آفتاب ِ نبوت کی کرنوں سے جن خوش نصیب لوگوں کے سینے منور ہوئے اور انہیں بارگاہ ِ رسالت کی حاضری نصیب ہوئی ان میں ایک نام حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا ہے ،جو توراة و انجیل کے حافظ اورمذہب ِ یہودیت اور عیسائیت پر گہری نظر رکھنے والے زبردست عالم تھے،آپ رضی اللہ عنہ کے قبول ِ اسلام کا واقعہ مستند تاریخی روایات کے مطابق ماہ ِ ربیع الثانی 1ھ میں پیش آیا،اس مناسبت سے آپ رضی اللہ عنہ کے مختصر حالات ِ زندگی قارئین کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔
نام و نسب اور خاندان
قبول ِ اسلام سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کا نام حصین تھا،مسلمان ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اسلامی نام عبد اللہ تجویز کیا،والد کا نام سلام اور دادا کا نام حارث ہے، کنیت ابویوسف ہے، یہودیوں کے مشہور قبیلہ بنو قینقاع کے چشم و چراغ تھے،آپ رضی اللہ عنہ کا شجرہ نسب اللہ تعالی کے جلیل القدر نبی حضرت یوسف علیہ السلام سے ملتاہے،اسی عالی نسبت اور خاندانی شرافت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ یہود کے ہاں مسلّمہ روحانی شخصیت تصور کیے جاتے تھے اور دور دراز کے علاقوں سے یہودی آپ رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لیے آتے تھے۔
زیارت ِ نبوی کا شوق
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا شماران انصاف پسنداہل ِ کتاب میں ہوتا تھاجو تشدد و تصلب اورضد وتعصب سے کوسوں دور تھے،اسی اعتدال اور متوازن سوچ نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیوانہ بنا دیا تھااور وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ ِ انور کی ایک جھلک دیکھنے کے لییبے تاب تھے،اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ اخیر شب میں حسب ِ معمول توراة کا مطالعہ کرنے میں مشغول تھے کہ توراة کی ایک آیت نے ان کے دل و دماغ پر سحر طاری کر دیا ،اس آیت کامفہوم یہ تھا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوں گے اور یثرب جو کہ کھجوروں والا شہر ہے اس میں ہجرت کریں گے،اس سے قبل بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد نشانیاں ان کے زیرِ مطالعہ آچکی تھیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت ِ مدینہ کے متعلق پڑھ کر ان کا اشتیاق ِ زیارت اور بڑھ گیا اور بکثرت یہ دعا کیا کرتے ”اے اللہ! مجھے اتنی زندگی عطا فرما کہ میں حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زیارت کر سکوں“۔کچھ عرصہ بعدحضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو خزرج کے چھ آدمی مکہ مکرمہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیات سے مشرف ہو کراور بیعت ِ اسلام کر کے آئے ہیں ،یہ سن 11نبوی کا واقعہ ہے ،یہ خبر سنتے ہی سیدھا ان کے پاس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال دریافت کیے،جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ اور صفات بیان کیں تو انہیں توراة میں بیان کردہ تفصیلات کے عین مطابق پایا ،اس کے بعدزیارت ِ رسول کے لیے ان کی بے چینی اور زیادہ ہو گئی اور وصل کے شوق میں انتظار کرنا مزید مشکل ہو گیا۔
بارگاہ ِ رسالت میں پہلی حاضری
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں باغ میں کھجوروں کے درخت پر چڑھ کر اس کی کانٹ چھانٹ کر رہا تھا کہ کسی نے مجھے آکر اطلاع دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبا کی بستی میں واقع محلہ بنو عمرو بن عوف میں پہنچ چکے ہیں،میں نے یہ سنتے ہی خوشی سے ”اللہ اکبر“ کہا اور درخت سے نیچے اتر آیا،میری پھوپھی خالدہ بنت حارث بھی باغ میں موجود تھیں ،کہنے لگیں: تیرا ناس ہو!اگر حضرت موسی بن عمران علیہ السلام کی آمد کی خبر ملتی تو کیا پھر بھی اتنا خوش ہوتے ؟میں نے کہا:یہ موسی بن عمران کے ہی بھائی ہیں،اس کے بعد وہ پوچھنے لگیں :کیا یہ وہی نبی ہیں جن کے بارے میں ہم سنتے ہیں کہ وہ قیامت سے پہلے آئیں گے ؟میں نے کہا:ہاں! یہ وہی نبی ہیں۔فرماتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی سے مختصرگفت گوکے بعدقبا پہنچا ،نبی کریم سلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ایک ہجوم میں تشریف فرما تھے،میں ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر جیسے ہی میری نگاہ پڑی تو میری زبان سے بے ساختہ نکلا”وجھہ لیس بوجہ کذاب“ کہ یہ چہرا کسی چھوٹے شخص کا نہیں ہو سکتا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا کلام
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں مجلس ِ نبوی میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وعظ فرما رہے تھے،سب سے پہلے الفاظ جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے وہ چار نصیحتوں پر مشتمل ایک خوب صورت اور مقفی جملہ تھا ،جس سے امن و آتشی اور محبت و الفت کے پھول جھڑ رہے تھے،وہ الفاظ یہ تھے: اے لوگو!سلام کو عام کرو،کھانا کھلاوٴ،صلہ رحمی کرو اورجب سب لوگ سو جائیں تو تنہائی میں اٹھ کر نماز پڑھو(ان اعمال کی جزا یہ ملے گی کہ)تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاوٴ گے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال و جواب
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اپنی حاضری کے واقعہ کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وعظ و نصیحت سے فارغ ہو کرمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سوال کیے ایک یہ کہ قیامت کی نشانیوں میں سے سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟دوسرا یہ کہ اہل ِ جنت کو سب سے پہلے کون سا کھانا پیش کیا جائے گا؟تیسرا یہ کہ بچے کی شکل کب اپنے باپ پر اور کب اپنی ماں پر جاتی ہے؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر توقف کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ ابھی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھے ان تین سوالوں کے جواب دیے ہیں۔پھرترتیب وار ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:قیامت کی سب سے پہلی نشانی ایک آگ ہو گی جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر لائے گی۔اہل ِ جنت کی دعوت میں جو کھانا سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا حصہ ہو گا۔جب مردکا مادہ تولید غالب آجائے تو بچہ باپ کی شکل پر اور جب ماں کا مادہ تولید غالب آجائے تو بچہ ماں کی شکل پر ہوتا ہے۔
قبول ِ اسلام
فرماتے ہیں کہ سوال و جواب ختم ہوتے ہی میں نے کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہو گیا،جب اہل ِ خانہ اور اپنی پھوپھی کو اپنے اسلام لانے کی اطلاع دی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کروایا تووہ بھی اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے،میں ان سب کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دائرہ اسلام میں داخل فرما دیا۔اہل ِ خانہ کو کلمہ پڑھوانے کے بعد حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کے لیے کوشش کی کہ وہ اسلام لے آئیں، لیکن ان کی کوشش کام یاب نہ ہو سکی،اس کا واقعہ آپ رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ میری قوم بڑی بدفطرت ہے،جب انہیں میرے اسلام لانے کا علم ہوگا تو وہ مجھ پر طرح طرح کی الزام تراشی کریں گے،اس لیے ان کو میرے اسلام لانے کی اطلاع کرنے سے قبل میرے متعلق ان کے خیالات جان لیجیے!چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری رائے پر یہودیوں کے اکابر کو بلایا اور مجھے پردے کے پیچھے بھیج دیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا :کیا مجھے اللہ کا رسول مانتے ہو؟انہوں نے کہا: ہم نہیں جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا: حصین بن سلام(عبداللہ بن سلام)تم میں کیسے شخص ہیں؟انہوں نے کہا :ہمارے قوم کے بہترین شخص ہیں۔حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں یہ بات سنتے ہی باہر نکل آیا اور ان کے سامنے پڑھا”اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمداً رسول اللہ“۔انہوں نے فوراََ اپنی بات بدل دی اور کہنے لگے:یہ ہماری قوم کا بدترین شخص ہے اور مجلس سے اٹھ کر چلے گئے۔
فضائل و مناقب
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی فطری خوبیوں،انصاف پسندی ،اسلام سے شدید درجے کی محبت اور پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت کی وجہ سے انہیں بہت سے فضائل و کمالات سے نوازا گیا،اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ کریم میں ان کانام لیے بغیر ان کی تعریف فرمائی،چنانچہ ارشاد ِ باری تعالی ہے:جن لوگوں کو ہم نے نے کتاب دی وہ اس کی تلاوت ایسے کرتے ہیں جیسے تلاوت کرنے کا حق ہے۔ (البقرة:121) دوسری جگہ ارشاد ہے:بنی اسرائیل میں سے ایک گواہی دینے والے نے گواہی دی۔(الاحقاف:10)مفسرین کے مطابق ان دونوں آیتوں میں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی تعریف کی گئی ہے۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اہل ِ جنت میں سے ہے ہیں۔ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تناول فرمایا،کچھ کھانا بچ گیا،اس کے متعلق ارشاد فرمایا :ایک اجنبی شخص آنے والا ہے ،میں اس کو یہ کھانا دوں گا،راوی کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر کے بعد حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچا ہوا کھانا ان کو عنایت فرما دیا۔
علمی کمالات
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسلام لانے قبل جس طرح توراة وانجیل کے علوم کے شناور مانے جاتے تھے اس طرح اسلام قبول کرنے کے بعدجب ان کی علمی توجہات قرآن وسنت کی طرف مبذول ہوئیں توآپ رضی اللہ عنہ نے علوم ِ شریعت میں بہت اعلی مقام حاصل کیا،عظیم درجے کے فقیہ صحابہ میں ان کا شمار ہوتا تھا، اسی علمی قابلیت کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کتابت ِ وحی کی ذمہ داری سونپی ،اپنے زمانے کے جید عالم اور فقیہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی جب وفات کا وقت قریب آیا توانہوں نے لوگوں کو وصیت کی:یاد رکھو ! علم اور ایمان دو ایسی چیزیں ہیں کہ اگر کوئی کوئی ان کا طالب ہو تو اس کو مل جاتی ہیں،اگر تمہیں علم کی طلب ہو تو اسے چار لوگوں سے حاصل کرو!عبد اللہ بن مسعود،سلمان ِ فارسی،ابو الدرداء اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہم۔
غزوات میں شرکت
بدر اور احدکی لڑائی میں شرکت کے بارے میں اہل ِ سیر کا اختلاف ہے،بعض کہتے ہیں شریک ہوئے اور بعض کہتے ہیں نہیں ہوئے،البتہ اس کے بعد کے تمام غزوات میں شریک رہے۔اسی طرح عہد ِ خلفائے راشدین میں بھی بہت سی لڑائیوں میں انہیں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور ِ حکومت میں جب اسلامی لشکر نے بیت المقدس کی فتح کے لیے شام پر چڑھائی کی تو اس لشکر میں بھی شامل تھے۔
اولاد
آپ رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے تھے،بڑے بیٹے کا نام یوسف تھااور یہ نام انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اپنے جد ِ امجد حضرت یوسف علیہ السلام سے عقیدت کی بنا پر رکھا،اسی بیٹے کے نام سے آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابویوسف ہے،جب اس بیٹے کی ولادت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی گود میں بٹھایا اور سر پر دست ِ شفقت رکھا۔
وفات
علم و حکمت کا یہ آفتاب اپنی کرنوں سے عالم کو منور کرنے اور اپنی روحانی قوت سے مردہ قلوب کو زندہ کرنے کے بعد آخر 43ھ میں سیدنا امیر ِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد ِ حکومت میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیااورجنت البقیع میں اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں آسودہ خاک ہو گیا۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ.