اللہ تعالیٰ نے رات آرام کے لیے بنائی ہے، لیکن لوگوں میں رات دیر تک جاگنے کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ سمجھاؤ تو کہتے ہیں کہ نیند ہی نہیں آتی۔ مسلمان کے لیے صبح چار بجے تو بستر چھوڑنے کا وقت ہو جاتا ہے، لیکن اب لوگ اس کے قریب سونے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ حدیث شریف میں تہجد کو نیک لوگوں کا طریقہ بتایا گیا ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا سے از خود صدا لگاتے ہیں، ایک دو اور تین بجے سونے والا کیسے اس صدا پر لبیک کہہ سکتا ہے!روزانہ مسلسل ان صداوں کو اَن سُنا کرنا سخت محرومی کا باعث ہے۔اسی لیے رحمت ِعالَم صلی الله علیہ وسلمنے عشاء کے بعد بلا وجہ جاگنے کو ناپسند اور منع فرمایا ہے، اگر عشاء کے بعد جلدی سونے کی عادت بنا لی جائے تو تہجد اور فجر میں جاگنا آسان ہو جاتا ہے۔ حضرت عمر تو عشاء کے بعد بلاوجہ جاگنے والوں کی خبر لیا کرتے تھے۔بعض صحابہسے ضرورت کے تحت عشاء کے بعد جاگنا اور بات کرنا ثابت ہے، لیکن یہ ثبوتِ جواز کے لیے ہے،ان کا اصل معمول جلدی سونا اور جلدی اٹھنا ہی تھا۔
قرآن مجید میں فرمایا گیا:﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ﴾․
ترجمہ:للہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی، تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو دیکھنے والا بنایا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔(المومن)
ایک جگہ فرمایا:﴿وَمِنْ رَّحْمَتِہ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾․
ترجمہ: یہ تو اسی نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے رات بھی بنائی ہے اور دن بھی، تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور اس میں اللہ کا فضل تلاش کرواور تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (القصص)
غور کیجیے کہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ قدرت نے تمام طبقاتِ انسان، بلکہ جانوروں تک کے لیے فطری طور پر نیند کا ایک وقت معین کر دیا اور اس وقت کو اندھیرا کر کے نیند کے لیے مناسب بنا دیا اور سب کی طبیعت و فطرت میں رکھ دیا کہ اسی وقت یعنی رات کو نیند آتی ہے، ورنہ جس طرح انسان اپنے کاروبار کے لیے اپنی اپنی طبیعت وسہولت کے لحاظ سے اوقات مقرر کرتا ہے اگر نیند بھی اسی طرح اس کے اختیار میں ہوتی اور ہر انسان اپنی نیند کا پروگرام مختلف اوقات میں بنایا کرتا، تو نہ سونے والوں کو نیند کی لذت وراحت ملتی، نہ جاگنے والوں کے کام کا نظم درست ہوتا، کیوں کہ انسان کی حاجتیں باہم ایک دوسرے سے متعلق ہوتی ہیں، اگر اوقات نیند کے مختلف ہوتے تو جاگنے والوں کے وہ کام مختل ہو جاتے جو سونے والوں سے متعلق ہیں اور سونے والوں کے وہ کام خراب ہو جاتے جن کا تعلق جاگنے والوں سے ہے، اور صرف انسانوں کی نیند کا وقت متعین ہوتا، بہائم اور حیوانات کی نیند کے اوقات دوسرے ہوتے، تو بھی انسانی کاموں کا نظام مختل ہو جاتا۔(معارف القرآن)
ارشادِ ربانی ہے:﴿فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ﴾․
ترجمہ: وہی ہے جس کے حکم سے صبح کو پو پھٹتی ہے اور اسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے اور سورج اور چاند کو ایک حساب کا پابند!یہ سب کچھ اس ذات کی منصوبہ بندی ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، علم بھی کامل ۔ (الانعام)
رات کی تاریکی کو راحت کے لیے متعین کر دینا ایک مستقل نعمت اور اللہ تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ کا ایک خاص مظہر ہے، مگر یہ نعمت روزانہ بے مانگے مل جاتی ہے، اس لیے انسان کا دھیان بھی کبھی نہیں جاتا کہ یہ کتنا بڑا احسان وانعام ہے، غور کیجیے کہ اگر ہر شخص اپنے اختیار و ارادے سے اپنے آرام کا وقت معین کرتا تو کوئی صبح کو آٹھ بجے سونے کا ارادہ کرتا، کوئی بارہ بجے، کوئی چار بجے اور کوئی رات کے مختلف حصوں میں؛ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی بھی ایسا گھنٹہ نہ آتا جس میں انسانی کاروبار، محنت مزدوری، کارخانے اور فیکٹریاں نہ چل رہی ہوتیں، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ سونے والوں کے آرام میں بھی خلل آتا اور کام کرنے والوں کے کام میں بھی۔(معارف القرآن) جیسا کہ آج ہو رہا ہے اور اس قدرتی نظام کے خلاف جا کر انسان خود کو تباہی و نقصان کی طرف لے جا رہا ہے۔ نائٹ شفٹ کرنے والوں سے پوچھیے ان کی صحت اور سوشل لائف کا کیا حال ہے؟
ایک جگہ فرمایا گیا:﴿وَّجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا وَّجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا﴾․
ترجمہ:اور تمہاری نیند کو تھکن دور کرنے کا ذریعہ ہم نے بنایا اوررات کو پردے کا سبب ہم نے بنایااور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے قرار دیا۔ (النبا)
راحت کے سب سامانوں میں سے خاص طور پر نیند کا ذکر فرمایا ہے، غور کیجیے تو یہ ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے کہ انسان کی ساری راحتوں کا مدار یہی ہے اور اس نعمت کو حق تعالیٰ نے پوری مخلوق کے لیے ایسا عام فرما دیا ہے کہ امیر، غریب، عالم، جاہل، بادشاہ اور مزدور سب کو یہ دولت یک ساں بہ یک وقت عطا ہوتی ہے، بلکہ دنیا کے حالات کا تجزیہ کریں تو غریبوں اورمحنت کشوں کو یہ نعمت جیسی حاصل ہوتی ہے وہ مال داروں اور دنیا کے بڑوں کو نصیب نہیں ہوتی، ان کے پاس راحت کے سامان، راحت کا مکان، ہوا اورسردی گرمی کے اعتدال کی جگہ ، نرم گدے، تکیے سب کچھ ہوتے ہیں، جو غریبوں کو بہت کم ملتے ہیں، مگر نیند کی نعمت ان گدوں، تکیوں یا کوٹھی بنگلوں کی فضا کے تابع نہیں، وہ تو حق تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جو بہ راہِ راست اس کی طرف سے ملتی ہے، بعض اوقات مفلسِ بے سامان کو بغیر کسی بستر تکیے کے کھلی زمین پر یہ نعمت فراوانی سے دے دی جاتی ہے اور بعض اوقات ساز وسامان والوں کو نہیں دی جاتی، ان کو خواب آور گولیاں کھا کر حاصل ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ گولیاں بھی کام نہیں کرتیں۔(معارف القرآن)
انسان کو چاہیے کہ اس نعمت سے فائدہ اٹھائے اور اپنے سکون کو غارت نہ کرے۔ دیر رات تک جاگنے والے تہجد کیا فجر میں بھی حاضر نہیں ہو پاتے، یہ شیطان کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔حضرت عبداللہ نے بیان کیا، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کا ذکر آیا تو کہا گیا کہ وہ سوتا رہا، یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور نماز کے لیے کھڑا نہیں ہوا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کردیا۔ (بخاری، اخرجہ مسلم)