انسان اپنے علم میں کمال او راپنی شخصیت میں نکھار اُسی وقت لاسکتا ہے جب وہ خود کو کتابوں اور تحقیق وجستجو کا محتاج سمجھے او راپنے علم ومعلومات میں اضافہ کی کوشش میں ہمیشہ لگا رہے۔ ہمارے اسلاف واکابر جن کی کتابوں سے ہم اپنے علم میں اضافہ، معلومات میں وسعت پیدا کرتے ہیں اور جن کے قیمتی علمی شہ پاروں سے آئے دن استفادہ کرتے ہیں اور فکر ونظر میں پختگی، شعور واحساس میں بلندی حاصل کرتے ہیں، یہ دراصل احسان ہے اُن لوگوں کا جن کی زندگی کی صبح وشام کتابوں کی ورق گردانی میں گزری اور عمر عزیز کے قیمتی لمحات مطالعہ وکتب بینی کے لیے وقف ہوئے اورپھر اسی محنت وجہد مسلسل سے اُن لوگوں نے علم کے دریا بہائے، تحقیق کے موتی لٹائے۔ کتاب ہی ان کی زندگی کی رفیق اور اسی سے ان کی تنہائیاں آباد تھیں، وہی ان کے سفر وحضر کی ساتھی تھی۔
بلاشبہ مطالعہ انسان کو نئی نئی راہوں سے آشنا کرتا ہے۔ ایک دانا کے بقول:
”قوت ِ مطالعہ نہ ہو تو آدمی کی شخصیت ایک محدود شخصیت ہوتی ہے، قوت ِ مطالعہ حاصل ہوتے ہی اس کی شخصیت ایک آفاقی شخصیت بن جاتی ہے۔ پوری دنیا کا کتابی ذخیرہ اس کے لیے ایک وسیع علمی دستر خوان کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔“
اس لیے کتابوں سے دلی محبت پیدا کی جائے۔ آج کل ہمارے نوجوان کتاب کی ورق گردانی چھوڑ کر ”ڈیجیٹل مطالعہ“ اختیار کرچکے ہیں، یعنی کتابیں خریدنا او رپھر یکسو ہو کر اس کا مطالعہ کرنا عنقا ہو چکا ہے۔ ہمارے ایک استاد محترم ہمیں کہا کرتے تھے کہ انگریز نے ہم سے کتابیں چھین کر اپنا سب کچھ مسخر کر لیا ہے او رایک وقت ایسا آجائے گا کہ موبائل فونز اور لیپ ٹاپ وغیرہ کو ہیک کر کے مسلمانوں کو بہت زیادہ علمی نقصان پہنچا دیا جائے گا۔“ کتابوں کی اہمیت وافادیت اور مفید ترین ومؤثر ترین کتابوں وغیرہ کے حوالے سے اُستاد العلماء ،شیخ الحدیث، حضرت مولانا سمیع الحق صاحب رحمة الله علیہ نے 8 سوالوں پر مشتمل ایک سوال نامہ تیار کرکے علمائے کرام کو بھیجا تھا، حضرت رحمہ الله کا سوال نامہ کچھ یوں تھا:
”آپ کو علمی زندگی میں کن کتابوں اور مصنفین نے متاثر کیا؟ اور آپ کی محسن کتابوں نے آپ پر کیا نقوش چھوڑے؟ ایسی کتابوں اورمصنفین کی خصوصیت، کن مجلات او رجرائد سے آپ کو شغف رہا؟ موجودہ صفحات میں کون سے جرائد آپ کے معیار پر پورے اترتے ہیں؟ آپ نے تعلیمی زندگی میں کن اساتذہ اور درس گاہوں سے خاص اثرات لیے؟ ایسے اساتذہ اور درس گاہوں کے امتیاری اوصاف جن سے طلبا کی تعمیر وتربیت میں مدد ملی؟ اس وقت عالم اسلام کو جن جدید مسائل اور حوادث ونوازل کا سامنا ہے، اس کے لیے قدیم یا معاصر اہل علم میں سے کن حضرات کی تصانیف کار آمد ومفید ثابت ہوسکتی ہیں؟
علمی، فکری اور دینی محاذوں پر کئی فتنے تحریفی، الحادی او رتجددی رنگ میں (مثلاًانکار حدیث، عقلیت، اباحیت، تجدد، مغربیت، قادیانیت اورماڈرن ازم) مصروف ہیں، اُن کی سنجیدہ علمی احتساب میں کون سی کتابیں حق کے متلاشی نوجوان ذہن کی راہ نمائی کرسکتی ہیں؟ موجودہ سائنسی اورمعاشی مسائل میں کون سی کتابیں اسلام کی صحیح ترجمانی کرتی ہیں؟ مدارس عربیہ کے موجودہ نصاب اور نظام میں وہ کون سی تبدیلیاں ہیں جو اسے مؤثر او رمفید بنا سکتی ہیں۔“
یہ سوال نامہ ملک کے طول وعرض میں مختلف جبالِ علم کے حضور بھیجا گیا۔ جب علمائے کرام کی طرف سے ان سوالوں کے جوابات موصول ہو گئے تو حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی نے تاروں پہ کمند کا کام کرکے ان تمام جوابوں کو ایک کتابی شکل بنام، ”علمی اور مطالعاتی زندگی“ دے دیا او راسے القاسم اکیڈمی سے شائع کرکے اُمت محمدیہ پر ایک عظیم احسان کیا۔ یا الہٰی! حضرت کی اس کاوش کو قبول فرما، آمین۔ آئیے اس علمی او رمطالعاتی زندگی کے سلسلہ میں چند واقعات اکابر کے ملاحظہ کرتے ہیں، تاکہ ہم بھی اپنے خوابیدہ جذبات کو بیدار کرسکیں اور خفتہ صلاحیتوں کو نئی تحریک دلاسکیں اور شوق وذوق کو پر وان چڑھاسکیں۔
∗… حضرت امام محمد رحمہ الله کے بارے میں ہے کہ وہ راتوں کو بہت کم سویا کرتے تھے، کتابیں پاس رکھ کر رات بھر مراجعت اور مطالعہ فرماتے رہتے۔ (قیمة الزمن عند العلما)
∗…علامہ ابن جوزی رحمہ الله اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں اپنا حال عرض کرتا ہوں کہ میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی بھی طرح سیر نہیں ہوتی، جب بھی کوئی نئی کتاب نظر آجاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ اگر میں کہوں کہ میں نے زمانہ طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو جھوٹ نہ ہو گا۔ میں نے مدرسہ نظامیہ کی تمام کتابوں کا مطالعہ کیا، جس میں چھ ہزار کتابیں ہیں۔ (قیمة الزمن عند العلما)
∗… فتح بن خاقان خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر تھے، تووہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے او رجب سرکاری کاموں سے ذرا فرصت انہیں ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے لگ جاتے۔
∗… علامہ ابن رشد کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنی شعوری زندگی میں صرف دوراتوں کو مطالعہ نہیں کرسکے۔
∗… جاحظ کے بارے میں ہے کہ وہ کتاب فروشوں کی دکانیں کرایہ پر لے لیتے اور ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے ۔ (شاہراہ ِ زندگی پر کام یابی کا سفر)
∗… امام اسحاق بن راہویہ رحمہ الله نے سلیمان بن عبدالله زغندانی رحمہ الله کی بیٹی سے شادی اس لیے کی تھی کہ اس سے انہیں امام شافعی رحمہ الله کی جملہ تصانیف پر مشتمل کتب خانہ مل جانا تھا۔ (انساب للسمعانی)
∗… علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ الله نے فقط 20 دن میں فتح القدیر کا مطالعہ کر لیا۔
∗… امام الہند مولانا ابوا لکلام آزاد رحمہ الله بچپن ہی سے کتب بینی کے شوقین تھے، مطالعہ ان کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ تھا، ابتدائی عمر سے کتابوں کے رسیا اور مطالعہ کے عادی بن گئے تھے۔ وہ خود اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں: لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں، مگر تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں۔ کلکتہ میں آپ نے ڈلہوزی اسکوائر ضرور دیکھا ہو گا، جنرل پوسٹ آفس کے سامنے واقع ہے، اسے عام طور پر لال ڈگی کہا کرتے تھے، اس میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر سے دیکھیے تو درخت ہی درخت ہیں، اندر جائیے تو اچھی خاصی جگہ ہے اورایک بنچ بھی بچھی ہوئی ہے، معلوم نہیں اب وہ جھنڈ ہے کہ نہیں۔ میں جب سیر کے لیے نکلتا تو کتاب ساتھ لے جاتا اوراس جھنڈ کے اندر بیٹھ کر مطالعہ میں غرق ہو جاتا، والد مرحوم کے خادم خاص حافظ ولی الله مرحوم ساتھ ہوا کرتے تھے۔ وہ باہر ٹہلتے رہتے او رجھنجھلا جھنجھلا کر کہتے اگر تجھے کتاب ہی پڑھنی تھی تو گھر سے نکلا کیوں؟ اکثر سہ پہر کے وقت کتاب لے کر نکل جاتا اور شام تک اس کے اند ررہتا۔ (غبار خاطر) ایک جگہ فرماتے ہیں: میں آپ کو بتلاؤں میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہترین تصور کیا ہو سکتا ہے؟ جاڑے کا موسم ہو او رجاڑا بھی قریب قریب درجہ انجماد کا، رات کا وقت ہو، آتشدان سے اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں۔(متاع وقت، کاروان علم)
∗… مفتی محمد شفیع رحمہ الله کے بارے میں مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں کہ: جب والد صاحب کا رشتہ تلمذ شاہ صاحب کشمیری رحمہ الله کے ساتھ قائم ہوا ، تو جو علمی مذاق گٹھی میں پڑا تھا اسے اور جلاملی اور وسعت مطالعہ، تحقیق وتدقیق اور کتب بینی کا صرف ذوق ہی نہیں، بلکہ اس کی نہ مٹنے والی پیاس پیدا ہو گئی۔ حضرت والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ دوپہر کو جب مدرسے میں کھانے اور آرام کا وقفہ ہوتا تو میں اکثر دارالعلوم کے کتب خانے میں چلا جاتا تھا، وہ وقت ناظم کتب خانہ کے بھی آرام کا ہوتا تھا، اس لیے ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ میری وجہ سے چھٹی کے بعد بھی کتب خانے میں بیٹھے رہیں، چناں چہ میں نے انہیں باصرار اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ دوپہر کے وقفے میں جب وہ گھر جانے لگیں تو مجھے کتب خانے کے اندر چھوڑ کر باہر سے تالا لگا جائیں، چناں چہ ایسا ہی کرتے اور میں ساری دوپہر علم کے اس رنگا رنگ باغ کی سیر کرتا رہتا تھا۔ ( میرے والد، میرے شیخ)
ہمارے لیے یہ واقعات عبرت اور نصیحت کا پیغام ہیں کہ ہم اپنے قیمتی اوقات کو کن لایعنی اور غیر ضروری کاموں میں ضائع کرتے ہیں؟ اُمت کا ایک بڑا طبقہ بے دریغ اپنے وقت کو برباد کرنے میں لگا ہوا ہے، ضیاع وقت نوجوانوں کا مشغلہ بن گیا ہے، موبائل اور کمپیوٹر کے ذریعہ بچے اوربڑے ہر وقت کھیلوں میں مصروف رہتے ہوئے اپنی عمر عزیز کے عظیم لمحات کو ضائع کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ذرہ برابر احساس تک نہیں کہ ہم کتنا قیمتی سرمایہ اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں۔ دنیا میں اگر کام یابی اورسربلندی مقصود ہے او رعزت ومقبولیت درکار ہے تو پھر ہمیں بھی ان ہی باکمال انسانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے علم کو پھیلانے، مطالعہ کو وسیع کرنے او رکتب بینی کی عادت ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی ہمارے لیے کام یابی کی کلید اور عزت وسربلندی کی شاہراہ ہے۔ ورنہ قیمتی اوقات کو صرف کھیل کود اور دل بہلائی میں بے کار کیا جائے، تو ندامت اورناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔