﴿وَقَضَیٰ رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیمًا ، وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا ﴾․(بنی اسرائیل:24-23)
ترجمہ:” اور حکم کرچکا تیرا رب کہ نہ عبادت کرو اُس کے سوا اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک اُن میں یا دونوں تو نہ کہہ اُن کو ہوں اور نہ جھڑک اُن کو اور کہہ اُن سے بات ادب کی اور جھکا دے اُن کے آگے کندھے عاجزی ونیازی مندی سے اور کہہ اے رب! اُن پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا۔“
سورہٴ بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا آیات میں الله تعالیٰ اور مخلوق کے ساتھ اپنے درست تعلقات استوار کرنے کے اصول، نیز معاشی، معاشرتی اورسماجی اصول وضوابط بیان کیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر ان آیات میں چھ احکام کا بیان ہے، جن میں سے کچھ احکام کی ذیلی شاخیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ مذکورہ بالا احکام پر عمل کرنے کی صورت میں یقینا انسان کی دنیا وآخرت سنور جاتی ہے، انسان محبوب ِ خدا ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا بھی محبوب بن جاتا ہے۔ ان احکامات کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔
شرک سے اجتناب
پہلا حکم خالق ومالک کے حق سے متعلق ہے ،جو تنہا ساری کائنات کا خالق، رازق،پالنہار، محافظ، زندگی عطا کرنے والا او رمعبود برحق ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنی ذات اور صفات افعال واعمال میں یکتا ولا شریک ہے، اس کا حق ہے کہ اسی کو معبود کہا او رجانا جائے، اسی سے لو لگانی چاہیے، اسی کو مشکلات میں پکارا جائے، اسی کو کارخانہٴ کائنات کا کارساز، حاجت روا، مشکل کشا، متصرف فی الأمور، بگڑی بنانے والا جانا جائے، اشیاء کی حلت وحرمت کا حکم بھی محض اسی کے فیصلہ پر لگایا جائے، جو جملہ اشیاء کا پیدا کرنے والا ہے۔ اپنی جانب سے یا کسی کے کہنے پر نہ تو اس کی حلال کردہ اشیاء کو حرام اور نہ حرام کردہ اشیاء کو حلال کیا جائے او رنہ ہی اس کے علاوہ کسی کے تقرب کے لیے مال خرچ کیا جائے، نہ ہی غیر الله کو کارساز سمجھ کرا ن کے نام کے چڑھاوے چڑھائے جائیں، اسی ایک ذات کے سامنے عبادت وریاضت کا دم بھرا جائے، یہ الله رب العزت کا حق ہے۔ اس حق کی ادائیگی سے ہی خالق ومالک راضی ہوں گے، بصورت ِ دیگر بندہ ”کھائے کسی کا او رگائے کسی کا“ کا مصداق بن کر الله تعالیٰ کا باغی او رمشرک کہلاتا ہے، جس کی معافی دربار حق سے قطعاً نہیں۔ دنیا وآخرت میں بغاوت کی سزا ملکوں کے باغیوں کی سزا پر قیاس کر لی جائے، جب کہ یہ مجازی او رعارضی سلطنتیں ہیں۔ حق تعالیٰ کا ملک حقیقی اور دائمی ہے، اس لیے ضرور ی ہے کہ شرک کا غیر مرتکب ہو کر، اس کی بغاوت سے بچا جائے۔
والدین سے حُسنِ سلوک
حق تعالیٰ کے حق کے بعد مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی بابت تاکید کی گئی۔ مخلوقات میں ا نسان کے سب سے قریب او رمحسن والدین ہوا کرتے ہیں۔ والدین ہی کسی بھی شخص کے وجود وحیات کا سبب وذریعہ ہیں، مادی او راسباب کی دنیا میں والدین سے بڑھ کر کون محسن ہو سکتا ہے؟ انسان کی رحم مادر میں تخلیق سے جوان ہو کر برسر روز گار ہونے تک کون سادن اور دن کا کون سا لحظہ ایسا ہے جس میں ایک والداور والدہ کے انسان پر احسانات نہ ہوں۔ انہی کی محنتوں، قربانیوں، مجاہدوں ، تکلیفوں کے سبب سے ہی انسان اپنی زندگی کے با اختیار وقت تک پہنچتا ہے، اس لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی اور اس حکم کو شق وار پانچ حصوں میں تقسیم کرکے الگ الگ بیان کیا گیا۔
والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو جا پہنچیں، ان کی طبیعت میں ضعف امراض وعوارض کی وجہ سے ان کی قوت ِ برداشت بھی کم زور پڑ جائے، جس کی وجہ سے وہ جذبات وغضب سے مغلوب ہو کر اظہارِ غیض وغضب بھی کریں، تب بھی انہیں ہر طرح سے ایذا وتکلیف سے محفوظ رکھا جائے حتی کہ انہیں اُف تک بھی نہ کہا جائے۔
ضعف وبڑھاپے کی اس حالت میں اگر ان کے تقاضے ومطالبے نامناسب بھی ہو جائیں اور وہ طرح طرح کی باتیں کرنے لگیں تو بھی انہیں ڈانٹ ڈپٹ نہ کی جائے، بلکہ اُن کے ساتھ حسن ِ سلوک برقرار رکھا جائے۔
ایسے موقع پر والدین سے با سلیقہ او رمحبت بھری گفت گو کی جائے۔ مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں: ”خطا کار غلام، ترش رو آقا سے جس طرح بات کرتا ہے اس انداز سے ماں باپ سے بات کی جائے۔“ حضرت مجاہد فرماتے ہیں:” اگر وہ اپنی جسمانی کم زوری کی وجہ سے سے بول وبراز تک خطا کر بیٹھیں تو ان کے بول وبراز کو ایسے ہی خندہ روئی کے ساتھ صاف کیا جائے، جیسے بچپن میں وہ اپنی اولاد کا بول وبراز خندہ پیشانی کے ساتھ صاف کیا کرتے تھے۔“
ماں باپ سے تواضع، انکساری اور رحمت وشفقت سے لبریز رویہ اپنایا جائے او ران کے ادب کو پیش نظر رکھا جائے۔ ایک رعایا جیسے اپنے بادشاہ کی مؤدب ومطیع ہوتی ہے اولاد اپنے والدین کی ایسے ہی مؤدب او رمطیع ہونی چاہیے۔
والدین کے اس مشکل وقت میں حق تعالیٰ کی نصرت او ران کے دنیا سے جانے کے بعد ان کی مغفرت کے لیے دعاؤں کااہتمام کیا جائے اور یوں کہا جائے:” اے میرے رب! میرے والدین پر ایسے ہی رحم فرمائیے، جیسے انہوں نے میرے بچپن میں رحم وکرم سے میری پرورش فرمائی۔“ حق تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا یہ تفصیلی حکم ارشاد فرمانے کے بعد مزیدتاکید کے لیے فرمایا:”اگر تم والدین کی اطاعت کرو گے تو حق تعالیٰ خوب جانتا ہے وہ تمہیں اس کا صلہ دے گا ،وہ فرماں برداروں کو نوازا کرتا ہے او راگر والدین کی نافرمانی کا ارتکاب کرو گے تو حق تعالیٰ خوب جانتے ہیں ، وہ دلوں کے بھیدوں سے واقف ہیں، ماں باپ کی گستاخی کے جرم پر سزا دینے والے ہیں۔“
رشتہ داروں، غریبوں، مسافروں سے حُسنِ سلوک اور فضول خرچی سے ممانعت﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَیٰ حَقَّہُ وَالْمِسْکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیرًا ،إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُورًا ،وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْہُمُ ابْتِغَاء َ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّکَ تَرْجُوہَا فَقُل لَّہُمْ قَوْلًا مَّیْسُورًا﴾․(بنی اسرائیل:28-26)
ترجمہ:” اور رشتہ داروں کو اُ ن کا حق دو او رمسکین اورمسافر کو (اُن کا حق) او راپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں نہ اُڑاؤ۔ یقین جانو کہ جو لوگ بے ہودہ کاموں میں مال اُڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑاناشکرا ہے۔ اور اگر کبھی تمہیں ان (رشتہ داروں، مسکینوں او رمسافروں) سے اس لیے منھ پھیرنا پڑے کہ تمہیں الله کی متوقع رحمت کا انتظار ہو تو ایسے میں اُن کے ساتھ نرمی سے بات کر لیا کرو۔“
گزشتہ آیات میں حقوق الله اور حقوق والدین کو بیان فرمایا، اب دیگر اقربا یعنی رشتہ داروں، مفلوک الحال طبقات ،مثلاً فقراء، مساکین، نادار اورمسافر حضرات کے حق کا بیان ہے۔
رشتہ دار کو اس کا حق ادا کیجیے۔ والدین کے بعد جو جتنا قریبی رشتہ دار ہے، اس کا حق اتنا ہی زیادہ ہے۔ رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی سے مراد ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا، تعلقات کو درست رکھنا، ان پر بقدر حاجت مال خرچ کرنا، اگر وہ مستحق زکوٰة ہیں تو زکوٰة وصدقات واجبہ ان پر خرچ کرنا، بصورت دیگر غیر ِ زکوٰة سے ان کی ضروریات کی تکمیل کرنا، ان کی کوتاہیوں سے در گزر کرنا او ران سے محبت ومیل جول رکھنا ہے۔ بعض مفسرین نے آیت کا مخاطب جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو قرار دے کر آیت کا مفہوم یہ لیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے قرابت داروں کا لحاظ فرمائیں او راہل بیت کے حقوق کی ادائیگی کا لحاظ رکھا جائے۔ عام طور پر انسان کو اپنے قرابت داروں سے ٹھیس پہنچتی ہے، اس لیے دل میں ان کے ساتھ ایک طرح کی ناراضگی رہتی ہے، جس کی وجہ سے انسان رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی بجائے دوسروں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں بطور خاص رشتہ داروں کے حقوق کا ذکر کیا گیا، جب کہ احادیث میں بھی صلہ رحمی کے فضائل کثرت سے مذکور ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں حدیث مذکور ہے:”من احب ان یبسط لہ فی رزقہ وینسأ لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ․“
”جو شخص پسند کرتا ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر دراز ہو، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔“ (صحیح البخاری، جلد دوم، رقم الحدیث:5985)
مسکین/ نادار کا حق
رشتہ داروں کے حقوق کے بیان کے بعد مسکین، یعنی نادار کے حق کو بیان کیا گیا۔ مسکین کی بھی مالی اعانت کی جائے، مسکین پر زکوٰة بھی خرچ ہو سکتی ہے او رنفلی صدقہ بھی۔ یاد رہے کہ مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور جس کے پاس کچھ ہو لیکن بقدر ضرورت نہہو اسے فقیر کہا جاتا ہے۔ بعض اہل علم نے تعریف اس کے برعکس بھی کی ہے۔ یہاں حق سے مراد مالی حق ہے۔
ابن سبیل یعنی مسافر کا حق
ابن سبیل یعنی مسافر کی مالی اعانت کا بھی حکم ہے۔ مسافراگرچہ اپنے وطن میں مال دار ہو، لیکن بوجہ سفر اُسے ناداری لاحق ہو گئی ہو اور وہ زکوٰة کا مستحق بن چکا ہو تو زکوٰة سے او راگر مستحق زکوٰة نہ ہو تو نفلی صدقات سے مسافر کی اعانت ومدد کی جائے، تاکہ یہ شخص اپنی منزل اور ٹھکانے تک پہنچ سکے یا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر خود کفیل ہو جائے۔ یقینایہ احکام معاشرہ کے مفلوک الحال افراد کے قیام او راستحکام کا ذریعہ ہیں۔ اے کاش! امت مسلمہ ان احکام کو اپنا لے تو اسلامی معاشرہ فلاحی معاشرہ بن جائے او رمعاشرہ میں خوش حالی پیدا ہو۔
فضول خرچی سے اجتناب
مذکورہ بالا پانچ احکام خرچ کرنے سے متعلق تھے، اس لیے خرچ کے سلسلے میں اعتدال کی راہ بتائی جارہی ہے۔ فضول خرچی سے اجتناب کیجیے، بلا شبہ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔ اس آیت میں میں مالی اسراف سے منع کیا گیا۔ مال حق تعالیٰ کی عطا ونعمت ہے، اسے صحیح مصرف میں خرچ کیاجائے، اسے ناجائز جگہوں میں خرچ کرکے شیطان کی اخوت سے اجتناب کیا جائے۔ یہی حکم سورة الفرقان کی آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے: ﴿وَالَّذِینَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَٰلِکَ قَوَامًا﴾․ (الفرقان:67)
ترجمہ:”اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں، نہ تنگی کرتے ہیں، بلکہ اُن کا طریقہ اس ( افراط وتفریط) کے درمیان اعتدال کا طریقہ ہے“۔
حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ تبذیر (فضول خرچی) ناحق مال خرچ کرنے کا نام ہے۔ اگر حق مال خرچ کیا جائے، خواہ سارا ہی خرچ کر دیا جائے تو وہ تبذیر نہیں۔ آج کل معاملہ بالکل برعکس ہو کر رہ گیا ہے۔
صحیح مصرف میں مال خرچ کرنے سے ہاتھ روکا جاتا ہے، نہ تو والدین کی خدمت کی جاتی ہے، نہ ہی رشتہ داروں، مساکین، فقراء، مساجد ومدارس پر خرچ کیا جاتا ہے، بلکہ شادی بیاہ ودیگر تقریبات وغیرہ پر لاکھوں لٹا دیے جاتے ہیں، آیت میں اس سب سے منع کیا گیا ہے۔
سائلین سے نرمی کا حکم
رشتہ دار، غرباء، مساکین، مسافر وغیرہ اگر تعاون کی درخواست کریں، لیکن دینے والے کی سردست استطاعت نہ ہو، مالی حالات درست نہ ہوں ،بلکہ الله کی جانب سے انتظارِ رزق ہو، ایسی صورت میں دینے والے کو چاہیے کہ سائلوں سے نرم لہجے میں گفت گو کرے، بہتر انداز میں معذرت کرے ۔
نیز ان کے لیے دعائیہ کلمات ادا کرے اور بوقت مال داری ان کے ساتھ تعاون کا وعدہ کرے۔ سائلین کے ساتھ ترش روئی، سخت گفت گو یا تکلیف دہ رویہ اپنانے سے گریز کرے۔
معاشیات کے دو بہترین اصول﴿وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلَیٰ عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا، إِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ وَیَقْدِرُ إِنَّہُ کَانَ بِعِبَادِہِ خَبِیرًا بَصِیرًا﴾․(بنی اسرائیل:30-29)
ترجمہ:” اور نہ تو(ایسے کنجوس بنو کہ) اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ ( ایسے فضول خرچ کہ) ہاتھ کو بالکل ہی کھلا چھوڑ دو، جس کے نتیجے میں تمہیں قابل ِ ملامت اور قلاش ہو کر بیٹھنا پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں وسعت عطا فرما دیتا ہے اور(جس کے لیے چاہتا ہے) تنگی پیدا کر دیتا ہے۔ یقین رکھو! وہ اپنے بندوں کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے، انہیں پوری طرح دیکھ رہا ہے۔“
گزشتہ بالا آیات ِ قرآنیہ میں والدین، اقارب،غرباء ، مساکین، مسافروں او رراہِ خداوندی میں خرچ کرنے کا حکم، فضولی خرچی سے اجتناب اور وسعت نہ ہونے کی صورت میں مستحقین سے نرم خوئی کا حکم دیا گیا تھا۔ زیرِ نظر آیت میں معاشیات واقتصادیات کا زریں اصول بیان کیا گیا ہے۔ خوب صورت زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ مصارف واخراجات میں اعتدال اختیار کیا جائے، نہ تو بخل وکنجوسی اختیار کی جائے اورنہ ہی اسراف وفضول خرچی کی جائے، بلکہ میانہ روی اختیار کی جائے۔ بخل وکنجوسی کو اپنا ہاتھ گردن کے ساتھ بندھا ہونا سے تعبیر کیا گیا۔ یہ لطیف استعارہ ہے کہ مال خرچ کرنے میں ایک شخص اس قدر بخل برت رہا ہے کہ اپنا ہاتھ جیب اور وسائل تک آنے ہی نہیں دیتا۔
اہل علم کے نزدیک ضروری مال اور ضروری مقام پر خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ اس معنیٰ میں زکوٰة، صدقات واجبہ ( صدقہ فطر، قربانی) ادا نہ کرنا، وسعت کے باوجود والدین، اقرباء وغیرہ پر خرچ نہ کرنا سب بخل میں شامل ہے۔ احادیث شریفہ میں بخل کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں خرچ کرنے والے او ربخل کرنے والے کو ایسے دو شخصوں کی مانند قرار دیا گیا ہے، جن کے جسم پر لوہے کی قمیص ہے۔ ایک قمیص خرچ کرنے کی وجہ سے کشادہ ہے، وہ اپنی چاہت کے مطابق خرچ کرتا ہے اور دوسرے کی قمیص نہایت تنگ ہے، یہ بخیل ہے، جب خرچ کرنا چاہتا ہے تو کُرتا اس کے ساتھ چمٹ جاتا ہے، جس کی وجہ سے خرچ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” ایسے ایسے اور ایسے خرچ کیا کرو، ہاتھ بندمت رکھو، ورنہ الله بھی بند کر دے گا، جمع مت رکھو، ورنہ خدا تعالیٰ بھی تم سے جمع کرے گا۔“
اور ایک روایت کے الفاظ ہیں:” شمار کرکے مت رکھو کہ الله تعالیٰ بھی گن گن کر دے گا۔“ (صحیح البخاری، جلد اول، حدیث نمبر:1423)
”سیدنا ابوہریرہ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے کہ ہر صبح آسمان سے دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے اے الله! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما، دوسرا کہتا ہے اے الله! خرچ نہ کرنے والے سے اپنی عطا روک لے۔“ (صحیح بخاری ومسلم)
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے، جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا او رخرچ کرنے والے کو حق تعالیٰ عزت سے نوازتے ہیں۔ جو شخص الله تعالیٰ کے لیے عاجزی اختیار کرے، حق تعالیٰ اُسے بلندیاں عطا فرماتے ہیں“۔
ایک حدیث ِ قدسی ہے:”خرچ کرو، میں تم پر خرچ کروں گا۔ “ (صحیح مسلم)
جب کہ بیہقی کی ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ”اپنے آپ کو بخل سے بچاؤ ، تم سے پہلے کے لوگ بخل کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔“ (سنن ابی داؤد، جلد1، حدیث نمبر1698)
اقتصادیات کی بد حالی کے دو پہلوؤں میں دوسرا پہلوا اسراف وفضول خرچی ہے، اس سے بھی منع کیا گیا۔ نیر فضول خرچی کو یوں تعبیر کیا گیا:”ہاتھ پورا پورا مت پھیلا دو کہ تھک ہار کے بیٹھ جاؤ“ یعنی بے دریغ مال خرچ نہ کرو، ورنہ مال ختم ہو جائے گا اور ملامت زدہ تھکے ہارے بیٹھے رہوگے، بلکہ میانہ روی اختیار کرو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:” جس شخص نے میانہ رو ی اختیار کی، وہ فقیر نہیں ہو گا۔“
آخر میں ارشاد فرمایا:
”رزق کی وسعت وتنگی کا مالک حق تعالیٰ ہے ، وہ اپنے بندوں کو خوب دیکھنے او رجاننے والا ہے۔ جس کے لیے وسعت موزوں ہوتی ہے وہ اسے وسعت عطا کر دیتا ہے۔ جس کے لیے اس کی حکمت میں تنگ دستی موزوں ہو، اُسے تنگ دست بنا دیتا ہے۔“
قتل اولاد کی ممانعت﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُمْ إِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیرًا﴾․(بنی اسرائیل:31)
” اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ یقین جان لو! ان کو قتل کرنا بڑی بھاری غلطی ہے۔“
زمانہٴ جاہلیت کی غلط فہمیاں
زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بچیوں کو خوف فقر او رتنگیٴ معیشت کے خطرہ کے پیش نظر قتل کر دیا کرتے تھے، بالکل ایسے جیسے زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بچیوں کو وراثت سے محروم کرتے تھے۔ الله تعالیٰ نے اس ظلم سے نہی فرمائی، نیز اس جرم کے ارتکاب کے سبب کا بھی ازالہ فرمایا۔ وہ سبب یہ تھا کہ لوگ اپنی اولاد کے رزق ، معیشت کا اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے اور یہ خیال کرتے کہ پہلے سے معاشی حالات درست نہیں، تنگی کے ساتھ وقت صرف ہو رہا ہے، اگر افراد ِ خانہ میں اضافہ ہو تو وسائل مزید تقسیم ہو کر کم پڑ جائیں گے، نوبت فقر وفاقہ تک جا پہنچے گی، کیوں نہ اس نوبت کوپہنچنے سے پہلے نومولود کا خاتمہ کر دیا جائے، وقتی پریشانی مستقبل کی پریشانی سے بہتر ہے۔
حق تعالیٰ نے اس بنیادی غلطی کا ازالہ فرمایا کہ والدین اپنی اولاد کا اپنے آپ کو روزی رساں مت خیال کریں، تمہارا او رتمہاری اولاد کا روزی رساں، ضروریات کی کفالت کرنے والی ذات الله تعالیٰ کی ہے، جس رب نے تمہیں رزق دیا ہے وہی تمہارے بچوں کو بھی رزق عطا کرے گا۔ بعض نکتہ دان مفسرین نے ارشاد فرمایا ہے :” آیت میں ”ھم“ کو مقدم فرما کر اس جانب اشارہ ہے کہ ان بچوں کی وجہ سے ہی تم بڑوں کو رزق عطا ہوتا ہے۔“ ایک حدیث میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا گیا ہے:
” انما ترزقون وتنصرون بضعفائکم… (مشکوٰة)
ترجمہ:” تمہیں رزق او رتمہاری نصرت تمہارے کم زوروں کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ لہٰذا ان بچوں کو قتل کرکے جرم عظیم کا ارتکاب مت کرو۔“ (مسند احمد:22074)
اولاد کو قتل کرنا الله تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا گناہ ہے۔
صحیحین میں سیدنا حضرت عبدا لله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سا گناہ سب سے خطرناک ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ” الله تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، حالاں کہ اُسی نے پیدا کیا۔“ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اپنے بچے کو اس خوف سے قتل کر دینا کہ وہ آپ کے کھانے کا شریک ہو گا۔“ میں نے سوال کیا پھر کون سا گناہ سب سے خطرناک ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اپنے پڑوسی کی اہلیہ کے ساتھ بد کاری کرنا۔“ (سنن نسائی، جلد دوم، حدیث نمبر:4013)
سورة الانعام میں زمانہ جاہلیت کی رسم ِ بد قتل اولاد کی یوں اصلاح کی گئی:﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا أَوْلَادَہُمْ سَفَہًا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَہُمُ اللَّہُ افْتِرَاء ً عَلَی اللَّہِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا کَانُوا مُہْتَدِینَ﴾․ (الانعام:140)
ترجمہ:” حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو کسی علمی وجہ کے بغیر محض حماقت سے قتل کیا ہے اور الله نے جو زرق اُن کو دیاتھا اُسے الله پر بہتان باندھکر حرام کر لیا ہے۔ وہ بری طرح گم راہ ہو گئے ہیں اور کبھی ہدایت پر آئے ہی نہیں۔“
مفسرین کے بقول اس آیت کریمہ اور اس جیسی دیگر آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی رحمت وشفقت حقیقی والدین سے بھی بڑھ کر ہے، اس لیے کہ حقیقی ماں باپ اپنی بچیوں کو وراثت سے محروم کرنے اور افلاس کے خطرہ کے پیش نظر اپنی اولاد کے قتل کے مرتکب ہوئے۔ آج بھی معاشرہ میں بہت سے بد نصیب لوگ اپنی اولاد کو وراثت سے محروم کرنے کے ساتھ اولاد کے قتل کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن حق تعالیٰ کو انسانوں کی اپنی اولاد کے ساتھ ان کے والدین کی جانب سے یہ ناروا سلوک گوارانہیں، اس لیے اولاد کو مالی حقوق کے ساتھ زندگی کا حق بھی الله تعالیٰ نے عطا فرمایا۔
امام رازی نے اپنی شہرہٴ آفاق تفسیر” تفسیر کبیر“ میں اسی مقام پر ارشاد فرمایا کہ اس آیت سے قبل الله تعالیٰ نے والدین کے حقوق بیان فرمائے۔ والدین کے حقوق کے بعد اب اولاد کے حقوق کو اس لیے بیان کیا جارہا ہے کہ اگر والدین کی جانب سے اولاد کے ساتھ حسن سلوک ہو گا تو یقینا اولاد کی جانب سے بھی والدین کی اطاعت، فرماں برداری، احترام اور تعمیل ارشاد کا معاملہ ہوگا او رمعاشرہ میں امن وسکون قائم رہے گا۔ اگر والدین اور اولاد کا ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ نہ ہو تو اس سے عالم جہاں کی خرابی پیدا ہو گی۔ والدین اولاد کو عموماً دو وجوہ یعنی خوف ِ فقر یا غیرت کی بنا پر قتل کرتے ہیں۔ خوفِ فقر کی وجہ سے قتل الله تعالیٰ کے ساتھ بد گمانی اور غیرت کی وجہ سے قتل کرنا زمین میں فساد اور عدم شفقت کا موجب ہے اور یہ دونوں مذموم چیزیں ہیں۔
زنا اور دواعی زنا کے نقصانات﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَةً وَسَاء َ سَبِیلًا﴾․ (بنی اسرائیل:32)
”اور زنا کے پاس نہ پھٹکو۔ وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اور بے راہ روی ہے۔“
آیت ِ مذکورہ میں زنا، اسباب ِ زنا اور داعیٴ زنا کی ممانعت وحرمت کا بیان ہے۔ زنا سے روکنے کے لیے حق تعالیٰ نے نہایت ہی بلیغانہ اسلوب اختیار فرمایا کہ زنا کے قریب تک نہ جاؤ، بلاشبہ زناء جُرم ِ عظیم اور بُری راہ ہے۔ امام طبری کے بقول اس نہی کا تعلق بھی شرک کی نہی سے ہے، گویا معنیٰ یہ ہوا کہ تیرے رب نے فیصلہ کیا ہے کہ زنا کے قریب مت جاؤ، بلاشبہ زنا بڑا گناہ اور بُرا راستہ ہے، یعنی حق تعالیٰ کی نافرمانی اور دوزخ میں لے جانے والا راستہ ہے۔ امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں امام احمد کے حوالہ سے ایک حدیث ذکر کی ہے: ایک شخص جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور زنا کی اجازت چاہی، لوگوں نے اس کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور اُسے خاموش رہنے کی تلقین کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کو میرے قریب لاؤ، وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب ہو گیا، آپ نے اسے بیٹھ جانے کا حکم دیا، پھر گویا ہوئے:
” کیا تم زنا اپنی ماں کے لیے پسند کرو گے؟“
سائل:”نہیں، قسم بخدا! میں آپ پر قربان جاؤں، لوگ اسے کبھی پسند نہیں کرتے۔“
رسول الله صلی الله علیہ وسلم : ”کیا تم اپنی بیٹی کے لیے زنا پسند کرو گے؟“
سائل:”نہیں، قسم بخدا! میں آپ پر قربان، ایسا تو کوئی بھی اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتا۔“
رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”کیا تم اپنی بہن کے لیے زنا کو پسند کرو گے؟“
سائل:”نہیں، کبھی نہیں! ایسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا، میرے آقا! الله مجھے آپ پر فدا کر دے۔“
رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”کیا تم اپنی پھوپھی کے ساتھ یہ معاملہ پسند کرو گے؟
سائل:”کبھی نہیں، یا رسول الله! اسے بھی لوگ پسند نہیں کرتے۔“
ایسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے خالہ کے متعلق سوال کیا اوراس شخص نے اپنا جواب دہرایا، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا دست ِ اقدس اُس شخص پر رکھا اور یہ دعا فرمائی:﴿اللھم اغفر ذنبہ، وطھر قلبہ، واحصن فرجہ﴾
ترجمہ:” اے الله! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کے کردار کی حفاظت فرما۔“ (مسند احمد بن حنبل، حدیث نمبر:22564)
اس کا اثر ہوا کہ یہ نوجوان پھر کبھی اس برائی کی جانب متوجہ نہ ہوا۔
امام رازی نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر ”تفسیر کبیر“ میں زنا کے چند دنیوی نقصانات تحریر کیے ہیں، جو پیش خدمت ہیں:
اختلاطِ انساب
زنا کی وجہ سے انسانی نسب میں اختلاط اور شکوک وشبہات پیدا ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ کس کا ہے ؟ اس خاتون کے شوہر سے ہے، یہ غیر سے؟اسی طرح نہ تو اس بچہ کی تربیت کی جاتی ہے اور نہ ہی مشکوک بچے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح بچوں کے ضیاع اور نسلِ انسانی کے انقطاع او رعالَم کی خرابی کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔
قتل وغارت گری
زنا کی وجہ سے معاشرہ میں قتل وغارت گری پیدا ہوتی ہے۔ جب کوئی کسی کی عزت ریزی کرتا ہے تو غیرت مند شوہر یا محرم ایسے مردوزن کو غیرت کی وجہ سے اس کے مٹانے کی تدبیریں کرتے ہیں، جیسا کہ معاشرہ میں غیرت کے نام پر قتل کے آئے روز واقعات رونما ہورہے ہیں۔
خانہ بربادی اور تنفر
بد کار خاتون سے ذوقِ سلیم رکھنے والے لوگ نفرت کرتے ہیں، بد کاری کے سبب باہمی الفت، محبت ختم ہو کر رہ جاتی ہے او ربد نام خواتین کو نہ کوئی گھر میں بساتا ہے او رہی ان کا کوئی رشتہ قبول کرتا ہے۔ نتیجتاً ایسے لوگ باعثِ نفرت بن کر رہ جاتے ہیں۔
بہیمیت وحیوانیت
اگر زنا عام ہو جائے، ہر مرد ہر عورت کے ساتھ اور ہر عورت ہر مرد کے ساتھ خواہشات کی تکمیل کرتے پھریں، تو انسانوں او رجانوروں میں فرق ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ جانور بھی کسی قاعدے، قانون، ضابطے کے پابند نہیں، حتی کہ جانوروں میں ماں، بہن کی کوئی تمیز نہیں ہوتی، یہی حال اُن معاشروں کا ہوتا ہے جہاں زنا عام ہو جائے۔
مقصد ِ تخلیق سے انحراف
خواتین کی خلقت صرف خواہشات کی تکمیل کے لیے نہیں ہوئی، بلکہ حق تعالیٰ نے خواتین کو دنیوی طور پر اس غرض کے لیے پیدا فرمایا ہے کہ وہ مرد کے ساتھ مل کر اپنا گھر ترتیب دے، امورِ خانہ اپنے گھر کے مردوں کے ساتھ مل کر سرانجام دے، گھر کی مالکہ ومحافظہ بنے، بچوں کے معاملات دیکھے۔ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب اس کا تعلق صرف شوہر کے ساتھ ہو اور یہ مقصود زنا پر پابندی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔
امام رازی کے ارشاد کے مطابق:﴿انہ کان فاحشة ومقتا وساءَ سبیلاً﴾ کا بھی یہی مفہوم ہے کہ زنا فسادِ انساب ، فسادِ عالم اور قتل وغارت گری کی وجہ سے فاحشہ ہے۔ اسی طرح باعثِ نفرت ہونے کی وجہ سے ”مقتاً“ ،انسانوں اور جانوروں میں عدمِ امتیاز کی وجہ سے ساءَ سبیلاً یعنی بری راہ ہے۔
ایک روایت میں جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:”زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں ہوتا، چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں ہوتا، شرابی جب شراب پیتا ہے تو وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا، مال چھیننے والا جب مال چھینتا ہے تو وہ حالت ایمان میں نہیں ہوتا،بلکہ ایمان اس سے نکل کر الگ ہو جاتا ہے۔ جب وہ مذکورہ گناہ سے فارغ ہو جاتا ہے تو پھر ایمان واپس لوٹتا ہے۔“ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:3936)
قتل ِ ناحق کی حرمت﴿وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُورا﴾․(بنی اسرائیل:33)
”اور جس جان کو الله نے حرمت عطا کی ہے اُسے قتل نہ کرو، الایہ کہ تمہیں ( شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو۔ اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہو جائے، تو ہم نے اس کے ولی کو ( قصاص) کا اختیار دیا ہے۔ چناں چہ اس پر لازم ہے کہ وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوزنہ کرے۔ یقینا وہ اس لائق ہے کہ اُس کی مدد کی جائے۔“
مدکورہ آیت مکی ہے او رقتل کے سلسلہ میں نازل ہونے والی پہلی آیت ہے۔ الله تعالیٰ کے اس حکم میں کسی بھی انسانی جان کو ناحق قتل کرنے سے روکا گیا۔ انسانی جان حق تعالیٰ کے نزدیک دنیا بھر سے زیادہ قیمتی اور اہم ہے۔ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:”لزاول الدنیا عند الله اھون من قتل مسلم…“․
”دنیا کا ختم ہو جانا الله تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے غیر اہم ہے۔“ (سنن نسائی، جلد دوم، حدیث نمبر:3987)
سورة المائدہ میں ارشاد ِ ربانی ہے:﴿مِنْ أَجْلِ ذَٰلِکَ کَتَبْنَا عَلَیٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا﴾․ (المائدہ:32)
” اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے، جب کہ یہ قتل نہ کسی او رجان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اُس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اُس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔“
آیت ِ بالا میں ایک شخص کے قتل کوپوری نسل ِ انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا۔ زنا کی حرمت کے بعد قتل کی حرمت میں اشارہ ہے کہ زنا ناجائز وجود کا سبب ہے، اسی لیے زنا حرام ہے اور قتل ناجائز طریقے سے وجود سے عدم میں جانے کا ذریعہ ہے، اس لیے یہ بھی منع ہے۔قتل کی حرمت کی عقلی وجوہ بھی واضح ہیں، مثلاً:
قتل باعث ِ ضررہے اور ضرر کو شریعت نے حرام قرار دیا۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ …﴾․(الحج:78)
”اس نے تمہیں (اپنے دین کے لیے) منتخب کر لیا ہے او رتم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔“
حضرت سلیمان علیہ السلام کے کلام میں انسان کو حق تعالیٰ کی تعمیر کردہ عمارت قرار دیا گیا ہے اور آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”ملعون من ھدم بنیان الله “․
”جو شخص حق تعالیٰ کی عمارت کو گرائے ( کسی نفس کو ناحق قتل کرے) وہ شخص لعنتی ہے۔“ (لسان العرب لابن منظور الافریقی:14/95، ط: دار صادر، بیروت)
انسان کی خلقت عبادت کے لیے ہے اور قتل کی وجہ سے سلسلہٴ عبادت منقطع ہو جاتا ہے۔
قتل ذریعہ فساد ہے، اس لیے بھی قتل کو حرام قرار دیا گیا ۔
قتل کے مسئلہ میں عمومی واکثری حکم رحمت کا ہے، اس لیے اول حرمت ِ قتل کو بیان فرمایا او راس کے بعد جن
لوگوں کا قتل ایک مخصوص طریقے سے جائز ہے، اُن کا استثنا فرما دیا:”إلا بالحق“ اور قتل ِ حق سے مراد تین طرح کے لوگوں کا قتل ہے۔ جو شرعاً ثابت ہے۔
∗… قاتل کا قصاصاً قتل۔
∗… شادی شدہ شخص کا زنا کرنا او راس کا بطور ِ سزا قتل۔
∗… کوئی شخص ترک ِ اسلام کرکے اِرتداد اختیار کرے اور باوجود سمجھانے اور تشفی وتسلی کروانے کے مسلمان نہ ہو۔
مذکورہ بالا تینوں لوگوں کو صرف حکومت یا اس کی قائم کردہ اتھارٹی قتل کرواسکتی ہے، جس شخص کو ناحق قتل کروایا گیا، اُس کے ورثاء کے لیے حق تعالیٰ کی جانب سے دیت یا قصاص کا حق ہے، اس لیے مقتول کے ورثاء اپنا حق استعمال کریں، وہ قتل میں اسراف اور زیادتی نہ کریں، حق تعالیٰ کی جانب سے ان مظلوموں کی نصرت ہوگی۔
قتل میں زیادتی سے نہی کا معنی یہ ہے کہ مقتول کے ورثاء یہ چاہیں کہ قاتل کی جگہ کسی دوسری شخصیت کو یا ایک کے بدلہ ایک سے زیادہ کو یا ناحق کسی کو مقدمہٴ قتل میں پھنسا دیں یا قاتل کا مثلہ چا ہیں تو اس کی قطعا اجازت نہیں، انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
مال یتیم کی حفاظت اور ایفاءِ عہد﴿وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ حَتَّیٰ یَبْلُغَ أَشُدَّہُ وَأَوْفُوا بِالْعَہْدِ إِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُولًا﴾․(بنی اسرائیل:34)
ترجمہ:”اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ بھٹکو، مگر ایسے طریقے سے جو ( اُس کے حق میں ) بہترین ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو، یقین جانو کہ عہد کے بارے میں ( تمہاری ) باز پرس ہونے والی ہے۔“
گزشتہ آیت میں جان کی ہلاکت سے منع کیا گیا، اس آیت میں تلف ِ مال کی ممانعت ہے۔ اس سلسلہ میں پہلا حکم مال ِ یتیم سے متعلق ہے۔
یتیم دنیوی لحاظ سے بے سہارا اور شفقت والد سے محروم ہے۔ یہ بچہ اپنے حقوق کی حفاظت ودفاع کی قدرت نہیں رکھتا، اس لیے بطورِ خاص اہل اسلام کو یتیم کے حقوق مرحمت فرمائے گئے۔ اس سلسلہ میں حکم دیا گیا کہ یتیم کا مال ہڑپ نہ کر جاؤ، لیکن بطورِ تاکید کے اسے یوں تعبیر کیا گیا کہ یتیم کے مال کے قریب تک نہ جاؤ۔ ہاں!یتیمکے مال کی بہتری، حفاظت ودیکھ بال اس کی سمجھ داری کی عمر تک کرو، جب یتیم جوان وسمجھ دار ہو جائے تو اس کی امانت اُ س کے حوالہ کر دو۔
جنابِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مال ِ یتیم سے متعلق سیدنا ابو ذر رضی الله عنہ سے ارشاد فرمایا :
”اے ابو ذر! میں آپ کو کم زور تصور کرتا ہوں اور میں آپ کے لیے وہ پسند کرتا ہوں، جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں (اس لیے دو کاموں کی نصیحت کرتا ہوں):
دولوگوں پر بھی امیر نہ بننا۔
یتیم کے مال کا متولی ونگران نہ بننا۔(تفسیر ابن ِ کثیر: 4/143، سورة بنی اسرائیل)
قرآن کریم نے متعدد مقامات پر یتیم سے متعلق آیات ارشاد فرمائی ہیں۔ سورة الانعام میں بھی اس سے ملتا جلتا حکم ارشاد فرمایا:﴿وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ حَتَّیٰ یَبْلُغَ أَشُدَّہُ وَأَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ﴾․(الانعام:152)
” اور یتیم جب تک پختگی کی عمر کو نہ پہنچ جائے اُس وقت تک اُس کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو ( اُس کے حق میں ) بہترین ہو اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا پورا کیا کرو۔“
﴿فَأَمَّا الْیَتِیمَ فَلَا تَقْہَرْ ﴾․(الضحیٰ:9)
”اب جو یتیم ہے تم اس پر سختی مت کرنا۔“
سورة النساء میں ارشاد فرمایا:﴿وَابْتَلُوا الْیَتَامَیٰ حَتَّیٰ إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْہُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ وَلَا تَأْکُلُوہَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن یَکْبَرُوا وَمَن کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَمَن کَانَ فَقِیرًا فَلْیَأْکُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ فَأَشْہِدُوا عَلَیْہِمْ وَکَفَیٰ بِاللَّہِ حَسِیبًا﴾․ (النساء:6)
ترجمہ:” اور یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے لائق عمر کو پہنچ جائیں، اگر تم یہ محسوس کرو کہ اُن میں سمجھ داری آچکی ہے تو اُن کے مال اُنہی کے حوالہ کر دو اور یہ مال فضول خرچی کرکے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہو جائیں۔ اور (یتیموں کے سرپرستوں میں سے ) جو خود مال دار ہو تو اپنے آپ کو ( یتیم کا مال کھانے سے ) بالکل پاک رکھے۔ ہاں! اگر وہ خود محتاج ہو تو معروف طریقِ کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کھا لے، پھر جب تم اُن کے مال انہیں دو، تو ان پر گواہ بنالو اور الله حساب لینے کے لیے کافی ہے۔“
یتیم سے متعلق احکام کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کے مذکورہ بالا مقامات کے علاوہ 11مقامات پریتامی کا ذکر ہے۔
آیت میں دوسرا حکم ایفائے عہد سے متعلق ہے۔ روزِ محشر عہد سے متعلق سوال کیا جائے گا، لہٰذا لوگوں سے کیے گئے عہد نبھاؤ۔ ایفائے عہد کے حکم میں حق تعالیٰ سے کیے گئے عہد، مختلف افراد، اداروں ، محکموں ، حکومتوں او راہل خانہ سے کیے گئے عہد بھی شامل ہیں، روزِ محشر ان سب کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ قرآن کریم میں اہل ایمان کی ایک صفت ایفائے عہد کے ساتھ بھی بیان کی گئی:
﴿وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُوا … الخ﴾․(البقرہ:177)
”اور جب کوئی عہد کر لیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے کے عادی ہوں۔“
اور ایفائے عہد کرنے والوں کے لیے اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا، سورة الفتح میں ارشاد باری ہے :
﴿وَمَنْ أَوْفَیٰ بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللَّہَ فَسَیُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا﴾․ (الفتح:10)
”اور جو کوئی اس عہد کو پورا کر ے گا جو اس نے الله سے کیا ہے، الله اس کو زبردست ثواب عطا کرے گا۔“
سیدنا اسماعیل علیہ کے متعلق ارشاد فرمایا:﴿وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ إِسْمَاعِیلَ إِنَّہُ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُولًا نَّبِیًّا﴾․(مریم:54)
” اور اس کتاب میں اسماعیل کا بھی ذکر کرو، بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور رسول ونبی تھے۔“
جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عہد شکنی کو منافق کی علامت قرار دیا۔ قرآن کریم میں عہد توڑنے والے کو موجب لعنت بھی قرار دیا گیا، چناں چہ فرمایا:
﴿فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیثَاقَہُمْ لَعَنَّاہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَہُمْ قَاسِیَةً یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہِ ﴾․(المائدہ:13)
”پھر یہ ان کی عہد شکنی یہی تو تھی جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کیا او ران کے دلوں کو سخت بنا دیا۔ وہ باتوں کو اپنے موقع محل سے ہٹا دیتے ہیں۔“
وزن اور ذمہ داریوں میں فرائض کی ادائیگی﴿وَأَوْفُوا الْکَیْلَ إِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ ذَٰلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا﴾․(بنی اسرائیل:35)
”اور جب کسی کو کوئی چیز پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو اور تولنے کے لیے صحیح تراز واستعمال کرو۔ یہی طریقہ درست ہے اور اسی کا انجام بہترہے۔“
ناپ تو ل پورا کرو
اس سلسلہ میں عدل وانصاف سے کام لو، یہ بہت بہتر اور دنیوی واخروی انجام کے لحاظ سے نہایت ہی مستحسن ہے۔ آیت مذکورہ میں اگرچہ کیل اور وزن کا ذکر ہے، تاہم اس سے مراد ہر ذمہ داری کا نبھانا اور مسئولیت کا صحیح سر انجام دینا ہے۔ اگر کوئی چیز تول کر دینی ہے تو پیمانہ درست ہو، باٹ درست ہو، وزن درست ہو۔ اگر کوئی چیز ناپ کر دینی ہے تو پیمانہ ٹھیک ہو، پیمانہ کے ساتھ ناپ یا بھرتی وغیرہ بھی پوری ہو۔ اگر کوئی فریضہ، ملازمت، نوکری یا دیگر کوئی ذمہ داری ہے تو اوقات پورے دیے جائیں، اپنے فرائض منصبی کو صحیح معنوں میں نبھایا جائے۔ اگر کوئی شخص مذکورہ اشیاء میں کمی کرتا ہے یا اپنے فرائض منصبی کو صحیح معنوں میں سر انجام نہیں دیتا تو شریعت کی اصطلاح میں اُسے ”مطفف“ کہتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے متعلق قرآن کریم کا ارشاد گرا می ہے :
﴿وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِینَ،الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ، وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ﴾․ (المطففین:3-1)
”بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔“
قرآن کریم نے اس حکم کو دوسرے انداز میں یوں بھی بیان فرمایا:
﴿وَأَقِیمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیزَانَ﴾․ (الرحمن:9)
” اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کمی نہ کرو۔“
ناپ تول میں کمی، بددیانتی او رخیانت کو الله تعالیٰ نے فساد فی الارض یا دہشت گردی کے برابر ذکر کیا ہے، ارشاد ربانی ہے :
﴿وَیَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاء َہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدِینَ ﴾․(ھود:85)
”اور اے میری قوم کے لوگو! ناپ تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔“
قرآنی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ امم سابقہ میں سے سیدنا حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم اس وجہ سے ہلاک ہوئی کہ وہ لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے او رنبی وقت کے سمجھانے کے باوجود وہ باز نہ آئے۔ الله تعالیٰ نے اس جرم کی وجہ سے انہیں ہلاک کر ڈالا۔ اس بنا پر سیدنا عبدالله بن عباس نے ارشاد فرمایا: ” اے ذمہ داران! تم دو ایسے حکموں کے مکلف بنائے گئے ہو جن کی وجہ سے گزشتہ لوگ ہلاک ہوئے:ناپ تول۔“ ارشاد فرمایا کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرمایا کرتے تھے:
”جو شخص حرام فعل کے ارتکاب کی طاقت رکھتا ہو، پھر خوف خدا کی وجہ سے ارتکاب حرام سے باز رہے، الله تعالیٰ اسے دنیا میں ہی اس فعل کا صلہ وبدلہ عطا فرمائیں گے۔“ (تفسیر ابن کثیر:3/550، سورة ہود)
الله تعالیٰ نے ناپ تول پورا کرنے کو بہترین عمل او رانجام کے لحاظ سے خوب صورت قرار دیا۔ آخرت کے لحاظ سے یہ عمل حسین ہونا تو واضح ہے کہ اس پر اجر عظیم نصیب ہو گا۔ دنیا کے لحاظ سے بھی یہ عمل نہایت خوب صورت ہے، ایسے امانت دار شخص کی جانب لوگوں کا میلان اور رجوع زیادہ ہوتا ہے۔ خلق خدا ایسے شخص پر اعتماد کرتی ہے، نیز ایسے شخص کی محبت الله تعالیٰ کی مخلوق میں پیوست ہو جاتی ہے، اس کے نتیجہ میں ایسے شخص کے کاروبار میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔