حضرت مصعب بن عمیرؓ

idara letterhead universal2c

حضرت مصعب بن عمیرؓ

مولانا معین الدین ندوی

نام نسب

مصعب نام، ابو محمد کنیت، والد کا نام عمیر اور والدہ کا نام خناس بنت مالک تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے:
مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف بن عبدالدار بن قصی القرشی۔ (اسد الغابہ، تذکرہٴ مصعب بن عمیر رضی الله عنہ)

ابتدائی حالات

حضرت مصعب رضی الله عنہ مکہ کے ایک نہایت حسین وخوش رُونوجوان تھے، ان کے والدین ان سے نہایت شدید محبت رکھتے تھے، خصوصاً ان کی والدہ خناس بنت مالک نے مال دار ہونے کی وجہ سے اپنے لخت جگر کو نہایت ناز ونعمت سے پالا تھا، چناں چہ وہ عمدہ سے عمدہ پوشاک اور لطیف سے لطیف خوش بو جو اس زمانہ میں آسکتی تھی استعمال فرماتے تھے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کبھی ان کا تذکرہ کرتے تو فرماتے: ”مکہ میں مصعب رضی الله عنہ سے زیادہ کوئی حسین، خوش پوشاک اور پروردہٴ نعمت نہیں ہے“۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:82)

اسلام

خدائے پاک نے حسن ظاہری، سلامت ذوق اور طبع لطیف کے ساتھ آئینہ دل کو بھی نہایت شفاف بنایا تھا، صرف ایک عکس کی دیر تھی کہ توحید کے دل ربا خط وخال نے شرک سے متنفر کر دیا اور آستانہ نبوت پر حاضر ہو کر اس کے شیدایوں میں داخل ہو گئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ارقم بن ابی ارقم رضی الله عنہ کے مکان میں پناہ گزیں تھے اور مسلمانوں پر مکہ کی سر زمین تنگ ہو رہی تھی، اس بنا پر حضرت مصعب رضی الله عنہ نے ایک عرصہ تک اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھا اور چھپ چھپ کر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے، لیکن ایک روز اتفاقاً عثمان بن طلحہ نے نماز پڑھتے دیکھ لیا اور ان کی ماں او رخاندان والوں کو خبر کر دی، انہوں نے سنا تو محبت نفرت سے مبدَّل ہو گئی اور مجرمِ توحید کے لیے شرک کی عدالت نے قید تنہائی کا فیصلہ سنایا۔( اسد الغابہ، تذکرہ مصعب بن عمیر)

ہجرت حبشہ

حضرت مصعب ایک عرصہ تک قید کے مصائب برداشت کرتے رہے، لیکن زندان خانہ کی تلخ زندگی نے بالآخر ترک ِ وطن پر مجبو رکر دیا اورمتلاشیان ِ امن وسکون کے ساتھ سر زمین حبش کی راہ لی، اس ناز پر وردہ نوجوان کو اب نہ تو نرم ونازک کپڑوں کی حاجت تھی، نہ نشاط افزا عطریات کا شوق اور نہ دنیاوی عیش وتنعم کی فکر تھی، صرف جلوہٴ توحید کے ایک نظارہ نے تمام فانی ساز وسامان سے بے نیاز کر دیا، غرض ایک مدت کے بعد حبش سے پھر مکہ واپس آئے۔ ہجرت کے مصائب سے رنگ وروپ باقی نہ رہا تھا، تو خود ان کی ماں کو اپنے نورِ نظر کی پریشان حالی پر رحم آگیا او رمظالم کے اعادہ سے باز آگئی۔ ( طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:82)

تعلیم اور اشاعت اسلام

اس اثنا میں خورشید اسلام کی ضیاپاش شعاعیں کوہِ فاران کی چوٹیوں سے گزر کر وادیٴ یثرب تک پہنچ گئی تھیں اور مدینہ منورہ کے ایک معزز طبقہ نے اسلام قبول کر لیا تھا، انہوں نے دربارِ نبوت میں درخواست بھیجی کہ ہماری تعلیم وتلقین پرکسی کو مامور فرمایا جائے، حضرت سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کی نگاہِ جوہر شناس نے اس خدمت کے لیے حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو منتخب کیا اور چند زریں نصائح کے بعد مدینہ منورہ کی طرف روانہ فرمایا۔ (طبقات ابن سعد، قسم اول، جزءِ، ثالث،ص:83)

حضرت مصعب مدینہ پہنچ کر حضرت اسعد بن زرارہ رضی الله عنہ کے مکان پر فروکش ہوئے اور گھر گھر پھر کر تعلیم قرآن واشاعت اسلام کی خدمت انجام دینے لگے، اس طرح رفتہ رفتہ جب کلمہ گویوں کی ایک جماعت پیدا ہو گئی تو نماز وتلاوتِ قرآن کے لیے کبھی حضرت اسعد رضی الله عنہ کے مکان پر او رکبھی بنی ظفر کے گھر پر سب کو جمع کیا کرتے تھے، ایک روز حضرت مصعب حسب معمول بنی ظفر کے گھر میں چند مسلمانوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ قبیلہ عبدالاشہل کے سردار ( حضرت) سعد بن معاد (رضی الله عنہ) نے اپنے رفیق ( حضرت) اُسید بن حضیر ( رضی الله عنہ ) سے کہا:”اس داعی اسلام کو اپنے محلہ سے نکال دو، جو یہاں آکر ہمارے ضعیف الاعتقاد اشخاص کو گم راہ کرتا ہے، اگر اسعد ( میزبان ِ حضرت مصعب) سے مجھ کو رشتہ داری کا تعلق نہ ہوتا تو میں تم کو اس کی تکلیف نہ دیتا“۔ یہ سن کر حضرت اُسید نے نیزہ اُٹھایا اور حضرت مصعب واسعد کے پاس آکر خشم آلود لہجہ میں کہا:” تمہیں یہاں کس نے بلایاہے کہ ضعیف رائے والوں کو گم راہ کرو؟ اگر تم کو اپنی جانیں عزیز ہیں تو بہتر یہ ہے کہ ابھی یہاں سے چلے جاؤ“۔ حضرت مصعب نے چند آیات کریمہ تلاوت کرکے اس خوبی کے ساتھ عقائد ومحاسنِ اسلام بیان فرمائے کہ تھوڑی ہی دیر میں ( حضرت) اسید (رضی الله عنہ) کا دل نورِایمان سے چمک اُٹھا اور بے تاب ہو کر بولے”کیسا اچھا مذہب ہے! کیسی بہتر ہدایت ہے! اس مذہب میں داخل ہونے کا کیا طریقہ ہے؟“ حضرت مصعب نے فرمایا: ”پہلے نہادھو کر پاک کپڑے پہنو، پھر صدقِ دل سے ” لا الہ الا الله محمد رسول الله“ کا اقرار کرو، انہوں نے فوراً اس ہدایت کی تعمیل کی اور کلمہ پڑھ کر کہا:” میرے بعد ایک اور شخص ہے جس کو ایمان پر لانا ہو گا، اگر وہ اس دائرہ میں داخل ہو گیا تو تمام قبیلہ عبدالاشہل اس کی پیروی کرے گا، میں ابھی اس کو آپ کے پاس بھیجتا ہوں۔“

حضرت اُسید رضی الله عنہ غیظ وغضب کے عوض عشق ومحبت کا سودا خرید کر اپنے قبیلہ میں واپس آئے تو ( حضرت) سعد بن معاذ ( رضی الله عنہ) نے دور ہی سے دیکھ کر فرمایا:”خدا کی قسم اس شخص کی حالت میں ضرور کچھ انقلاب آگیا ہے“ اور جب قریب آئے تو پوچھا ”کہو کیا کرآئے؟“ بولے ”خدا کی قسم: وہ دونوں ذرا بھی خوف زدہ نہ ہوئے ،میں نے ان کو منع کیا تو وہ بولے کہ ہم وہی کریں گے جوتم پسند کرو گے، لیکن مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ بنی حارثہ اس وجہ سے اسعد بن زرارہ کو قتل کرنے نکلے ہیں کہ وہ تمہارا خالہ زاد بھائی ہے، تاکہ اس طرح تمہاری تذلیل ہو، چوں کہ بنی حارثہ اور عبدالاشہل میں دیرینہ عداوت تھی، اس لیے حضرت اسید رضی الله عنہ کا افسوس کار گر ہو گیا ، (حضرت) سعد بن معاذ ( رضی الله عنہ ) جوش غضب سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور تخالف مذہبی کے باوجود اسعد کی مدد کے لیے دوڑے، لیکن جب یہاں پہنچ کر بالکل سکون واطمینان دیکھا تو سمجھ گئے کہ اسید نے ان دونوں سے بالمشافہہ گفت گو کرنے کے لیے محض اشتعال دلایا ہے، غرض نسبی ترحم فوراً مذہبی تعصب سے مبدل ہو گیا اور خشم گین لہجہ میں بولے:”ابوامامہ! خدا کی قسم! اگر رشتہ داری کا پاس نہ ہوتا تو میں تمہارے ساتھ نہایت سختی کے ساتھ پیش آتا، تمہیں کیوں کر ہمارے محلہ میں علانیہ ایسے عقائد پھیلانے کی ہمت ہوئی جس کو ہم سخت ناپسندکرتے ہیں؟ حضرت مصعب نے نرمی سے جواب دیا کہ پہلے ہمار ی باتیں سنو اگر پسند آئیں تو قبول کرو، ورنہ ہم خود تم سے کنارہ کش ہو جائیں گے ( حضرت ) سعد نے اس کو منظور کر لیا، تو انہوں نے ان کے سامنے بھی اس خوبی سے اسلام کا نقشہ پیش کیا کہ ( حضرت) سعد ( رضی الله عنہ ) کا چہرہ نورِ ایمان سے چمک اُٹھا، اسی وقت مسلمان ہوئے اورجوش میں بھرے ہوئے اپنے قبیلہ والوں کے پاس آئے اور بہ بانگ بلند سوال کیا:” اے بنی اشہل! بتاؤ میں تہارا کون ہوں؟“ انہوں نے کہا ” تم ہمارے سردار اور ہم سب سے زیادہ عاقل اور عالی نسب ہو“۔ بولے خدا کی قسم! تمہارے مردوں او رتمہاری عورتوں سے گفت گو کرنا مجھ پر حرام ہے جب تک تم خدا اور اس کے رسول پر ایمان نہ لاؤ“۔

اس طرح عبد الاشہل کا تمام قبیلہ حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے اثر سے اسلام کا حلقہ بگوش ہو گیا۔( سیرت ابن ہشام :1/139، وخلاصة الوفاء،ص:61)

حضرت مصعب رضی الله عنہ ایک عرصہ تک حضرت اسعد بن زرارہ رضی الله عنہ کے مہمان رہے، لیکن جب بنی نجار نے ان پر تشدد شروع کیا تو حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے مکان پر اٹھ آئے اور یہیں سے اسلام کی روشنی پھیلاتے رہے، یہاں تک کہ حطمہ، وائل اور واقف کے چند مکانات کے سوا عوالی اور مدینہ کے تمام گھر روشن ہو گئے۔(سیرت ابن ہشام:1/139 ،وخلاصة الوفاء،ص:61)

مدینہ میں جمعہ قائم کرنا

مدینہ منورہ میں جب کلمہ گو یوں کی ایک معتدبہ جماعت پیدا ہو گئی، تو حضرت مصعب رضی الله عنہ نے دربار نبوت سے اجازت حاصل کرکے حضرت سعد بن خیثمہ رضی الله عنہ کے مکان میں جماعت کے ساتھ نماز جمعہ کی بنا ڈالی، پہلے کھڑے ہو کر ایک نہایت موثر خطبہ دیا، پھر خشوع خضوع کے ساتھ نماز پڑھائی اور بعد نماز حاضرین کی ضیافت کے لیے ایک بکری ذبح کی گئی، اس طرح وہ شعار اسلامی جو عبادت الہٰی کے علاوہ ہفتہ میں ایک دفعہ برادران اسلام کو باہم بغل گیر ہونے کا موقع دیتا ہے، خاص حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کی تحریک سے قائم کیا گیا۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:83)

بیعت عقبہ ثانیہ

عقبہ کی پہلی بیعت میں صرف بارہ انصار شریک تھے، لیکن حضرت مصعب رضی الله عنہ نے ایک ہی سال میں تمام اہل یثرب کو اسلام کا فدائی بنا دیا، چناں چہ دوسرے سال تہتر اکابر واعیان کی پر عظمت جماعت اپنی قوم کی طرف سے تجدید بیعت اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مدینہ میں مدعو کرنے کے لیے روانہ ہوئی، ان کے معلم دین حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ بھی ساتھ تھے، انہوں نے مکہ پہنچتے ہی سب سے پہلے آستانہ نبوت پر حاضر ہو کر اپنی حیرت انگیزکام یابی کی مفصل داستان عرض کی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے نہایت دلچسپی کے ساتھ تمام واقعات سنے اور ان کی محنت وجاں فشانی سے بے حد محظوظ ہوئے۔ ( طبقات ابن سعد، قسم اول، جز ء ِثالث،ص:83)

حضرت مصعب رضی الله عنہ کی ماں نے بیٹے کے آنے کی خبر سنی تو کہلا بھیجا:”اے نافرمان فرزند! کیا تو ایسے شہرمیں آئے گا جس میں میں موجود ہوں اور تو پہلے مجھ سے ملنے نہ آئے؟“ انہوں نے جواب د یا” میں رسول ِ خدا صلی الله علیہ وسلم سے پہلے کسی سے ملنے نہیں جاؤں گا“۔ حضرت مصعب رضی الله عنہ جب رسول خدا صلی الله علیہ وسلم سے شرفِ ملاقات حاصل کرچکے تو اپنی ماں کے پاس آئے، اس نے کہا ” میں سمجھتی ہوں کہ تو اب تک ہمارے مذہب سے برگشتہ ہے “۔ بولے: ” میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دین برحق اور اس اسلام کا پیروہوں جس کو خدا نے خود اپنے لیے او راپنے رسول کے لیے پسند کیا ہے “۔ ماں نے کہا:” کیا تم اس مصیبت کو بھول گئے جو تم کو ایک دفعہ سر زمین حبش میں برداشت کرنا پڑی اور اب یثرب میں سہنا پڑتی ہے؟ افسوس دونوں دفعہ تم نے غم خواری کا کچھ شکریہ ادا نہ کیا“۔ حضرت مصعب سمجھ گئے کہ شاید پھر مجھ کو قید کرنے کی فکر میں ہے، چلا کر بولے: ”کیا تو جبراًکسی کو اس کے مذہب سے پھیر سکتی ہے ؟ اگر تیر ا منشا ہے کہ پھر مجھ کو قید کر دے تو پہلا شخص جو میری طرف بڑھے گا اس کو یقیناً قتل کر ڈالوں گا“۔ ماں نے یہ تیور دیکھے تو کہا ” بس تو میرے سامنے سے چلا جا“ اور یہ کہہ کر رونے لگی، حضرت مصعب اس کیفیت سے متاثر ہوئے اور کہنے لگے ”اے میری ماں! میں تجھے خیر خواہی ومحبت سے مشورہ دیتا ہوں کہ تو گواہی دے کہ خدا ایک ہے او رمحمد صلی الله علیہ وسلم اس کا بندہ اور رسول برحق ہے“۔ اس نے کہا: ”چمکتے ہوئے تاروں کی قسم! میں اس مذہب میں داخل ہو کر اپنے آپ کو احمق نہ بناؤں گی، جا میں تجھ سے اور تیری باتوں سے ہاتھ دھوتی ہوں، اوراپنے مذہب سے وابستہ رہوں گی۔“ (طبقات ابن سعد قسم ،اوّل، جزءِ ثالث،ص:83)

ہجرتِ مدینہ

حضرت مصعب رضی الله عنہ نے مکہ آنے کے بعد ذی الحجہ،محرم اور صفر کے مہینے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ہی کی خدمت میں بسر کیے اور پہلی ربیع الاول کو سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم سے بارہ دن پہلے مستقل طور پر ہجرت کرکے مدینہ کی راہ لی ۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:84)

غزوات

2ھ سے حق وباطل میں خوں ریز معرکوں کا سلسلہ شروع ہوا، حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ میدان فصاحت کی طرح عرصہ وغا (میدان قتال) میں بھی نمایاں رہے، غزوہٴ بدر میں جماعت مہاجرین کا سب سے بڑاعَلم ان کے ہاتھ میں تھا، غزوہ اُحد میں بھی علم برداری کا تمغائے شرف ان ہی کو ملا۔

شہادت

اس جنگ میں ایک اتفاقی غلطی نے جب فتح وشکست کا پانسہ پلٹ دیا اور فاتح مسلمان ناگہانی طور سے مغلوب ہو کر منتشر ہو گئے تو اس وقت بھی یہ عَلم بردار اسلام یکہ وتنہا مشرکین کے نرغہ میں ثابت قدم رہا، کیوں کہ لوائے توحید کو پیچھے کی طرف جنبش دینا اس فدائی ملت کے لیے سخت عار تھا، غرض اسی حالت میں مشرکین کے شہسوار ابن قمئہ نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا، جس سے داہنا ہاتھ شہید ہو گیا، لیکن بائیں ہاتھ نے فوراً علم کو پکڑ لیا، اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی:﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ﴾․(آ ل عمران:144)

”اور محمد ( صلی الله علیہ وسلم) صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں“۔

ابن قمئہ نے دوسرا وار کیا تو بایاں ہاتھ بھی قلم تھا، لیکن اس دفعہ دونوں بازوؤں نے حلقہ کرکے علم کو سینہ سے چمٹا لیا، اس نے جھنجھلا کر تلوار پھینک دی اور زور سے نیزہ تاک کر مارا کہ اس کی انی ٹوٹ کر سینہ میں رہ گئی اور اسلام کا سچا فدائی اس آیت کا اعادہ کرتے ہوئے فرشِ خاک پر دائمی راحت کی نیند سو رہا تھا، لیکن اسلامی پھریرا سرنگوں ہونے کے لیے نہیں آیا تھا، ان کے بھائی ابو الروم بن عمیر رضی الله عنہ نے بڑھ کر اس کو سنبھالا اور آخر وقت تک شجا عانہ مدافعت کرتے رہے۔“ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:85)

تجہیز وتکفین

لڑائی کے خاتمہ پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کی لاش کے قریب کھڑے ہوئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی:﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللَّہَ عَلَیْہِ ﴾․ (الاحزاب)

”مومنین میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو کچھ عہد کیا تھا اس کو سچا کر دکھایا“۔

پھر لاش سے مخاطب ہو کر فرمایا:” میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا، جہاں تہارے جیسا حسین وخوش پوشاک کوئی نہ تھا، لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال اُلجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے“۔ پھر ارشاد ہوا ”بے شک خدا کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہ ِ خدا وندی میں حاضر رہو گے“ اس کے بعد غازیان ِ دین کو حکم ہوا کہ کشتگانِ راہ ِ خدا کی آخری زیارت کرکے سلام بھیجیں اور فرمایا” قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے کہ روزِ قیامت تک جو کوئی ان پر سلام بھیجے گا وہ اس کو جواب دیں گے“۔ ( طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:85)

اس زمانہ میں غربت وافلاس کے باعث شہیدان ملت کو کفن تک نصیب نہ ہوا، حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کی لاش پر صرف ایک چادر تھی کہ جس سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں برہنہ ہو جاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا، بالآخر چادر سے چہرہ چھپایا گیا، پاؤں پر اِذخر کی گھاس ڈالی گئی۔ (بخار ی باب غزوہٴ احد،ص:578) اور ان کے بھائی حضرت ابو الروم بن عمیر رضی الله عنہ نے حضرت عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ اور حضرت سویبط بن سعد رضی الله عنہ کی مدد سے سپردِ خاک کیا۔ انا لله وانا الیہ راجعون․(طبقات ابن سعد، قسم اوّل ،جزءِ ثالث،ص:86)

فضل وکمال

حضرت مصعب رضی الله عنہ نہایت ذہین، طباع اور خوش بیان تھے، یثرب میں جس سرعت کے ساتھ اسلام پھیلا اس سے ان کے ان اوصاف کا اندازہ ہوسکتا ہے، قرآن شریف جس قدر نازل ہوچکا تھا اس کے حافظ تھے، مدینہ میں نماز جمعہ کی ابتدا ان ہی کی تحریک سے ہوئی اور یہی سب سے پہلے امام مقرر ہوئے۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:83)

اخلاق

اخلاقی پایہ نہایت بلند تھا، ظلم کے مکتب نے مزاج میں صرف متانت ہی پیدا نہ کی تھی، بلکہ مصائب برداشت کرنے کا خوگر بنا دیا تھا، خصوصاً ملک حبش کی صحرانوردیوں نے جفا کشی، استقلال واستقامت کے نہایت زرّیں اسباق دیے تھے او راچھی طرح سکھا دیا تھاکہ دشمنوں میں رہ کرکس طرح اپنا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم نے نو مسلموں کی تعلیم وتربیت اور اشاعت اسلام جیسی اہم خدمات پر ان کو مامور فرمایا تھا۔

مزاج قدرةً نہایت لطافت پسند تھا، اسلام قبول کرنے سے پہلے عمدہ سے عمدہ پوشاک اور بہتر سے بہتر عطریات استعمال فرماتے، حضرمی جوتا جو اس زمانہ میں صرف امراء کے لیے مخصوص تھا وہ ان کے روز مرہ کے کام میں آتا ، غرض ان کے وقت کا اکثر حصہ آرائش، زیبائش اور زلف مشکیں کے سنوارنے میں بسر ہوتا تھا، لیکن جب اسلام لائے تو شراب ِ توحید نے کچھ ایسا مست کر دیا کہ تمام تکلفات بھول گئے، ایک روز دربارِ نبوت میں اس شان سے حاضر ہوئے کہ جسم پر ستر پوشی کے لیے صرف ایک کھال کا ٹکڑا تھا، جس میں جابجا سے پیوند لگے ہوئے تھے، صحابہ کرام رضی الله عنہم نے دیکھا تو سب نے عبرت سے گردنیں جھکالیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”الحمدلله! اب دنیا او رتمام اہل دنیا کی حالت بدل جانی چاہیے، یہ وہ نوجوان ہے جس سے زیادہ مکہ میں کوئی ناز پروردہ نہ تھا، لیکن نیکو کاری کی رغبت او رخدا اور رسول کی محبت نے اس کو تمام چیزوں سے بے نیاز کر دیا“۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:82)

حلیہ

حلیہ یہ تھا: قدمیانہ، چہرہ حسین، نرم ونازک اور زلفیں نہایت خوب صورت تھیں۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل ،جزء ِثالث،ص:86)

اہل وعیال

حضرت مصعب رضی الله عنہ کی بیوی کا نام حمنہ بنت حجش رضی الله عنہا تھا جس سے زینب نام کی ایک لڑکی یاد گار چھوڑی۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل ،جزءِ ثالث،ص:81)
رضی الله عنہ وأرضاہ

تعمیر حیات سے متعلق