حضرت بلال بن رباح رضی الله عنہ

حضرت بلال بن رباح رضی الله عنہ

مولانا معین الدین ندوی

نام ونسب

بلال نام، ابو عبدالله کنیت، والد کا نام رباح اور والد کا نام حمامہ تھا، یہ حبشی نژاد غلام تھے، لیکن مکہ ہی میں پیدا ہوئے، بنی جمع ان کے آقا تھے۔ (اسعد الغابہ، ج:1/206)

اسلام

حضرت بلال رضی الله عنہ صورت ظاہری کے لحاظ سے گو سیاہ فام حبشی تھے، تاہم آئینہ دل شفاف تھا، اس کو ضیائے ایمان نے اس وقت منور کیا جب وادیٴ بطحاء کی اکثر گوری مخلوق غرورِ حسن وزعم شرافت میں ضلالت وگم راہی کی ٹھوکریں کھا رہی تھی، جن معدودے چند بزرگوں نے داعی حق کو لبیک کہا تھا، ان میں صرف سات آدمیوں کو اس کے اعلان کی توفیق ہوئی تھی، جن میں ایک یہ غلام حبشی بھی تھا۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اول، جزثالث،ص:166)
سچ ہے #
          ایں سعادت بزورِ بازو نیست
          تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

ابتلاء واستقامت

کم زور ہمیشہ سب سے زیادہ ظلم وستم کی آما ج گاہ رہتا ہے، حضرت بلال رضی الله عنہ کی جو ذاتی حالت تھی، اس کے لحاظ سے وہ اور بھی اس ناموسِ جفا کے شکار ہو گئے، گونا گوں مصائب اور طرح طرح کے مظالم سے ان کے استقلال واستقامت کی آزمائش ہوئی، تپتی ہوئی ریگ، جلتے ہوئے سنگریزوں اوردہکتے ہوئے انگاروں پر لٹائے گئے، مشرکین کے لڑکوں نے گلوئے مبارک میں رسیاں ڈال کر بازیچہ اطفال بنایا، لیکن ان تمام روح فرساوجان گسل آزمائشوں کے باوجود، توحید کا حبل متین ہاتھ سے نہ چھوٹا، ابو جہل ان کومنھ کے بل سنگریزوں پر لٹا کر اوپر سے پتھر کی چکی رکھ دیتا اورجب آفتاب کی تمازت بے قرار کر کے دیتی تو کہتا، بلال ! اب بھی محمد کے خدا سے باز آ، لیکن اس وقت بھی دہن مبارک سے یہی ” احد احد“ نکلتا۔(اسد الغابہ ،ج:1/206)

ستم پیشہ مشرکین میں امیہ بن خلف سب سے زیادہ پیش پیش تھا، اس کی جدت طرازیوں نے ظلم وجفا کے نئے طریقے ایجاد کیے تھے، وہ ان کو طرح طرح سے اذیتیں پہنچاتا، کبھی گائے کی کھال میں لپیٹتا، کبھی لوہے کی زرہ پہنا کر، جلتی ہوئی دھوپ میں بٹھاتا او رکہتا: ” تمہارا خدا لات اور عزیٰ ہے“۔ لیکن اس وارفتہ توحید کی زبان سے ” احد احد“ کے سوا اور کوئی کلمہ نہ نکلتا، مشرکین کہتے کہ تم ہمارے ہی الفاظ کا اعادہ کرو تو فرماتے کہ میری زبان ان کو اچھی طرح ادا نہیں کرسکتی۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل ،جزثالث ، ص:165)

آزادی

حضرت بلال رضی الله عنہ ایک روز حسب ِ معمول وادیٴ بطحاء میں مشق ستم بنائے جا رہے تھے، حضرت ابوبکری صدیق رضی الله عنہ اس طرف سے گذرے تو یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر دل بھر آیا او رایک گراں قدر رقم معاوضہ دے کر آزاد کر دیا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: ”ابوبکر! تم مجھے اس میں شریک کر لو“۔ عرض کی:” یا رسول الله میں آزاد کراچکا ہوں“۔( ایضاً بخاری)

ہجرت

وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو حضرت سعد بن خیثمہ رضی الله عنہ کے مہمان ہوئے، حضرت سعد ابورویحہ عبدالله بن عبدالرحمن خشعمی رضی الله عنہ سے مواخات ہوئی، ان دونوں میں نہایت شدید محبت پیدا ہو گئی تھی، عہد فاروقی میں حضرت بلال رضی الله عنہ نے شامی مہم میں شرکت کا ارادہ کیا تو حضرت عمر نے پوچھا:” بلال! تمہارا وظیفہ کون وصول کرے گا؟“ عرض کی:”ابو رویحہ (رضی الله عنہ) کیوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہم دونوں میں جو برادرانہ تعلق پیدا کرد یا ہے وہ کبھی منقطع نہیں ہو سکتا“۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اول، جزثالث، ص:167)

مؤذن

مدینہ کا اسلام مکہ کی طرف بے بس او رمجبور نہ تھا، یہاں پہنچنے کے ساتھ شعائر ِ اسلام ودین متین کی اصولی تدوین وتکمیل کا سلسلہ شروع ہوا، مسجد تعمیر ہوئی، خدائے لایزال کی عبادت وپرستش کے لیے نماز پنج گانہ قائم ہوئی اور اعلان عام ِ کے لیے اذان کا طریقہ وضع کیا گیا، حضرت بلال رضی الله عنہ سب سے پہلے وہ بزرگ ہیں جو اذان دینے پر مامور ہوئے۔ (بخاری، باب بدء الاذان)

حضرت بلال رضی الله عنہ کی آواز نہایت بلند وبالا ودل کش تھی، ان کی ایک صدا توحید کے متوالوں کوبے چین کر دیتی تھی، مرد اپنا کاروبار، عورتیں شبستان ِ حرم اور بچے کھیل کود چھوڑ کر والہانہ وارفتگی کے ساتھ ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے، جب خدائے واحد کے پرستاروں کا مجمع کافی ہو جاتا تو نہایت ادب کے ساتھ آستانہٴ نبوت پر کھڑے ہو کر کہتے ”حی علی الصلوٰة حی علی الفلاح الصلوة یا رسول الله“! یعنی یا رسول الله ! نماز تیار ہے، غرض آپ تشریف لاتے اور حضرت بلال رضی الله عنہ کی صدائے سامعہ نواز تکبیر اقامت کے نعروں سے بند گان ِ توحید کو بارگاہ ذوالجلال والاکرام میں سربسجود ہونے کے لیے صف بصف کھڑا کر دیتی۔ (طبقات ابن سعد قسم اوّل جزو ثالث،ص:176)

حضرت بلال رضی الله عنہ اگر کسی روز مدینہ میں موجود نہ ہوتے تو حضرت ابو محذورہ رضی الله عنہ او رحضرت عمر وبن ام مکتوم رضی الله عنہ ان کی قائم مقامی کرتے تھے، صبح کی اذان عموماً کچھ رات رہتے ہوئے دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ صبح کے وقت دو اذانیں مقرر کی گئی تھیں، آخری اذان حضرت عمر وبن ام مکتوم رضی الله عنہ دیتے تھے۔ چوں کہ وہ نابینا تھے، اس لیے ان کو وقت کا پتہ نہ چلتا تھا، جب لوگ ان سے کہتے کہ ” صبح ہو گئی“ تو آٹھ کرندائے تکبیر بلند فرماتے تھے، اسی بنا پر رمضان میں حضرت بلال رضی الله عنہ کی اذان کے بعد اکل وشراب جائز تھا، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بلال (رضی الله عنہ) کی اذان صرف اس لیے ہے کہ جو لوگ رات بھر عبادت ِ الہٰی میں مصروف رہے ہیں وہ کچھ دیر آرام کریں اور جو تمام رات خواب ِ راحت میں سرشار رہے ہیں، وہ بے دار ہو کر نمازِ صبح کی تیاری کریں، لیکن وہ صبح کا وقت نہیں ہوتا، بلکہ رات باقی رہتی ہے۔ (بخاری، باب الاذان بعد الفجر وباب اذان الاعمی)

حضرت بلال رضی الله عنہ سفر وحضر ہر موقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیمؤذن خاص تھے، ایک دفعہ سفر درپیشتھا، ایک جگہ رات ہو گئی، بعض صحابہ رضی الله عنہم نے عرض کی، ” یا رسول الله ! اگر اسی جگہ پڑاؤ کا حکم ہوتا تو بہتر تھا، ارشاد ہوا:” مجھے خوف ہے کہ نیند تم کو نماز سے غافل کر دے گی، حضرت بلال رضی الله عنہ کو اپنی شب بیداری پر اعتماد تھا، انہوں نے بڑھ کر ذمہ لیا کہ وہ سب کو بیدار کر دیں گے، غرض پڑاؤ کا حکم ہوا او رسب لوگ مشغول راحت ہوئے، حضرت بلال رضی الله عنہ نے مزید احتیاط کے خیال سے شب زندہ داری کا ارادہ کر لیا اور رات بھر اپنے کجا وہ پر ٹیک لگائے بیٹھے رہے، لیکن اتفاق وقت اس حال میں بھیآنکھ لگ گئی اور ایسی غفلت طاری ہوئی کہ طلوع آفتاب تک ہوشیار نہ ہوئے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے خواب راحت سے بیدار ہو کر سب سے پہلے ان کو پکارا اور فرمایا: ” بلال! تمہاری ذمہ داری کیا ہوئی؟“ عرض کی:” یا رسول الله! آج کچھ ایسی غفلت طاری ہوئی کہ مجھے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا تھا“۔ ارشاد ہوا:” بے شک خدا جب چاہتا ہے تمہاری روحوں پر قبضہ کر لیتا ہے او رجب چاہتا ہے تم میں واپس کر دیتا ہے، اچھا اُٹھو! اذان دو اور لوگ کو نماز کے لیے جمع کرو“۔ (بخاری ،باب الاذان بعد ذہاب الوقت)

غزوات

حضرت بلال رضی الله عنہ تمام مشہور غزوات میں شریک تھے، غزوہٴ بدر میں انہوں نے امیہ بن خلف کو تہ ِ تیغ کیا، جو اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا اور خودان کی ایذا رسانی میں بھی اس کا ہاتھ سب سے پیش پیش تھا۔( اسد الغابہ:1/207)

فتح مکہ میں بھی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ہم رکاب تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس مؤذن خاص کو معیت کا فخر حاصل تھا۔ (کتاب المغازی، باب دخول النبی صلی الله علیہ وسلم من اعلی مکہ)

انہیں حکم ہوا کہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر توحید کی پر عظمت صدائے تکبیر بلند کریں، خدا کی قدرت وہ حریم قدس جس کوا بوالانبیاء ابراہیم علیہ السلام نے خدائے واحد کی پرستش کے لیے تعمیر کیا تھا، مدتوں صنم خانہ رہنے کے بعد پھر ایک حبشی نژاد کے نغمہ توحید سے گونجا۔ (طبقات ابن سعد،قسم اول، جز ثالث ،ص:167)

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی الله عنہ نے اپنے محسن وولی نعمت حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ سے عرض کی:”یا خلیفہ رسول! آپ نے خدا کے لیے آزاد کیا ہے یا اپنی مصاحبت کے لیے“؟ فرمایا:”

خدا کے لیے“ بولے۔” میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ راہِ خدا میں جہاد کرنا مومن کا سب سے بہتر کام ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ پیام ِ موت تک اسی عمل خیر کولازمہ حیات بنا لوں“۔ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے فرمایا ”بلال ! میں تمہیں خدا او راپنے حق کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس عالم پیری میں داغ ِ مفارقت نہ دو“۔ اس مؤثر فرمان نے حضرت بلال رضی الله عنہ کو عہد صدیقی کے غزوات میں شریک ہونے سے باز رکھا۔ (بخاری وطبقات ابن سعد قسم اول جزو ثالث،ص:168)

حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے مسند خلافت پر قدم رکھا توانہوں نے پھر شرکت جہاد کی اجازت طلب کی، خلیفہ اوّل کی طرح خلیفہ دوم نے بھی ان کو روکنا چاہا لیکن جوشِ جہاد کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، بے حد اصرار کے بعد اجازت حاصل کی اور شامی مہم میں شریک ہو گئے۔ (بخاری وطبقات ابن سعد، قسم اوّل، جز ثالث:168)

حضرت عمر رضی الله عنہ نے 16ھ میں شام کا سفر کیا تو دوسرے افسران ِ فوج کے ساتھ حضرت بلال رضی الله عنہ نے بھی مقام جابیہ میں ان کو خوش آمدید کہا او ربیت المقدس کی سیاحت میں ہم رکاب رہے، ایک روز حضرت عمر رضی الله عنہ نے ان سے اذان دینے کی فرمائش کی تو بولے:” گو میں عہد کرچکا ہوں کہ حضرت خیر الانام صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا، تاہم آج آپ کی خواہش پوری کروں گا، یہ کہہ کر اس عندلیب توحید نے کچھ ایسے لحن میں خدائے ذوالجلال کی عظمت وشوکت کا نغمہ سنایا کہ تمام مجمع بیتاب ہو گیا، حضرت عمر رضی الله عنہ اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی، حضرت ابو عبیدہ رضی الله عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ بھی بے اختیار رو رہے تھے۔ غرض سب کے سامنے عہد نبوت کا نقشہ کھنچ گیا او رتمام سامعین نے ایک خاص کیفیت محسوس کی۔ (تاریخ طبری واسد الغابہ :1/208)

شام میں توطن

حضرت بلال رضی الله عنہ کو ملک شام کی سر سبز وشاداب زمین پسند آگئی تھی، انہوں نے خلیفہ دوم سے درخواست کی کہ ان کو او ران کے اسلامی بھائی حضرت ابو رویحہ رضی الله عنہ کو یہاں مستقل سکونت کی اجازت دی جائے۔ یہ درخواست منظور ہوئی تو ان دونوں نے قصبہ خولان میں مستقل اقامت اختیار کر لی اور حضرت ابو الدرداء انصاری رضی الله عنہ کے خاندان سے، جو پہلے ہی یہاں آکر آباد ہو گیا تھا ،رشتہ منا کحت کی سلسلہ جنبانی فرماتے ہوئے کہا: ” ہم دونوں کافر تھے، خدا نے ہماری ہدایت کی، ہم غلام تھے، اس نے آزاد کر دیا، ہم محتاج تھے، اس نے مال دار بنایا، اب ہم تمہارے خاندان سے پیوستہ ہونے کی آرزو رکھتے ہیں، اگرتم رشتہ ازدواج سے یہ آرزو پوری کرو گے تو خدا کا شکر ہے، ورنہ کوئی شکایت نہیں“۔ آپ نے کالے، گورے، حبشی او رعربی کی تفریق مٹا دی تھی، انصار نے نہایت خوشی کے ساتھ ان کے اس پیام کو لبیک کہا او راپنی لڑکیوں سے شادی کر دی۔ (اسد الغابہ:1/208)

وفات

20ھ میں اس مخلص باوفانے اپنے محبوب آقا کی دائمی رفاقت کے لیے دنیائے فانی کو خیر باد کہا، کم وبیش ساٹھ برس کی عمر پائی، دمشق میں باب الصغیر کے قریب مدفون ہوئے۔ (اسد الغابہ:1/209)

اخلاق

محاسن اخلاق نے حضرت بلال رضی الله عنہ کے پایہ فضل وکمال کو نہایت بلندکر دیا تھا، حضرت عمر رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے ابوبکر سیدنا واعتق سیدنا یعنی ابوبکر رضی الله عنہ ہمارے سردار ہیں او رانہوں نے ہمارے سردار بلال رضی الله عنہ کو آزاد کیا ہے۔ (مستدرک حاکم :3/284)

حبیبِ خدا صلی الله علیہ وسلم کی خدمت گزاری ان کا مخصوص مقصد حیات تھا، ہر وقت بارگاہ نبوی میں حاضر رہتے، آپ کہیں باہر تشریف لے جاتے تو خادم جان نثار کی طرح ہم راہ ہوتے۔ عیدین واستسقاء کے مواقع پر بلم لے کر آگے آگے چلتے۔ (طبقات ابن سعد، قسم اول، جز ثالث، ص:168) وعظ وپند کی مجلسوں میں ساتھ جاتے، افلاس وناداری کے باوجود ان کو جو کچھ میسر آجاتا اس کا ایک حصہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ضیافت کے لیے پس انداز کرتے، ایک دفعہ برنی کھجوریں ( جو نہایت خوش ذائقہ ہوتی ہیں) آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لائے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے تعجب سے پوچھا ”بلال! یہ کہاں سے؟“ عرض کی میرے پاس جو کھجوریں تھیں وہ نہایت خراب قسم کی تھیں، چوں کہ مجھے حضور کی خدمت میں پیش کرنا تھا اس لیے میں نے دو صاع دے کر یہ ایک صاع اچھی کھجوریں حاصل کیں، ارشاد ہوا ،”اُف! اُف! ایسا نہ کیا کرو، یہ تو عین ربا ہے، اگر تمہیں خریدنا تھا تو پہلے اپنی کھجوروں کو فروخت کرتے، پھر اس کی قیمت سے اس کو خرید لیتے“۔(بخاری:1/311)

حضرت بلال رضی الله عنہ مکہ کی زندگی میں جن عبرت ناک مظالم ومصائب کے متحمل ہوئے، اس سے ان کی غیر معمولی استقامت واستقلال کا اندازہ ہوا ہو گا، تواضع و خاک ساری ان کی فطرت میں داخل تھی، لوگ ان کے فضائل ومحاسن کا تذکرہ کرتے تو فرماتے” میں صرف ایک حبشی ہوں ،جو کل تک معمولی غلام تھا“۔ ( طبقات ابن سعد، قسم اول، جز ثالث، ص:169)

صداقت، بے لوثی اور دیانت داری نے ان کو نہایت معتمد علیہ بنا دیا تھا، ان کے ایک بھائی نے ایک عربی خاتون کے پاس نکاح پیام بھیجا، اس کے خاندان والوں نے جواب دیا کہ اگر بلال رضی الله عنہ ہمارے پاس آکر تصدیق کریں گے تو ہم کو بخوشی منظور ہے، حضرت بلال رضی الله عنہ نے کہا ” صاحبو! میں بلال بن رباح ہوں اور یہ میرا بھائی ہے، میں جانتا ہوں کہ اخلاق ومذہب کے لحاظ سے یہ بڑا آدمی ہے، اگر تم چاہو تو اس سے بیاہ دو، ورنہ انکار کرو، انہوں نے کہا”بلال! تم جس کے بھائی ہو گے اس سے تعلق پیدا کرنا ہمارے لیے عار نہیں“۔ ( مستدرک حاکم:3/283)

مذہبی زندگی

حضرت بلال رضی الله عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مؤذنِ خاص تھے، اس بنا پر ان کو ہمیشہ خانہ خدا میں حاضر رہنا پڑتا تھا، معاملات ِ دنیوی سے سروکار نہ ہونے کے باعث عبادت وشب زندہ داری ان کا خاص مشغلہ تھا، ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم کو کس عمل خیر پر سب سے زیادہ ثواب کی اُمید ہے؟ عرض کی” میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے، البتہ ہر طہارت کے بعد نماز ادا کی ہے ۔“ (بخاری:2/1124)

نماز میں سب سے پہلے آمین کہتے تھے، لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے سبقت نہ کیا کرو۔“ ( اصابہ، تذکرہٴ بلال رضی الله عنہ بحوالہ بخاری)

ایمان کو تمام اعمال حسنہ کی بنیاد سمجھتے تھے، ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ سب سے بہتر عمل کیا ہے؟ بولے ” خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، پھر جہاد، پھر حج مبردر“۔ ( بخاری:2/1124)

حلیہ

حلیہ یہ تھا، قد نہایت طویل، جسم لاغر،رنگ نہایت گندم گوں، بلکہ مائل بہ سیاہی، سر کے بال گھنے، خمدار او راکثر سفید تھے۔(طبقات ابن سعد، قسم اول، جز ثالث،ص:170)

ازواج

حضرت بلال رضی الله عنہ نے متعدد شادیاں کیں، ان کی بعض بیویاں عرب کے نہایت شریف ومعزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں، ابوبکر رضی الله عنہ کی صاحب زادی سے خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کرا دیا تھا، بنی زہرہ او رحضرت ابو الدردا رضی الله عنہ کے خاندان میں بھی رشتہ مصاہرت قائم ہوا تھا، لیکن کسی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔(طبقات ابن سعد، قسم اول، جز ثالث،ص:169) 

بہشت کے باسی سے متعلق