حسن اخلاق کی اہمیت

idara letterhead universal2c

حسن اخلاق کی اہمیت

مولانا محمد عبید اللہ قاسمی بہرائچی

انسانی زندگی میں حسن اخلاق کو جو اہمیت وعظمت حاصل ہے وہ کسی سے پو شیدہ نہیں، ہر مذہب اور ہر دھرم کے لوگ ؛ بلکہ دنیا میں بسنے والا ہر انسان اچھے اخلاق و کردار اور اچھے برتاؤ کا قائل ہے اور یقینا کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہو سکتا ؛ کیوں کہ اخلاقی خوبیوں کو حاصل کرنا فطرت انسانی کااہم تقاضا ہے ؛ بلکہ بنیادی ضروریات میں سے ہے، اس کے بغیر انسان میں انسانیت اور حسن وخوبی نہیں آتی، یہی وہ عظیم اور قابل قدر جوہر ہے جس کے ذریعہ معاشرے میں آپسی بھائی چارہ، اتحاد واتفاق، پیار و محبت، عفو و در گزر، رفق و نرمی اور توافق وہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے اور اسی طاقت کے ذریعہ آپسی اختلاف وانتشار، باہمی چپقلش ورنجش، نفرت وبُعد، بڑی سے بڑی عداوت ودشمنی، بغض و کینہ اور ہر طرح کے تضادات دور کیے جا سکتے ہیں،حسن اخلاق در حقیقت انسان کا زیوراور اس کا حسن وخوب صورتی ہے، اسی کے ذریعہ اجتماعی وانفرادی زندگیوں میں توازن اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کے دلوں پر فتح حاصل کی جاتی ہے ؛ جب کہ بد خلقی اور بدسلوکی سے تمام برائیاں :نفرت وعداوت، اختلاف وانتشار ،باہمی چپقلش و رنجش وغیرہ جنم لیتی ہیں اور اخلاق سے عاری ہو جانے کے بعد انسان لوگوں کی نظر میں عیب دار ہوجاتا ہے، اس کے پاس کوئی قابل قدر شے اور کوئی ایسی امتیازی صفت باقی نہیں رہتی جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرے۔ گویا حسن اخلاق اور حسن سلوک انسانی زندگی کا قیمتی سرمایہ اور عظیم اثاثہ ہے۔

حسن اخلاق کے معنی اور اس کی حقیقت

آج کل لوگوں نے حسن اخلاق کے مفہوم کو بہت محدود اور خاص کر دیا ہے اور وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ حسن اخلاق کا مطلب صرف لوگوں سے خندہ پیشانی اور بشاشت کے ساتھ ملنا، مہربانی اور شفقت کا معاملہ کرنا، مسکرا کر بات کر لینااور ہم دردی کے الفاظ کہہ دیناہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اپنے اندر پوری انسانی زندگی کو سمیٹے ہوئے ہے، وہ صرف مذکورہ چیزوں ہی کو شامل نہیں ہے ؛ بلکہ اس کے بہت سے شعبے ہیں : شیریں و میٹھے بول، عفو و درگزر،رفق و نرمی،شفقت و مہربانی، انس و محبت، اکرام و اعزاز، حلم و بردباری، حیا و شرم، وسعت ظرفی و سخاوت، صلہ رحمی و حاجت روائی، تعاون و امداد، صبر و شکر، متانت و سنجیدگی، عدل وانصاف، امانت و دیانت، ماں باپ، بھائی بہن، عزیز و اقارب، بیوی بچے، یتیموں مسکینوں، پڑوسی، مسلمان اور غیر مسلم حتی کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک و حسن معاملہ وغیرہ، یہ تمام حسن اخلاق کے شعبے ہیں جن کی شریعت مطہرہ میں تعلیم دی گئی ہے اور ان تمام شعبوں میں اچھا رویہ اختیار کرنے والا ہی اچھے اخلاق کا حامل اور اس عظیم صفت سے متصف کہلانے کا مستحق ہوگا ۔حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اخلاق کے مفہوم میں وسعت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

آج کل عرفِ عام میں اخلاق کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آئے، مسکراکر اس سے ملے اور نرمی سے بات کر لے، ہم دردی کے الفاظ اس سے کہہ دے، بس اسی کو اخلاق سمجھا جاتا ہے ۔ خوب سمجھ لیجیے کہ شریعت کی نظر میں اخلاق کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے، اس مفہوم میں بے شک یہ باتیں بھی داخل ہیں کہ جب انسان دوسرے سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے، اظہار محبت کرے اور اس کے چہرے پر ملاقات کے وقت بشاشت ہو، نرمی کے ساتھ گفتگو کرے ؛ لیکن اخلاق صرف اس طرز عمل میں منحصر نہیں ہے ؛ بلکہ اخلاق در حقیقت دل کی کیفیات کا نام ہے، دل میں جو جذبات اٹھتے ہیں اور جو خواہشات دل میں پیدا ہوتی ہیں، ان کا نام اخلاق ہے ۔ پھر اچھے اخلاق کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے جذبات میں اچھی اور خوش گوار باتیں پیدا ہوتی ہوں اور برے اخلاق کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل میں خراب جذبات اور غلط خواہشات پیدا ہوتی ہوں ۔ (اصلاحی خطبات:15/85)

حسن اخلاق قرآن کی روشنی میں

حسن اخلاق کی قدر وقیمت اس وقت مزید دو چندہو جاتی ہے جب ہم اسے اسلام اور شریعت کی نظرسے دیکھتے ہیں؛ کیوں کہ قرآن وسنت میں اس کی بڑی اہمیت وارد ہوئی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:﴿وإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾(القلم:4)ترجمہ :اور بے شک آپ( صلی الله علیہ وسلم ) اخلاق(حسنہ)کے اعلی پیمانے پر ہیں ۔ ( بیان القرآن)اس آیت میں اللہ رب العزت نے دین اسلام، شریعت مطہرہ اور قرآنی تعلیمات کو خلق عظیم فرمایا ہے، گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی ایک ایک آیت کا عملی نمونہ ہیں ۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ خلق سے مراد دین عظیم ہے کہ اللہ کے نزدیک دین اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا خلق خود قرآن ہے۔ یعنی قرآن کریم جن اعلی اعمال واخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم ان سب کا عملی نمونہ ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایاکہ خلق عظیم سے مراد آداب القرآن ہیں۔ یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں۔ حاصل سب کا تقریباً ایک ہی ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں حق تعالی نے تمام ہی اخلاق فاضلہ بدرجہ کمال جمع فرما دیے تھے۔ ( معارف القرآن:8/532، مکتبہ معارف القرآن ،کراچی)

اسی طرح جب صحابہ رضی اللہ عنہم سے غزوئہ احد میں مقررہ اور متعینہ جگہ چھوڑنے کی جو خطا اور لغزش صادر ہوئی، جس کی وجہ سے جنگ کی فتح شکست سے بدل گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی اور جسمانی تکلیف بھی پہنچی اور غم اور صدمہ بھی لاحق ہوا، اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ پر اپنے طبعی اخلاق وعادات اور عفوو کرم کی بنیاد پر کوئی ملامت اور سختی نہیں کی، آپ صلی الله علیہ وسلم کی اسی شان کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا :﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ اْلقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ﴾(آل عمران:159) ترجمہ:بعد اس کے خدا ہی کی رحمت کے سبب آپ ان کے ساتھ نرم رہے اور اگر آپ سخت زبان، سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے سب منتشر ہو جاتے، سو ان کو معاف کر دیجیے، آپ ان کے لیے استغفار کیجیے اور ان سے خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے (تاکہ اس سے اور دونا ان کا جی خوش ہو جائے)۔(بیان القرآن)آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس حسن اخلاق، عفو ودرگزر اور نرم طبیعت ہونے کی وجہ سے صحابہ کو آپ صلی الله علیہ وسلم سے اور زیادہ محبت اور انسیت ہو گئی۔

اللہ تعالی حضور صلی الله علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ﴾ (الأعراف:199) ترجمہ:اے محمد( صلی الله علیہ وسلم )!آپ معافی کو اختیار کیجیے، بھلی باتوں کا حکم کیجیے اور جاہلوں سے منھ پھیرلیجیے!

اللہ تعالی فرماتے ہیں:﴿فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ إنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ (المائدة:13) ترجمہ:تو آپ ( صلی الله علیہ وسلم) ان کو معاف کیجیے اور درگزر سے کام لیجیے۔بے شک اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا أَلاَ تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ﴾(النور:21) ترجمہ:اور چاہیے کہ لوگ معاف کریں اور درگزر سے کام لیں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھاری مغفرت فرمائے؟!

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَاصْبِرْعَلیٰ مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُوْرِ﴾(لقمان:17)ترجمہ:اور برداشت کیجیے ان (تکلیفوں) کو جو آپ کو پیش آئیں ۔ بے شکیہ ہمت کے کاموں میں سے ہے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ الْنَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمِحْسِنِیْنَ﴾ (آل عمران:134) ترجمہ:اور غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے اور اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
مذکورہ بالا آیات اور اس طرح کی دیگر آیات میں اللہ تعالی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو عفو و درگزر کرنے کا حکم فرمایا ہے، صابرین اور کاظمینِ غیض کی تعریف فرمائی ہے اور اسے ہمت کے کاموں میں سے بتایا ہے اور یہ سب حسنِ اخلاق کے مختلف شعبے ہیں ۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کے محاسن اخلاق

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اخلاق حسنہ، حسن معاشرت، عمدہ طرز زندگی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے برتاو اور حسن سلوک کا عمدہ نمونہ اور عملی پیکر ہے، حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کی تعلیم، ترویج واشاعت اوراس کی دعوت وتبلیغ کو اپنی بعثت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا:”بُعِثْتُ ِلأُتَمِّمَ حُسْنَ الأخْلَاق․“ (الموطا للإمام مالک، ص:705)یعنی میری بعثت ہی اس لیے ہوئی ہے کہ میں حیاتِ انسانی میں اخلاقِ حسنہ کے فضائل کی تکمیل کروں اوراسے کمال اور عروج پر پہنچاؤں؛ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کو اخلاقِ فاضلانہ و کریمانہ سے متصف اور مزین کرنے کے لیے عملی نمونہ بھی پیش کیا اور مختلف مواقع پر قولی تعلیم بھی دی ۔

امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف احیاء العلوم میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے بہت سارے محاسن اخلاق کو بڑے ہی عمدہ انداز میں بیان کیا ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ بردبار، سب سے زیادہ بہادر، سب سے زیادہ انصاف پسند، سب سے زیادہ پاک دامن اور سب سے زیادہ سخی تھے؛ یہاں تک کہ کوئی رات ایسی نہیں آتی جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کوئی درہم دینار بچتا ہو(رات آنے سے ہی پہلے سب خرچ کر ڈالتے تھے )اور اگر کبھی کچھ درہم یا دینار بچ جاتا اور اسی حالت میں رات آ جاتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس وقت تک گھر تشریف نہ لے جاتے جب تک اسے کسی ضرورت مند کو دے کر فارغ نہ ہو جاتے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اتنے با حیا تھے کہ اپنی نظریں کسی چہرے پر نہیں جماتے تھے، خود ہی اپنا نعل مبارک سی لیتے، کپڑوں میں پیوند خود ہی لگا لیا کرتے، گھریلو کام کاج میں بیویوں کا تعاون فرماتے، غلام اور آزاد سب کی دعوت قبول فرماتے، ہدیہ قبول فرماتے، خواہ دودھ کا ایک گھونٹ ہو یا خرگوش کی ران ہی کیوں نہ ہو، باندیوں اور مسکینوں کی حاجت روائی میں تکبر نہیں فرماتے، ولیمہ کی دعوت قبول فرماتے، بیماروں کی عیادت کرتے، جنازوں میں تشریف لے جاتے، فقراء کے ساتھ بیٹھتے، مسکینوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے، مزاح فرماتے ؛ لیکن سچ بولتے، ہنستے؛ لیکن قہقہہ نہ لگاتے، با اخلاق لوگوں کی عزت کرتے، کسی پر ظلم نہ کرتے، معذرت خواہ کا عذر قبول فرماتے، کسی کو حقیر نہ جانتے اور نہ ہی کسی پر برتری اختیار فرماتے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلمکی ذات اقدس میں تمام محاسن اور خوبیان جمع کر دی تھیں۔(المستفاد:احیاء العلوم:4/711، ط:دارالمنہاج السعودیة، جدة)

حسن اخلاق احادیث کی روشنی میں

حضور صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک حسن اخلاق کی اتنی اہمیت تھی کہ اپنے لیے حسن اخلاق کی دعائیں کیا کرتے تھے:”اللّٰہمّ أحسنت خلقی، فأحسن خلقی“․(رواہ احمدفی المسند:1/403) ترجمہ:اے اللہ! تو نے میری بناوٹ کو سنواراہے، تو میرے اخلاق بھی سنوار دے اور بدخلقی سے بچنے کی بھی توفیق مانگتے تھے اور یہ دعا کرتے۔” اللّٰہم إنی أعوذُ بِکَ مِنْ مُنْکَراتِ الأخلاقِ والأعمالِ والأہواء“․ (رواہ الترمذی، رقم الحدیث:6029)ترجمہ:اے اللہ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں برے اخلاق، برے اعمال اور بری خواہشات سے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں بھی حسن اخلاق کی اہمیت وفضیلت کو امت کی تعلیم کے لیے بیان فرمایا ہے؛ چناں چہ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”إنَّ مِنْ أَخْیَرِکُمْ أَحْسَنَکم خُلْقًا․“(رواہ البخاری، رقم:6029) ترجمہ:تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم سب میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے قریب وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں گے۔(ترمذی، رقم:4798)

ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:” إنّ المؤمنَ لَیُدْرِکُ بِحُسنِ خُلقہ درجةَ الصائمِ القائم“․(رواہ أبوداؤد، باب فی حسن الخلق، رقم:4798)ترجمہ:مؤمن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزہ رکھنے والے اور رات بھر عبادت کرنے والے کے درجہ کو حاصل کر لیتاہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غیروں کے ساتھ برتاؤ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنوں سے تو پیار و محبت اور شفقت و ہم دردی کے ساتھ ملتے ہی تھے، جس کی بے شمار مثالیں ہیں، غیر بھی آپ کے رحم وکرم، عفو و درگزر اور خوش خلقی سے محروم نہ رہے ۔اس کی ایک عظیم مثال فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم کا کفار مکہ کے لیے عام معافی کا اعلان کرنا ہے ؛ چناں چہ فتح مکہ کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ انداز میں شان وشوکت کے ساتھ داخل ہوئے، تو کفار و مشرکین، جنھوں نے ہر قدم پر آپ کو اور آپ کے صحابہ کو تکلیفیں پہنچائی تھیں، جو آپ کے جانی دشمن تھے، آپ کے قتل کی تدبیریں اور سازشیں کرتے تھے اورجنھوں نے اسلام دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، وہ سہمے ہوئے تھے، انھیں سزائے موت کا یقین تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی یہی خیال کر رکھا تھا الیوم یوم الملحمة آج بدلے کا دن ہے، آج جوشِ انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے ؛ لیکن تاریخ نے دیکھا اور اسے نوٹ کیا کہ رحمت دو جہاں کے پیکر اور محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلمکی شفقت نبوی جوش میں آئی اور زبان رسالت سے یہ اعلان کر دیا:”لا تثریب علیکم الیوم، واذہبوا فأنتم الطلقاء“کہ جاؤ! آج تم سب آزاد ہو،تمہیں معاف کر دیا گیا، تم پر کوئی جرم نہیں ہے اور تم سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائے گا ۔یہ تھا آپ صلی اللہ علی وسلم کا جانی دشمنوں کے ساتھ برتاؤ اور حسن سلوک، جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا عاجزہے ۔اور اس سلوک اور برتاؤ کی وجہ سے فتح مکہ کے موقع پر بکثرت لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔سلام اس پر کہ جس نے دشمنوں کو معاف فرمایا۔

سفر طائف میں لوگوں کا برتاؤ اور حضور صلی الله علیہ وسلم کا طرز عمل

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کے لیے طائف کا سفر کیا اور وہاں کے سرداروں کو توحید کی دعوت دی تو وہ لوگ بڑی بے رخی اور ذلت کے ساتھ پیش آئے، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اور لوگوں سے بھی گفت گوفرمائی ؛ لیکن انھوں نے بجائے قبول کرنے کے یہ کہا کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ اور اسی پر بس نہیں کیا ؛ بلکہ انھوں نے شہر کے اوباش لڑکوں کو پیچھے لگادیا کہ وہ آپ کا مذاق اڑائیں، تالیاں بجائیں اور پتھر ماریں، حتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دونوں جوتے خون کے جاری ہونے سے رنگین ہو گئے، ان سب کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غلط نہیں ٹھہرایا، ان کو برا بھلا نہیں کہا؛ حتی کہ جب پہاڑوں کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور سلام کے بعد عرض کیا :اگر ارشاد ہو تو دونوں جانب کے پہاڑوں کو ملا دوں جس سے یہ سب درمیان میں کچل جائیں یا جو سزا آپ تجویز فرمائیں ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لیے عقاب اور سزا تجویز نہیں کی ؛ بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ مسلمان نہیں ہوئے، تو ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوں، جو اللہ کی عبادت کریں“۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریاکاندھلویفضائل اعمال میں سفر طائف کا قصہ نقل کرنے کے بعد فائدہ کے تحت لکھتے ہیں:

یہ ہیں اخلاق اس کریم ذات کے جس کے ہم لوگ نام لیوا ہیں کہ ہم ذرا سی تکلیف سے، کسی کے معمولی سی گالی دے دینے سے ایسے بھڑک جاتے ہیں کہ پھر عمر بھر اس کا بدلہ نہیں اترتا، ظلم پر ظلم اس پر کرتے رہتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں اپنے محمدی ہونے کا، نبی کے پیرو بننے کا، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اتنی سخت تکلیف اور مشقت اٹھانے کے باوجود نہ بددعا فرماتے ہیں، نہ کوئی بدلہ لیتے ہیں۔(فضائل اعمال:1/23)

ایک بدزبان یہودی کا واقعہ

زید بن سعنہ یہودی سے کسی موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے قرض لیا تھا، وہ یہودی وقت مقررہ سے تین دن پہلے ہی قرض کا تقاضا کرنے لگا اور بڑے گستاخانہ انداز میں شانہ مبارک سے چادر کھینچتے ہوئے بدزبانی شروع کردی اور کہنے لگا تم بنی عبد المطلب بڑے وعدہ خلاف ہو۔ اس کی بدکلامی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہیں موجود تھے، ان سے برداشت نہیں ہوا، انھوں نے جھڑک کر اسے روکنا چاہا، تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے انھیں روک کرفرمایا:اے عمر!تم نے ہم دونوں سے وہ طرز عمل نہیں اختیار کیا جو ہونا چاہیے تھا، مناسب یہ تھا کہ تم اسے جھڑکنے کے بجائے مجھے ادائے قرض اور وعدہ پورا کرنے کی تلقین کرتے اوراسے حسن طلب اور نرمی سے تقاضا کرنے کی ہدایت کرتے، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ یہودی کا قرض ادا کریں اور اسے مزید بیس صاع جو دیں۔

اس طرز عمل اور عفو و درگزر کو دیکھ کر یہودی بہت متاثر ہوا اورمسلمان ہو گیا ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ یہودی کہا کرتا تھا کہ نبی آخر الزماں میں مجھے ساری نشانیاں معلوم تھیں ؛ لیکن دو باتوں کو میں نے آزمایا نہیں تھا : ایک یہ کہ آپ کا حلم آپ کے غصہ سے زیادہ ہے، دوسرے یہ کہ ان پر جتنی سختی کی جائے اتنی ہی نرمی اور مہربانی بڑھتی چلی جاتی ہے، ان دو علامتوں کو بھی میں نے دیکھ لیا، اب آپ کی رسالت پر مجھے کوئی شک نہیں۔ (مستفاد: المہذب :4/2178)

عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ

سیرت ابن ہشام میں پورا قصہ ابن اسحاقکے حوالے سے مذکور ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ مذہب عیسائیت کے پیروکار تھے،اپنے قبیلہ کے سردار تھے اور قبیلہ بنی طے سے ایک چوتھائی مال غنیمت وصول کرکے گزر بسر کرتے تھے ۔ان کا بیان ہے کہ جب کسی نے مجھے محمد بن عبد اللہ (حضورصلی الله علیہ وسلم)کے بارے میں بتایا، تو ان کا نام سنتے ہی مجھے شدید نفرت محسوس ہوئی اور جب ان کی فوجیں مدینہ کے اردگرد علاقوں میں نکلنے لگیں، تو مجھے فکر ہونے لگی اور میں نے اپنے ایک عربی غلام سے کہا :تیرا بھلا ہو !میرے لیے موٹے تازے تیز رفتار ا ونٹوں کا ایک گلہ تیار رکھنا، جوں ہی محمد (صلی الله علیہ وسلم) کے لشکروں کی خبر پہنچے، مجھے مطلع کردینا۔ ایک دن وہ دوڑتا بھاگتا ہوا میرے پاس آیا اور کہا:محمد( صلی الله علیہ وسلم) کے لشکر آگئے ہیں، یہ سنتے ہی میں اہل و عیال کو اونٹ پر بٹھا کر اور ضروری ساز و سامان لے کر ملک شام کی جانب اس خیال سے چل دیا کہ وہ میرے ہم مذہب ہیں اور اس بھگدڑ میں میری بہن سفانہ پیچھے رہ گئی، جو روانگی کے وقت کسی ضروری کام سے کہیں گئی ہوئی تھی۔

اسلامی فوج بنوطے کو شکست دے کر بہت سی عورتوں اور بچوں کو قید کرکے مدینہ لے گئی، ان قیدیوں میں میری بہن سفانہ بنت حاتم بھی تھی اور ان سب کو مسجد کے قریب احاطہ میں رکھا گیا ۔ ایک دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وہاں سے گزرے، تو وہ کھڑی ہوگئی اور کہا:”یا رسول اللّٰہ!لھلک الوالد، وغاب الوافد، فامنن علیّ، منّ اللّٰہ علیک“ یعنی یا رسول اللہ ! میرا باپ فوت ہو گیا اور سرپرست بچھڑ گیا، آپ مجھ پر احسان فرمائیں، اللہ آپ پر احسان فرمائیں گے ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا تمہارا سرپرست کون ہے؟ انھوں نے جواب دیا:عدی بن حاتم ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا :کیا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے دور بھاگتا ہے ؟ یہ کہہ کر آپ صلی الله علیہ وسلم چلے گئے،دوسرے دن جب آپ صلی الله علیہ وسلم کا قیدیوں کے پاس سے گزر ہوا، تو مذکورہ سوال و جواب ہوئے اور تیسرے دن جب سفانہ بنت حاتم نے درخواست دہرائی تو حضورصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے تم پر احسان کیا اور تم سب کو آزادی دے دی ہے، جاتے وقت انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے جوڑا عنایت فرمایا، سواری اور سفر خرچ وغیرہ دے کر اعزاز واکرام کے ساتھ رخصت کیا ۔

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اپنی بہن کے حوالے سے بہت پریشان تھا اور اسی فکر میں رہتا تھا، ایک دن وہ شام کے قافلے کے ساتھ میرے پاس ملک شام آپہنچی اور پہنچتے ہی مجھے کوسنا شروع کردیا کہ قطع رحمی کرنے والے ظالم !تو نے اپنے بال بچوں کے ساتھ راہ فرار اختیار کر لی اور اپنے باپ کی بیٹی اور اس کی عزت کو چھوڑ آیا ۔ معافی تلافی کے بعد میں نے اس سے پوچھا: تم نے اس شخص (محمدصلی الله علیہ وسلم ) کو کیسا پایا اور اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس نے جواب دیا میری رائے یہ ہے کہ تم فوراً اس کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ۔ اگر یہ شخص اللہ کا نبی ہے، تو اس کی جانب جلدی جانا باعث فضیلت ہے اور اگر وہ بادشاہ ہے، تو لوگوں کی قدر کرنا جانتا ہے، اس کے یہاں عزت والوں کو ذلیل نہیں کیا جاتا اور تمھارا مقام و مرتبہ ہرایک جانتا ہے ۔

میں نے اس کی رائے پر مدینہ کا رخ کیا ۔ مدینہ پہنچا تو حضور صلی الله علیہ وسلممسجد میں تشریف فرما تھے، میں نے سلام کیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے پوچھا :کون؟ میں نے کہا :عدی بن حاتم طائی ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے میرا پرجوش استقبال کیا اور مجھے اپنے گھر لے گئے، راستے میں ایک کم زور بوڑھی عورت نے انھیں روک لیا، آپ صلی الله علیہ وسلم دیر تک اس کی باتیں سنتے رہے اور وہ اپنی مشکلات اور ضروریات بیان کرتی رہی۔ میں نے اپنے دل میں کہا:خدا کی قسم! یہ بادشاہ تو نہیں ہیں ۔پھر گھر پہنچ کر آپصلی الله علیہ وسلمنے کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا چمڑے کا گدا میری طرف بڑھایا اور فرمایا :اس کے اوپر بیٹھ جاؤ، میں نے کہا:نہیں، آپ اس پر تشریف رکھیں ؛ مگر آپ نے حکم دیا :تم اس پر بیٹھو ۔میں گدے پر بیٹھ گیا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم زمین پر تشریف فرما ہوئے۔اب میں نے پھر دل میں کہا :خدا کی قسم! یہ تو بادشاہوں والا معاملہ نہیں ہے ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :اے عدی!کیا تو رکوسی (ایک مذہبی گروہ)فرقہ سے تعلق نہیں رکھتا ؟میں کہا :جی ہاں!میں رکوسی ہوں۔آپ صلی الله علیہ وسلم کا دوسرا سوال تھا :کیا تم اپنی قوم سے مال غنیمت کا چوتھا حصہ وصول نہیں کرتے تھے ؟ میں نے جواب دیا:جی ہاں ۔ آپصلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:یہ وصولیتمہارے دین کے مطابق حلال نہ تھی ؟ میں نے کہا:جی!آپ کا فرمان درست ہے ۔اب میں بخوبی جان گیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ؛کیوں کہ جو باتیں عربوں کو بالکل معلوم نہیں تھیں، آپ ان سے واقف ہیں ۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا کہ اے عدی!شاید دین اسلام میں داخل ہونے سے یہ امر مانع ہے کہ مسلمانوں کی مالی حالت بہت کم زو ر ہے ؟ خدا کی قسم! مال و دولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ دینے والے سبھی ہوں گے اور لینے والا کوئی نہ ہوگا اور شایدیہ بات بھی مانع ہو کہ یہ لوگ تعداد میں بہت کم ہیں اور پوری دنیا ان کی دشمن ہے ؟ خدا کی قسم! دین کا غلبہ اس طرح ہوگا کہ تو سنے گا اور دیکھے گا کہ ایک خاتون زیورات سے لدی تن تنہا اپنے اونٹ پر سوار ہو کر قادسیہ سے سوار ہوگی اور حج بیت اللہ کے لیے مکہ کا سفر کرے گی اور اسے کوئی خطرہ نہ ہوگا ۔ اے عدی !ممکن ہے کہ تو نے سوچا ہو دنیا میں بہت سے بادشاہ اور سلاطین ہیں اور ان لوگوں میں کوئی تاج دار نہیں ہے ۔ بخدا توسن لے گا کہ بابل کے سفید محلات ان لوگوں کے ہاتھوں فتح ہو جائیں گے، قیصر و کسری ہلاکت سے دوچار ہوں گے اور کوئی کسری پھر اس تخت پر نہ بیٹھے گا۔
عدی کہتے ہیں یہ سن کر میں نے اسلام قبول کر لیا اور وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے دو باتیں دیکھ لی ہیں: بابل کے محلات بھی فتح ہو چکے ہیں اور قادسیہ سے تنہا سفر کرنے والی عورت بھی میں نے دیکھی ہے، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تیسری بات بھی ضرور پوری ہوگی اور صدقہ وخیرات لینے والا کوئی نہ ہوگا ۔ (مستفاد:سیرت ابن ہشام، قدوم عدی بن ابی حاتم،:4/220،ط:دارالکتاب العربی )

اس پورے واقعہ پر نظر ڈالیں تو اس میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے حسن اخلاق کی حسین اور خوب صورت تصویر موجود ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عدی رضی اللہ عنہ کی بہن کے ساتھ کیسا اچھا برتاؤ کیا کہ انھیں صرف آزاد ہی نہیں کیا ؛ بلکہ اعزاز و اکرام کے ساتھ جوڑا عنایت فرماکر اور سواری اور سفر خرچ کا انتظام کرکے رخصت کیا ۔پھر حضرت عدی رضی اللہ عنہ کی آمد پر ان کا پرجوش استقبال کیا اورصرف اتنا ہی نہیں؛ بلکہ انھیں اپنے گھر لے گئے اور خود زمین پر بیٹھ کر انھیں گدے پر بٹھایا ۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے انہیں اخلاق اور برتاؤ سے متاثر ہو کر انھوں نے اسلام کا دامن تھاما۔

غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر طرح کے افراد کے ساتھ حضور صلی الله علیہ وسلم کے حسنِ اخلاق اور عمدہ حسنِ معاشرت کی مثالیں بھری پڑی ہیں؛ حتی کہ بے زبان جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی اچھے سلوک کی تعلیم دی ہے اورمختلف قسم کی احادیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کوبھی اسی کی تعلیم دی ہے؛چناں چہ اسی تعلیم کی بدولت اور مسلمانوں کے عمدہ اخلاق اور حسن معاشرت کو دیکھ کر بے شمار لوگ دامن اسلام میں داخل ہوئے اور حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور یہ ایک بدیہی اور واضح حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں اسلام کی نشر واشاعت میں اچھے اخلاق کا بڑا اہم رول ہے؛ لیکن بدقسمتی سے آج مسلمانوں کے اندر سے یہ صفت بالکل معدوم سی ہو گئی ہے۔ تاجر ہو یا کاشت کار، ڈاکٹر ہو یا انجینئر، استاد ہو یا شاگرد، ملازم ہو یا نوکر،مزدور ہو یا مستری اور مرد ہو یا عورت… سبھی کسی نہ کسی درجہ میں بداخلاقی کا شکار ہیں ؛ جب کہ حسن خلق فطری تقاضا ہونے کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا بھی بہت اہم حصہ ہے اور بے شمار فضائل قرآن واحادیث میں خوش خلقی پر وارد ہوئے ہیں ۔دوسری طرف غیروں کے اخلاق، سلوک اور رویے میں نسبتاً بہت بہتری ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ ؛بلکہ مسلمان بھی غیروں کی دکانوں پر سامان لینے کے لیے جانا اور ان سے معاملات کرنا پسند کرتے ہیں، جب کہ مسلمانوں کی بدخلقی کی وجہ سے مسلمان بھی ان کی دکانوں سے کتراتے ہیں اوران سے معاملات کرنا گوارا نہیں کرتے ؛چناں چہ غیرلوگ ترقی کرتے جا رہے ہیں اور مسلمان محنت کرنے کے باوجود بھی د ن بدن پستی کی طرف جا رہے ہیں۔

اور مسلمانوں کی اسی بد خلقی، فریب، دھوکہ دہی، خیانت اور معاملات وغیرہ میں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام سے بدظن ہو رہے ہیں، گویا مسلمان اسلام کی طرف دعوت دینے کے بجائے جانے انجانے لوگوں کے قبول اسلام میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور یہ کتنی بڑی بد نصیبی اور کتنا بڑا جرم ہے!!۔

اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اور تمام امت مسلمہ کو خوش خلقی، حسن اخلاق، حسن معاملہ، صلہ رحمی، وسعت ظرفی اور حسن معاشرت جیسی عظیم صفات سے متصف و مزین فرمائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں انہیں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے!آمین!

تعمیر حیات سے متعلق