ہمارے فقہائے کرام، محدثین ِ عظام اور دیگر اکابرین ملت جس طرح ظاہری علم سے مزین وآراستہ تھے، اسی طرح باطنی علوم میں بھی ان کو کمال اور درک حاصل تھا، وہ نصوص کے ظاہر پر منجمد رہنے، قرآن وحدیث کے صرف الفاظ میں موشگافیاں کرنے والے اور متقشف اور خشک مزاج نہیں تھے او رنہ ہی باطنیوں اور نام نہاد صوفیوں کی طرح ظواہر نصوص کو قشر وچھلکا قرار دے کر ترک کرتے تھے۔ بلکہ وہ علوم نقلیہ وعقلیہ میں کامل مہارت رکھنے کے ساتھ تزکیہ وسلوک او رحقیقی تصوف میں بھی بلند مقام رکھتے تھے۔ ایسے ہی اکابرین ملت میں سے ایک علامہ ابن ہمام ہیں، جو ایک فقیہ ہونے کے ساتھ بلند پایہ محدث بھی تھے او رجن کی علم کلام اور فقہ واصولِ فقہ وغیرہ پر تصانیف ان کے تبحرِ علمی پر شاہدِ عدل ہیں۔
علامہ ابن ِ ہمام کا مختصر تعارف
علامہ ابنِ ہمام کا مکمل نام کما ل الدین محمد بن عبدالواحد سیواسی ہے، ابن الہمام کے لقب سے مشہور ہوئے ، سن790ھ میں ان کی ولادت ہوئی۔ بچپن میں ہی والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، اس لیے نانی محترمہ کے زیر کفالت رہے۔ طلبِ علم میں مشغول ہوئے او رتمام مروجہ عقلی ونقلی علوم میں کمال اور مہارت حاصل کی۔ اپنے وقت کے بڑے مشائخ اور اساتذہ سے کسب ِ فیض کیا۔ جن میں علامہ ابن حجر عسقلانی ، سراج الدین قاری الہدایہ، ابوالولید محب الدین ابن شحنہ اور عز الدین ابن جماعہ وغیرہ جیسی ہستیاں سر فہرست ہیں۔
اسی طرح علامہ ابنِ ہمام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے بھی وقت کے بڑے علماء وفضلاء تھے۔ چناں چہ علامہ قاسم بن قطلوبغا، ابن امیر حاج، علامہ شمس الدین سخاوی، جلال الدین سیوطی، شرف الدین مناوی او رتقی الدین شمنی وغیرہ جیسے جلیل القدر اہل ِ علم ان کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ سن861ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ ( الضوء اللامع لأھل القرن التاسع للسخاوي:8/132-127، الناشر: دارالجبل، بیروت)
علامہ ابنِ ہمام اور تصوف و سلوک
علامہ ابن ِ ہمام ان افراد میں سے تھے جو راہ ِ تصوف پر گام زن رہ چکے تھے، بلکہ منزل مقصود پر پہنچ چکے تھے، چناں چہ تذکرہ نگاروں نے ان کے تزکیہ واحسان اور تصوف وسلوک کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن ان کا تصوف پیر پرستی، شعبدہ بازی یا معاشرے سے الگ تھلک رہنے کا نام نہیں تھا، بلکہ وہ شرعی احکام کی عملی تطبیق، حضور صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی، الله تعالیٰ کا استحضار اور قلبی، روحانی اور ظاہری غرض ہر طرح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کا نام تھا۔ ان کا تصوف وسلوک خالص اور حقیقی تھا، اس میں کسی قسم کی بدعت وغیرہ کا شائبہ تک نہ تھا۔ چناں چہ اس سلسلے میں علامہ سیوطی نے تحریر فرمایا ہے کہ علامہ ابن ِ ہمام کو الله تعالیٰ نے کشف وکرامات کا ایک حصہ عطا کیا تھا، اسی طرح ان پر ”ورود“ بھی ہوتا تھا، جیسا کہ اہل تصوف پر ہوتا ہے، چناں چہ وہ لکھتے ہیں:” وکان یأتیہ الوارد کما یأتی الصوفیة إلا أنہ یقلع عنہ بسرعة لأجل مخالطتہ للناس“․ (بغیة الوعاة للسیوطی: 1/167، الناشر، المکتبة العصریة، لبنان)
ترجمہ: علامہ ابن ہمام کو ورود ہوتا تھا ( واردات ومخصوص احوال آنا) جیسا کہ صوفیہ کے پاس وارد آتا ہے، لیکن لوگوں سے میل جول کی وجہ سے وہ جلد ہی اس حالت سے نکل آتے تھے۔
ابتدا میں تو علامہ ابن ِ ہمام پر اس ”حال“ کا اتنا غلبہ ہوا کہ وہ سب علمی مشاغل چھوڑ کر الگ ہو گئے، لیکن پھر تصوف وسلوک سے منسلک لوگوں نے ان سے کہا:”ارجع فإن للناس حاجة بعلمک․“ (شذرات الذھب في أخبار من ذھب لابن عماد الحنبلي:9/438، الناشر: دار ابن کثیر، بیروت،ط:1406ھ)
ترجمہ:” واپس لوٹ جاؤ؛ کیوں کہ لوگوں کو تمہارے علم کی ضرورت ہے۔“
علامہ ابن ِ ہمام کی حالت جذب کا ایک واقعہ
علامہ ابن ہمام کے شاگرد علامہ سیوطی نے عینی گواہ سے علامہ ابن ہمام کی حالت ِ جذب کا واقعہ نقل کیا ہے ، وہ شخص خو دبھی صوفیہ میں سے تھا۔ وہ کہتا ہے: ایک مرتبہ میں علامہ ابن ِ ہمام کے ساتھ مصر میں تھا کہ ان پر ”حال“ طار ی ہوا ( اور حالت ِ جذب کی کیفیت ہو گئی) چناں چہ علامہ ابن ِ ہمام جلدی سے اٹھے اور میرا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگے، وہ تیز چل رہے تھے او رمیں ان کے ساتھ دوڑ رہا تھا، یہاں تک سواریوں کے سامنے آکر رکے اور کہنے لگے کہ یہاں کیوں کھڑے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہوا کی وجہ سے رک گئے ہیں۔ علامہ ابن ِ ہمام نے فرمایا:”ھو الذي یسیرکم، وھو الذي یوفقکم“
یعنی الله ہی تم کو چلاتا ہے اور وہی تمہیں روکتا ہے۔
لوگ نے کہا کہ بے شک ایسا ہی ہے۔ اتنے میں علامہ ابن ِ ہمام کا ”وارد“ دور ہوا اور ان کی حالت درست ہو گئی۔ پھر علامہ ابن ِ ہمام میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ شاید میں نے تمہیں مشقت میں ڈالا ہے ؟ میں نے جواب دیا:” إي والله، وانقطع قلبي من الجري․“
ترجمہ:” جی ہاں، الله کی قسم ! دوڑنے کی وجہ سے میرا تو دل پھٹا جارہا ہے“۔
پھر علامہ ابنِ ہمام معذرت کرنے لگے اور فرمایا:” لا تأخذ علي، فإني لم أشعر بشيء مما فعلتہ․“ (بغیة الوعاة للسیوطي:1/168)
ترجمہ:” ناراض مت ہونا؛ کیوں کہ جو کچھ میں نے کیا ہے ، اس کا مجھے بالکل شعور وادراک نہیں ہوا“۔
فتح القدیر میں تصوف وسلوک سے متعلق تعلیمات
علامہ ابن ِ ہمام نے اپنی مشہور ومعروف کتاب ”فتح القدیر“ میں بھی متعدد مقامات پر تصوف سے متعلق باتیں اور اہلِ سلوک کی تعلیمات نقل کی ہیں، جن میں سے دو مثالیں درجِ ذیل ہیں:
اذان کا جواب دیتے وقت ” حی علی الصلوٰة“
اور حي علی الفلاح“
کے جواب میں کیا کہا جائے گا؟ یہی کلمات دہرائے جائیں گے یا ” لاحول ولا قوة إلا بالله“
کہا جائے گا۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن ِ ہمام تحریر فرماتے ہیں:
” وقد رأینا من مشایخ السلوک من کان یجمع بینھما فیدعو نفسہ ثم یتبرأ من الحول والقوة لیعمل بالحدیثین․“( فتح القدیر لابن الہمام:1 /250، الناشر: دارالفکر)
ترجمہ:”ہم نے اہلِ سلوک مشائخ میں سے بعض کو دیکھا کہ وہ دونوں کو جمع کرتے تھے، پہلے اپنے نفس کو بلاتے (حي علی الصلوٰة
وغیرہ کہتے) او رپھر قوت وطاقت سے برأت کرتے تھے ( لا حول ولا قوة إلا بالله
کہتے) تاکہ دونوں حدیثوں پر عمل ہو جائے“۔
علامہ ابن ِہمام نے ”کتاب الحدود“ میں ثابت کیا ہے کہ غیر شادی شدہ شخص پر زنا کرنے کی صورت میں کوڑوں کے ساتھ جلا وطنی کی سزا بطورِ حد واجب نہیں ہو گی، البتہ مجرم کو سیاسةً جلا وطنی کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اس سے متعلق تفصیل لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:”وعلی ھذا کثیرمن مشایخ السلوک المحققین رضی الله عنہم ورضي عنا بہم وحشرنا معہم کانوا یغربون المرید إذا بدا منہ قوة نفس ولجاج لتنکسر نفسہ وتلین․“ ( فتح القدیر لابن الہمام:5/245)
ترجمہ:” اسی پر بہت سے محقق اہل سلوک مشائخ کا عمل ہے، (الله تعالیٰ ان سے راضی ہو او ران کی وجہ سے ہم سے بھی راضی ہو او رہمیں ان کے ساتھ حشر میں جمع کرے) جب مرید کی قوت ِ نفسانی ظاہر ہو تو وہ اس کو جلا وطن اور دور کرتے ہیں تاکہ اس کا نفس عاجز اور نرم ہو جائے۔
اسی طرح اور بھی متعدد مقامات پر تصوف وسلوک سے متعلق تعلیمات ذکر کی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمار ے اکابرین علوم عقلیہ ونقلیہ میں کامل مہارت رکھنے کے باوجود تزکیہ واحسان او راپنی اصلاح سے غافل نہیں تھے، بلکہ اس کے لیے وقت کے نیک بزرگوں او راہل ِ سلوک سے استفادہ بھی کرتے تھے۔