کام یابی او رناکامی، جیت او رہار انسان کی زندگی کا ساتھی ہے، اسلام کی نگاہ میں غلبہ اور کام یابی حق ہونے کی اور مغلوبیت اور ظاہری ناکامی کسی بات کے غلط ہونے یا کسی انسانی جماعت کے ناحق ہونے کی دلیل نہیں، ایسا ہوتا تو کبھی کفر کو اسلام پر ظاہری غلبہ حاصل نہ ہو پاتا، لیکن بسا اوقات اور تو اور خود انبیاء کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، بدر کی لڑائی بے سروسامانی کی تھی، اس میں مسلمانوں کو فتح ہوئی، حنین واحد میں خود حضور صلی الله علیہ وسلم موجود تھے، لیکن ایک میں ابتداءً اور دوسری میں آخری مرحلہ میں مسلمان آزمائش سے دو چار ہوئے، تاکہ برے قتوں میں بھی اُمت کے لیے نبی کا اسوہ موجود رہے۔ اصل کام یابی یہ ہے کہ انسان کا ہاتھ حق اور سچائی کے لیے اٹھے، سچائی کی مدد اصل کام یابی ہے۔ اگر یہ کوشش نتیجہ خیز نہ ہو جب بھی انسان ناکام نہیں اور غلطی میں تعاون بہر صورت ناکامی ہے، گو بظاہر نتیجہ اس کے حق میں ہو جائے۔
اصل میں یہ دونوں گھڑیاں اہل ایمان کے لیے امتحان کی ہیں، مومن وہ ہے کہ جب فتح مند ہو اور کام یابی اس کے قدم چھومے، تو اس کا سرجھکا ہوا ہو، اس کی زبان پر خدا کی حمد ہو، اس کی پیشانی الله کے سامنے خم ہونے کو بے قرار ہو جائے، وہ اکڑ فوں میں مبتلا نہ ہو جائے، تواضع ونیاز مندی اس کے ایک ایک انگ سے نمایاں اور عجز وفروتنی اس کے ایک ایک بول سے ہو یدا ہو، جن سے اس کا اختلاف رہا ہو، اس کے لیے وہ ریشم کی طرح نرم ہو جائے، فتح مکہ کا موقع ہے، اس سے بڑھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے جاں نثاروں کے لیے خوشی کا کیا موقع ہو سکتا تھا؟ جہاں ٹھکرایا گیا، جھٹلایا گیا، ارض وطن چھوڑ کر نکلنے پر مجبور کیا گیا اور سر پر انعام مقرر ہوا، آج وہی سر زمین مکہ آپ کے استقبال کے لیے دل کی آنکھیں بچھائے ہوئے ہے اور دس ہزار جان نثاروں کا لشکر جرار اپنا سر دھڑ آپ صلی الله علیہ وسلم کے قدموں میں نچھاور کرنے کو تیار ہے۔ یہ موقع ہے پر جوش نعروں کا، دشمنوں پر کم سے کم فقرہ بازیوں اور طعنہ اندازیوں کا ، سینہ تنا ہوا اور سرمارے فخر کے اونچا نہ ہو تو جشن فتح کا کیا لطف آئے؟ لیکن آج آپ صلی الله علیہ و سلم پر عبدیت وبندگی کا رنگ ہر دن سے بڑھ کر ہے، اونٹنی پر سوار ہیں، زبان ِ مبارک حمد الہٰی سے تر ہے، تواضع سے سر مبارک جھکا ہوا اور بارہا اونٹنی کی کوہان سے لگ جاتا ہے، مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت ام ہانی کے گھر کو اپنی میزبانی سے رونق بخشی اور وہیں غسل کرکے نماز شکر ادا فرمائی۔
اگر کبھی ہزیمت ہو، شکست ہو، ظاہری ناکامی سے انسان دو چار ہو تو اس وقت بھی توازن قائم رکھے، صبرو استقامت کی راہ اختیار کرے اور الله ہی کی طرف رجوع کرے، طائف کے واقعہ سے بڑھ کر کوئی تکلیف دہ واقعہ آپ صلی الله علیہ و سلم کی حیات ِ طیبہ میں پیش نہیں آیا، آپ صلی الله علیہ وسلم اہل ِ مکہ سے مایوسبڑی امیدوں کے ساتھ طائف پہنچے تھے، لیکن اہل ِ طائف کا سلوک اہل مکہ سے بھی برا ثابت ہوا، پتھروں کی بارش نے جسم مبارک کو لہولہان کر دیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم اس دُکھ بھری گھڑی میں الله سے رجوع ہوئے او رایسی درد انگیز دعا فرمائی کہ آج بھی قلب سلیم اس سے لرز اٹھتا ہے، مگر اس وقت بھی زبان مہربان پر اپنی قوم کے لیے دُعا کے الفاظ ہیں اور خدائے رحمان سے کوئی گلہ نہیں؛ بلکہ ایک ایک لفظ سے صبر ورضا اور برووفا ظاہر ہے۔
ایمان انسان کے اندر خدا کی خشیت پیدا کرتا ہے، جس سے انسان کے اندر خدا کا خوف اور اس پر یقین پیدا ہوتا ہے وہ پوری دنیا سے بے خوف ہو جاتا ہے، اس لیے کہ وہ یقین رکھتا ہے کہ نفع ونقصان کے فیصلے دنیا میں نہیں، آسمان میں ہوتے ہیں، خدا کی مشیت کے بغیر نہ کوئی اسے نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان ، ایمان انسان کو بے ضمیری اور اصولوں پر سمجھوتہ سے باز رکھتا ہے، مکی زندگی میں مسلمانوں پر کیا کچھ آزمائشیں نہ آئیں، وہ کن کن ابتلاؤں سے نہیں گزرے؟ اور ان کو راہ حق سے منحر ف کرنے اور کفر وشرک سے سمجھوتہ کرنے کے لیے ترغیب وتحریص کے کیا کیا وسائل اختیار نہ کیے گئے؟ مال وزر کے، اعلیٰ عہدوں کے، حکومت واقتدار کے اور حسن وجمال کے فکر وایمان کی قوت نے کبھی پائے استقامت میں تزلزل نہیں آنے دیا، مسلمان جہاں کہیں بھی رہے، اس کی پیشانی صرف خدا کے سامنے جھکتی ہے، وہ حالات کے سامنے سِپر نہیں ڈال سکتا، وہ مقابلہ کی ہمت وحوصلہ سے محروم نہیں ہوسکتا، وہ اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرسکتا، وہ ایمان فروش نہیں ہو سکتا اوراس کے دین وایمان کا سودا نہیں کیا جاسکتا۔
”الله تعالیٰ اس کے ساتھ ہے“ یہ احساس اس کو موجوں سے کھیلنے کا حوصلہ بخشتا ہے اور وہ سردوگرم کو سہتا ہوا اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے، ہر حال میں الله کی طرف نگاہ ہو، یہی ایک مسلمان کے لیے اصل اسوہ ہے۔
جب انسان پر برُا وقت آئے، ایسے حکم راں مسلط ہوں یا ایسے لوگ حکم رانی سے قریب پہنچ جائیں، جن سے ظلم وجبر اور حق تلفی وناانصافی کا اندیشہ ہو تو اپنے اعمال پر نگاہ کرنی چاہیے، کیوں کہ انسان کے اعمال ہی کے مطابق اس کو احوال بھی پیش آتے ہیں۔ جب نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا، قتل عام کیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو ایک بزرگ نے فرمایا کہ ہماری بداعمالیوں نے نادر کی صورت اختیار کر لی ہے، ”شامت اعمالِ مادر صورت نادر گرفت!“۔ اس لیے ایسے حالات دعوت دیتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں او راپنے حالات پر نظر کریں کہ کہیں ہماری بد اعمالیوں نے تو ہم کو یہاں تک کہیں پہنچایا ہے، فرقہ بندی ، افتراق، باہمی دل شکستگی، رجوع الی الله کی کمی، احکام ِ الہیٰ کے ساتھ بے نیازی اور دین سے بے تعلقی نے تو ہم کو اس صورت َ حال سے دو چار نہیں کیا ہے؟
غرض مؤمن کی نگاہ ہر حال میں خدا کی طرف ہونی چاہیے، نہ فتح مندی اسے مغرور کرے، نہ ظاہری شکست مایوس وپست ہمت۔
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا الله۔