دور ِ حاضر کا یہ المیہ ہے کہ معاشرہ دن بدن تنزلی کی طرف جا رہا ہے ،جرائم کی شرح خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے،انسانی اوصاف اور اسلامی اقدار سے امت کوسوں دور جا چکی ہے،باہمی رویوں میں شدت اور تلخی کا عالم یہ ہے کہ معمولی باتوں کو بنیاد بنا کر دیرینہ تعلقات اور رشتہ داری کے تقدس کو پامال کر دیا جاتا ہے اور طویل تنازعات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، ایک دوسرے کا احساس کرنے اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کا دست وبازو بننے کی روایتیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔”ہٹو بچو “کے شور اور مادیت کی دوڑ میں بلا تفریق ہر ایک کو ہم روندتے چلے جا رہے ہیں ۔گالی گلوچ،بد زبانی، بد گمانی ،جھوٹ،فریب ،ظلم و زیادتی ،حق تلفی اور عدم ِ برداشت جیسے اخلاق ِ رزیلہ ہمارا شعار بن چکے ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا امت میں واعظین کی کمی ہے؟کیا علم و دانش کی درس گاہیں مقفل ہو گئی ہیں ؟کیامنبر و محراب کے سب وارثین اور مسند نشیں کسی اور جزیرے میں جا کر آباد ہو گئے ہیں؟ایسا ہرگز نہیں ہے،ناصحین کی بھی بہتات ہے،مبلغین بھی بے شمار ہیں ،تلقین و ارشاد کی مسندوں پر جلوہ افروز راہ بران ِ امت بھی ہر خطے اور ہر طبقے میں موجود ہیں، پھر اصل معمہ کیا ہے؟ معاشرے کی اس گرتی ہوئی ساکھ کا سبب کیا ہے؟ …حقائق کی روشنی میں اور گردو پیش کے ماحول کی معروضی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ وعظ و نصیحت کے جو بنیادی اصول تھے اور سامعین سے گفت گو کی جو اسلامی ہدایات تھیں انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے گھنٹوں کی تقریریں اور طویل ترین لیکچرز سامعین کو متاثر کرنے میں ناکام ہیں،لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہگفت گو سے پہلے اس حوالے سے قرآنی ارشادات اور نبوی تعلیمات کو مدِ نظر رکھا جائے۔
گفت گو کا حکیمانہ اسلوب
گفت گو کا سب سے اہم اور بنیادی اصول حکمت و بصیرت ہے۔قرآن ِ کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:” (اے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم!) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلائیے اوران سے اس طریقے سے بحث کیجیے جو نہایت عمدہ ہے“۔ (النحل: 125) حکمت وبصیرت کا لفظ اپنے معنی اور مفہوم میں بہت وسعت رکھتا ہے ،اس کے عموم میں بہت سی چیزیں شامل ہیں اور اس کے بہت سے تقاضے ہیں ۔حکمت وبصیرت کے کیا تقاضے ہیں ؟ آئیے !قرآن و سنت کی روشنی میں ان پر ایک واقعاتی اور مطالعاتی نگاہ ڈالتے ہیں۔
اخلاص نیت
حکمت و بصیرت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ واعظ کی نیت میں اخلاص ہونا چاہیے،اس کے پیش ِ نظر صرف یہ بات ہو کہ لوگ راہ ِ راست پر آجائیں اور اعتقادی اور عملی طور پر ان کی اصلاح ہو جائے ،اس طرح یہ عمل میرے لیے صدقہ جاریہ بن جائے،خدانخواستہ اگر اس کا ارادہ یہ ہوا کہ لوگ میرے اندازِ گفت گواور حسنِ بیان کی تعریف کرتے ہوئے واہ واہ کہیں،میرے علم و فضل کی داد دیں ،میں شہرت اور نام وری کے بامِ عروج تک پہنچ جاوٴں، میرے مریدین اور متعلقین کی تعداد میں اضافہ ہو جائے اور نذرانوں کی گھٹریاں میری دہلیز تک پہنچنا شروع ہو جائیں تو یقین کیجیے کہ آپ کی یہ تقریریں نہ صرف یہ کہ غیر موٴثر ،بے کار اور ثواب سے خالی ثابت ہوں گی، بلکہ نیت کی خرابی کی وجہ سے آپ کے لیے وبالِ جان بنیں گی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں ایسے واعظ کے لیے قیامت کے دن حسرت کا مقام ہو گا کہ اس کے سامعین اس کی باتوں پر عمل کرنے کی وجہ سے جنت کے حق دار قرار پائیں گے اور یہ خود جہنم کا ایندھن بنے گا۔
موقع کی مناسبت کا لحاظ
حکمت و بصیرت کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ گفت گو موقع اور محل کی مناسبت سے ہونی چاہیے،جس بات کے کرنے میں واعظ اس بات کا اندیشہ محسوس کرے کہ اس سے لوگوں میں بحث و تمحیص کا ایک غیرضروری سلسلہ شروع ہو جائے گااور وہ تعمیری سوچ رکھنے کی بجائے اس کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھیں گے تو ایسی چیز کے بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
مخاطب کی عزت ِ نفس کا لحاظ
حکمت و بصیرت کا تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اپنے وعظ و بیان میں عمومی اصلاح کی بات کی جائے اوراگر کسی معاشرتی خرابی کی اصلاح مقصود ہو تو متعین طور پر کسی شخص کا ذکر کر کے اس کے گناہ کا تذکرہ نہ کیا جائے،ورنہ آپ کا یہ طرزِ بیان اس سامع کو نصیحت سے بہرہ ور کرنے کی بجائے اس کے دل میں آپ کی نفرت پیدا کر دے گا اور وہ شخص زندگی بھر آپ کی بات سننے کے لیے تیار نہ ہو گا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیات ِ مبارکہ کے مطالعہ سے بھی یہی درس ملتا ہے کہ اصلاح ِ احوال کے جذبے سے نصیحت تو کی جائے، لیکن کسی کے عیوب کو آشکار کر کے اس کی فضیحت نہ کی جائے،چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اثنائے وعظ میں بسا اوقات یہ جملہ ارشاد فرماتے ”لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسے ایسے کرنے لگ گئے ہیں…“۔حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک شخص زنا کا ارتکاب کر کے آیا ،آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی قلبی بصیرت، نگاہِ دل سے اس کو پہچان لیا تو فرمایا ”ان لوگوں کا کیا حال ہے جن کی آنکھوں سے زنا ٹپکتا ہے… “۔آپ رضی اللہ عنہ کے اس حکیمانہ طرزِ گفت گو سے اس کو تنبیہ بھی ہو گئی اور اس کا عیب بھی صیغہ راز میں رہا۔
مخاطب کی ذہنی استعداد کا لحاظ
حکمت و بصیرت کا چوتھا تقاضا یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی استعداد اور عقلی سطح کے مطابق اس سے بات کی جائے،اگر وہ ایسا سادہ لوح آدمی ہے جو فنی اصطلاحات اورعلمی نکات سے واقف نہیں تو اس کے سامنے ایسی چیزوں کو بیان نہ کیا جائے ،بلکہ سادہ طرزِ تخاطب اور عام اندازِ تکلم سے اس کوسمجھایا جائے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”لوگوں کو ان کے مرتبے پر رکھ کر ان سے سلوک کرو اور ان کی عقلوں (کی وسعت ) کے مطابق ان سے کلام کرو“۔اس سلسلہ میں علاقائی زبان میں رائج محاور ات اورضرب الامثال کا استعمال بہت زیادہ مفید اور بات کی تفہیم میں معاون اورمددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اختلاف کے وقت شائستگی
حکمت و بصیرت کا پانچواں تقاضا یہ ہے کہ اپنے نقطہ نظر کو بیان اور دوسرے کے موقف سے اختلاف کرتے وقت تہذیب،شائستگی اور وقار کو ملحوظ رکھا جائے،اختلاف ذات سے نہیں ،بات سے اور ذلیل کر کے نہیں، دلیل دے کرکیا جائے۔یہی نبوی طرز اور قرآنی حکم ہے ،چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”( اے پیغمبر! ) ان (یہودیوں ) سے اچھے طریقے سے بحث کیجیے “ ۔ (النحل ) اندازہ کیجیے ! یہودی جو غیر مسلم ہیں ان سے مناظرہ اورمباحثہ کرنے کے لیے احسن طریقہ اختیار کرنے کا حکم ہے تو ایک مسلمان شخص سے گفت گو میں اچھا رویہ رکھنے کی کس قدر تاکید ہو گی؟!