طوفان اس لیے آتے ہیں کہ اپنی تباہ خیزیوں کے ساتھ گزر جائیں، موجیں اس لیے متلاطم ہوتی ہیں کہ ساحل کو روند کر واپس چلی جائیں، آتش فشاں اس لیے پھوٹتے ہیں کہ زمین کے سینہ میں جو لاوے چھپے ہوئے ہیں وہ باہر آکر ساکت وجامد ہو جائیں، ان کی ہلاکت خیزیاں اورتخریب انگیزیاں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ لگتا ہے کہ کائنات کا کوئی ذرہ ان کے پنجہٴ استبداد سے بچ نہیں سکے گا، لیکن ان کو ثبات ودوام حاصل نہیں ہوتا، انسان کی شخصی او راجتماعی زندگی میں بھی ایسے طوفان اٹھتے ہیں کہ جس سے دل لرزنے اور قدم ڈگمگانے لگتے ہیں، لیکن اصل میں یہ اس کے لیے آزمائش کے لمحات ہیں، اگر وہ کچھ دیر اس میں استقامت کا ثبوت دے، کم ہمتی سے دو چار نہ ہو، جذبات سے مغلوب نہ ہو اور رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو کر کوئی غیر دانش مندانہ اقدام نہ کر بیٹھے ، تو یہی مصیبت اس کے لیے راحت کا مقدمہ اور یہی وقتی پستی اس کے لیے سر بلندی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
مؤمن کو قرآن نے ایسے مواقع پر دوباتوں کا حکم دیا ہے، صبر اور صلوٰة صبر کیا ہے؟ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی عزیز وقریب کی موت پر رونے دھونے سے اجتناب کا نام ”صبر“ ہے، لیکن حقیقت میں صبر کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس کا تعلق زندگی کے تمام شعبوں سے ہے، صبر کے معنی برداشت کرنے کے ہیں، قوت برداشت بہت بڑا جوہر ہے او راس قوت سے محرومی بہت بڑا عیب ہے، جس آدمی میں قوت برداشت ہوتی ہے، اس میں تدبیر کی صلاحیت ہوتیہے او روہ مخالف سازشوں سے نمٹنے کی مؤثر کارروائی کرسکتا ہے، انبیاء کو چوں کہ سب سے زیادہ مخالف حالات سے گزرنا پڑتا ہے، اس لیے ان میں حلم و برد باری اورمخالفت کو سہنے کی صلاحیت من جانب الله سب سے زیادہ ودیعت ہوتی ہے۔
میرا منشایہ نہیں ہے کہ صبر کا مطلب بزولی اختیار کرنا اور حوصلہ ہار جانا ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ حکمت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہیے اوراپنے جذبات کو بے محل خرچ کرنے سے بچنا چاہیے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں قدم قدم پر اس کی مثالیں ملتی ہیں، صلح حدیبیہ کے موقعہ پر اہل ِ مکہ کی جانب سے ایک جتھے نے مسلمانوں پر حملہ کیا، جو کم و بیش چالیس افراد پر مشتمل تھا، ظاہر ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کے جان کے درپے ہو کر حملہ آور ہوئے تھے او ران کی حقیقی سزا یہ تھی کہ یہ جس مقصد کے لیے آئے تھے، وہی رویہ ان کے ساتھ اختیا رکیا جاتا یعنی انہیں قتل کر دیا جاتا یا کم سے کم وہ قید کر لیے جاتے، لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہیں یوں ہی رہا فرما دیا، کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا، تو یقینا جنگ کی آگ بھڑک اٹھتی اوراس سے چاہے، جانی یا مالی نقصان کسی بھی فریق کا ہوتا، لیکن عربوں میں اسلام کے تئیں نفرت اور بڑھ جاتی، کیوں کہ وہ حرم کا بے حد احترام کرتے تھے، انہیں خیال ہوتا کہ مسلمانوں نے اب حرم کی حرمت کو بھی پامال کرنا شروع کر دیا ہے، یہ ہوش کو جوش اور حکمت ومصلحت کو جذبات پر غالب رکھنے کی ایک مثال ہے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا ایک معرکہ ”غزوہ بنو مصطلق“ کے نام سے معروف ہے، اس غزوہ میں ایک انصاری او رحضرت عمر رضی الله عنہ کے غلام کے درمیان معمولی سی بات پر کچھ تیز وتند، گفت گو ہو گئی، پھر انصاری نے اپنی مدد کے لیے انصار کو اورحضرت عمر کے غلام نے مہاجر کوآواز دی اور اس طرح دو افراد کا جھگڑا دو گروہ کا جھگڑا بن گیا، عبدالله بن اُبی، جو نفاق کے مرض میں مبتلا تھا، بلکہ گروہ منافقین کی قیادت کرتا تھا، اورکسی ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا جس سے اسلام کو اور مسلمانوں کو نقصان پہنچے، اس نے اس موقع کو اپنی ناشائستہ حرکت کے لیے بہت غنیمت جانا اور انصار کو یہ کہہ کر برانگیختہ کیا کہ مہاجرین کے معاملہ میں تمہاری مثال عربوں کے اس محاورہ کی سی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو کہ وہ تمہیں ہی کاٹ کھائے، ”سمن کلبک یأکلک“ عبدالله بن ابی کی اس ریشہ دوانی کی اطلاع حضور صلی الله علیہ وسلم کو ایک کمسن انصار ی صحابی نے دی، جب آپ نے عبدالله بن ابی کو بلا کر استفسار فرمایا تو وہ صاف مکر گیا، کچھ دوسرے بزرگ انصار جو عبدالله بن ابی کے نفاق سے واقف نہیں تھے، انہوں نے بھی عبدالله بن ابی کی حمایت کی، اس موقع پر قرآن مجید کی آیت ان کمسن انصاری صحابی کی تصدیق میں نازل ہوئی، حضور صلی الله علیہ وسلم نے ازراہِ شفقت ان کی گوش مالی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ نے اس کی تصدیق کی ہے۔
حضرت عمر رضی الله عنہ پر حق کا جوش غالب رہتا تھا، انہوں نے آپ سے اجازت مانگی کہ عبدالله بن ابی کی گردن مار دی جائے، اگر حضور صلی الله علیہ وسلم اس کی اجازت مرحمت فرماتے تو یقینا یہ بجا ہوتا کہ ” الفتنة اشد من القتل“ لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا، تاکہ اگر میں ایسا کروں تو انصار کو غلطی فہمی پیدا ہو سکتی ہے اور لوگ بھی ایسا سوچیں گے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم خود اپنے رفقاء کو قتل کرارہے ہیں، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی اور صحابہ کو کوچ کرنے کا حکم دیا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم اس پورے دن ، رات اور آئندہ دن دوپہر تک خلاف معمول چلتے رہے، یہاں تک کہ صحابہ تھک کر چور ہو گئے تو آپ نے پڑاؤ کرنے کا حکم فرمایا، اس مسلسل سفر کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اتناتھک جائیں کہ انصار مہاجرین کے درمیان جو تلخی وہاں پیدا ہو گئی تھی، اس کا اثر جاتا رہے، پھر ایک وقت آیا کہ خود عبدالله بن ابی کے صاحب زادے حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ بہت مخلص مسلمان اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے خاص محبین میں تھے، انہوں نے درخواست کی کہ میں اپنے والد کے نفاق سے واقف ہوں او راگر آپ صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہو تو میں خود انہیں قتل کرسکتا ہوں، آپ نے اس سے منع فرمایا اورارشاد ہوا کہ جب تک کوئی شخص اپنے آپ صلی الله علیہ وسلم کو مسلمان ظاہر کرے گا، میں اس کے ساتھ مسلمانوں کا ساہی معاملہ کروں گا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی الله عنہ کو یہ صورت حال بتائی کہ اگر ہم اس وقت عبدالله بن ابی کے قتل کا حکم دیتے تو اس سے بعض مخلص مسلمانوں کو بھی غلط فہمی ہو سکتی تھی، لیکن اب یہ صورت ِ حال ہے کہ خود ان کے بیٹے ان کا سر قلم کرنے کو تیار ہیں، حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے اپنے رسول کی رائے میں برکت رکھی ہے۔ بارک الله فی رأی رسولہ
․
یہ وہی حکمت ومصلحت اور ہوش کو جذبات اور جوش پر ہوش کو غالب رکھنے کی بات ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ میں اس کی کتنی ہی مثالیں ملتی ہیں، موجودہ حالات میں مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ اس صورت حال کو سمجھیں، اگر ہم نے مغلوب الجذبات ہو کر چند پتھر پھینک دیے، تو اس سے یقینا دوسروں کا کچھ خاص نقصان نہیں ہوگا اور نہ اس سے آپ کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا، البتہ اس سے آپ کے لیے بہت زیادہ نقصان ومضرت کا اندیشہ موجود ہے، کوئی انسان کتنا بھی ظالم اور بد خو ہو، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو اپنے ظلم وجور کے لیے کوئی دلیل ہاتھ آجائے، خواہ وہ کم زور سے کم زور تر کیوں نہ ہو، شیطان نے بھی اپنی عدول حکمی کے لیے ایک دلیل دریافت کر لی تھی کہ حضرت آدم علیہ السلام کا مادہٴ تخلیق اس کے مادہ تخلیق سے کم تر ہے، اس لیے وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کرے گا۔
اگر ہم مشتعل اور بے برداشت ہو کر کوئی معمولی سی حرکت بھی کر گزریں تو جو لوگ اپنے سینوں میں بغض چھپائے رکھتے ہیں، ان کو اپنی زیادتی کے لیے سند جواز ہاتھ آجاتی ہے، گویا ہم اپنے ہاتھوں ان کو اشتعال کا ہتھیار دے دیتے ہیں، پھر لوگ واقعات اور اس کے اصل محرکات کو نہیں دیکھتے، بلکہ ظاہری سبب کو ہی اس کا ذمہ دا رٹھہراتے ہیں، اس لیے ایسے مواقع پر سوچنا چاہیے کہ کون سا قدم ہمارے مقصد کے لیے مفید ومعاون ہو گا، مثلاً یہی افغانستان پر امریکا کے ظالمانہ حملہ کی بات ہے، اگر ہم حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ اس معاملہ میں مظلوم کی طرف داری یا کم سے کم غیر جانب داری کو برقرار رکھے، تو یہ ایک معقول بات ہوگی، اسی طرح مغربی اورعالم اسلام کے سفارت خانوں سے بھی ملاقاتیں کرسکتے ہیں اور ان کے سامنے اپنے جذبات رکھ سکتے ہیں، لیکن اگر ہم اس مقصد کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں تو اس سے ہمارے مقصد کو تو کوئی تقویت حاصل نہیں ہو گی، لیکن فرقہ پرست طاقتوں کے کاز کو ضرور تقویت ملے گی اور یہ ہمارے لیے کس قدر نقصان دہ ہو گا ، وہ محتاج بیان نہیں۔
خدا کی مدد کا دوسرا ہتھیار”صلوٰة“ ہے، صلوة کے اصل معنی نماز کے ہیں، نماز ایک ایسی عبادت ہے، جس میں انسان خدا کے سامنے اپنے آپ کو مکمل طور پر بچھا دیتا ہے اور پیشانی سے لے کر پاؤں تک انگ انگ خدا کی بندگی میں مشغول ہوتا ہے، اس لیے نماز دراصل رجوع الی الله کا عنوان ہے، یعنی مشکل حالات میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح رجوع ہوجائے، وہ خدا کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھ دے کہ ہم محتاج ہیں، تو غنی، ہم فقیر ہیں تو داتا، تو ان ہاتھوں کوخالی واپس نہ فرما، خدا کی طاقت بے پناہ ہے، یوں تو روز وشب خدا کی قدرت کو ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں، لیکن یہ قدرت اسباب کے پردہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے، کبھی کبھی خدا کی طاقت اسباب سے آزاد ہو کر بھی انسان کے مشاہدہ میں آتی ہے، غور کرو کہ جب حضرت موسیٰ اور قوم بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کے لیے فرعون کا لشکر جرار جمع ہو رہا تھا او رکبر وغرور سے مغرور ہو کر نکل رہا تھا، تو لوگ یہی دیکھ رہے تھے کہ یہ لشکر مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کے لیے چل رہا ہے، لیکن الله کے یہاں یہ بات مقدر تھی کہ ان کا یہ اجتماع خود ان کے نیست ونابود ہونے کا ذریعہ بن جائے گا، چناں چہ وہی ہوا، بدر کے معرکہ میں بڑے بڑے سورما اور بہادر مکہ سے چلے آئے تھے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگرکے ٹکڑوں کو تمہارے سامنے ڈال دیا ہے، ان کے جوش وخروش کو دیکھ کر لوگوں کو خیال گزرا ہو گا کہ یہ تو مدینے کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ، لیکن کسے خبر تھی کہ الله تعالیٰ ان سورماؤں کو اس لیے جمع کر رہا ہے کہ خو دان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے او رمکہ کو اپنے ضدی سرداروں سے نجات مل جائے، آئندہ اہل ِ مکہ کے لیے دعوت ِ حق کو قبول کرنا آسان ہو، غزوہٴ احزاب میں اتحادیوں کی ایک پہاڑ جیسی فوج اس لیے جمع ہوئی تھی کہ مسلمانوں کے مقابلہ تمام اسلام مخالف طاقت کو متحد ومربوط کر دیا جائے، لیکن الله تعالیٰ کو یہ بات منظور تھی کہ اس آخری کوشش کی ناکامی کے بعد ہمیشہ کے لیے ان کی ہمت ٹوٹ جائے اور خود ان کی صفیں بکھر جائیں۔
اس لیے ہمیں خدا کی طرف او راس کے خزانہ وطاقت سے مدد لینا چاہیے، پھر اس کے لیے نہ کوئی چیز انہونی ہے اور نہ کوئی بات نا ممکن ، وہ چاہے تو وقت کی سپر طاقتوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دے او راپنے کم زور بندوں کو آہن وفولاد سے زیادہ طاقت ور۔ دعا کا مقصد یہی ہے کہ مومن خدا کے غیبی خزانہ سے اپنا مدعا حاصل کریں، یہی صبر اور رجوع الی الله، الله کی مدد کی کلید اور کام یابی کا ہتھیار ہے اور بے صبری اور خالق کے بجائے، مخلوق پر بھروسہ مؤمن کے لیے ناکامی ونامرادی کا پیش خیمہ، اسی لیے الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ صبر اور صلوٰة کے ذریعہ الله سے مدد چاہو، بے شک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یہ آخری فقرہ صبر کی مزید تاکید کے لیے ہے، کیوں کہ صبر ایک مشکل کام ہے، یہ اپنے جذبات کی آگ کو اپنے آپ بجھانا اور نفس کے تقاضوں کو آپ قتل کرنے کے مترادف ہے، انسان کا کسی مقصد کے لیے یکبارگی جان دے دینا نسبةً آسان ہے، لیکن کسی کاز کے لیے گھٹ کر مرنا اورمسلسل اپنے جذبات کو تختہٴ دار پر چڑھانا بہت دشوار، اسی لیے شاعر نے خوب کہا ہے #
سلگنا اور شے ہے جل کے مر جانے سے کیا ہو گا
ہوا ہے کہ کام جو ہم سے وہ پروانوں سے کیا ہو گا
موجودہ حالت میں ہمیں اپنے آپ سلگنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے، ہمارے دل حوصلہ وہمت سے معمور ہوں، ہمارے جذبات کی لگام حکمت وشعور کے ہاتھوں میں ہو، ہماری پیشانی میں خدا کے یقین کا نور ہو اور ہمارے ہاتھ اپنے خالق کے حضور اٹھے ہوئے ہوں، یہی ہمارے لیے کام یابی کا راستہ ہے اور اسی طرح ہم الله کی مدد کے مستحق ہو سکتے ہیں۔