بعثت کے مقاصد اور رِجال الله کی اہمیت وضرورت

idara letterhead universal2c

بعثت کے مقاصد اور رِجال الله کی اہمیت وضرورت

مولانا مغفور الله

﴿ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ﴾․(الجمعة:2)

وہی ہے جس نے عرب کے ناخواندہ لوگوں میں انہی ( کی قوم) میں سے ایک پیغمبر بھیجا،جو الله کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں او ران کو (عقائد باطلہ واخلاق ذمیمہ سے) پاک کرتے ہیں او ران کو کتاب اور دانش مندی کی باتیں سکھلاتے ہیں۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کو اُمی کہا گیا اور اُمیّوں میں ہی مبعوث ہوئے۔ أمّی أم سے ماخوذ ہے ،ماں کی طرف منسوب ہے۔ اَن پڑھ کو کہتے ہیں۔ اس لیے اَن پڑھ کی نسبت ماں کی طرف ہوتی ہے۔ باپ سے یا کسی سے ابھی تک لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ ہماری اصطلاح میں اُمّی جاہل کو کہتے ہیں، جو عمدہ صفت نہیں۔ لیکن حضور صلی الله علیہ وسلم کے لیے یہ ایک اُمّی اور صفت ہے ۔جاہل کے معنی میں نہیں۔ بلکہ صرف لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ لیکن امّی ہونے کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم علم وفضل کے لحاظ سے اتنے بلند تھے کہ ساری دنیا کے معلم او رمربی تھے۔ علم تقسیم کرنے والے تھے ، جن میں معبوث ہوئے وہ بھی امّی تھے۔ عرب میں بہت کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ایسے اُمیوں میں ایک عظیم الشان نبی کو مبعوث کیا۔

آپ صلی الله علیہ و سلم کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں ، قریش قبیلہ سے تھا۔ آپ کی بعثت کا مقصد اور ذمہ داری آیت میں یوں بیان ہوئی ہے۔ قرآنی اور دیگر آسمانی کتابوں کی تلاوت کرنا۔ انسانیت کو ظاہری وباطنی نجاستوں سے پاک کرنا۔ تزکیہ کرکے تزکیہ کی تعلیم دینا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ظاہری نجاستوں سے پاکی کا طریقہ اوراس کا حکم بھی بتلا دیا ہے او رباطنی نجاستوں کا بھی۔ اخلاق رذیلہ اور غلط عقائد باطلہ جیسی گندی بیماریوں سے پاکی کی تعلیم دی۔تیسری ذمہ داری کتاب وحکمت کی تعلیم ہے۔ کتاب سے تو قرآن مجید مراد ہے اور مفسرین نے حکمت کے کئی معانی بیان کیے ہیں۔ راجح معنی یہ ہے کہ حکمت سے مراد سنت ہے، یعنی سنت رسول صلی الله علیہ و سلم۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کی ایک شفیق باپ او رمربی کی طرح دینی تربیت کرکے، اعلیٰ درجہ کی تہذیب سکھائی ہے۔ روایت میں ہے :”أنا لکم مثل الوالد لولدہ“ میں تمہارے لیے ایسا ہی ہوں جیسے بیٹے کے لیے باپ۔ اچھے اخلاق وعادات کی تعلیم وتربیت دیتا ہوں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے رفع حاجت کا مؤدب طریقہ بتلایا کہ رفع حاجت کے دوران قبلہ کی طرف منھ یا پیٹھ نہیں کرنی ہے۔ رفع حاجت سے فراغت کے بعد تین ڈھیلوں کا استعمال بتلا دیا، تاکہ اچھی طرح صفائی ہو سکے۔ اس کا بیان فقہ کی کتابوں میں کتاب الطہارة کے عنوان سے موجود ہے۔ پھر اس میں مختلف ابواب ہیں، مثلاً باب الاستنجاء وغیرہ۔ دنیا کی موجودہ کسی تہذیب میں طہارة اور استنجاء کے اسلام جیسے بتلائے ہوئے طریقے اور تعلیم نہیں ملتی۔ پھر بھی وہ لوگ خود کومہذب کہتے ہیں۔ دنیا میں صحیح اور اعلیٰ مہذب قوم صرف مسلمان ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں لوگوں کے لیے عقل وحکمت بھی ہیں۔ ایک عاقل او رتجربہ کار جب بات کرتا ہے تو یہ حکمت ہے۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی باتوں میں بڑی گہرائی ہوتی ہے۔ موقعہ وحالات کے مناسب ومطابق کوئی بات یا فعل کرنا حکمت کہلاتا ہے۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال اور افعال کا اگر جائزہ لیا جائے تو بالکل موقعہ وحالات کے مناسب ومطابق ہیں۔ کوئی بات یا فعل خلاف موقعہ یا غیر مناسب نہیں او راس کی گہرائی تک پہنچنا ہرایک کا کام نہیں۔ بڑے بڑے دین دار علماء عاقلین ہی اس کو جانتے ہیں۔ اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات میں لوگوں کی جان، مال، عزت وآبرو اور دین کا تحفظ ہے۔

دینی طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ پہلے درجہ میں آیات کی تلاوت ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے امت کو آیات کے حفظ اور ادا کا طریقہ بھی بتلا دیا ہے۔ جس کے لیے علم التجوید کے نام سے مستقل علم اورماہرین موجو دہیں۔ دوسرے درجے میں آیات کے الفاظ کے معنی وترجمہ ہیں۔ لغت عربی جاننے والا ترجمہ تو معلوم کرسکتا ہے، لیکن آیت اورجملہ کی اصل مراد تک حضور صلی الله علیہ وسلم کے بیان کے بغیر پہنچنا مشکل ہے۔ اس کی مثالیں موجود ہیں۔ صحابہ کرام کو اپنے فہم سے آیات کے معنی مراد تک پہنچنے میں غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔ پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے صحیح مراد بیان کر دی۔ اس لییامت کاہر فرد آیات کے معنی سے صحیح مراد تک پہنچنے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا محتاج ہے۔

تیسرا درجہ تزکیہ ہے۔ الفاظ کی تلاوت، معانی کی تعلیم اور آیات کے مفاہیم پر عمل کروانا آپ صلی الله علیہ وسلم کا کام تھا۔ ترتیب یوں تھی تلاوت، فہم معنی، تزکیہ وعمل۔ لیکن آیت میں تلاوت کے بعد تزکیہ وعمل کا ذکر ہے۔ اس کے بعد کتاب کی تعلیم کا ذکر ہے۔ حالاں کہ انسان الفاظ سیکھ کر معنی جانتا ہے، پھر عمل کرتا ہے۔ مثلاً:﴿وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ﴾ کی اول تلاوت، پھر معنی جاننا ہو گا، پھر عمل۔ لیکن آیت میں ترتیب بیانی ایسینہیں۔ تزکیہ کا ذکر آخر میں ہونا چاہیے تھا۔ اس بدلی ہوئیترتیب کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ اگر الفاظ ،معنی او رتزکیہ کو ترتیب کے ساتھ بیان کیا جاتا تو بظاہر یہ بات معلوم ہوتی کہ تینوں کو ملا کر مجموعہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ایک ذمہ داری ہے الگ الگ تین ذمے داریاں نہیں ۔ جب ترتیب نہیں تو اشارہ فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تین الگ الگ ذمہ داریاں ہیں، مجموعہ ذمہ داری میں وہ اہتمام نہیں ہوتا، جو ہر ہر ذمہ داری کو مستقل سمجھنے میں ہوتا ہے۔ پہلی ذمہ داری آیات کی تلاوت ہوئی، حالاں کہ عربی عربوں کی مادری زبان تھی، تاکہ لوگ اس کو ایک مخصوص طریقے سے پڑھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے علاہ کسی عربی عبارت دان کا احادیث وغیرہ میں تجوید کی رعایت ضروری نہیں، بلکہ تجوید قرآن مجید کا خاصہ ہے۔ آیات سننے کے بعد مطالب معانی اور صحیح مراد تک پہنچنے کی باری آتی ہے۔ قرآن مجید کے مطالب نہایت عالی او ربہت زیادہ ہیں، ان تک پہنچنا کسی زبان دان کا کام نہیں کہ محض عربی بولنے والا معنی مراد تک پہنچ جائے، اس لیے قرآن مجید دیگر کتب سے ممتاز ہے۔ دیگر کتابوں میں معافی مقصود ہوتے ہیں، الفاظ مقصود نہیں ہوتے، مثلاً کافیہ کی کتاب ہے۔ اس میں مطلوب الفاظ نہیں بلکہ مقصود مسائل وقواعد نحو ہیں۔ اگر ایک طالب علم، کافیہ میں مذکورہ مسائل وقواعد یاد کر لے اور اس کو کافیہ کتاب کے الفاظ یا د نہ ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ طالب علم نے کافیہ یاد کر لی ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے کافیہ کے مسائل کو فارسی یا کسی اور زبان میں بیان کر دیا تو اس کو بھی کافیہ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن قرآن مجید ایسی کتاب نہیں، بلکہ اس کے مفاہیم کے ساتھ اس کے مخصوص الفاظ بھی مقصود اور مراد ہیں۔ اسی لیے علمائے اصول فرماتے ہیں:”ھو اسم للنظم والمعنیٰ جمیعاً“ قرآن الفاظ اور معنی دونوں کو کہتے ہیں۔ ایک طرف اگر قرآن مجید کے معانی ومطلب بہترین زندگی گزارنے کے لیے بہترین راہ نما ہیں، ان سے زندگی گزارنے کا اسلامی ڈھنگ معلوم ہوتا ہے تو دوسری طرف قرآن مجید کے الفاظ کے ساتھ بہت عبادتیں متعلق ہیں۔ نماز قرآن مجید کی تلاوت کے بغیر قابل قبول نہیں۔ مثلاًروایت ہے:”لا صلاة الابفاتحة الکتاب“ (فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی) ارشاد باری ہے ﴿ فاقرء واما تیسر من القرآن﴾ سو تم لوگ جتنا قرآن آسانی سے پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو۔ (المزمل:20)

حضور صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں سکھلائی:”صلوا کما رأیتمونی أَصلی“ میری نماز کی طرح نماز پڑھو!

قرآن کے الفاظ کو بے وضو چھونا منع ہے۔ جب کہ صرف ترجمہ یا تفسیر ہو تو بے وضو ہاتھ لگاسکتے ہیں۔ یہ فرق صرف قرآن مجید کے الفاظ کی وجہ سے ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ کی تلاوت پر الله تعالیٰ ثواب دیتا ہے۔ ایک ایک حرف کے تلفظ پر دس دس نیکیاں عطا کرتا ہے، خواہ پڑھنے والا معنی سمجھے یا نہ سمجھے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ” الم“ میں مثال بیان فرمائی ہے۔ الف حرف، لام حرف، میم حرف، مجموعہ پر نوے نیکیاں ملیں۔ حروف مقطعات کی مثال دی، حالاں کہ ان کے معانی الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی قطعی طور پر نہیں جانتا۔ پھر بھی ان کے پڑھنے سے ثواب ملتا ہے۔ دیگر آیات کے معانی مفسرین، الله اور ا س کے رسول کے بیان اورسمجھانے کی وجہ سے جانتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کی غلطی اور غلط بیانی ظاہر ہو جاتی ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ بغیر فہم معانی تلاوت کا فائدہ نہیں۔

ارشاد باری ہے:﴿مِنْہُ آیَاتٌ مُّحْکَمَاتٌ ہُنَّ أُمُّ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ﴾ جس میں ایک حصہ وہ آیتیں ہیں جو کہ اشتباہ مراد سے محفوظ ہیں اوریہی آیتیں اصلی مراد ہیں اس کتاب کے اور دوسری آیتیں ایسی ہیں جو کہ مشتبہ المراد ہیں۔ (آل عمران:7)

قرآن کے دو حصے ہیں، ایک حصہ محکم اور ظاہر المراد ہے۔ اس سے احکام وعقائد کا استنباط ہوتا ہے۔ متشابھات والا حصہ غیر ظاہر المراد ہے ۔ مجتھد فی الفنون، استاد الکل فی الکل ، جامع المعقول والمنقول حضرت العلامہ مولانا خان بہادر مارتونگی رحمہ الله متشابہات کے بارے میں فرماتے تھے۔ مراد غیر ظاہر، ظاہر غیر مراد۔ متشابہات کاعلم الله کے سوا کسی کو نہیں، ان آیات کا نزول آزمائش ہے۔

مفسرین میں سے مفوضہ مقطعات کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ”الله اعلم بمرادہ بذلک“ الله کو ان حروف سے اپنی مراد خوب معلوم ہے۔ حروف مقطعات میں عوام کی آزمائش یہ ہے کہ علم سیکھیں اور علماء کا امتحان یہ ہے کہ متشابہات کے جاننے کے درپے نہ ہوں۔ علمائے کرام کی عادت ہے کہ ہر لفظ کا معنی اور مراد ظاہر کرنا چاہتے ہیں، ان کو تنبیہ کی گئی کہ گم راہ لوگ متشابہات کے درپے ہوتے ہیں، حالاں کہ ان کا علم صرف الله کو ہے۔ الحاصل قرآن کے الفاظ بھی رحمتوں، برکتوں اور ثواب کے خزائن میں ہیں۔ لہٰذا آیات کا پڑھنا اور پڑھانا نبی علیہ السلام کی ایک مستقل ذمہ داری اورمقصد ہے۔ جس طرح حضور صلی الله علیہ وسلم سے ان کا پڑھنا منقول ہے اسی طرح آیات کو پڑھنا ہو گا۔ بہت کم لوگ ہیں جو اسی منقول طریقے سے پڑھتے ہیں، اسی طرح آیات کا سیکھنا دین کا ایک مستقل شعبہ ہے۔ عرب اگرچہ اہل لسان تھے، لیکن نفس زبان دانی قرآن کے آیات کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں۔ زبان دانی کے ساتھ استاد ضرور ی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب کے عوام قرآن کو نہیں سمجھتے ،باقاعدہ اساتذہ سے اس کا علم حاصل کرتے ہیں۔

امام بخاری رحمہ الله بخاری شریف میں کتاب العلم کے تحت باب باندھتے ہیں۔” إنما العلم بالتعلم“ آسمانی علم زبان سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ اگر صرف زبان کی مہارت کافی ہوتی تو صحابہ کرام کو بعض مقامات میں اشتباہ پیدا نہ ہوتا۔ صحابہ کرام جیسے ماہر اہل لسان اورپاک طینت لوگوں نے اس کے سیکھنے کا ارادہ کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو پڑھایا اور سکھایا۔

کام یابی کی دو باتیں
انسان کی رشد وہدایت کے لیے دو باتیں ضروری ہیں، ایک کتاب الله وسنت رسول، دوسرے نمبر پر رجال الله یعنی ماہر اساتذہ۔ یہ ایک مسلم الثبوت قانون ہے کہ تمام فنون اور ہنر کی کتابیں ملتی ہیں، لیکن مطالعہ سے نہ کوئی ڈاکٹر بنتا ہے نہ انجینئر، بلکہ علم وفن کے سیکھنے کے لیے ماہر استاد سے نظریاتی طور پر بھی سیکھنا ہوتا ہے اور عملی مشقوں کے لیے بھی مستقل شاگردی اختیار کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایک نظریاتی اور عملی ماہر فن بنتا ہے۔

کسی فن کے نفس اصول بننے سے بھی کام نہیں چلتا، بلکہ فن کے ماہر استاد کی طرف گھٹنے ٹیکنے ہوں گے۔ رجال الله (ماہرین) اصل مراد کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان رجال الله کی معیت کی وجہ سے تمام احکامات عملی شکل میں موجود ہیں۔ جو آدمی نماز کی عملی شکل سے واقف ہے وہ نمازی نہیں، سب نے سلسلہ وار اس کو اپنے اگلوں سے سیکھا ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:”انما بعثتُ معلماً“ الله نے مجھے معلم اور مدرس بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پوری اُمت کے معلم تھے۔ ساری امت بحیثیت متعلمین کے ہیں۔ الله کی کتاب اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے طالبین ہیں۔ دنیا کے طالبین نہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ الله اور اس کے رسول کے فرمودات کو سیکھ کر سکھائیں۔ ﴿ویزکیھم﴾میں اعمال کے مشق کی طرف اشارہ ہے۔

فن کی ڈگری کے حصول کے بعد ماہرین فن کی نگرانی میں عملی مشقیں ضروری ہیں۔ عملی مشق کے ساتھ اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ وجود میں آئیں گے۔ جس سے تزکیہ نفس ہو گا، اس لیے ایک مربی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سورة فاتحہ میں الله تعالیٰ فرماتا ہے :﴿اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ﴾ ہمیں سیدھی راہ دکھلا او راسی پر چلا… تو سورة فاتحہ کا خلاصہ ، صراط مستقیم ہے، اس کی تعیین اور مصداق کے بارے میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ ﴾ رستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے۔ نہ رستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا۔اور نہ ان لوگوں کا جو رستہ سے گم ہو گئے۔(الفاتحہ:7) اب ﴿صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِم﴾ کی جگہ :”صراط القرآن والسنة“ نہیں فرمایا۔ اس میں اشارہ ہے کہ قرآن وحدیث کے رجال کا دامن تھام لو۔ اس میں قرآن وحدیث کا علم بھی آجائے گا او رساتھ رجال بھی تو علم وعمل دونوں نصیب ہوں گے او راس بات کی طرف اشارہ ہوا کہ رجال الله کو چھوڑ کر فقط اسلامی قوانین واحکام جاننا کافی نہیں۔ بعض لوگوں نے قوانین کو چھوڑ کر محض رجال کو اپنا قبلہ بنا لیا ہے، جیسے بعض یہودیوں نے ایسا کیا تھا۔ دونوں فرقے گم راہ ہیں:﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّہِ﴾ انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے علماء او رمشائخ کو ( باعتبار طاقت کے) رب بنا رکھا ہے۔ (التوبة:31)

الله تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کی اجازت نہ عام لوگوں کو ہے نہ خواص( علماء) کو ہے۔ نافرمانی عوام سے ہو یا خواص سے، سب کی مخالفت ضرور ی ہے، تو قرآنی تعلیمات کے ساتھ استاد، مزکی، مربی کی بھی ضرورت ہے، اس کے بعد ہدایت اور فلاح پیدا ہو گی۔

حضور صلی الله علیہ و سلم امّی تھے، لیکن علم وعمل کے لحاظ سے یکتائے روز گار او راستاد زمانہ تھے۔ بڑے بڑے جامعات کے بڑے فضلاء حضور صلی الله علیہ وسلم جیسے مربی نہیں بن سکتے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بہترین تعلیم وتربیت کا اعلی نمونہ صحابہ کرام کی وہ مقدس جماعت ہے جو اُمت کے لیے علم وعمل میں بہترین راہ نما ہیں۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم کی جماعت کی طرف دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کس پائے کے معلم اور مربی تھے۔ قیامت تک جو علماء اور صوفیاء پیدا ہوتے رہیں گے، ان سب پر حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت کے اثرات ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ آپ کی تعلیم وتربیت کے اثرات ختم نہیں ہوئے، بلکہ برابر جاری ہیں اور بقیہ اُمت اس سے برابر مستفید ہو رہی ہے۔ اس سے علماء وصوفیاء کی فضیلت بھی معلوم ہو گئی، جو حضور صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اربعہ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ دنیا آباد ہے، اب دنیا دار لوگوں کوسوچنا چاہیے کہ دنیا کی بقا میں ان کا کتنا حصہ ہے؟ دنیا کی بقا علماء کی وجہ سے ہے اور فائدہ عوام کو پہنچ رہا ہے۔ 

تعمیر حیات سے متعلق