے آئیں تو خود بخود صدقہ بھی اداکریں گے او رجہاد بھی کریں گے۔ (ابوادؤ،ص:468)

مولانا بدر عالم نوّرالله مرقدہ پہلی روایت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
”امام موصوف (خطابی) کا خیال ہے کہ جہاد اور زکوٰة کا استثنا بھی یہاں صرف صورتاًتھا، کیوں کہ جہاد ہمیشہ فرض نہیں ہوتا، زکوٰة بھی نصاب اور حولان حول پر موقوف ہوتی ہے، اس لیے سردست ان کو ان دونوں سے سبک دوش کیا جاسکتا تھا، رہی نماز تو وہ ایک ایسی عبادت تھی جسے دن میں پانچ بارادا کرنا ہر شخص پر فرض ہے، اس کا استثنا کسی کے حق میں گوارا نہیں کیا جاسکتا، نیز اس وفد بنو ثقیف کے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم کو یہ یقین حاصل ہوچکا تھا کہ آئندہ چل کر وہ اپنے شوق سے صدقہ بھی کریں گے او رجہاد بھی کریں گے، ایسی صورت میں ان کے ساتھ لفظی مناقشہ کرنا غیر مناسب تھا۔“ (معالم السنن:3/35)

اور دوسری روایت کے تحت لکھتے ہیں:
”اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک مبلغ کے لیے اصل مقاصد کا لحاظ رکھنا ضرور ی ہے اور لفظی مناقشات کرنا نامناسب ہے، بعض مرتبہ صرف لفظی گرفتوں سے اصل مقاصد ہی فوت ہوجاتے ہیں۔“ (ترجمان السنہ:2/40)
اسی نوعیت کی ایک اور حدیث ابوداؤد، مسند احمد اور مستدرک حاکم میں بالفاظ مختلفہ مروی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت فضالہ لیثی رضی الله عنہ بارگاہ نبوی صلی الله علیہ وسلم میں حاضرہو کر مشرف باسلام ہوئے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے انہیں نماز، روزہ اور شرائع اسلام کی تعلیم فرمائی اورنماز پنجگانہ کی محافظت کا حکم فرمایا، انہوں نے عرض کیا: یا رسول الله! میں ان اوقات میں کچھ زیادہ ہی مشغول ہوتا ہوں، بس کوئی جامع بات، جو کافی وشافی ہو، مجھے بتا دیجیے! فرمایا: بہت اچھا!”عصرین“ کی پابندی کیا کرو۔ یہ لفظ انہوں نے پہلی بار سنا تھا، عرض کیا: یا رسول الله! ”عصرین“ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: سورج نکلنے سے پہلے کی نماز اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نماز۔( ابوداؤد، ص:1، ترجمان السنہ، ص:46)

اس حدیث پر اشکال کیا گیا ہے کہ پانچ نمازوں کے بجائے ان صاحب کو فجر اور عصر کی پابندی کا حکم کیسے فرمایا؟ علمائے کرام نے اس حدیث پر متعدد پہلوؤں سے کلام کیا ہے، مگر سب سے آسان بات وہی ہے جو اوپر عرض کی گئی، یعنی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے تدریجی حکمت کو اس میں ملحوظ رکھا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جب انہیں پنج وقتہ نماز کی نگہداشت کا حکم فرمایا اور انہوں نے ان اوقات میں اپنی شدید مصروفیت کا عذر کیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ مصروفیت کی بنا پر کبھی دیر سویر ہو گئی تو وعدہ شکنی ہو گی ،اس لیے کوئی ایسی جامع بات بتائیں جس کو پورے طور پر نباہ سکوں اور وعدہ خلافی نہ ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم کی جگہ کوئی اور ہوتا تو بگڑ کر کہتا کہ بندہ خدا! ایسی مصروفیت کون سی ہے جو نماز سے زیادہ اہم ہو؟ مگر نہیں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے ( میرے ماں باپ آپ صلی الله علیہ وسلم پر فدا ہوں ) ان کے اس عذر پر جرح کرنا خلاف ِ حکمت سمجھا او راس کے بجائے انہیں ”عصرین“ کی پابندی کا حکم فرمایا، مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ ان دو نمازوں کو اگر ٹھیک وقت پر مسجد میں باجماعت ادا کرنے کا التزام کر لیا جائے ۔ (اسی کو محافظت کہتے ہیں )تو باقی تین نمازوں کی محافظت کچھ بھی مشکل نہیں رہتی، گویا”عصرین‘ کی پابندی کا حکم بجائے خود پنج وقتہ کی پابندی کی تمہید یا اس کا پہلا زینہ تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم ایک ایسے نو مسلم کو جو ابھی چند لمحے پہلے اسلام سے آشنا ہوا، اسی تدریجی سیڑھی کے ذریعہ اسلام کی آخری بلندی اور اس کی انتہائی معراج تک لے جانا چاہتے تھے۔ (اصلاحی مواعظ:5/344-333)