روزے کی فرضیت
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾․(2:183)
”اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں ، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ، تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو۔“
سورہٴ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں اللہ رب العزت روزوں کی فرضیت کا اعلان فرماتے ہیں۔ سرکارِ دو عالم خاتم النبیین صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو سن دو ہجری میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور اس آیت کے نازل ہوتے ہی روزوں کا جو سلسلہ چل رہا تھا وہ فرض روزوں میں تبدیل ہو گیا، روزہ رکھنے کا تصور تو اس سے پہلے بھی موجود تھا،لیکن اس آیت کے نازل ہوتے ہی روزوں کو رمضان المبارک کی صورت میں فرض روزوں کا درجہ دیا گیا۔
رب العالمین کا حکم
اللہ رب العزت نے انداز ایسا اختیار کیا کہ:﴿ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ﴾
”اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں“جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی ایک خالق اپنے مخلوق کو کسی بات کا حکم دے رہا ہے۔ پوچھا نہیں جارہا کہ تم پر روزے فرض کریں یا نہیں یا ہم تم پر روزے فرض کرنے والے ہیں۔ بلکہ جو بارگاہ میں طے ہوا اس کی اطلاع کی جا رہی ہے کہ تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں۔ ایک مخلوق کی حیثیت سے اپنے خالق کا حکم تمہیں اس طرح ماننا ہے کہ جیسے ہی حکم آگیا اب تمہیں دوسری کوئی بات نہیں کرنی، اب تمہیں روزوں کا اہتمام کرنا ہے۔ اب تمہیں اس کی حکمتیں نہیں پوچھنیں،اپنی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑانے کہ پہلے نفلی تھا، اب اچانک فرض کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ وغیرہ ۔
صوم کا مفہوم
آیت میں صیام کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی روزے کے ہے، صوم لغت کے اعتبار سے کسی کام سے رک جانے کو کہتے ہیں۔ روزے کو صوم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں سحری کا وقت ختم ہونے سے سورج غروب ہونے تک کھانا،پینے اور ازدواجی تعلق قائم کرنے سے خود کو روکنا پڑتا ہے۔
روزے کی تاریخی حیثیت
اس آیت کے دوسرے حصے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ:﴿کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾
اس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے پہلے بھی روزوں کا سلسلہ موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے وہاں یہودیوں کی بہت بڑی تعداد آباد تھی اور یہودی عاشورہ یعنی محرم الحرام کی دس تاریخ کا روزہ رکھنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کا ماننا یہ تھا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے مظالم سے بنی اسرائیل کو آزادی عطا فرمائی تھی۔ اس تاریخی شکرانے کے طور پر ان میں روزے رکھنے کا رواج پیدا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے تک یہ رواج جاری تھا۔اس کے علاوہ عیسائی مذہب میں بھی روزوں کا سلسلہ موجود تھا۔ اسی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ تم سے پہلے کی امتوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ہے لہذا تم سے کسی نئے اور انوکھے کام کا نہیں کہا جارہا۔ اس طرح ایک تسلی والی بات کردی،جیسے ہم کسی شخص کو کوئی نیا کام کرنے کا کہہ دیتے ہیں کہ آپ یہ کام کریں اوراسے ساتھ ساتھ بتاتے ہیں کہ یہ کام فلاں بھی کرچکاہے اور میں نے خود بھی یہ کام کیا ہے وغیرہ، تو اب اس کرنے والے کو ذرا تسلی ہو جاتی ہے، اطمینان ہو جاتا ہے کہ یہ کام میں پہلی بار نہیں کر رہا، یہ اگر اتنا مشکل ہوتا تو یہ بھی نہ کر سکتا۔ تو اللہ رب العزت نے جیسے تسلی کا کلمہ ذکر فرمادیا کہ تم سے پہلے بھی روزے کی عبادت کا تصور تھا۔
روزے کا مقصد
آیت کے آخر میں روزے کا مقصد ذکر فرمایا کہ روزے کا سلسلہ کیوں شروع کیا ؟ اوراس کا اصل مقصد کیا ہے؟ یہ بھوک اور پیاس برداشت کرنا اور ازدواجی تعلق سے دور رہنا ان سب کا اصل مقصد کیا ہے؟ اللہ رب العزت ہمیں بھوکا اور پیاسا رکھ کرکیا چاہتے ہیں؟ آگے پھر وہ مقصد ذکر فرمایا کہ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾
تاکہ تمہارے اندر تقوی پرہیزگاری پیدا ہو، نیک اعمال کرنے اور برائیوں سے بچنے کی عادت پیدا ہوجائے۔ یہ روزے کا اصل مقصد ہے۔
یوں تو تمام عبادات کا یہی مقصد ہے۔ نماز کا بھی یہی مقصد ہے، حج کا بھی یہی مقصد ہے، صدقے کا بھی یہی مقصد ہے۔ لیکن دوسری عبادات کے مقابلے میں روزے سے یہ مقصد جلد اور زیادہ اچھے طریقے سے پورا ہوتا ہے، اسی لیے یہاں بطور خاص یہ مقصد ذکر فرمایا۔
تقوی کیا ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ کے معنی ہیں بچنا، کسی چیز سے پرہیز کرنا، کسی چیز سے اپنے آپ کو اہتمام کرکے بچانا۔
فاروق اعظم اور ابی بن کعب رضی الله عنہما کی ملاقات
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات صحابی رسول حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی، جو بہت بڑے صحابی تھے، جن کو صحابہ میں ”اقرأالصحابہ ابی بن کعب“کہاں جاتا ہے، صحابہ میں سب سے بڑے قرآت کے ماہر اور قاری ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، سب سے زیادہ قرآت اور تجوید کے جاننے والے تھے، سورہٴ فاتحہ کے فضیلت کی روایت ان ہی سے منقول ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان سے ملاقات ہوئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ تقویٰ کیا چیز ہے جس کا ذکر قرآن میں بار بار کیا گیا ہے؟حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے امیر المؤمنین! آپ کبھی ایسے راستے سے گئے ہیں جس کے دونوں طرف خار دار جھاڑیاں ہوں، کانٹے دار راستہ ہو اور بیچ میں راستہ بھی تنگ ہو ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایسا تو بہت بار ہوا ہے، کئی مرتبہ میں ایسے راستے سے گزرا ہوں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ آپ ایسے راستے سے کیسے جاتے ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا کہ میں اپنا دامن سمیٹ سمیٹ کر جاتا ہوں کہ کہیں یہ کانٹے میرے کپڑوں میں نہ چبھ جائیں، کہیں مجھے نقصان نہ پہنچ جائے۔ تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہی تقویٰ ہے کہ ساری زندگی خواہشات اور نفسانیت کے خطرناک راستے سے ایسے گزرنا کہ خواہشات اور نفس کے کانٹوں سے خود کو سمیٹ سمیٹ کر بچانا اور گناہوں میں پڑنے سے بچ کر زندگی کے راستے کو پار کرنا یہی ”تقویٰ“کہلاتا ہے۔ یعنی جس طرح تم ایسے راستے میں اپنے کپڑے سمیٹ کر جاتے ہو ویسے ہی دنیا میں خود کو ان نفسانی و شیطانی حربوں سے بچانے کی کوشش کرنا یہی در حقیقت تقوی ہے۔
نفس اور شیطان
علماء فرماتے ہیں کہ نفس اور شیطان یہ دونوں آپس میں حقیقی بھائی ہیں اور ان دونوں کا جنم بھی ایک ساتھ ہوا ہے۔ ان دونوں کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسان کو کسی نہ کسی طریقے سے راہِ راست سے ہٹاکر گم راہ کرنا اور پھر اسے اپنی منزلِ مراد یعنی ”جنت“سے دور کرنا۔ یہ ان دونوں کا اصل مقصد ہے۔
روزہ:جنت کی سیڑھی
روزہ اس مقصد یعنی جنت کو حاصل کرنے کی ایک سیڑھی ہے کہ جب انسان روزے کی عبادت میں مصروف رہتا ہے تو نفس کی تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور یہ تربیت تقوے کا جوہر پیدا کرتی ہے اور جب تقوی پیدا ہوتا ہے انسان ہدایت کے رستے پر چل پڑتا ہے اور بالآخر یہ رستہ جنت تک پہنچادیتا ہے۔
روزہ اور نفس کی تربیت کا عمل
اس پورے پس منظر میں اصل تصادم نفس کی تربیت کا ہے، اگر تربیت ٹھیک ہوئی تو تقوے کا حصول ممکن رہے گا، ورنہ ناممکن۔نفس کو الله ربّ العزّت نے اس انداز سے پیدا فرمایا ہے کہ اس کی جتنی بات مانی جائے اتنا ہی یہ بگڑتا جاتا ہے اور جتنا اس کی بات رد کی جائے اتنا ہی یہ سدھرنے لگتا ہے، اگر اس کو زیادہ کھلایا پلایا جائے یہ زیادہ بگڑتا ہے، اس کی خواہشات کو جتنا زیادہ پورا کیا جائے اتنا ہی اس میں بگاڑ بڑھتا رہتا ہے، جتنا اس کی بات مانی جائے گی یہ اتنا ہی زیادہ بگڑنے لگتا ہے، جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کی ہر ضد پوری کی جائے تو دوسرے دن اتنا ہی ان کی ضد میں اضافہ ہوتا ہے، ٹھیک ایسی ہی نفس کی مثال ہے، یہ نفس چاہتا ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ کھاؤں، یہ چاہتا ہے کہ میں زیادہ آرام کروں، ہر وقت سوتا رہوں، عیاشی کروں،مزے سے بیٹھا رہوں،تکلیف ومشقت سے دور رہوں۔ لہذا اس کی مانتے جائیں تو یہ بس نہیں کرے گا، بلکہ اضافی خواہشات کی تمنا کرتا جائے گا، مثلا نفس چاہتا ہے کہ اس کی جنسی خواہشات زیادہ سے زیادہ پوری ہوں، لیکن جتنا زیادہ ملے گا اتنا ہی تقاضا بڑھتا جائے گا۔
روزے کی صورت میں اللہ رب العزت نے نفس کی تربیت کا ایک بہترین انتظام فرمادیا کہ نفس کو سدھارنا ہے تو بہت مشکل، مگر تمہیں جو روزے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے اس کے ذریعے تم اپنے نفس کو ٹھیک کرنے کی کام یاب کوشش کرسکتے ہو۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ تم کچھ وقت کے لیے اپنا کھانا پینا اور جائز جنسی تعلق چھوڑدو تو نفس پر یہ سب بھاری پڑے گا اور اصول یہ ہے کہ جب بھی نفس پر مشقت آتی ہے تو ابتدا میں بہت تکلیف ہوتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ وہ تکلیف ایک جوہر اور ایسی قابلیت پیدا کردیتی ہے کہ نفس انسان کو بری باتوں کی طرف راغب نہیں کرتا ،اس میں سدھار پن آجاتا ہے۔
خواہشات نفسانی کا اثر
امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص کم کھانا کھاتا ہے تو اسے بیت الخلا کی حاجت بھی کم ہوتی ہے، نیند بھی کم آتی ہے، دل میں جذبات اور خواہشات کم پیدا ہوتی ہیں۔ جب کہ روزے میں کم کھانا معمول بن جاتا ہے، نتیجے میں ان سب چیزوں سے بچنے کی طاقت خود سے پیدا ہوجاتی ہے۔
صوفیاء فرماتے ہیں: نفس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شیرخوار بچہ، وہ بچہ جو ماں کی سینے سے چمٹ کر دودھ پیتا ہے۔ اب جب اس کی دودھ پینے کی مدت مکمل ہوتی ہے تو ہم بچے کو دودھ چھڑانے کے لیے سینے سے دور کر دیتے ہیں، لیکن بچہ رونے لگ جاتا ہے،چیخنے لگتا ہے، بار بار روتا ہے، بعض اوقات بیمار بھی ہوتا ہے، لیکن ہم اس کا رونا دھونا بیماری سب برداشت کرتے ہیں، لیکن اسے پھر سے ماں کا دودھ نہیں پلاتے کیوں کہ اگر اس بچے کی ضد پوری کی جائے اور اسے دودھ پینے میں دوبارہ لگا دیا جائے تو وہ شباب کی سرحد کو چھولے گا ،لیکن اس کا دودھ نہیں چھوٹے گا ،وہ پیتا ہی رہے گا۔ تو ضروری ہے کہ اس پہ کچھ نہ کچھ مشقت لائی جائے، بار ڈالا جائے،کچھ رونے کو بھی برداشت کیا جائے،چیخوں پر بھی صبر کیا جائے، اس نیت سے کہ آئندہ وہ اس عادت سے محفوظ رہے۔
نفس کی تربیت کا چار نکاتی لائحہ عمل
مولانا اشرف علی تھانوی رحمت اللہ علیہ نے اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ نفس کے بگاڑ کو کم کرنے کے چار طریقے ذکر فرمائے ہیں:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ ”قلت کلام“کرے ،یعنی کم بات کرے ،زیادہ بولنے کی کوشش نہ کرے۔ کثرت کے ساتھ اپنی زبان کو نہ چلائے، بلکہ جب ضرورت ہو تب بولے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جو زیادہ بولتا ہے وہ غیبت زیادہ کرتا ہے، زیادہ بولنے سے بہتان طرازی کا بھی خطرہ رہتا ہے، جھوٹ بھی بول سکتا ہے، تکبر کا کلمہ بھی زبان سے نکال سکتا ہے۔ لیکن ان سب کا آسان حل یہ ہے کہ وہ زیادہ بولنے سے پرہیز کرے۔ جب ضرورت ہو تب ہی بولے۔
دوسرا”قلت طعام “کرے ،یعنی کم کھائے ،ہر وقت کھانے کا معمول نہ ہو، زیادہ کھانے کی ترتیب نہ ہو، ایسا نہ ہو کہیں روڈ، شارع، گلی، چوراہے پر وقت بے وقت کھائے جارہے ہیں، کہیں کھڑے کھڑے کھا رہے ہیں، کہیں دوستوں کے ساتھ اورکبھی ناشتہ دو تین بار ۔
تیسرا ”قلت منام “یعنی کہ سونا بھی کم کرے۔ کیوں کہ زیادہ سونا زیادہ وبال کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ حکماء فرماتے ہیں کہ زیادہ سونے کی صورت میں انسان کا دماغ کم زور ہوجاتا ہے اور جو بہت کم سوتا ہے اس کا جسم کم زور ہوجاتا ہے۔سونے کا ایک درمیانہ معمول ہونا چاہیے، جتنا انسان صحت کے لیے ضروری ہو بس، ورنہ جب بہت زیادہ سوئے گا تو ساری شہوتیں جاگ اٹھیں گی۔
چوتھا ”قلت اختلاط مع الانام“لوگوں کے ساتھ کم سے کم تعلق رکھے، غیر ضروری تعلق سے اجتناب کرے، بس حقوق العباد کی فکر کرے، ورنہ زیادہ میل جول سے گناہوں کے مواقع بڑھنے کا امکان زیادہ رہتا ہے۔
نفسانی خواہشات ٹالنے کا طریقہ
جو شخص یہ چار کام کرے گا اس کے لیے نفس کو راہِ راست پر لانا آسان ہو جائے گا، جیسے فرمایا آیت میں کہ :﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾
تاکہ تمہارے اندر پرہیز گاری آجائے اور تم متقی بن جاؤ اور متقی انسان تب ہی بن سکتا ہے جب وہ نفس کے تقاضوں پر عمل نہ کرے، جو دل چاہ رہا ہے اس کے خلاف کرے، مثلاً فجر کے وقت اگر دل چاہ رہا ہے کہ سویا رہوں تو پھر نہ سوئے اور تنگ دستی میں دل چاہ رہا ہے کہ حرام کماکر مالامال ہوجاوں تو تنگ دستی برداشت کرے، نفس کی چاہت ہو کہ نظر اٹھا کر خوب صورت چہرہ دیکھوں تو نظر نیچی رکھے۔
ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمة اللہ علیہ نے اپنا واقعہ خود ذکر کیاکہ جو نفس کہہ رہا ہے اس کے خلاف کیسے کرتے ہیں ،وہ بتاتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رات کو تہجّد کے لیے اٹھا تو شیطان نے میرے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ بڑھاپے میں تہجّد پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ گویا نفس سے ان کی گفتگو ہورہی ہے کہ آپ ابھی اپنی صحت کا خیال رکھیں، آپ ذرا یہ بھی دیکھیں کہ یہ کوئی فرض نماز تو نہیں ہے، بلکہ نفلی نماز ہے، یہ تو آپ پر لازم بھی نہیں ہے اور آپ پر اتنی کمزوری آگئی ہے کہ آپ تو فرض نماز بھی گھر میں پڑھ سکتے ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحب نے من ہی من میں جواب دیا کہ میں تہجّد پڑھنے کے لیے نہیں اٹھ رہا، بلکہ میں تو بس بیٹھ جاتا ہوں اور دو چار ذکر کے کلمات کہہ کر پھر سوجاؤں گا۔ جب وہ بیٹھ گئے اور ذکر کیا تو جب سونے کا تقاضا ہوا تو انہوں نے نفس سے مخاطب ہوکر کہا کہ ایک مرتبہ جب اٹھ ہی گئے ہو اور بیٹھ ہی گئے ہو تو وضو کرکے آجاؤ اور سوجاؤ۔ اب جیسے نفس ہمیں ٹالتا ہے ،بالکل ویسے ہی انہوں نے نفس کو ٹالنے کی کوشش کی اور کہا کہ میں وضو کرکے آجاؤں گا اور پھر فوراً سو جاؤں گا، میں کوئی تہجد پڑھنے کا ارادہ نہیں کر رہا۔ انہوں نے وضو کیا اوربیٹھ گئے اور پھر کہا کہ اب تو سوجاؤ، اب تو سونے کا وقت ہے۔ تو انہوں نے کہا اب جب اٹھ ہی گئے ہو، اپنی نیند کا خمار توڑ دیا ہے اور باوضو بھی ہو تو اب دو رکعت نماز پڑھ کے سوجاؤ۔ اب آخر میں وہ دو رکعت پڑھ لیتے ہیں، پھر آخری ضرب نفس کو یوں لگاتے ہیں کہ جب سب کچھ ہو ہی گیا ہے تو اپنا معمول مکمل کرکے سو جاؤ۔ اس طریقے سے وہ نفس کو ٹالنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ یعنی یہ انداز اختیار کیا ہے کہ نفس جس بات کا تقاضا کر رہا ہے اسی بات کے خلاف جانا، جس چیز کا داعیہ پیدا ہورہا ہے اس کے خلاف چلنا۔ جیسے داعیہ پیدا ہورہا ہے کہ نظر اٹھانی ہے اور دیکھنا ہے تو اس کے خلاف چل کر نظر کو جھکا دینا۔ داعیہ پیدا ہورہا ہے کہ اب سو جانا بہتر ہے تو اس کے خلاف اٹھ کر نماز کے لیے جانا ہے۔ داعیہ اگر یہ پیدا ہوا کہ نماز میں گھر میں پڑھ لیتا ہوں تو اس کا خلاف یہ ہے کہ میں ہمت کرکے مسجد چلا جاؤں۔ تو جب تک اس نفس پر آرے نہیں چلیں گے تب تک تقوے کا جوہر پیدا نہیں ہوگا۔
روزہ ایک جامع تربیتی پروگرام
روزے کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے اس مشکل اور لمبے کام کو آسان کردیا کہ انسان کی طبیعت کے خلاف جتنے کام ہیں وہ سب روزے میں ایک ساتھ شامل کر دیے ہیں۔ اب تمہارا کھانا بھی بند کردیا ہے، تمہارا پینا بھی ممنوع ہے۔ تمہارا ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ تم جانتے ہو کہ روزے میں غصہ کرنا کتنا بڑا گناہ ہے اور تم جانتے ہو کہ جو گناہ کا کام روزے کے بغیر کیا جائے وہ گناہ ہو تو اگر روزے میں کیا جائے تو اس کا گناہ زیادہ ہے۔
روایات میں ہے کہ جوشخص روزے کی حالت میں زبان سے جو اس کا جی چاہے نکال لیتا ہے تو الله کو ایسے روزے کی کوئی ضرورت نہیں وہ مفت میں اپنا کھانا پینا چھوڑرہا ہے۔
تو یہ سارے مقاصد روزے میں ایک ساتھ جمع کردیے، جو نفس کو قابو کرنے کا ذریعہ ہیں۔تاکہ ایک مہینے تک تم اس نسخے پر عمل کرتے رہو اور متقی بننے کا سفر شروع کرسکو۔
اگر ہم یہ تصور کریں کہ ایک بند کمرے میں کوئی فرد موجود ہے اور روزے سے اس کی زبان سوکھ چکی ہو۔ ایک ایسے کمرہ جس میں کوئی اسے دیکھ بھی نہیں رہا وہاں ایک کولر رکھا ہوا ہو جس کے نیچے گلاس بھی رکھا ہوا ہو۔ اور اس میں ٹھنڈا پانی موجود ہو اور وہ تھوڑا تھوڑا ٹپکتا بھی رہے،اس پانی کی ٹھنڈک اس گلاس میں بھی نظر آئے۔ الغرض نفس کے خلاف جو تقاضے ہیں وہ سب کے سب موجود ہوں، پیاس بھی شدت سے محسوس ہورہی ہو، لیکن روزے کی وجہ سے وہ ان تقاضوں پر ہرگز عمل نہیں کرتا، اس کا مطلب الله ربّ العزت نے روزے دار میں قدرتی طور پر وہ صلاحیت رکھی ہے جو نفس کی تربیت کے لیے ضروری ہے، تاکہ تمہارے لیے اپنے نفس کی تہذیب کرنا اور اس کو سدھارنا آسان ہو جائے۔ جب ایک مہینے تک یہ تربیت کا عمل جاری رہے گا تو گیارہ مہینوں تک اس کا اثر رہے گا اور پھر مزید قوت پیدا کرنے کے لیے ایک اور رمضان آجائے گا اور روزے کا مقصد یعنی تقوے کا حصول ممکن ہوجائے گا ان شاء اللہ۔