دعا کی حقیقت
دُعا کے لغوی معنی ہیں پکارنا اور بلانا، شریعت کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے حضور التجا اور درخواست کرنے کو دعا کہتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:جب انسان کوتکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کوپکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ (سورة الزمر:8)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت کی روح قرار دیا ہے: دُعا عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے۔ (ترمذی ۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء) نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:دُعا عین عبادت ہے۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء) اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام وصالحین کی دعاؤں کا ذکر اپنے پاک کلام (قرآن کریم) میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔
دُعا کی ضرورت
ہر شخص محتاج ہے اور زمین وآسمان کے سارے خزانے اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہیں، وہی سائلوں کوعطا کرتا ہے، ارشاد باری ہے: اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔ (سورة محمد:38)
انسان کی محتاجی اور فقیری کا تقاضا یہی ہے کہ بندہ اپنے مولیٰ سے اپنی حاجت وضرورت کو مانگے اور اپنے کسی بھی عمل کے ذریعہ اللہ سے بے نیازی کا شائبہ بھی نہ ہونے دے، کیوں کہ یہ مقام عبدیت اور دعا کے منافی ہے۔
دُعا کی اہمیت
دعا کی اہمیت کے لیے صرف یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہٴ فاتحہ میں اپنے بندوں کو نہ صرف دُعا مانگنے کی تعلیم دی ہے، بلکہ دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ نیز ارشاد باری ہے:(اے پیغمبر!) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (فرمادیجیے کہ) میں قریب ہی ہوں، جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ (سورة البقرة:186 )
غرضیکہ دعا قبول کرنے والا خود ضمانت دے رہا ہے کہ دعا قبول کی جاتی ہے، اس سے بڑھ کر دعا کی اہمیت کیا ہوسکتی ہے؟ نیز اللہ تعالیٰ نے بندوں کوحکم دیتے ہوئے فرمایا:تمہارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔(سورة المؤمن:60)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہ صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، بلکہ اس کے فضائل اور آداب بھی بیان فرمائے ہیں، چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے یہاں دعا سے زیادہ کوئی عمل عزیز نہیں ہے۔ یعنی انسانوں کے اعمال میں دُعا ہی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کوکھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت ہے۔ (ابن ماجہ ۔ باب فضَل الدُعاء)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے جس کے لیے دُعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اس سے عافیت کی دُعا کرے۔(ترمذی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کومؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی طاقت بتایا ہے، (الدُّعَاء ُ سِلاحُ الْمُوْمِنِ) (رواہ ابویعلی وغیرہ)۔ دُعا کو ہتھیار سے تشبیہ دینے کی خاص حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ جس طرح ہتھیار دشمن کے حملہ وغیرہ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، اسی طرح دعا بھی آفات سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے، جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تواس کوحیا آتی ہے کہ ان کوخالی ہاتھ واپس کردے، یعنی کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فرماتا ہے۔ (سنن ابی داؤد)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد درحقیقت سائل کے لیے اُمید کی کرن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے جومانگنے والوں کوکبھی محروم نہیں کرتا اور بندہ کی مصلحت کے مطابق ضرور عطا کرتا ہے۔
قرآن وحدیث سے جہاں دُعا کی اہمیت وفضیلت اور پسندیدگی معلوم ہوتی ہے، وہیں احادیث میں دُعا نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی بھی وعید آئی ہے، چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوبندہ اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ (ترمذی۔باب ماجاء فی فضل الدعاء )
دنیا میں ایسا کوئی نہیں ہے جو سوال نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہو، حتی کہ والدین بھی اولاد کے ہروقت مانگنے اور سوال کرنے سے چڑھ جاتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ جوبندہ اس سے نہ مانگے وہ اس سے ناراض ہوتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا نہ کرنا تکبر کی علامت ہے اور مانگنے پر اسے پیار آتا ہے۔
دُعا کے چند اہم آداب
دعا چوں کہ ایک اہم عبادت ہے، اس لیے اس کے آداب بھی قابل لحاظ ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کے بارے میں کچھ ہدایات دی ہیں، دعا کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا خیال رکھے۔احادیث میں دعا کے لیے مندرجہ ذیل آداب کی تعلیم فرمائی گئی ہے، جن کو ملحوظ رکھ کر دُعا کرنا بلاشبہ قبولیت کی علامت ہے، لیکن اگرکوئی شخص کسی وقت بعض آداب کو جمع نہ کرسکے توایسا نہ کرے کہ دُعا ہی کوچھوڑ دے، دعا ان شاء اللہ ہرحال میں مفید ہے۔ آداب دعا میں بعض کورکن یا شرط یا واجب کا درجہ حاصل ہے، جب کہ کچھ چیزیں مستحبات دعا کے زمرہ میں آتی ہیں اور کچھ چیزیں وہ ہیں جن سے دعا کے موقع پر منع کیا گیا ہے، جومنہیات ومکروہات دُعا کہلاتی ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
دعا کے چند اہم ارکان، شرائط اور واجبات
اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ دُعا کرنا، یعنی یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی ہماری ضرورتوں کوپوری کرنے والا ہے، ارشاد باری ہے: تم لوگ اللہ کو خالص اعتقاد کرکے پکارو ۔ (سورة المؤمن:14)
دعا کے قبول ہونے کی پوری اُمید رکھنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے، وہ بلاشبہ قبول کرے گا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ سے اس طرح دُعا کرو کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو ۔ (ترمذی)
دعا کے وقت دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف حاضر اور متوجہ رکھنا۔ کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ اس بندہ کی دُعا قبول نہیں کرتا جو صرف اوپری دل سے اور توجہ کے بغیر دُعا کرتا ہے ۔ (ترمذی) غرضیکہ دُعا کے وقت جس قدر ممکن ہو حضور قلب کی کوشش کرے اور خشوع وخضوع اور سکون قلب ورقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو۔
دعا کرنے والے کی غذا اور لباس حلال کمائی سے ہونا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جوشخص دور دراز کا سفر کرے اور نہایت پریشانی وپراگندگی کے ساتھ ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتے ہوئے دُعا کرے جب کہ اس کی غذا اور لباس سب حرام سے ہو اور حرام کمائی ہی استعمال کرتا ہو تواس کی دُعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم)
دُعا کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود بھیجنا۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی دُعا مانگے توپہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی وثنا سے دُعا کا آغاز کرے، پھر مجھ پردرود بھیجے، پھر جو چاہے مانگے۔ (ترمذی)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دعا آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتی ہے، یعنی درجہٴ قبولیت کو نہیں پہنچتی، جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے۔ (ترمذی)
دعا کے وقت گناہ کا اقرار کرنا، یعنی پہلے گناہ سے باہر نکلنا، اس پر ندامت کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔
دعا آہستہ اور پست آواز سے کرنا، یعنی دعا میں آواز بلند نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:تم لوگ اپنے پروردگار سے دُعا کیا کرو گڑ گڑا کر اور آہستہ۔ (سورة الاعراف:55)(البتہ اجتماعی دعا تھوڑی آواز کے ساتھ کریں)۔
دعا کے چند اہم مستحبات:
وہ اُمور جن کا دُعا کے وقت اہتمام کرنا اولیٰ وبہتر ہے:
*…دعا سے پہلے کوئی نیک کام مثلاً نماز، روزہ اور صدقہ وغیرہ کا اہتمام کرنا۔
*…قبلہ کی طرف رُخ کرکے دوزانو ہوکر بیٹھنا اوردونوں ہاتھوں کا مونڈھوں تک اس طرح اُٹھانا کہ ہاتھ ملے رہیں اور انگلیاں بھی ملی ہوں اور قبلہ کی طرف متوجہ ہوں۔
*…اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ ذکر کرکے دعا کرنا۔
*…اس بات کی کوشش کرنا کہ دُعا دل سے نکلے۔
*…دُعا میں اپنے خالق ومالک کے سامنے گڑ گڑانا، یعنی رو رو کر دعائیں مانگنا یا کم از کم رونے کی صورت بنانا۔
*…دعا کو تین تین مرتبہ مانگنا۔
*…دُعا کے وہ الفاظ اختیار کرنا جوقرآن کریم میں آئے ہیں یاجو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، کیوں کہ جودُعائیں قرآن کریم میں آئی ہیں ان کے الفاظ خود قبولیت کی دلیل ہیں اور احادیث میں بھی ان کی فضیلت مذکور ہے اور جودُعائیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہیں وہ ضرور اللہ تعالیٰ کوپیاری ہوں گی۔
*…تمام چھوٹی اور بڑی حاجتیں سب اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنا۔
*…نماز کے بعد اور بالخصوص فرض نماز کے بعد دُعا مانگنا۔
*…دعا کرانے والا اور ساتھ میں دعا کرنے والے کا دعا کے بعد آمین کہنا اور اخیر میں دونوں ہاتھ اپنے چہرہ پرپھیرلینا ۔
منہیاتِ ومکروہاتِ دعا:وہ اُمور جن کا دعا کے وقت کرنا ممنوع یامکروہ ہے
*…دعا کے وقت اسباب کی طرف نظر نہ ہو، بلکہ اسباب وتدابیر سے قطع تعلق ہوکر مسبب الاسباب کی ذات پریقین رکھنا۔
*…دعا میں حد سے تجاوز کرنا غلط ہے، یعنی کسی ایسے امر کی دعا نہ کرنا جوشرعاً یاعادةً محال ہو یاجوبات پہلے ہی طے ہوچکی ہو، مثلاً یوں نہ کہے کہ فلاں مردہ کوزندہ کردے یاعورت یہ دُعا کرے کہ مجھے مرد بنادے، ایسی دعا ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔
*…دعا میں کسی قسم کا تکلف یاقافیہ بندی نہ کرے، کیوں کہ یہ امر حضور قلب سے باز رکھتا ہے اور اگر خود بخود بمقتضائے طبیعت قافیہ بندی ہوجائے تومضائقہ نہیں۔
*…اپنی جان مال اور اولاد کے لیے بددعا نہ کرے، ممکن ہے کہ قبولیت کی ساعت میں یہ بددعا نکلے اور بعد قبولیت پشیمانی اٹھانی پڑے۔
*…دعا کی عدم قبولیت پرمایوس ہوکر دعا کرنا نہ چھوڑنا، بلکہ حتی الامکان پرامید رہنا اور دعا قبول ہو یانہ ہو، اپنے مالک کے روبرو ہاتھ پھیلاتے رہنا، عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو رحم آجائے اور دعا قبول ہوجائے۔
قبولیت دعا کے بعض اوقات وحالات
*…یوں تودعا ہروقت قبول ہوسکتی ہے ، مگر کچھ اوقات وحالات ایسے ہیں جن میں دعا کے قبول ہونے کی توقع زیادہ ہے، اس لیے ان اوقات وحالات کو ضائع نہیں کرنا چاہیے:
*…شب قدر یعنی رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی راتیں ۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
*…ماہ رمضان المبارک کے تمام دن ورات اور عید الفطر کی رات۔
*…عرفہ کا دن (9 ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک)۔ (ترمذی)
*…مزدلفہ میں10 ذی الحجہ کو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد سے طلوعِ آفتاب سے پہلے تک۔
*…جمعہ کی رات اور دن۔ (ترمذی، نسائی)
*…آدھی رات کے بعد سے صبح صادق تک ۔
*…ساعت جمعہ۔ احادیث میں ہے کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے جس میں جودعا کی جائے قبول ہوتی ہے۔ (بخاری ومسلم)
*…مگراس گھڑی کی تعیین میں روایات اور علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ روایات اور اقوال صحابہ وتابعین سے دو وقتوں کی ترجیح ثابت ہے، اوّل امام کے خطبہ کے لیے ممبرپر جانے سے لے کر نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک (مسلم)، خاص کر دونوں خطبوں کے درمیان کا وقت۔ خطبہ کے درمیان زبان سے دعا نہ کریں، البتہ دل میں دعا مانگیں، اسی طرح خطیب خطبہ میں جودعائیں کرتا ہے ان پر بھی دل ہی دل میں آمین کہہ لیں۔ قبولیت دعا کا دوسرا وقت جمعہ کے دن نماز عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے۔ (ترمذی)
*…اذان واقامت کے درمیان۔ (ترمذی)
*…فرض نماز کے بعد۔ (نسائی)
*…سجدہ کی حالت میں ۔ (مسلم)
*…تلاوت قرآن کے بعد۔ (ترمذی)
*…آب زم زم پینے کے بعد۔ (مستدرک حاکم)
*…جہاد میں عین لڑائی کے وقت۔ (ابوداؤد)
*…مسلمانوں کے اجتماع کے وقت۔ (صحاح ستہ)
*…بارش کے وقت۔ (ابوداؤد)
*…بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑتے وقت۔ (ترمذی)
دعا قبول ہونے کے چند اہم مقامات
*…یوں تودُعا ہرجگہ قبول ہوسکتی ہے ، مگر کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں دعا کے قبول ہونے کی توقع زیادہ ہے۔
*…طواف کرتے وقت ۔
*…ملتزم پرچمٹ کر۔ (ملتزم اس جگہ کو کہتے ہیں جو حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازہ کے درمیان ہے، ملتزم عربی میں چمٹنے کی جگہ کوکہا جاتا ہے؛ چوں کہ اس جگہ چمٹ کر دُعا کی جاتی ہے اس لیے اس کوملتزم کہتے ہیں)۔
*…حطیم میں، خاص کر میزاب رحمت کے نیچے ۔
*…بیت اللہ شریف کے اندر۔
*…صفا ومروہ پر اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے وقت ۔
*…مقام ابراہیم کے پیچھے ۔
*…مشاعر مقدسہ (عرفات، مزدلفہ ا ور منی) میں ۔
*…جمرہٴ اولیٰ اور جمرہٴ وسطیٰ کی رمی کرنے کے بعد وہاں سے ذرا دائیں یا بائیں جانب ہٹ کر۔
مستجاب الدعوات بندے
وہ حضرات جن کی دُعائیں قبول ہوتی ہیں اور احادیث میں جن کی دُعاؤں کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی ہے:
*…مظلوم کی دعا ،یعنی ایسا شخص جس پر کسی طرح کا ظلم ہوا ہو۔ (بخاری ومسلم)
*…مضطر یعنی مصیبت زدہ کی دعا۔ (بخاری ومسلم)
*…والدین کی دُعائیں اولاد کے حق میں تیزی کے ساتھ اثر کرتی ہیں،لہٰذا ہمیشہ ان کی دُعائیں لیتے رہنا چاہیے اور اُن کی بددعا سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ (مسلم)
*…اسی طرح وہ اولاد جووالدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور دل وجان سے ان کی خدمت کرے ان کی دُعاؤں میں بھی شانِ قبولیت پیدا ہوجاتی ہے ۔
*…مسافر یعنی جو اپنے گھر بار، اہل وعیال سے دور ہو، مسافر چوں کہ اپنے مقام سے دور ہوتا ہے، آرام نہ ملنے کی وجہ سے مجبور اور پریشان ہوتا ہے، جب اپنی مجبوری اور حاجت مندی کی وجہ سے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا اخلاص سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور صدق دل سے نکلنے کی وجہ سے قبول ہوتی ہے۔ (ابوداؤد)
*…افطار کے وقت روزہ دار کی دعا، کیوں کہ یہ وقت لمبی بھوک پیاس کے بعد کھانے پینے کے لیے نفس کے شدید تقاضے کا ہوتا ہے، چوں کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ایک فریضہ کو انجام دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے بھوک پیاس برداشت کی ہے، اس لیے روزہ کے اختتام پربندہ کو یہ مقام دیا جاتا ہے کہ اگروہ اس وقت دُعا کرے توضرور قبول کی جائے۔ (ترمذی)
*…ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کے لیے غائبانہ دعا بھی مقبول ہے، اپنے لیے توسب دعا کرتے ہیں، مگراس کے ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بھی خصوصی اور عمومی دعا کرنی چاہیے، خواہ کوئی دعا کے لیے کہے یانہ کہے، دوسروں کے لیے دعا کرتے رہیں، کیوں کہ ایک حدیث میں ہے کہ سب دعاؤں سے بڑھ کر جلداز جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جوغائب کی غائب کے لیے ہو۔ (ترمذی)کیوں کہ یہ دعا ریاکاری سے پاک ہوتی ہے، محض خلوص اور محبت کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور اس میں اخلاص بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کی اپنے مسلمان بھائی کی غیرحاضری میں کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے اور اس کے سرکے پاس ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جب وہ اپنے بھائی کے لیے دُعا کرتا ہے توفرشتہ آمین کہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ (بھائی کے حق میں تونے جودعا کی ہے) تیرے لیے بھی اس جیسی نعمت ودولت کی خوش خبری ہے۔ (مسلم)
*…حجاج ومعتمرین کی دُعا، جوشخص حج یاعمرہ کے سفر پر نکلا ہواس کی دعا قبول ہونے کا وعدہ حدیث میں ہے، چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حج وعمرہ کے مسافر بارگاہ الہی کے خصوصی مہمان ہیں، اگر یہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں توقبول فرمائے اور اگر اس سے مغفرت طلب کریں توان کی بخشش فرمادے۔ (ابن ماجہ ونسائی)
*…مریض اور مجاہد فی سبیل اللہ کی دعا، احادیث سے ثابت ہے کہ مریض جب تک شفایاب نہ ہو اور مجاہد جب تک واپس نہ ہو ان کی دُعا بھی قبول ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب تم بیمار کے پاس جاؤ تواس سے دعا کے لیے کہو۔ (ابن ماجہ)
*…مجاہد فی سبیل اللہ، اللہ کے راستہ میں اپنی جان ومال کی قربانی دینے کے لیے نکل کھڑا ہوا توجب مجاہد دعا کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے۔
دُعا قبول ہونے کی علامت
*…دعا قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت اپنے گناہوں کویاد کرنا، اللہ کا خوف طاری ہونا، بے اختیار رونا آجانا، بدن کے روئیں کھڑے ہوجانا، اس کے بعد اطمینان قلب اور ایک قسم کی فرحت محسوس ہونا، بدن ہلکا معلوم ہونے لگنا، گویا کندھوں پر سے کسی نے بوجھ اُتار لیا ہو۔ جب ایسی حالت پیدا ہو تو اللہ کی طرف خشوع قلب کے ساتھ متوجہ ہوکر، اس کی خوب حمد وثنا اور درودکے بعد اپنے لیے، اپنے والدین، رشتہ داروں، اساتذہ اور مسلمانوں کے لیے گڑگڑا کر دُعا کریں۔ انشاء اللہ اس کیفیت کے ساتھ کی جانے والی دعا ضرور قبول ہوگی۔ دعا کی قبولیت میں جلدی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ دعا کی قبولیت کا وقت معین ہے اور نااُمید بھی نہیں ہونا چاہیے، اور یوں نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے دعا کی تھی، مگر قبول نہ ہوئی، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناامید ہونا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ دعا کی قبولیت میں اللہ تعالیٰ کبھی کبھی مطلوب سے بہتر کوئی دوسری شئے انسان کو عطا فرماتا ہے یا کوئی آنے والی مصیبت دور کردیتا ہے۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ دعا مظہر عبدیت اور ایک اہم عبادت ہے۔ دعا مضطرب قلوب کے لیے سامان سکون، گم راہوں کے لیے ذریعہٴ ہدایت، متقیوں کے لیے قرب الٰہی کا وسیلہ اور گناہ گاروں کے لیے اللہ کی بخشش ومغفرت کی بادِ بہار ہے۔ اس لیے ہمیں دُعا میں ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہیے، یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم دشمنوں سے نجات اور طرح طرح کی مصیبتوں کے دور ہونے کے لیے بہت سی تدبیریں کرتے ہیں، مگر وہ نہیں کرتے جوہرتدبیر سے آسان اور ہرتدبیر سے بڑھ کر مفید ہے (یعنی دعا)، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس اہم اور مہتم بالشان عبادت کے ارکان وشرائط وواجبات ومستحبات کے ساتھ اور منہیات ومکروہات سے بچتے ہوئے اپنے خالق ومالک کے سامنے وقتاً فوقتاً خوب دعائیں کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنی میں اپنے سے مانگنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!