امت میں سب سے زیادہ رحم دل ہونے کے باوجود دین کے خلاف ایک لفظ سننا گوارا نہیں کرتے تھے
امام الصحابہ ،تاج دار ِ قصر ِ صداقت،مزاج شناس ِرسول،خلیفہ اول، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت ِ صحابہ میں سب سے زیادہ رحم دل قرار دیا ،جس طرح خلافت، امامت ،قبول ِ اسلام اور انفاق فی سبیل اللہ میں آپ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے نمبر تھے، اسی طرح نرم دلی میں بھی آپ رضی اللہ عنہ مقام ِ اولیت پر فائز تھے، اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ عنہ کے قلب ِ مبارک میں اتنی نرمی بھر دی تھی کہ آخرت،قبر، حشر اور جہنم کا ذکر سنتے ہی آب دیدہ ہو جاتے اورچہرے کا رنگ بدل جاتا ،ایک مرتبہ ایک جنگل میں تشریف لے گئے ،وہاں ایک درخت کے نیچے ایک جانور کو چرتے ہوئے دیکھا تو بڑی حسرت سے فرمایا”توکتنا خوش نصیب ہے کہ بے فکری سے کھاتا اور پیتا ہے اور آخرت میں تجھ پر کوئی حساب نہیں“۔اسی رحم دلی کا اثر تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ سے کسی کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی،اگر کسی کے متعلق معلوم ہوتا کہ وہ مشکل میں ہے تو اپنی ہمت اور بساط کے مطابق اس کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کرتے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو امیہ بن خلف کی قید میں ایمان لانے کی پاداش میںآ گ کے انگاروں پر لیٹے ہوئے دیکھا تو ضبط نہ کر سکے اور خرید کرآزاد کر دیا،ان کے علاوہ بھی بہت سے غلام خرید کر آزاد کیے،کسی بوڑھی یا بیوہ عورت کی کوئی دیکھ بال کرنے والا نہ ہوتا تو اس کی ضروریات پورا کرنے اور اس کی خدمت کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتے ،اسی طرح اور بھی بہت سے امور ِ خیر میں حصہ لینے کو اپنی سعادت سمجھتے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مبارک سوانح کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نرم دلی محض اپنی ذاتی اور نجی زندگی کے معاملات میں تھی،دینی امور میں آپ رضی اللہ عنہ کسی سے کوئی رعایت نہیں برتتے تھے،جب اللہ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی حکم ِشریعت پر کوئی شخص انگلی اٹھاتا تو آپ رضی اللہ عنہ کی ایمانی غیرت جوش میں آجاتی،جذبہ انتقام بھڑک اٹھتا اور خاندانی تعلق ،دیرینہ مراسم اور تمام ترقریبی رشتوں سے بالاتر ہو کر اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے کہ اسے دوبارہ ایسی بات کرنے کی جرات نہ ہوتی ،حیات ِ صدیقی میں ایسے بہت سے ایمان افروز واقعات ملتے ہیں،چند ایک نذر ِ قارئین ہیں۔
اسلام کی سب سے پہلی جنگ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو جہاں ایک طرف افرادی اور مالی کمی کی آزمائش سے واسطہ پڑا ،وہیں دوسری طرف ایک یہ بھی امتحان تھا کہ مقابلے میں اپنے ہی رشتہ دار مسلح ہو کر کھڑے تھے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے پنے ہی ماموں مارے گئے،میدان ِ بدر میں ایسے عجیب مناظر بھی دیکھنے کو ملے کہ باپ بیٹا ایک دوسرے پر تلوار سونتے کھڑے تھے،یہی معاملہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے ساتھ پیش آیا،قبول ِ اسلام کے بعد ایک مرتبہ باپ بیٹا ماضی کی یادیں تازہ کر رہے تھے کہ بدر کی لڑائی کا ذکر چھڑ گیا،حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا : ابا جان ! آپ بدر کی لڑائی میں میری تلوار کی زد میں آگئے تھے اور مجھے آپ کے قتل پر پوری قدرت حاصل ہو گئی تھی، لیکن باپ کے رشتے کے لحاظ نے مجھے تلوار نیچے کرنے پر مجبور کردیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جواب دیا:اللہ کی قسم! اگر تم میری تلوار کی دھار کے نیچے آجاتے تو میں بیٹے کے رشتے کا قطعاََ لحاظ نہ کرتا اور اپنی تلوار تیرے خون سے رنگین کر دیتا۔
امام ِ قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ قبول ِ اسلام سے پہلے ایک مرتبہ ان کے سامنے ان کے بوڑھے والد ابوقحافہ نے دوران ِ گفت گو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی نازیبا لفظ بول دیا،اس کا سننا تھا کہ آتش ِ غضب سے بھڑک اٹھے اور ایک زوردار تھپڑ ان کے چہرے پر رسید کیا،والد کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ رویہ قابل ِ ملامت ہونے سے زیادہ قابل ِ تعجب تھا، کیوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے باادب، ہونہار،خدمت گزار اور لائق و فائق بیٹے کی طرف سے انہیں قطعاََ ایسے سخت رد ِ عمل کی امید نہیں تھی،جب بارگاہ ِ رسالت میں والد شکایت لے کر پہنچے اور بیٹے کی طلبی ہوئی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :ابوبکر! تمہارے والد سچ کہہ رہے ہیں؟عرض کیا :جی حضور! سچ کہہ رہے ہیں،میں نے اپنے والد کو تھپڑ مارا ہے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا:کیوں مارا؟عرض کیا: حضور! تلوار پاس نہیں تھی،پوچھا: کیا مطلب؟ عرض کیا: آقا!اگراس وقت میرے پاس تلوار ہوتی میں ان کا سر قلم کر دیتا۔سوال فرمایا: کیوں ؟عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ذات کے حوالے سے یہ مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں تو ان کی نوک جھوک کو میں خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہوں اور کوئی جواب نہیں دیتا،لیکن آج انہوں نے آپ کی شان ِ اقدس کے بارے میں نامناسب کلمات کہے تو مجھ سے ضبط نہ ہو سکا اور میں نے ان کے چہرے پر تھپڑ رسید کر دیا،آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں صرف اتنی بات ارشاد فرمائی: اے ابوبکر! آئندہ ایسا مت کرنا۔
تقریباََ تمام کتب ِ تفسیر میں یہ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کسی کام کے سلسلہ میں مدینہ طیبہ کی اس آبادی میں گئے جہاں یہودیوں کے قبیلے آباد تھے ، ایہ ان دنوں کی بات ہے جب اللہ تعالی نے زکوة کا حکم نازل فرمایا تھاآپ رضی اللہ عنہ ایک جگہ سے گزرے تو وہاں یہودیوں کامجمع لگا ہوا تھا جس میں ایک یہودی عالم وعظ کہہ رہا تھا،اس نے اپنی تقریر میں زکوة کے حکم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ العیاذ باللہ! اللہ تعالی فقیر ہو گئے ہیں، اس لیے لوگوں سے مال مانگنے لگ گئے ہیں ،یہ سنتے ہیں آپ ان کی جلسہ گاہ کے اند ر چلے گئے اور لوگوں کو چیرتے ہوئے اس یہودی مبلغ تک پہنچ گئے،جاتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر اس کے چہرے پر تھپڑ جڑ دیا اور واپس آگئے،یہودی ایک وفد کی شکل میں بارگاہ ِرسالت میں شکایت لے کر حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو طلب فرماکر تھپڑ مارنے کی وجہ پوچھی، انہوں نے عرض کیا! یا رسول اللہ !اس نے اللہ تعالی کو فقیر کہا تھا، اس لیے میں نے اس کو تھپڑ مارا،یہودی اپنی بات سے مکر گیا ،آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گواہ طلب لیے،عرض کیا: میرے پاس تو کوئی گواہ نہیں ،اس پر وہ یہودی بہت خوش ہوئے کہ اب فیصلہ ہمارے حق میں ہو گا،ابھی یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ خود اللہ تعالیٰ نے عرش سے گواہی دے دی اور قرآن کریم کی یہ آیت نازل فرمائی۔ترجمہ”تحقیق اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم مال دار ہیں“ (آل عمران: 181)۔حسن ِ اتفاق ہے اور خاندان ِ صدیق کی شان وشوکت کا یہ مظہر ہے کہ جب صدیق ِ اکبر رضی اللہ عنہ کی بیٹی پر تہمت لگی تو بھی قرآن کی آیتوں نے گواہی دی اور جب خود صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر الزام آیا تب بھی قرآن کے حسیں نقوش رہتی دنیا تک ان کی سچائی پر مہر ِ تصدیق بن گئے۔”رضی اللہ عنہ وارضاہ“․