حضرت امام بیہقی رحمة الله علیہ

حضرت امام بیہقی رحمة الله علیہ

سیّد عمران فیصل

محدثین ِ کرام میں بلند پایہٴ علمی مقام رکھنے والی ایک شخصیت امام بیہقی رحمة الله علیہ کی بھی ہے۔ آپ کا نام احمد او رکنیت ابوبکر ہے۔ آپ کی ولادت شعبان المعظم384ھ کو خُراسان کے مشہور شہر بیھق (نزد نیشاپور، ایران) میں ہوئی۔بیھق شہرکی نسبت سے آپ کو بیہقی کہا جاتا ہے۔ بیھق نیشاپور کے مضافات میں 60 میل کے فاصلے پر واقع بڑا زر خیز، نہایت آباد اور وسیع مقام ہے۔

تحصیل ِ علم
امام بیہقی بچپن ہی سے حدیث مبارکہ کے علم کی تحصیل وتکمیل اور اس کی جمع وتحریر میں مشغول ہو گئے تھے، آپ نے علوم ِ دینیہ اور علم حدیث کے حصول کے لیے متعدد مقامات اور علمی مراکز کا سفر کیا۔ پہلے بیہق سے نیشاپور تشریف لے گئے، پھر خراسان کے اکابر علماء ومحدثین سے استفادہ کرنے کے بعد عراق، جبال اور حجاز کے مختلف اہم شہروں بغداد، مکہ اورکوفہ وغیرہ کا سفر کیا۔ آپ پندرہ سال کی عمر سے ہی سماع حدیث، یعنی اساتذہ سے براہ ِ راست حدیث پاک کے الفاظ سننے کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ آپ کے اساتذہ میں صاحب مُستدرک امام ابوعبدالله حاکم نیشاپوری کا نام سر ِ فہرست ہے۔

آپ کو امام حاکم سے بہت زیادہ استفادہ کا موقع ملا۔ آپ امام حاکم کے جلیل القدر تلامذہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ آپ نے علم ِ حدیث سب سے زیادہ انہی سے حاصل کیا ،کیوں کہ امام حاکم اپنے وقت کے بہت بڑے محدث تھے اور نیشاپور میں علم ِ حدیث میں ان کا سب سے اونچا مقام تھا۔ آپ کو عرصہٴ دراز تک ان کی صحبت میں رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ امام ذہبی تذکرة الحفاظ میں فرماتے ہیں:” ھو من کبارأصحاب الحاکم ویزید علیہ بأنواع من العلوم“ وہ امام حاکم کے بڑے اصحاب میں سے تھے، تاہم بعض علوم میں ان سے فائق ہو گئے۔ (تذکرة الحفاظ:3/220)

امام حاکم کے علاوہ آپ کے اساتذہ وشیوخ کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔

علمی شان وشوکت اور تصانیف
امام بیہقی کے حفظ وضبط اور ثقاہت واتقان پر ائمہٴ فن او رمحدثین کا اتفاق ہے۔ اہل سیر اورارباب تذکرہ نے ان کو ”الحافظ الکبیر المشہور“ کے لقب سے موسوم کیا ہے۔ حافظ عبدالغافر بن اسماعیل رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ امام بیہقی فقیہ ( مفتی)، حافظ ِ حدیث، قوت ِ حفظ میں یگانہٴ روزگار (اپنے زمانے میں بے مثال) اور ضبط واتقان میں اپنے ہم عصروں سے ممتاز تھے۔ امام حاکم کے بڑے شاگردوں میں سے ہیں، مگر کئی علوم ان سے زیادہ جانتے تھے۔ بچپن ہی میں احادیث مبارکہ کو لکھنا اور یاد کرنا شروع کر دیا تھا۔ آپ نے علم حدیث اور فقہ میں بے نظیر اور لاجواب کتابیں لکھیں۔ آپ نے عقائد، احادیث، فقہ، مناقب وغیرہ کئی اہم عنوانات پر کتب تصنیف کی ہیں۔

حفظ وضبط کی طرح آپ معرفت ِ حدیث میں بھی عدیم المثال تھے۔ احادیث کے علل اور اسقام کی تمیز میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے۔ حدیث او راس کے متعلقات میں اس درجہ عبور ہونے کی بنا پر آپ کا شمار نام اور محدثین او راکابرین میں ہوتا ہے۔ علامہ ابن عساکرنے ان کو ”شیخ السنہ“ اورابن عماد نے”شیخ خراسان“ لکھا ہے۔

ان کے زمانے میں فن ِ حدیث میں ان کا کوئی ہمسر اور ثانی نہ تھا۔ خراسان کے اندر کسی کو ان کی مرضی وسند کے بغیر کوئی حدیث بیان کرنے یا اس میں کسی قسم کا تصرف کرنے کی مجال نہ تھی۔ وہ ایک روز اپنے استاد امام حاکم کی مجلس میں، جہاں متعدد علماء واصحاب فضل وکمال موجود تھے، حاضر ہوئے۔ امام حاکم نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے اس کے کسی راوی کا نام ترک کر دیا۔ امام بیہقی نے فوراً اعتراض کیا۔ چناں چہ جب اصل سے مقابلہ کیا گیا توامام بیہقی کی بات درست نکلی۔

گو کہ حدیث کے علاوہ دوسرے فنون میں بھی ان کو دست رس حاصل تھی،تاہم فنِ حدیث میں ان کو زیادہ نمایاں مقام حاصل تھا۔ علامہ ابن ِ خلکان فرماتے ہیں:” غلب علیہ علم الحدیث واشتھر بہ “ ان پر علم حدیث خاص طورپر غالب تھا اور وہ اسی کے ساتھ مشہور ہو گئے۔

شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے علم میں غیر معمولی برکت او رفہم میں نہایت بصیرت عطا کی تھی۔ ان کی یاد گار ایسی عجیب تصنیفات ہیں جو ان سے پہلے کے لوگ نہیں لکھ سکے تھے۔ (بستان المحدثین:3/220)

امام بیہقی کے کمالات وصفات نے آپ کو مسلمانوں کا امام اور اصحاب علم کا مرجع بنا دیا تھا۔ ارباب سیر آپ کے فن کا اعتراف کرتے ہیں۔ آپ کے علم وفضل کی مقبولیت کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب آپ علوم کی تحصیل سے فارغ ہو کر اپنے وطن بیہق میں درس اور تصنیف وتالیف میں مشغول ہوئے تو بڑے بڑے ائمہ فن نے آپ سے نیشاپور تشریف لانے کی درخواست کی، تاکہ لوگوں کوان سے استفادہ میں سہولت او ران کی کتابوں کے سماع کا موقع ملے۔ اس خواہش کو دیکھتے ہوئے آپ ناحیہ سے 441ھ میں نیشاپور پہنچے۔ وہاں اہلِ علم نے امام صاحب کا شان دار استقبال کیا۔ وہاں آپ کی مجلس درس میں اصحاب ِ کمال شریک ہو کر آپ کی کتابوں کا سماع کرتے اور آپ سے استفادہ کرتے۔ (تذکرة الحفاظ:3/220)

فقہی مسلک
مسلک کے اعتبار سے آپ شافعی تھے۔ آپ کو اس مسلک سے غیر معمولی شغف تھا۔ اس کی نشر واشاعت او رتہذیب وتنقیح میں آپ نے نمایاں کارنامے انجام دیے، جن کے باعث شافعی مسلک کو بڑا فائدہ پہنچا۔ امام ذہبی تذکرة الحفاظ میں امام الحرمین ابو المعالی کا قول نقل فرماتے ہیں: ”ما من شافعي إلا وللشافعي علیہ منة إلا أبابکر البیھقي فإن لہ المنة علی الشافعی لتصانیفہ في نصرة مذہبہ“ امام بیہقی کے علاوہ کوئی ایسا شافعی المذہب نہیں ہے، جس پرامام شافعی کے احسانات نہ ہوں، لیکن امام بیہقی کا خود امام شافعی پر احسان ہے، کیوں کہ ان کی تصانیف سے ان کے مذہب ومسلک کی بڑی تائید واشاعت ہوئی ہے، وہ اس مذہب کے اصول وفروع کی حمایت میں نہایت پیش پیش رہے۔ (تذکرة الحفاظ:3/220)

زُہد وتقویٰ
امام بیہقی رحمة الله علیہ علمائے سابقین کی سیرت مبارکہ کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے۔ تذکرہ نگاروں نے آپ کو دین دار، صاحب تقویٰ، زاہد او رعفیف لکھا ہے۔ حج بیت الله سے بھی مشرف ہوئے تھے۔ علامہ ابن عبدالغافر فرماتے ہیں:”کان البیہقی علیٰ سیرة العلماء قانعا من الدنیا بالیسیر متجملا في زھدہ وورعہ“ امام بیہقی علمائے سلف کی طرح معمولی اور تھوڑی چیز پر قانع او رزہد وورع میں ممتاز تھے۔ (تذکرہ الحفاظ:3/220)

آپ دنیاوی مال میں سے بہت تھوڑے پر گزر بسر کرنے والے اور زہد وتقویٰ سے آراستہ تھے۔ آپ کی عادات وخصائل نہایت پاکیزہ تھے۔ عفت وقناعت ان کی سیرت کا اہم جوہر تھی۔ وہ اوصاف واخلاق میں سلف صالحین اور علمائے ربانین کے نقش قدم پر تھے۔ آپ کے عبادت کا یہ حال تھا کہ زندگی کے آخری تیس سال ( ممنوع ایام کے علاوہ) ہر دن روزے سے رہے۔

وصال
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ آخر عمر میں وہ نیشاپور چلے گئے تھے اوروہاں اپنی کتب کے درس میں مشغول ہو گئے، لیکن جلدی وقت ِ رحلت آن پہنچا اور 10 جمادی الاولیٰ458ھ کو نیشاپور میں آپ کا وصال ہوگیا۔ اس وقت آپ کی عمر 74 سال تھی۔ آپ کا جنازہ نیشاپور سے بیہق لایا گیا اورآپ یہیں سپردِ خاک کیے گئے۔ (وفیات الاعیان:1/76)

تصنیفات
امام بیہقی مایہ ناز مصنف تھے، آپ کے فضل وکمال کا سب سے بڑا ثبوت آپ کی تصانیف ہیں، جو ایک ہزار کے بقدر ہوں گی۔ آپ کی تمام تصنیفات نہایت جامع، پُر مغز، بے نظیر اور عدیم المثال ہیں۔ آپ کا شمار ان علمائے اسلام میں ہوتاہے جن کی کتابوں سے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔آپ نے جو شہرہٴ آفاق کتابیں تصنیف فرمائیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

دلائل النبوة
اس کتاب میں رسولِ پاک صلی الله علیہ وسلم کے معجزات، فضائل اور دلائل ِ نبوت کو نہایت عمدگی سے جمع کیا ہے۔ میلاد ، اسماء وصفات اور حیات مبارکہ کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔ حافظ ابن ِ کثیر سمیت متعدد علماء نے اس کتاب کو سیرت پاک میں سرچشمہٴ کتب کا درجہ دیا ہے۔

کتاب الاربعین
اخلاق سے متعلق سو حدیثوں کا مجموعہ ہے اور چالیس ابواب پر مرتب کی گئی ہے۔

شعب الایمان
اس کتاب کا پورا نام الجامع المصنف فی شعب الایمان ہے۔ یہ امام بیہقی کی مفیداور مشہور کتاب ہے، جو 2 جلدوں اور 70 ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں امام صاحب نے صحیحین وغیرہ کی مشہور حدیث الإیمان بضع وسبعون شعبة کے مطابق ایمان کے 70 شعبوں کی تفصیل تحریر کی ہے۔ نیز ہر شعبہ کے متعلق قرآن وحدیث کے دلائل پیش کرکے اس کی شرح کی ہے۔

السنن الکبریٰ
یہ امام بیہقی کی مایہ ناز اور شہرہٴ آفاق تصنیف ہے۔ صحاحِ ستہ کے بعد جن کتابوں کو غیر معمولی شہرت نصیب ہوئی ان میں یہ بھی ہے۔

آپ کی مشہور کتب میں معرفة السنن والآثار، السنن الصغیر، کتاب الأسماء والصفات اورحیاة الٴانبیاء کا نام سر ِ فہرست ہے۔