حکیم الامت حضرت مولانا اشر علی تھانوی نوّرالله مرقدہ کے اقرب ترین اجل خلفاء میں ایک بہت مؤثر اور نمایاں ترین شخصیت حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمة الله علیہ کی ہے، جن کی ذات کو حق جلّ مجدہ نے اپنے خزانہٴ زبان وبیان سے بڑے مؤثر ودل نشین انداز میں زندگی کی حقیقت بیان کرنے کا سلیقہ عطا فرمایا تھا، قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے اپنے عہد کی بڑی مقبول شخصیات میں ان کا شمار ہوتا تھا، انہوں نے زندگی کی حقیقت پسندانہ عکاسی مراقبہٴ موت اور درس عبرت نامی نظموں میں کی ہے۔
زیر نظر مضمون او راس کے اقتباسات کا محرک ان ہی نظموں کے اشعار ہیں، حضرت مجذوب کی درس عبرت نامی نظم کا ایک قطعہ ہے #
تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا
جوانی نے پھر تجھ کو مجنون بنایا
بڑھاپے نے پھر آکے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
انسان کے وقت حیات کا اس سے زیادہ حقیقت پسندانہ تجزیہ اورکوئی نہیں ہو سکتا ہے، کیوں کہ نہ وقت کے کنارے کسی کے ہاتھ میں ہیں اورنہ اس کے دھارے کسی کے بس میں، اس کی ابتدا انسان کی پیدائش کہلاتی ہے، جب کہ اس کی انتہا انسان کی موت کا عنوان ہے، گویا انسان کا نہ پیدا ہونا اس کے اختیار میں اور نہ مرنا اس کے بس میں، چناں چہ یہ دو طرفہ بے بسی ولاچاری اس حقیقت کی بین وروشن عقلی دلیل ہے کہ موت وحیات کا یہ درمیانی وقفہ بھی ایک لحاظ سے ہمارا نہیں ہے، اگر اس درمیانی وقت ”حیات“ پر انسان کو قدرت حاصل ہوتی تو خواہش وخدشات، مسائل ومصائب کا رخ ہر انسان اپنے احوال کے مطابق متعین ومقرر کیا کرتا، جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، یہ درمیانی وقت، حیات نو بھی بخش سکتا ہے او رزندگی کو موت سے بدتر بھی بنا سکتا ہے، موت وحیات کے شکنجوں میں جکڑی بندھی یہ حیات مستعار ہمیں مختلف مراحل سے گزارتی ہے، خواہ ہمیں احساس ہو کہ نہ ہو، ہم چاہیں یا نہ چاہیں، زندگی کے یہ ادوار گزرتے جائیں گے، ہمارا مستقبل حال میں تبدیل ہوتا رہے گا اور ہمارا حال ماضی بنتا چلا جائے گا، بچپن پلک جھپکتے بچپن کی سرحد کو عبور کرکے بڑھاپے کی منزل پر لاکھڑا کر دیتا ہے اور یہ برق رفتار سیل رواں عدم سے وجود میں آکر معدوم ہو جاتا ہے اورہمارے ذہنوں پر واقعات کا خوش گوار وگراں بار ہلکا او رگہرا نقش چھوڑ جاتا ہے اور زندگی انسان کو فراموش کرکے اس طرح لوٹ جاتی ہے کہ اب اس کا مقام ومرتبہ، اس کے اختیارات کے عناوین، اس کا تکبر ،سماج و معاشرے میں اس کی ناگزیریت او راس کی شخصیت کا مکمل تعارف محض دو فٹ کے کتبے میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں، یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کریم اپنے بلیغ ومعجز انداز میں اسی طرح بیان کرتا ہے:﴿وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَادَ أَن یَذَّکَّرَ أَوْ أَرَادَ شُکُورًا﴾ ․(سورة الفرقان:62)
ترجمہ:” اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے یا شکر گزار ہونا چاہیے۔“
یا دوسری جگہ فرمایا کہ﴿لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا عَشِیَّةً أَوْ ضُحَاہَا﴾․ (سورة النازعات:46)
وہ (دنیا میں ) صرف ایک شام یا صبح رہے، لہٰذا درس عبرت یہ ہے کہ حرکت وسکون کا مزاج رکھنے والی اس دنیا میں اگر بیش قیمت کوئی چیز قرار دی جاسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف وقت ہی ہے، اسی کا صحیح یا غلط استعمال دنیا سے لے کر آخرت تک کی منزل کا تعین کر سکتا ہے اور انسان کی محنتیں وکاوشیں، نیز ان کے بلند وبالا یا پست ومذموم نتائج وثمرات کا انحصار صرف وقت کے صحیح یا غلط استعمال پر ہی موقوف ہے، کیوں کہ وقت ایک متحرک شے ہے، محنت اور حرکت کا ایک فطری او رکائناتی تعلق ایک دوسرے سے جزو لاینفک کے طو رپر باہم مربوط ہے او راسی محنت پر دنیاکی ترقیات کا مدار ہے اور بشرط ایمان واخلاص نیت کے اضافے کے ساتھ اسی محنت میں دنیا سے آخرت تک کی تمام کام یابیوں کے راز ہائے سر بستہ بھی اسی حقیقت میں پوشیدہ وپنہاں ہیں، گویا کامل اخلاص نیت کے ساتھ لوجہ الله کی جانے والی حرکت او رمحنت میں ہی برکت وفیروز مندی کے جملہ راز ہائے سربستہ مکنون ومستور ہیں اور یہی حرکت وقت کا صحیح اور مطلوب استعمال بھی ہے۔
وقت کی اہمیت او راس کی گراں قدری کی اگر تحلیل کی جائے اور تعمق فکر ونظر کے ساتھ غور کیا جائے تو حاصل یہ نکلتا ہے کہ ماضی حال اورمستقبل ، وقت کے اس تکون میں ہمارے پاس کیا ہے ؟ کیوں کہ کل جو گزشتہ ہے وہ تو خواب ہو گیا، آج بے ہوشی وغفلت کی نذر ہو کر ماضی کے قبرستان میں دفن ہو گیا، اب رہا آنے والا کل، اس کی مثال تو ایک بھٹکے ہوئے مسافر کی سیاہ رات میں گمشدہ منزل سے مختلف نہیں ہے، پتہ نہیں ہاتھ آئے کہ نہ آئے اور اسی مرحلے پر نہ جانے کتنے لوگ دھوکے کا شکار ہو کر ڈوب گئے، جنہوں نے آج کی وسعت کو تنگ پایا اور سارا زور آنے والے کل پر ڈال کر محنتوں اور امیدوں کی کشتی کو آئندہ کل کے بحرناپیدا کنار میں ڈال دیا۔ کسی کی قسمت نے یاوری کی تو کچھ ہاتھ لگ گیا، ورنہ نہ جانے کتنے اس خیال خام کے سہارے گم نامیوں کے اندھیروں میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئے، کیوں کہ جو وقت گزر گیا تو وہ قیامت تک بھی لوٹ کر نہیں آئے گا اور نہ ہی زندگی ایک لمحہ ولحظہ کے لاکھویں حصے کے بقدر پیچھے لوٹے گی، چناں چہ وقت نے جو کچھ ہمیں دے دیا وہی ہمارا سرمایہ ہے اور جو کچھ ہم سے لوٹ لیا وہ ملنے والا نہیں ہے، کیوں کہ یہ وہ دروازہ ہے جس سے ایک دفعہ گزر گئے تو اس سے واپس جانا ممکن نہیں ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس صحرائے کل میں جو قافلہ گم ہو گیا وہ منزل سے رہ گیا… سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہمارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ ماضی گزر گیا، آئندہ کل ہماری دست رس سے باہر ہے۔ لہٰذا سوائے آج کے ہماری کوئی متاع نہیں، چناں چہ ہمیں جو کچھ بھی محنت کرنی ہے وہ اسی آج میں کرنی ہے، گزشتہ کل میں جو نقصان ہو گیا تھا اس کی توبہ وتلافی کا وقت ہمارے پاس یہی آج ہے اور یہ محنت کا بروقت اور صحیح استعمال ہے ،جس کی بارگاہ اقدس جلّ مجدہ میں قدردانی بھی ہے او ربرکات ربانی کے ورود کی علّت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ و مضمر ہے، اصحاب علم وحکم کام یابی کا نسخہٴ کیمیا یہ بیان کرتے ہیں کہ گزشتہ کل کی ناکامیوں ونامرادیوں کو آج کے عمل کی تحریک بنادی جائے اور آج کے مل جانے کو بشکر وسجود عطیہ خداوندی سمجھا جائے، جب کہ آئندہ کل ایک فکر کا فریب ہے، اس کل کے بھنور میں نہ جانے کتنے ڈوبے اور ایسے ڈوبے کہ پھر ابھرنا نصیب نہ ہو سکا، وقت کا قافلہ رخت سفر باندھ کر برق رفتار تیزی کے ساتھ سر گرم سفر ہے، اس لیے آج کی جو مہلت وقت ہے، اسی کو اپنی قیمتی متاع سمجھ کر وقت کے قافلے کے ساتھ قدم بہ قدم چلتے رہو، نہیں تو یہ کاروان علم وعمل، یہ زندگی کا قافلہ غبار راہ کی طرح پیچھے چھوڑ جائے گا اور آفات وحوادث اور آلام ومصائب کی تند وتیز ہوائیں او راس کی بلا خیزیاں حسرتوں او رنامرادیوں کی نہ جانے کن نامعلوم اور انجان وادیوں میں جاپٹخیں گی، جس میں راہ حیات کے آثار ونشانات بھی مٹ جائیں گے۔
وقت ماضی، حال او رمستقبل کے تین خانوں میں تقسیم ہے، چناں چہ اس اعتبار سے مہلت عمل کا نام ہی وقت ہے، جس میں ذاتی اعتبار سے نہ اس سیل حیات میں کوئیخیر ہے اور نہ کوئی شر ہے، بلکہ اس کے خیرو شر کا تعین اس میں ادا کیے جانے والے اعمال سے تعبیر ہے، جس کو نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام نے اس حدیث پاک میں اس طرح بیان فرمایا ہے :”خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم“․(التفسیر المظہری:7/27) زمانوں میں سب سے خیر کا زمانہ میرا ہے، پھر اس سے متصل زمانہ، پھر اس سے متصل، گویا مجموعی اعتبار سے ان تینوں زمانوں پر خیر کا غلبہ ہے، اس کے بعد قیام قیامت تک کبھی خیر غالب وفائق رہے گی توکبھی شر کی حکم رانی کا غلبہ رہے گا۔
کسی سائل نے اہل فکر ونظر سے سوال کیا کہ متاع دنیا میں وہ کون سی شے ہے جو سب سے زیادہ طویل بھی اور سب زیادہ مختصر بھی، سب سے زیادہ تیز رفتار بھی ہے اور سب سے زیادہ سست گام بھی، سب سے زیادہ کھینچی جانے والی شے بھی ہے او رسب زیادہ نظر انداز کی جانے والی بھی اور ضائع ہو جانے پر سب زیادہ افسوس کی جانے والی بھی اور ایسی چیز بھی جو معمولی سے معمولی چیزوں کو دوام بھی بخش سکتی ہے اور غیر معمولی چیزوں کو لمحوں کے ہزارویں حصے میں فنا کے گھاٹ اتار دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے؟ ارباب ِ علم ودانش نے جواب دیا کہ ایسی متاع بے بدل کا نام ہی وقت ہے، اس لیے کہ وقت سے زیادہ طویل ترین کوئی چیز نہیں، کیوں کہ یہ ابدیت کا پیمانہ ہے اور وقت سے زیادہ مختصر او رکوئی شے نہیں ،کیوں کہ یہ ہمارے منصوبوں، آرزؤوں ، تمناؤں، اُمنگوں اور خواہشات کے لیے ہمیشہ مختصر اور ناکافی ثابت ہوتا ہے اور جو کسی امیدوانتظار میں ہو اس کے لیے وقت سے زیادہ ست رفتار کوئی چیر نہیں او رجو خوشی ومسرت کے لمحات سے گزر رہا ہو اس کے لیے وقت سے زیادہ تیز گام او رکوئی شے نہیں ہے، طول میں اگر یہی وقت ابدیت تک پہنچ سکتا ہے تو اس کے برعکس اگر اختصار کی بات کی جائے تو یہی وقت ایک سیکنڈ کے ہزاویں حصے میں تو کیا، بلکہ کروڑوں اور اربوں حصہ میں تقسیم کیے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس دنیا میں انسانوں کی اکثریت وہ ہے جو اس کو بے دریغ نظر انداز کرتی ہے اور سب ہی اس کے ضائع ہو جانے پر کف افسوس ملتے ہیں، وقت ہی ہے جو معمولی یا غیر معمولی کسی بھی واقعہ کو اگلی نسل تک منتقل ہونے سے پہلے ہی طاق نسیاں کے حوالے کر دیتا ہے اور ہر ایسے عمل کو لافانی ولازوال بنا دیتا ہے، جو واقعی عظیم ہو۔
اصحاب علم وآگہی نے وقت کی ماہیت وحقیقت کو اپنے اپنے فکر ونظرکے مطابق تولا اور جانچا ہے، مولانا ابوالکلام آزاد اپنی مشہور زمانہ مکتوباتی تصنیف”غبار خاطر“ کے مکتوب نمبر23 میں رقم طراز ہیں کہ : عرب کے مشہور فلسفی شاعر ابوالعلاء معری نے زمانے کا پورا پھیلاؤ تین دنوں کے اندر سمیٹ دیا ہے ،جس کی عکاسی درج ذیل اشعار میں کی ہے۔
ثلاثة ایام ہی الدھر کلہ
وماھن الا الامس والیوم والغد
وما القمر الا واحد غیر انہ
یغیب ویأتی بالضیاء المجدد
(یہ سارے کا سارا زمانہ تین ہی دن تو ہے، جو گزشتہ کل، آج کا دن اور آئندہ کل ہی تو ہیں اور چاند اگرچہ ایک ہی ہے، مگر وہ غائب ہونے کے بعد اگلے دن نئی روشنی کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔)
لیکن تین زمانوں کی تقسیم میں یہ نقص تھا کہ جسے ہم حال کہتے ہیں وہ فی الحقیقت اپنا وجود کہاں رکھتا ہے؟ یہاں وقت کا جو احساس ہمیں میسر ہے وہ یا تو ماضی کی نوعیت کا ہے یا مستقبل کی اور ان ہی زمانوں کا ایک اضافی تسلسل ہے جسے ہم حال کے نام سے پکارنے لگتے ہیں، یہ سچ ہے کہ ماضی اورمستقبل کے علاوہ وقت کی ایک تیسری نوعیت بھی ہمارے سامنے آتی رہتی ہے، لیکن وہ اس تیزی کے ساتھ آتی او رنکل جاتی ہے کہ ہم اسے پکڑ بھی نہیں سکتے، ہم اس کا پیچھا کرتے ہیں، لیکن ادھر ہم نے پیچھا کرنے کا خیال کیا اور ادھر اس نے اپنی نوعیت بدل ڈالی، اب وہ ہمارے سامنے ماضی ہے جو جاچکا ہے یا مستقبل ہے ،جو ابھی آیا ہی نہیں ہے ،لیکن خود حال کا کوئی نام ونشان دکھائی نہیں دیتا ہے، جس وقت ہم نے پیچھا کرنا چاہا وہ حال تھا اور جو ہماری پکڑ میں آیا وہ ماضی ہے۔ گویا حقیقت حال کو بصیرت کے ساتھ قریب ہو کر دیکھیں تو واقعہ یہ ہے انسانی زندگی کی پوری مدت ایک صبح او رایک شام سے زیادہ نہیں ہے، صبح آنکھیں کھلیں، دن امید وبیم میں گزرا، رات آئی تو پھر آنکھیں بند ہو گئی:﴿لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا عَشِیَّةً أَوْ ضُحَاہَا﴾
ترجمہ: وہ (دنیا میں یاقبر میں) ایک شام یا ایک صبح سے زیادہ نہیں رہے۔ (سورة النازعات:46) یہی وقت کی حقیقت او رماہیت ہے۔
ازروئے کلام الله واحادیث رسول الله علیہ الصلوٰة والسلام بروز محشر ایک ایک چیز کی حساب دہی دین اسلام کے مسلمات کا ایک لازمی حصہ ہے، ایک ایک چیز کا حساب ہوگا، ایک ایک بات کے بارے میں باز پرس ہوگی، اعمال، افعال، اقوال،حرکات وسکنات غرض کہ حیات دنیوی کا کوئی گوشہ وجزئیہ بھی اس دائرہ حقیقت سے باہر نہیں ہوگا، کراماً کاتبین انسان کی ایک ایک حرکات وسکنات،جنبش اعمال اور گردشِ رفتار میں ظہور پذیر ہونے والی کارروائیوں کو محفوظ کرنے پر مامور ہیں۔
امتحان وآزمائش کی اس دنیا میں غفلتوں کے اسباب جابجا بکھرے ہوئے ہیں، عقل ونگاہ کو خیرہ کر دینے والے مناظر قدم قدم پر قدم روکتے ہیں، نفس کی خواہشات جگہ جگہ پر جی لگانے اور لبھانے کو تیار ہیں، اس کارگہِ عالم کے جلووں کی چمک دمک دامن دل کو کھینچتی ہے، حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اس پُر خار وادی کے باقسمت مسافر پر اگر رحمت حق جلّ مجدہ سایہ فگن نہ ہو تو ہدایت کے بغیر مجرد عقل کی راہ نمائی میں منزل کا پتہ پا لینا ممکن ہی نہیں ہے، چناں چہ ایسے میں اس مقصد حیات ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ﴾ ․(سورة الذاریات:56)
ترجمہ:” اور میں نے جنات او رانسانوں کو اس کے سوا کسی اورکام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔“
اور اس کے ہمہ جہت مقتضیات ومطالبات کو ہر دم ولحظہ اور قدم بہ قدم فکرو خیال میں تازگی پہنچاتے رہنا ہی کام یابی کی ضمانت ہے۔ گردش لیل ونہار کا کوئی لمحہ ولحظہ ایسا نہیں جو یا تو کام کو سنوارنے والا ہو یا کام بگاڑنے والا ہو، کسی بھی لمحے میں جو بھی اہم یا غیر اہم معمولی یا غیر معمولی کام کیا جائے گا، خواہ وہ خیر کا ہو یا شرکا ہو، وہی وقت کا استعمال ہے اور بروز محشر اسی کا نتیجہ سامنے آئے گا۔ لہٰذا اخلاص نیت کے ساتھ فکروخیال کی اصلاح کے لیے حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی یہ نہایت جامع دعا تیربہ ہدف ہے۔
”اے مالک دو جہاں! ہم آپ سے اس مہلت حیات کی گھڑیوں میں بہتری اور عمر عزیز میں خیروبرکات کا سوال کرتے ہیں۔“وما توفیقی إلا بالله