حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ

مولانامعین الدین ندوی

نام، نسب، خاندان

عبدالرحمن نام، ابو محمد کنیت۔ والد کا نام عوف اور والدہ کا نام شفاء تھا، یہ دونوں زہری خاندان سے تعلق رکھتے تھے، سلسلہ نسب یہ ہے عبدالرحمن بن عوف بن عبد جوف بن عبد بن الحارث بن زہرہ بن کلاب بن مرہ القرشی الزہری۔

حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کا اصلی نام عبد عمرو تھا، ایمان لائے تو رسول الله انے بدل کر عبدالرحمن رکھا۔ (مستدرک حاکم:4/276)

اسلام

عام روایت کے مطابق حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ واقعہ فیل کے دسویں سال پیدا ہوئے تھے، اس لحاظ سے جس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعوتِ توحید کی صدا بلند کی، اس وقت ان کا سن تیس سال سے متجاوز ہو چکا تھا، فطری عفت وسلامت روی کے باعث شراب سے پہلے ہی تائب ہوچکے تھے، صدیق اکبر رضی الله عنہ کی راہ نمائی سے صراط مستقیم کی شاہ راہ بھی نظر آگئی اور بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر رہ روانِ حق کے قافلہ میں شامل ہوگئے، اس وقت تک صرف چند روشن ضمیر بزرگوں کو اس کی توفیق ہوئی تھی اور قافلہ سالار یعنی سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم ارقم بن ابی ارقم رضی الله عنہ کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل جزءِ ثالث)

ہجرت

خلعتِ ایمان سے مشرف ہونے کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کو بھی عام بلاکشانِ اسلام کی طرح جلا وطن ہونا پڑا، پہلے ہجرت کرکے حبشہ تشریف لے گئے، پھر وہاں سے واپس آئے تو سب کے ساتھ سر زمین یثرب کی طرف ہجرت کر گئے۔ ( طبقات ابن سعد ،قسم اوّل جزءِ ثالث)

مواخات

مدینہ پہنچنے کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سعد بن الربیع انصاری رضی الله عنہ سے بھائی چارہ کرا دیا اور وہ انصار میں سے سب سے زیادہ مال دار او رفیاض طبع تھے، کہنے لگے” میں اپنا نصف مال ومنال تمہیں بانٹ دیتا ہوں اور میری دو بیویاں ہیں، ان کو دیکھو جو پسند ہے اس کا نام بتاؤ، میں طلاق دے دوں گا، عدت گزارنے کے بعد تم نکاح کر لینا“۔ لیکن حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کی غیرت نے گوارا نہ کیا، جواب دیا: ” خدا تمہارے مال ومنال او راہل وعیال میں برکت دے، مجھے صرف بازار دکھا دو“۔ لوگوں نے بنی قینقاع کے بازار میں پہنچا دیا، وہاں سے واپس آئے تو کچھ گھی اور پنیر وغیرہ نفع میں بچالائے، دوسرے روز باقاعدہ تجارت شروع کر دی، یہاں تک کہ چند دنوں کے بعد بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تو جسم پر مراسم شادی کی علامتیں موجود تھیں استفسار ہوا” یہ کیا ہے؟“ عرض کی”ایک انصاریہ سے شادی کر لی ہے۔“ سوال ہوا:” مہر کس قد ادا کیا؟“ عرض کی” ایک کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا“ حکم ہوا ” تو پھر ولیمہ کر و،اگرچہ ایک بکری ہی سہی“ (بخاری، باب بنیان الکعبہ، باب کیف اخی النبی صلی الله علیہ وسلم بین الصحابہ رضی الله عنہم؟)

غزوات

سن2ھ سے غزوات کا سلسلہ شروع ہوا، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ اکثر معرکوں میں پامردی وشجاعت کے ساتھ شریک رہے، غزوہٴ بدر میں دونوجوان انصاری پہلو میں کھڑے تھے، انہوں نے آہستہ سے پوچھا: ”یا عم! ابو جہل کون ہے جو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی شان میں بد زبانی کرتا ہے؟“ اسی اثناء میں ابوجہل سامنے آگیا۔ حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے کہا:” وہ دیکھو! جس کو تم پوچھتے تھے سامنے موجو دہے“۔ ان دونوں نے جھپٹ کر ایک ساتھ وار کیا اور اس ناپاک ہستی سے دنیا کو نجات دلا دی۔ (مسند ج:1/193، وبخاری کتاب ،المغازی باب قتل ابی جہل)

غزورہٴ احد میں جس جاں بازی وشجاعت سے لڑے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ بدن پر بیس سے زیادہ آثار جراحت شمار کیے گئے تھے، خصوصاً پاؤں میں ایسے کاری زخم لگے تھے کہ صحت کے بعد بھی ہمیشہ لنگڑا کر چلتے تھے۔ (سیرت ابن ہشام ج:1/461)

دومة الجندل کی مہم

شعبان سن6ھ میں دومة الجندل کی مہم پر مامور ہوئے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بلا کر اپنے دستِ اقدس سے عمامہ باندھا، پیچھے شملہ چھوڑا اور ہاتھ میں علم دے کر فرمایا:” بسم الله! راہ خدا میں روانہ ہو جاؤ، جو لوگ خدا کی نافرمانی وعصیان میں مبتلا ہیں ان سے جاکرجہاد کر، لیکن کسی کو دھوکا نہ دینا، فریب نہ کرنا، بچوں کو نہ مارنا، یہاں تک کہ دومة الجندل پہنچ کر قبیلہ کلب کو اسلام کی دعوت دے، اگر وہ قبول کریں تو ان کے بادشاہ کی لڑکی سے نکاح کر لے“۔

حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ اس اعزاز کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو کر دومة الجندل پہنچے اور تین دن تک دعوت وتبلیغ اسلام کا فرض اس خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے کہ قبیلہ کلب کے سردار اصبغ بن عمرو الکلبی جو مذہباعیسائی تھے او راس کی قوم کے بہت سے لوگ بطیب خاطر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، البتہ بعضوں نے جن کو اس کی توفیق نہ ہوئی جزیہ منظور کر لیا، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے حسب فرمان اصبغ کی لڑکی تماضر سے شادی کر لی اور رخصت کراکے مدینہ ساتھ لائے، چناں ابو سلمہ بن عبدالرحمن ان ہی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ (طبقات ابن سعد، حصہ مغازی، ص:64)

فتح مکہ

مکہ کی فوج کشی میں بھی شریک تھے، اس کے زیر نگین ہونے کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کو قبیلہ بنو جذیمہ کے پاس، جو اطراف مکہ میں مسکن گزین تھا دعوت اسلام کے لیے بھیجا، انہوں نے غلطی سے قتل وخون ریزی کا بازار گرم کر دیا۔ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو نہایت متاسف ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر بارگاہِ رب العالمین میں تین دفعہ اپنی براء ت ظاہری کی” خدایا! خالد نے جو کچھ کیا میں اس سے بری ہوں“۔

حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کے خاندان اور قبیلہ بنو جذیمہ میں گو قدیم زمانہ سے عداوت چلی آتی تھی، یہاں تک کہ ان کے والد عوف کو اسی قبیلہ کے ایک آدمی نے قتل کیا تھا، تاہم اخوتِ اسلامی نے اس دیرینہ عداوت کو بھی محو کر دیا، چناں چہ اس خوں ریزی سے بیزار ہو کر حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ سے کہا: ”افسوس تم نے اسلام میں جاہلیت کا بدلہ لیا“۔ انہوں نے جواب دیا: ” میں نے تمہارے باپ کے قاتل کو مارا“۔ حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے کہا:”بے شک تم نے میرے باپ کے قاتل کومارا، لیکن در حقیقت یہ فاکہ بن مغیرہ کا انتقام تھا، جو تمہارا چچا تھا۔“ (حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کے والد عوف اور حضرت خالد رضی الله عنہ کے چچا فاکہ بن مغیرہ تجارت کے خیال سے یمن جارہے تھے، بنو جذیمہ نے راہ میں ایک ساتھ دونوں کو قتل کیا تھا۔ ( سیرت ابن ہشام:2/256) اس کے بعد دونوں میں نہایت گرم گفت گو ہوئی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو حضرت خالد رضی الله عنہ سے ارشاد ہوا ”بس خالد! میرے اصحاب کو چھوڑ، اگر تو راہِ خدا میں کوہِ احد کے برابر بھی سونا صرف کرے گا تب بھی ان کے برابر نہ ہو گا“۔

فتح مکہ کے بعد حجة الوداع تک جس قدر مہمات او رجنگیں پیش آئیں، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ سب میں شریک رہے، آخری سفر حج سے واپس آنے کے بعد 10ھ میں سرورکائنات صلی الله علیہ وسلم نے وفات پائی اور سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا قصہ پیش آیا، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ اسی گُتھی کے سلجھانے میں شریک تھے اور صدیق اکبر رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں ان کا تیسرا نمبر تھا۔

عہد صدیقی

خلیفہ اول کے عہد میں حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ ایک مخلص مشیر اور صائب الرائے رکن کی حیثیت سے ہر قسم کے مشوروں میں شریک رہے۔13ھ میں جب صدیق اکبر رضی الله عنہ کا آفتابِ حیات لب بام آیا اور ایک جانشین نام زد کرنے کی فکر دامن گیر ہوئی تو انہوں نے سب سے پہلے حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کو بلا کر اس کے متعلق مشورہ کیا اور ا س منصب جلیل کے لیے فاروق اعظم رضی الله عنہ کا نام لیا، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے نہایت آزادی اور خلوص کے ساتھ کہا” عمر کی اہلیت میں کیا شک ہے، لیکن مزاج میں سختی ہے“۔ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے فرمایا:” ان کی سختی اس لیے تھی کہ میں نرم تھا، لیکن جب یہ بارگراں ان ہی پر آپڑے گا تو خود بخود نرم ہو جائیں گے۔“ ( طبری،ص:2215)

غرض چند روز علالت کے بعد خلیفہ اول نے داعی اجل کو لبیک کہا اور حضرت فاروق رضی الله عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے۔

عہد فاروقی

فاروق اعظم رضی الله عنہ نے مسند خلافت پر قدم رکھنے کے ساتھ نظام ِ خلافت کو پہلے سے زیادہ منظم ومرتب کر دیا، مہمات مسائل پر بحث ومباحثہ کے لیے ایک مستقل مجلس شوریٰ قائم کی، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ اس مجلس کے نہایت صائب الرائے ، پر جوش اور سرگرم رُکن ثابت ہوئے، بہت سے معاملات میں ان ہی کی رائے پر آخری فیصلہ ہوا، عراق پر مستقل او رباقاعدہ فوج کشی کے لیے جب دارالخلافہ کے گرد ایک عظیم الشان لشکر مجتمع ہوا اور عوام نے زور ڈالا کہ خود امیر المومنین اس فوج کی باگ اپنے ہاتھ میں لیں، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی الله عنہ خود بھی اس کے لیے تیار ہو گئے تو اس وقت صرف حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ ہی تھے جنہوں نے سختی کے ساتھ اس کی مخالفت کی او رکہا کہ لڑائی کے دونوں پہلو ہیں، خدانخواستہ اگر شکست ہوئی اور امیر المومنین کو کچھ صدمہ پہنچا تو پھر اسلام کا خاتمہ ہے، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کی اس مآل اندیشی نے تمام اکابر صحابہ رضی الله عنہم کی آنکھیں کھول دیں اور سب نے پر زور الفاظ میں اس کی تائید کی، لیکن مشکل یہ تھی کہ اس مہتم بالشان عہدہ کے لائق کوئی شخص نہ تھا، حضرت علی رضی الله عنہ سے کہا گیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا، غرض اسی حیص بیص میں تھے کہ حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کی نگاہ انتخاب نے یہ مشکل بھی حل کر دی او رکھڑے ہر کر کہا میں نے پالیا، حضرت عمر رضی الله عنہ نے پوچھا کون؟ بولے سعد بن ابی وقاص۔ رضی الله عنہ۔ اس حسن انتخاب پر ہر طرف سے صدائے تحسین وآفرین بلند ہوئی۔ (طبری،ص:2215) اور واقعات نے بہت جلد ثابت کر دیا کہ یہ انتخاب کس قدر موزوں تھا۔

اسی طرح معرکہ نہاوند میں بھی حضرت عمر رضی الله عنہ کو موقع جنگ پر جانے سے روکا ، لیکن کبھی کبھی جوش مآل اندیشی پر غالب آجاتا تھا، چناں چہ جب مہم شام میں اسلامی فوجیں رومیوں کی عظیم الشان تیاریوں کے باعث مقامات مفتوحہ چھوڑ کر پیچھے ہٹ آئیں اور حضرت ابو عبیدہ رضی الله عنہ سپہ سالارِ اعظم نے رومیوں کے جوش وخروش اور ٹڈی دل اجتماع کی اطلاع دارالاخلافہ میں بھیجی، تو حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کو اس قدر جوش آیا کہ بیتاب ہو کر بولے ” امیر المومین تو خود سپہ سالار بن او رمجھ کو ساتھ لے کر چل، خدانخواستہ اگر ہمارے بھائیوں کا بال بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے“۔ (طبری،ص:2215) لیکن اس موقعہ پر دوسرے مآل اندیش صحابہ رضی الله عنہم نے مخالفت کی اور اسی پر فیصلہ ہوا۔

حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے انتظامی اور قانونی حیثیت سے جوآ راء دیں، ان کا اجمالی تذکرہ ان شاء الله علم وفضل کے سلسلہ میں آئے گا۔

واقعہ ہائلہ

23ھ میں ایک روز حسب معمول حضرت عمر رضی الله عنہ صبح کی نماز پڑھانے کھڑے ہوئے کہ دفعةً فیروز نامی ایک عجمی غلام نے حملہ کیا اور متعدد زخم پہنچائے، اس پر حضرت عمر رضی الله عنہ حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کا ہاتھ پکڑ کر امامت کے مصلے پر کھڑا کیا، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے جلد، جلدی نماز تمام کی۔ (ابن سعد، جز3، قسم اوّل،ص:244) اور حضرت عمر رضی الله عنہ کو اٹھا کر ان کے گھر لائے۔

حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کا ایثار

خلیفہ دوم کی حالت غیر ہوئی تو لوگوں نے منصب ِ خلافت کے لیے کسی کو نامزد کرنے کی درخواست کی، حضرت عمر رضی الله عنہ نے چھ آدمیوں کے نام پیش کرکے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ان سے آخر وقت تک خوش رہے تھے، یہ باہم کسی ایک کو منتخب کر لیں، لیکن تین دن کے اندر یہ مسئلہ طے پایا جائے۔

خلیفہ دوم کی تجہیز وتکفین کے بعد حسب وصیت انتخاب کا مسئلہ پیش ہوا، لیکن دو دن تک کچھ فیصلہ نہ ہو سکا، تیسرے روز حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے کہا کہ یہ مسئلہ چھ آدمیوں میں دائر ہے، اس کو تین شخصوں میں محدود کرنا چاہیے اور جو اپنے خیال میں جس کو زیادہ مستحق سمجھتا ہے اس کا نام لے، چناں چہ حضرت زبیر رضی الله عنہ نے حضرت علی رضی الله عنہ کی نسبت رائے دی، حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو پیش کیا اورحضرت سعد رضی الله عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کا نام لیا، لیکن حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ اپنے حق سے باز آگئے اورحضرت علی او رحضرت عثمان رضی الله عنہما سے کہا کہ اب تم دونوں میں جو احکام الہٰی، سنتِ نبوی اور طریقہ شیخین رضی الله عنہما کی پابندی کا عہد کرے گا، اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی، عام روایت یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ نے کہا میں سب سے پہلے اس عہد پر راضی ہوں، لیکن صحیح بخار ی کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں خاموش رہے، بہرحال عبدالرحمن رضی الله عنہ نے دونوں کو راضی کرکے اس کا تصفیہ اپنے ہاتھ میں لے لیا او رہر ایک کو علیحدہ لے جاکر ان کے فضائل ومناقب یاد دلائے اور کہا:” مجھے توقع ہے کہ اگر میں تمہیں یہ منصب دوں تو عدل وانصاف کروگے او راگر تمہارے مقابل کو یہ شرف نصیب ہو تو اطاعت سے کام لوگے“۔ غرض اس عہد وپیمان کے بعد حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے مجمع عام میں ایک مؤثر تقریر کی اورحضرت عثمان سے کہا ہاتھ پھیلاؤ اور خود بڑھ کر بیعت کر لی، ان کا بیعت کرنا تھا کہ تمام خلقت ٹوٹ پڑی۔ (بخاری، باب الاتفاق علی بیعة عثمان رضی الله عنہ، لیکن بعض تفصیلی باتیں تاریخ طبری سے ماخوذ ہیں)

اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کی نگاہ ِ انتخاب نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو حضرت علی رضی الله عنہ پر کیوں ترجیح دی؟ عام خیال یہ ہے کہ ان دونوں کی باہمی یگانگت ومحبت اور رشتہ داری کا نتیجہ تھا، چناں چہ طبری کی ایک روایت کے مطابق حضرت عباس رضی الله عنہ نے ابتدا ہی میں حضرت علی رضی الله عنہ سے اپنا شبہ ظاہر کر دیا تھا۔ (طبری ،ص:2780) لیکن یہ صحیح نہیں ہے ، رشتہ داری بے شک ایک مؤثر چیز ہے، مگر ایسے اہم معاملات میں بنائے فیصلہ نہیں ہوسکتی۔

اصل یہ ہے کہ گواسلام نے قبائل کو باہم متحد کر دیا تھا، تاہم ایک حد تک منافست ومسابقت کا خیال باقی تھا اور لوگ اس کو پسند نہ کرتے تھے کہ نبوت وخلافت ایک ہی قبیلہ یعنی بنو ہاشم میں مجتمع ہو جائے، چناں چہ خلافت مرتضوی میں جو خانہ جنگیاں برپا ہوئیں وہ اسی منافست کا نتیجہ تھیں، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کی نگاہ عاقبت بین نے اس کا پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا اور یہ وجہ ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کوجناب امیر رضی الله عنہ پر ترجیح دی، ورنہ اسلام کا شیرازہ اسی وقت بکھر جاتا، جیسا کہ بعد کو واقعات نے ثابت کر دیا ہے۔

اس ترجیح کی ایک دوسری روایت یہ بھی ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے شیخین رضی الله عنہما کی روش پر کار بند ہونے میں پس وپیش کیا تھا، جیسا کہ متعدد روایتوں سے ثابت ہوتا ہے، برخلاف اس کے حضرت عثمان رضی الله عنہ نے نہایت بلندآہنگی کے ساتھ حامی بھری تھی، بہرحال حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے اس عقدہ کو جس ایثار، دور اندیشی اور دانائی کے ساتھ حل کیا وہ یقینا ان کی زندگی کا مایہ ناز کارنامہ ہے۔

وفات

عہد عثمانی میں حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے نہایت خاموش زندگی بسر کی او رجہاں تک معلوم ہے مہمات ملکی میں انہوں نے کوئی دل چسپی نہیں لی، یہا ں تک کہ روح اطہر نے پچھتر برس تک اس سرائے فانی کی سیر کرکے 31ھ میں داعی حق کو لبیک کہا۔ انا لله وانا الیہ راجعون

حضرت علی رضی الله عنہ نے جنازہ پر کھڑے ہو کر کہا:

اذھب یا ابن عوف، فقد ادرکت صفوھا وسبقت زلقھا․

یعنی” ابن عوف! جا، تونے دنیا کا صاف پانی پایا اور گدلا چھوڑ دیا۔“ ( اسعد الغابہ :3/317)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ جنازہ اٹھانے والوں میں شریک تھے او ر کہتے جاتے تھے” واجبلاہ“ یعنی یہ پہاڑ بھی چل بسا، حضرت عثمان رضی ا لله عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی او رجنت البقیع میں دفن کیا۔ ( استیعاب جلد2 وطبقات ابن سعد، تذکرہ عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ)

علم وفضل

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صحبت نے حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کے کیسہ ”فضل وکمال کو علمی زر وجواہر سے پر کر دیا تھا“۔ انہوں نے دوسرے کبار صحابہ رضی الله عنہم کی طرح حدیثیں بہت کم روایت کیں، تاہم خلفائے راشدین رضی الله عنہم کو بہت اہم اور ضرور ی موقعوں پر اپنی معلومات سے فائدہ پہنچایا، چناں چہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت میں جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وراثت کا جھگڑا چھڑا تو انہوں نے بلندآہنگی کے ساتھ اس حدیث کی تصدیق کی کہ ”آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے متروکہ میں وراثت نہیں ہے“۔
اسی طرح حضرت عمر رضی ا لله عنہ کے عہد میں جب ایران فتح ہوا اور انہیں فکر دامن گیر ہوئی کہ آتش پرستوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے تواس وقت عبدالرحمن رضی الله عنہ ہی نے اس عقدہ کو حل کیا اور بیان کیا کہ آں حضرت نے ان لوگوں کے ساتھ اہل کتاب کی روش اختیار کی تھی اور انہیں ذمی قرار دیا تھا۔ ( کتاب الخراج،ص:74 ،و مسند،ص:194)

سن18ھ میں عمواس میں طاعون پھیلا او رحضرت عمر رضی الله عنہ نے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے بلا کر دریافت کیا کہ طاعون سے ہٹنا جائز ہے یا نہیں؟ تو کوئی اس کا قطعی جواب نہ دے سکا، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ اس وقت موجود نہ تھے، لیکن جب انہیں خبر ملی تو انہوں نے حاضر ہو کر کہا میں نے رسول الله۱ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جہاں طاعون ہو وہاں نہ جاؤ، اگر تم پہلے سے طاعون زدہ مقام میں ہو تو وہاں سے نہ ہٹو۔ (بخاری، باب طاعون)

اصابت رائے

خدائے تعالیٰ نے حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کو اصابت رائے اور دور اندیشی کا نہایت وافرحصہ دیا تھا، چناں چہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنی وفات کے وقت مستحقین خلافت پر ریمارک کرتے ہوئے فرمایا تھا:”عبدالرحمن نہایت صائب الرائے، ہوش مند اور سلیم الطبع ہیں، ان کی رائے کو غور سے سننا او راگر انتخاب میں مخالفت پیدا ہو جائے تو جس طرف عبد الرحمن ( رضی الله عنہ) ہوں ان کا ساتھ دینا۔“ (تاریخ طبری، ص:2780)

حضرت عمر رضی الله عنہ کی رائے صرف حسن ظن نہیں، بلکہ دیرینہ تجربات پر مبنی تھی، چناں چہ حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے خلافت کی گرہ کو جس خوبی کے ساتھ سلجھایا وہ ان کی تجربہ کاری اور ہوش مندی کی نہایت بین شہادت ہے۔

اخلاق وعادات

حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کا دامن فضل وکمال او راخلاقی جواہر پاروں سے مالا مال تھا۔ خصوصاً خوفِ خدا، حب رسول، صدق وعفاف، ترحم، فیاضی اور انفاق فی سبیل الله ان کے نہایت درخشاں اوصاف تھے۔

خوفِ خدا

خوفِ خدا کے باعث دنیا کا ہر واقعہ ان کے لیے مرقع عبرت بن جاتا تھا او راس کی ہیبت وجلال کو یاد کرکے رونے لگتے تھے، ایک دفعہ دن بھر روزے سے رہے، شام کے قت کھانا سامنے آیا تو بے اختیار مسلمانوں کا گزشتہ فقر وفاقہ یاد آگیا، بولے: ” مصعب بن عمیر رضی الله عنہ مجھ سے بہترتھے، وہ شہید ہوئے تو کفن میں صر ف ایک چادر تھی، جس سے سرچھپایاجاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے او رپاؤں چھپائے جاتے تھے تو سرکھل جاتا تھا، اسی طرح حمزہ رضی الله شہید ہوئے، حالاں کہ وہ مجھ سے بہتر تھے، لیکن اب دنیا ہمارے لیے کشادہ ہو گئی ہے او رہمیں اس قدر دنیاوی نعمتیں مرحمت کی گئی ہیں کہ مجھے ڈر ہے کہ شاید ہماری نیکیوں کا معاوضہ دنیا ہی میں ہو گیا ہو۔“ اس کے بعد اس قدر رقت طاری ہوئی کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ (بخاری ،باب غزوہ اُحد)

حبِ رسول صلی الله علیہ وسلم

ایک صحابی کی حیثیت سے حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی محبت او رخدمت وحفاظت میں ہمیشہ پیش رہے ، واقعہ اُحد صحابہ رضی الله عنہم کی جان نثاری ومحبت کا نہایت سخت امتحان تھا، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ اس آزمائش میں پورے اترے، بدن پر بیس زخم کھائے، پاؤں میں ایسا کاری زخم لگا کہ لنگڑا کر چلنے لگے، لیکن جذبہ جاں نثاری نے میدان سے منھ موڑ نے نہ دیا۔

حضرت سرو رکائنات صلی الله علیہ وسلم کبھی باہر تشریف لے جاتے تو حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ پیچھے پیچھے ساتھ ہو لیتے، ایک دفعہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم باہر نکلے، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ بھی پیچھے چلے، یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک نخلستان میں پہنچ کر سربسجود ہو گئے او راس قدر دیر تک سجدہ میں رہے کہ ان کو خوف ہوا کہ شاید روح اطہر خدا سے جا ملی، گھبرا کر قریب آئے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے سر مبارک اُٹھا کر فرمایا : کیا ہے عبدالرحمن ( رضی الله عنہ )؟ انہوں نے اپنی گھبراہٹ کی وجہ عرض کی، ارشاد ہوا: ” جبرئیل علیہ السلام نے مجھ سے کہا کیا میں آپ کو یہ بشارت نہ دوں کہ خدا وند جل وعلانے فرمایا ہے کہ جو آپ پر درود بھیجے گا، میں اس پر درودہ بھیجوں گا او رجو آپ پر سلام بھیجے گا، میں اس پر سلام بھیجوں گا“۔ ( مسند :1/191) یعنی یہ طویل سجدہ سجدہٴ تشکر تھا۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد بھی ہمیشہ آپ کی یاد تازہ رہتی تھی، نوفل بن ایاس فرماتے ہیں کہ میرا عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ سے اکثر لطف صحبت رہتا تھا، درحقیت وہ خوب ہم نشین تھے، ایک روز ہم کو اپنے دولت کدہ پر لے گئے، پھر خود اندر داخل ہوئے اور غسل کرکے باہر نکلے، اس کے بعد کھانے آیا تو روٹی اور گوشت دیکھ کر بے اختیار رونے لگے میں نے پوچھا ” ابو محمد! یہ گریہ وزاری کیسی؟“ بولے” رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وفات پائی، لیکن تمام عمر آپ کو اور آپ کے اہل وعیال کو پیٹ بھر جوکی روٹی بھی نہ ملی، ہم دیکھتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد اتنے دنوں تک دنیا میں رہنا ہمارے لیے بہترنہیں ہے“۔ (اصابہ:4/177)

صدق وعفاف

دیانت داری، صدق وعفاف حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کے دستارِ فضل وکمال کا نہایت خوب صورت طرہ تھا، صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کو ان کی صداقت پر اس قدر اعتماد تھا کہ مدعی یا مدعا علیہ ہونے کی حیثیت میں بھی وہ تنہا ان کے بیان کو کافی سمجھتے تھے، ایک دفعہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کی عدالت میں حضرت زبیر رضی الله عنہ نے مقدمہ دائرہ کیا کہ ”میں نے آل عمر رضی الله عنہ سے ایک قطعہ زمین خریدا ہے، جو عمر رضی الله عنہ کو دربارِ نبوت صلی الله علیہ وسلم سے بطور جاگیر مرحمت ہوا تھا، لیکن عبدالرحمن رضی الله عنہ کا دعوی ہے کہ ان کو اور عمر رضی الله عنہ کو ایک ساتھ جاگیر ملی تھی اور فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک ان کا حصہ ہے“۔ حضرت عثمان رضی الله عنہ نے فرمایا: ” عبدالرحمن رضی الله عنہ اپنے موافق یا مخالف شہادت دے سکتے ہیں“۔ (مسند ابن حنبل:1/192)

انفاق فی سبیل الله

ہجرت کے بیان میں گزر چکا ہے کہ حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کو بے نیازی اور استغنا نے تجارت کی طرف مائل کر دیا تھا، چناں چہ اس میں انہوں نے اس قدر ترقی کی کہ ایک عظیم الشان دولت کے مالک ہو گئے، یہاں تک کہ ایک دفعہ ان کا تجارتی قافلہ مدینہ آیا تو اس میں سات سو اونٹ پر صرف گیہوں، آٹا اور دوسری اشیائے خوردنی بار تھیں، اس عظیم الشان قافلہ کا تمام مدینہ میں غل پڑ گیا، حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے سنا تو فرمایا: ” میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ عبدالرحمن رضی الله عنہ جنت میں رینگتے ہوئے جائیں گے“۔ حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کو اطلاع ہوئی تو ام المومنین رضی الله عنہا کے پاس حاضر ہو کر عرض کی” میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ یہ پورا قافلہ مع اسباب وسامان، بلکہ اونٹ اور کجاوہ تک راہِ خدا میں وقف ہے۔“ (اسد الغابہ :3/316)

صحابہ رضی الله عنہم کی دولت ذاتی راحت وآسائش کے لیے نہ تھی، بلکہ جو جس قدر زیادہ دولت مند تھا اسی قدر اس کا دست ِ کرم زیادہ کشادہ تھا، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کی فیاضی او رانفاق فی سبیل الله کا سلسلہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے عہد ہی سے شروع ہو چکا تھا اور وقتاً فوقتاً قومی ومذہبی ضروریات کے لیے گراں قدر رقمیں پیش کیں، سورہٴ برات نازل ہوئی او رصحابہ رضی الله عنہم کو صدقہ وخیرات کی ترغیب دی گئی تو حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے اپنا نصف مال یعنی چار ہزار پیش کیے، پھر دو دفعہ چالیس چالیس ہزار دینار وقف کیے، اسی طرح جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹ حاضر کیے۔ ( ایضاً، ص:316)

عام خیرات وصدقات کا یہ حال تھا کہ ایک ہی دن میں تیس تیس غلام آزاد کر دیتے تھے، ایک دفعہ انہوں نے اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینار میں حضرت عثمان رضی الله عنہ کے ہاتھ فروخت کی اور سب راہِ خدا میں لٹا دیا۔ ( طبقات ابن سعد اوّل جزءِ ثالث تذکرہٴ عبدالرحمن رضی الله عنہ) لیکن اسی فیاضی کے باوجود ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ کہیں اس قدر تمول آخرت کے لیے موجب نقصان نہ ہو، ایک دفعہ ام المومنین حضرت اُم سلمہ رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر گزارش کی، ”اماں! مجھے خوف ہے کہ کثرتِ مال مجھے ہلاک کر دے گی“۔ ارشاد ہوا بیٹا! راہِ خدا میں صرف کرو، میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ” میرے اصحاب رضی الله عنہم میں بعض ایسے ہیں کہ مفارقت کے بعدانہیں میرا دیدار نصیب ہو گا“۔ (استیعاب:2/404)

غرض فیاضی او رانفاق فی سیبل الله کا سلسلہ آخری لمحہٴ حیات تک قائم رہا، وفات کے وقت بھی پچاس ہزاردینار او رایک ہزار گھوڑے راہ ِ خدا میں وقف کیے، نیز بدر میں جو صحابہ رضی الله عنہم شریک ہوئے تھے اور اس وقت تک زندہ موجو دتھے، ان میں سے ہرایک کے لیے چا رچار سو دینار کی وصیت کی، بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت ایک سو اصحاب بدر بقید حیات تھے اورسب نے نہایت خوشی کے ساتھ اس وصیت سے فائدہ اٹھایا، یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ نے بھی حصہ لیا۔ (اسعد الغابہ،ج:3)

اُمہات المومنین رضی الله عنہن کے لیے بھی ایک باغ کی وصیت کی جو چا رلاکھ درہم میں فروخت ہوا، نیز اس سے پہلے مختلف موقعوں پر بڑی بڑی رقمیں پیش کیں، ایک دفعہ ایک جائیدادپیش کی جو چالیس ہزار دینا رمیں فروخت ہوئی تھی، چناں چہ حضرت عائشہ رضی الله عنہاان کے صاحب زادہ ابوسلمہ سے اکثر بطریق تشکر ودعا فرمایا کرتی تھیں، خدا تمہارے باپ کو سلسبیل جنت سے سیراب کرے۔

مذہبی زندگی

حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نماز نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھتے تھے، خصوصاً ظہر کے وقت فرض سے پہلے دیرتک نوافل سے شغل رکھتے تھے۔ (ترمذی،ص:621)

اکثر روزے رکھتے تھے، حج کے لیے بھی بارہا تشریف لے گئے، جس سال حضرت عمر رضی الله عنہ مسند نشین خلافت ہوئے اس سال امارت حج کی خدمت بھی ان ہی کے سپرد ہوئی تھی۔ ( اصابہ:3/317)

ذریعہ معاش

تجارت اصلی ذریعہ معاش تھا، آخر میں زراعت کاکاروبار بھی نہایت وسیع پیمانہ پر قائم ہوگیا تھا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے خیبر میں ایک وسیع جاگیر مرحمت فرمائی تھی، پھر انہوں نے خود بہت سی قابل زراعت اراضی خرید کر کاشت کاری شروع کی تھی، چناں چہ صرف مقام ”جرف“ کے کھیتوں میں بیس اونٹ آب پاشی کا کام کرتے تھے۔ (استیعاب:2/403)

حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کے کاروبار میں خدائے پاک نے غیرمعمولی برکت دی تھی، وہ خود فرماتے ہیں کہ اگر میں پتھر بھی اٹھاتا تو اس کے نیچے سونا نکل آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس قدر فیاضی او رانفاق سبیل الله کے باوجود وہ اپنے وارثوں کے لیے نہایت وافر دولت چھوڑ گئے، یہاں تک چاروں بیویوں نے جائیداد متروکہ کے صرف آٹھویں حصہ سے اسی ہزار دینار پائے ، سونے کی اینٹیں اتنی بڑی بڑی تھیں کہ کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کر تقسیم کی گئیں اور کاٹنے والوں کے ہاتھ میں آبلے پڑ گئے، جائیدادغیر منقولہ اور نقدی کے علاوہ ایک ہزار اونٹ اور سوگھوڑے اورتین ہزار بکریاں چھوڑیں۔ (اسد الغابہ:3/317)

غذا ولباس

دستر خوان وسیع تھا، لیکن پر تکلف نہ تھا، کبھی قیمت اور خوش ذائقہ کھانا سامنے آجاتا تو گزشتہ فقر وفاقہ یاد کرکے آنکھیں پر نم ہو جاتیں، لباس میں زیادہ تر ریشم کا استعمال تھا ،کیوں کہ فقر وفاقہ میں بیماری کی وجہ سے رسول صلی الله علیہ وسلم نے خاص طو رپراجازت دی تھی، ایک دفعہ حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کے صاحب زادے ابو سلمہ ریشمی کرتہ زیب تن کیے ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے دیکھا تو گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس کے چیتھڑے اڑا دیے، حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی ہے؟“ فرمایا: ”ہاں! مجھے معلوم ہے، لیکن صرف تمہارے لیے اجازت ہے، دوسروں کے لیے نہیں“۔ ( طبقات ابن سعد ،قسم اول، جزئِثالث، تذکرہٴ عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ)

حلیہ

حلیہ یہ تھا، قد طویل، رنگ سرخ وسفید، چہرہ خوب صورت، ریش دراز، سرپرکان سے نیچے تک گھونگھر دار کاکلیں، کلائی گھٹی ہوئی، انگلیاں موٹی او رمضبوط، سامنے کے دو دانت گر گئے تھے اور غزوہ احد میں زخمی ہونے کے باعث پاؤں میں لنگ تھا۔ ( اصابہ:4/177)

اولاد وازواج

حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شایاں کیں، بیویوں کے ساتھ عموماً لطف ومحبت سے پیش آتے تھے، ایک انصاریہ سے شادی کی تو بیس ہزار دینار مہر میں دیے۔ ( طبقات قسم اوّل جزءِ ثالث تذکرہٴ عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ) بیویوں کے نام یہ ہیں۔

کلثوم بنت عتبہ بن ربیعہ، تماضر بنت الاصبغ، کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ،سہلہ بنت عاصم ، بحریہ بنت ہانی، سہل بنت سہلہ، ام حکیم بنت قارظ، بنت ابی الخشخاش ، اسماء بنت سلامہ، ام حریث، یہ بہرا سے قید ہو کر آئی تھیں، مجد بنت یزید، غزال بنت کسریٰ یہ مدائن سے گرفتار ہو کر آئی تھیں، بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ خاندان کسریٰ کی شہزادی تھیں ، زینب بنت الصباح، بادیہ بنت غیلان۔ (استیعاب:2/402)

حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ کی اولا دنہایت کثیرتھی، جن لڑکوں کے نام معلوم ہو سکے وہ یہ ہیں:

سالم، اسلام سے پہلے پیدا ہوئے اورپہلے ہی مرے، محمد، ابو سلمہ فقیہ، ابراہیم، اسماعیل، حمید،زید، معن، عمر، عدی، عروہ اکبر، سالم اصغر، ابوبکر، عبدالله، عبدالرحمن، مصعب، سہیل(ابوالابیض)، عثمان،عروہ ،یحییٰ ، بلال۔
صاحب زادیوں کے نام یہ ہیں:
ام القسم، یہ زمانہ جاہلیت ہی میں پیدا ہوئی تھیں، حمیدہ امة الرحمن، صغریٰ، ام یحییٰ، جویریہ، امیہ،مریم۔ 

بہشت کے باسی سے متعلق