اس وقت ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن، یعنی بدعنوانی، خیانت، رشوت، لوٹ مار، کمیشن خوری، ملاوٹ، دھوکہ دہی، چوری، ڈکیتی او رناجائز کمائی ہے، اس بدعنوانی نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا اور وطن عزیز کو کم زور سے کم زور تر کر دیا ہے، ادارے تباہ او رملک بدنام ہو کر رہ گیا ہے۔ حکم ران اور عوام دنیا میں اپنی ساکھ کھوچکے ہیں، کوئی ملک ہو یا ادارہ، فرد ہو یا کمپنی، پاکستانیوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستانی سبز پاسپورٹ نفرت کانشان بن کرہ گیا ہے، دنیا کے بیشتر ممالک اس قومی بدنامی کی وجہ سے پاکستانیوں کو ویزا تک دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے، امیگریشن حکام اور اہلکار پاکستانی پاسپورٹ دیکھتے ہی اپنے تیور بدل لیتے ہیں، پاکستانیوں کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے، اندرون ملک بدعنوانی کا یہ سیلاب اتنی تیر رفتاری سے رواں دواں ہے کہ چپڑاسی سے لے کر صدر مملکت تک ، نجی اداروں سے لے کر سرکاری وحکومتی محکموں تک سبھی اس کا شکار نظر آتے ہیں، عوام وخواص اس وبائے عام میں مبتلا ہیں، ادارے او رجماعت سبھی متاثر ہیں، صورت حال یہاں تک خراب ہوچکی ہے کہ دیانت وامانت کا پاس رکھنے والے فرد کو معاشرہ قبول کرنے کو تیار نہیں، اداروں میں ایسے پاک باز شخص کو ماتحت افراد کی جانب سے مخالفتوں اور مافوق شخصیات (افسران بالا) کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید میں مجنون واحمق ہوں یا گویا کہ یہ سب ٹھیک ہیں اورمیں راہِ بد پہ چل نکلا ہوں۔
آج سے چند سال قبل تک ملک کے اکثر محکمے اچھی شہرت کے حامل تھے، پولیس اور مال کے محکمے اگرچہ بدنام تھے، مگر ان میں بھی اچھے لوگوں کی کمی نہ تھی، بد نام ترین پولیس افسر بھی قتل جیسے مقدمات میں بدعنوانی سے گھبرایا کرتا تھا، محکمہ مال میں بھی تلاش کرنے سے اچھے لوگ بکثرت مل جایا کرتے تھے، آج عالم یہ ہے کہ محکمہٴ پولیس کے افسران بالا، ذیلی ملازمین سے ماہانہ رقم کا تقاضا ہی نہیں کرتے، بلکہ ماتحتوں کا فرض سمجھتے ہیں، اس رقم کے حصول کے لیے ذیلی افسران رشوت وبدعنوانی کو ذریعہ بنا کر اپنا پیٹ بھی بھرتے ہیں او رافسران بالا کی جیبیں بھی گرم کرکے اپنے اور ان کے لیے آتش جہنم بھڑکاتے ہیں، اس مقصد کے لیے قتل وغارت گری، ڈکیتی اور دہشت گردی جیسے جرائم سے صرف نظر کرکے مقتولین کے ورثاء کو بھی قاتلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ محکمہ مال میں بیوگان، یتیموں ،غریبوں اور لاچاروں کی اراضی کا ناجائز انتقال درج کرکے اس پر قبضہ تو عام تھا ،اب ہزاروں ایکڑ سرکاری اراضی تک ہتھیا لینا اور افسران بالا سے ساز باز کر لینا معمول بن چکا ہے۔
صوبائی محکموں میں محکمہ انہار او رمحکمہ صحت بھی محکمہ مال اور پولیس سے پیچھے نہیں رہے، اسی طرح محکمہ بلدیات تو اس دوڑ میں بہت ہی سبک رفتار ثابت ہو رہا ہے، ترقیاتی کام کاغذوں میں ہوتے ہیں اور کروڑوں روپے ٹھیکیدار اور افسران کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں، کئی سڑکیں متعدد بار کاغذوں میں بنیں، لیکن الله کی زمین پر ان کا وجود نظر نہیں آتا، کمیشن مافیانے ترقیاتی منصوبوں کا معیار جس طرح خاک میں ملایا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، بدعنوانی اس حد تک سرایت کر گئی کہ ایک لاکھ روپے کے ترقیاتی منصوبہ میں سے بمشکل پچیس سے تیس ہزار روپے منصوبہ پر خرچ ہوتے ہیں، باقی ٹھیکیدار، انجینئر، بلدیہ کے چیف افسر، ایڈمنسٹریٹر یا ناظم کا حق سمجھا جاتا ہے، اب تو یہ داغ ایم۔ پی۔ اے، ایم۔این۔اے اور وزراء تک جا پہنچا ہے۔
محکمہ صحت کی ”بیماری“ بھی عیاں ہے، ہسپتال کی مشینری اور عمارت کا غلط استعمال او رمفت فراہم کی جانے والی ادویات کی فروختگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں سے لاکھوں کے کمیشن لے کر بلا ضرورت او رمہنگی ادویات کی تجویز ڈاکٹروں کا وطیرہ بن چکا ہے، دوائیوں کی کمپنیوں کی جانب سے ڈاکٹر حضرات کوغیر ملکی دورہ جات ، گھریلو سامان کی فراہمی ، نقد رقوم کا ہدیہ جیسی رشوتیں گناہ ہی نہیں سمجھی جاتیں، علی ہذا القیاس باقی محکموں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
وفاقی اداروں میں ریلوے اور ”پی آئی اے“ کی بدحالی پر پوری قوم نوحہ کناں ہے، دنیا بھر میں کسی بھی ملک میں ریلوے کی ایسی خستہ حالی نہیں جتنی پاکستان میں ہے، چلتی ٹرین کا راستہ میں ڈیزل ختم اور پہیہ جام ہو جاتا ہے، چلتی ٹرینوں میں پانی او ربجلی مفقود ہوتی ہے، مسافر بے چارے قفس میں بند پرندے کی طرح تڑپنے اورتڑپ تڑپ کر کڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے، اب تو ریلوے کی بند ش کی نوید بھی کان میں پڑ رہی ہیں، پی آئی اے کے خستہ حال جہاز اور رشوت ستانی کے ذریعے بھرتی کیے گئے افسر اور پائلٹ پی آئی اے میں سفر کرنے والوں کو کلمہ پڑھنے اور وصیت لکھنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ بجلی وپانی کے محکمہ کے مظالم بھی اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں، اس پورے محکمے کو بد عنوانی نے بے رحم بنا دیا ہے، سوئی گیس ، پی آئی اے، محکمہ ڈاک، محکمہ اطلاعات سبھی لائق توجہ ہیں، اعلیٰ عدلیہ کے چند نیک نام ججوں کے علاوہ عدلیہ بھی اس حمام میں دوسروں جیسی ہی بن کر رہ گئی ہے، میڈیا پر تو قلم چلاتے ہوئے بھی قلم میں کپکپاہٹ طاری ہوتی ہے، قلم وقرطاس کی حرمت کو بھی بدعنوانی نے داغ دار کر دیا ہے، جملہ وفاقی وصوبائی حکومتیں بھی اس میدان میں بد نام اور داغ دار بن کر رہ گئی ہیں، عوام الناس کا حال یہ ہے کہ کوئی کسی سے قرض لے کر واپس کرنے کو تیار نہیں، ڈکیتیاں اتنی عام ہیں کہ کوئی علاقہ او رکوئی گھنٹہ خالی نہیں، موبائل فون سے لے کر گاڑی کیغصب بالجبر تک تمام وارداتیں عام ہیں، گویا کہ پوری قوم اس مرض کی مریض بن کر رہ گئی ہے، بدعنوانی کے دنیوی نقصانات سے تو پوری قوم ” عین الیقین“ کی حد تک آگاہ ہو چکی ہے ، اُخروی نقصانات کا اندازہ درج ذیل قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے واضح ہے: ﴿وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّیٰ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ﴾․( آل عمران:161)
ترجمہ:” او رکسی نبی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے او رجو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا، جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی، پھر ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا او رکسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔“
اسی مناسبت سے صحیح بخار ی اور صحیح مسلم میں ایک ایسی حدیث ہے جسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں :عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ: قَامَ فِینَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرَ الْغُلُولَ فَعَظَّمَہُ وَعَظَّمَ أَمْرَہُ قَالَ: لَا أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَی رَقَبَتِہِ شَاةٌ لَہَا ثُغَاء ٌ عَلَی رَقَبَتِہِ فَرَسٌ لَہُ حَمْحَمَةٌ یَقُولُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُکَ، وَعَلَی رَقَبَتِہِ بَعِیرٌ لَہُ رُغَاء ٌ، یَقُولُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَغِثْنِی فَأَقُولُ: لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ، وَعَلَی رَقَبَتِہِ صَامِتٌ فَیَقُولُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ أَوْ عَلَی رَقَبَتِہِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ فَیَقُولُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ․(صحیح بخاری:3073، صحیح مسلم:1831)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر ( مال غنیمت/ سرکاری خزانہ میں) خیانت کا تذکرہ فرمایا، پس اس کو اور اس کے معاملہ کو بہت بڑا بتلایا ، فرمایا: ”قیامت کے دن میں تم میں سے کسی ایک کو ایسا ہر گز نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر منمناتی بکری ہو، اس کی گردن پر ہنہناتاگھوڑا ہو، وہ کہے گا:”یا رسول الله أغثنی“
اے الله کے رسول! مدد فرمائیے۔ تو میں کہوں گا: میں تیرے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، تحقیق میں نے تجھ تک بات پہنچا دی تھی، ( میں ہر گز نہ پاؤں کسی شخص کو کہ ) اس کی گردن پر آوازیں نکالتا اونٹ ہو، وہ کہے کہ:”یا رسول الله أغثنی“
․اے الله کے رسول :مدد فرمائیے۔ تو میں کہوں: میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ ( میں کسی کو ایسا ہر گز نہ پاؤں کہ) اس کی گردن پر سونے، چاندی کا بوجھ ہو، پھر وہ کہے:” یا رسول الله أغثنی“
اے الله کے رسول !مدد فرمائیے۔ تو میں کہوں: میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (میں کسی کو ایسا ہر گز نہ پاؤں کہ ) اس کی گردن پر لہراتے کپڑے ہوں، پھر وہ کہے:” یا رسول الله أغثنی“
․اے الله کے رسول! مدد فرمائیے۔ تو میں کہوں: میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ جب ہزار دو ہزار دراہم کی خیانت پر خائن کو روز حشر یہ رقم اٹھا کے لانی پڑے گی تو اس کا کیا حال ہو گا جو سود وسو اونٹ خیانت کرے؟! تو فرمایا کہ روز ِ حشر تو ایسے شخص کا دانت احد پہاڑ کے برابر ہو گا اور اس کے بیٹھنے کی جگہ مقام ربذہ سے مدینہ تک پھیلی ہوئی ہو گی ، تو وہ کیوں نہ اتنے اونٹوں کو اٹھا کر لاسکے گا۔ (الد رلمنثور:2/375)
بددیانتی اور خیانت کے مرتکب افراد کی قرآن کریم نے جا بجا مذمت اور ان کے لیے وعید بیان فرمائی ہے، ارشاد ہے:﴿وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِینَ، الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ، وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ﴾․(المطففین:3,2,1)
” بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کر لیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں او رجب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔“
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی اپنی تفسیر معارف القرآن جلد8ص،693 پر رقم طراز ہیں:
” قرآن وحدیث میں ناپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیا ہے، کیوں کہ عام طور سے معاملات کا لین دین انہی دو طریقوں سے ہوتا ہے، انہی کے ذریعہ کہا جاسکتا ہے کہ حق دار کا حق ادا ہو گیا یا نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ مقصود اس سے ہر ایک حق دار کا حق پورا پورا دینا ہے، اس میں کمی کرنا حرام ہے، تو معلوم ہوا کہ یہ صرف ناپ تول کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ ہر وہ چیز جس سے کسی کا حق پورا کرنا یا نہ کرنا جانچا جاتا ہے اس کایہی حکم ہے، خواہ ناپ تول سے ہو یا عدد شماری سے یا کسی اور طریقے سے، ہر ایک میں حق دار کے حق سے کم دینا” بحکم تطفیف“ حرام ہے۔
مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے رکوع سجدے وغیرہ پورے نہیں کرتا، جلدی جلدی نماز ختم کر ڈالتا ہے، تو اُس کو فرمایالقد طففت
یعنی تونے الله کے حق میں ”تطفیف“ کر دی، فاروق اعظم کے اس قول کو نقل کرکے حضرت امام مالک نے فرمایا:” لکل شیءٍ وفاء وتطفیف“
یعنی پورا حق دینا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے، یہاں تک کہ نماز، وضو ، طہارت میں بھی اور اسی طرح دوسرے حقوق الله اور عبادات میں کمی کوتاہی کرنے ولا” تطفیف“ کرنے کا مجرم ہے، اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتا ہے وہ بھی ”تطفیف“ کے حکم میں ہے، مزدور، ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے اُس میں سے وقت چُرانا او رکم کرنا بھی اس میں داخل ہے، وقت کے اندر جس طرح محنت سے کام کرنے کا عرف میں معمول ہے اس میں سُستی کرنا بھی ”تطفیف“ ہے، اس میں عام لوگوں میں یہاں تک کہ اہل ِ علم میں بھیغفلت پائی جاتی ہے، اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا،اعاذنا الله منہ․
قرآن کریم نے سیدنا شعیب علیہ السلام کی قوم کی ہلاکت کی ایک وجہ مالی بد دیانتی اور خیانت بھی ارشاد فرمائی ہے۔ چناں چہ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو بددیانتی کے بارے میں یوں وعظ فرمایا:﴿وَلَا تَنقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ إِنِّی أَرَاکُم بِخَیْرٍ وَإِنِّی أَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیطٍ﴾․(ھود:84)
”اور ناپ تول میں کمی مت کیا کرو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ خوش حال ہو او رمجھے تم پر ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تمہیں چاروں طرف سے گھیر لے گا۔“
سیدنا شعیب علیہ السلام نے ناپ تول میں کمی، بددیانتی اورخیانت کو فساد سے تعبیر فرمایا، چناں چہ ان کا یہ جملہ قرآن کریم میں منقول ہے:﴿وَلَا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدِینَ﴾․(ھود:85)
”اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔“﴿بَقِیَّتُ اللَّہِ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ وَمَا أَنَا عَلَیْکُم بِحَفِیظٍ﴾․(ھود:86)
”اگر تم میری بات ما نوتو( لوگوں کا حق ان کو دینے کے بعد ) جو کچھ الله کا دیا بچ رہے، وہ تمہار ے حق میں کہیں بہتر ہے ۔ اور ( اگر نہ مانوتو) میں تم پر پہرہ دار مقرر نہیں ہوا ہوں۔“
لیکن قوم نے بجائے اپنی اصلاح کے سیدنا شعیب علیہ السلام کی دعوت کو اپنے معاملات میں دخل اندازی قرار دیا اور یوں گویا ہوئے:﴿قَالُوا یَا شُعَیْبُ أَصَلَاتُکَ تَأْمُرُکَ أَن نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِی أَمْوَالِنَا مَا نَشَاء ُ إِنَّکَ لَأَنتَ الْحَلِیمُ الرَّشِیدُ﴾․(ھود:87)
”وہ کہنے لگے: اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہمار ے باپ دادا جن کی عبادت کرتے آئے تھے، ہم انہیں چھوڑ دیں اوراپنے مال ودولت کے بارے میں جو کچھ ہم چاہیں ، وہ بھی نہ کریں؟“
یہی سوچ آج بھی معاشرہ میں کار فرما ہے ، علماء ومشائخ کے وعظ ونصیحت اورسمجھانے کو بہت سے لوگ اپنے نجی معاملات میں مداخلت گردانتے ہیں اور یہی کچھ سیدنا شعیب علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا، سیدنا شعیب علیہ السلام برابر قوم کو دیانت وامانت کی تلقین اور بد دیانتی وخیانت سے اجتناب کا حکم دیتے رہے، لیکن قوم ٹس سے مس نہ ہوئی، انہوں نے سیدنا شعیب علیہ السلام سے صاف صاف کہہ دیا:﴿قَالُوا یَا شُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاکَ فِینَا ضَعِیفًا﴾․(ھود:91)
”وہ بولے:اے شعیب! تمہاری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم ہمارے درمیان ایک کم زور آدمی ہو۔“
حضرت شعیب علیہ السلام کو اشارةً دھمکی دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے صراحتاً بھی اس تبلیغ سے باز نہ آنے پر رجم وقتل کی دھمکی دے دی:﴿وَلَوْلَا رَہْطُکَ لَرَجَمْنَاکَ وَمَا أَنتَ عَلَیْنَا بِعَزِیزٍ﴾․(ھود:91)
”اور اگر تمہارا خاندان نہ ہو تا تو ہم تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیتے۔ ہم پر تمہارا کچھ زور نہیں چلتا۔“
بس پھر وہی ہوا جو مجرم کے ساتھ ہوا کرتا ہے، کرپٹ قوم نے بے باکی سے حضرت شعیب علیہ السلام سے عذاب خداوندی مانگ ڈالا، پھر جو ہوا قرآن کریم کی زبانی معلوم کیجیے:﴿وَلَمَّا جَاء َ أَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِی دِیَارِہِمْ جَاثِمِینَ،کَأَن لَّمْ یَغْنَوْا فِیہَا أَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ﴾․(ھود:95,95)
”اور(آخرکار) جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے شعیب کو اور اُن کے ساتھ جو ایمان لائے تھے، ان کو اپنی خاص رحمت سے بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا، انہیں ایک چنگھاڑنے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اس طرح اوندھے منھ گرے رہ گئے۔ جیسے کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے۔ یا درکھو! مدین کی بھی ویسی ہی بربادی ہوئی جیسی بربادی ثمود کی ہوئی تھی۔“
اس آسمانی چیخ وپکار پر پوری قوم ساکن وساکت اور دم بخودرہ گئی اور اس کی ہول ناکی سے سب لوگ ہلاک ہو گئے۔
کرپشن کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اس کی نحوست سے پیداوار میں کمی اور قحط وبحران پیدا ہوتے ہیں، چناں چہ یہ حدیث ہمار ی عقل سے پردہ ہٹانے کے لیے کافی ہے:”عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ أَقْبَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ، خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیتُمْ بِہِنَّ وَأَعُوذُ بِاللَّہِ أَنْ تُدْرِکُوہُنَّ، لَمْ تَظْہَرْ الْفَاحِشَةُ فِی قَوْمٍ قَطُّ حَتَّی یُعْلِنُوا بِہَا إِلَّا فَشَا فِیہِمْ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِی لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِی أَسْلَافِہِمْ الَّذِینَ مَضَوْا، وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِینَ وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ، وَلَمْ یَمْنَعُوا زَکَاةَ أَمْوَالِہِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنْ السَّمَاء ِ وَلَوْلَا الْبَہَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوا، وَلَمْ یَنْقُضُوا عَہْدَ اللَّہِ وَعَہْدَ رَسُولِہِ إِلَّا سَلَّطَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِی أَیْدِیہِمْ، وَمَا لَمْ تَحْکُمْ أَئِمَّتُہُمْ بِکِتَابِ اللَّہِ وَیَتَخَیَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّہُ إِلَّا جَعَلَ اللَّہُ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ“․(سنن ابن ماجہ:4019)
”حضرت عبدالله بن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہم پر متوجہ ہوئے اور فرمایا:”اے مہاجرین کی جماعت! پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہوجاؤ گے… اور میں الله کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان کو پاؤ … اعلانیہ فحاشی جب بھی کسی قوم میں ظاہر ہوتی ہے تو ( اس کی پاداش میں ) ان کے درمیان طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے پیچھے بڑوں میں نہیں پائی جاتی تھیں اور نہ ہی کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے ، مگر انہیں پکڑاجاتا ہے خشک سالی، سخت مشقتوں اوربادشاہ کے ظلم کے ذریعے اور نہیں روکتے لوگ اپنے مالوں کی زکوٰة کو، مگر (اس کی پاداش میں) ان سے بارش روک لی جاتی ہے، یہاں تک کہ اگر جانور نہ ہوں بارش بالکل ہی نہ بر سے اور نہ ہی کوئی قوم الله اور اس کے رسول کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے توڑتی ہے، مگر ( اس کی سزا کے طور پر ) ان پے ان کا بیرونی دشمن مسلط کر دیا جاتا ہے ،جو ان کی ملکیتی ومقبوضہ اشیا چھین لیتے ہیں او رجب قوم کے بڑے کتاب الله کے ذریعے فیصلے نہیں کرتے تو الله ان کے درمیان آپس کی جنگیں ڈال دیتے ہیں۔“
ایک دوسری روایت سیدنا بریدہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
عَنِ ابْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:”مَا نَقَضَ قَوْمٌ الْعَہْدَ قَطُّ إِلَّا کَانَ الْقَتْلُ بَیْنَہُمْ، وَمَا ظَہَرَتْ فَاحِشَةٌ فِی قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا سَلَّطَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِمُ الْمَوْتَ، وَلَا مَنَعَ قَوْمٌ الزَّکَاةَ إِلَّا حَبَسَ اللہُ عَنْہُمُ المطر “․(السنن الکبریٰ للبیہقی وفی ذیلہ الجواہر النقی:3/346)
”حضرت بریدہ رضی الله تعالیٰ عنہ اپنے والد ِ محترم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو لوگ عہد وپیمان کی مخالفت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو اس کی وجہ سے ان میں قتل وغارت کا دروازہ کھل جاتا ہے اور جس قوم میں بے حیائی اور فحاشی پھیل جاتی ہے تو الله تعالیٰ ان پر موت کو مسلط کر دیتے ہیں اور جو لوگ زکوٰة کی ادائیگی نہیں کرتے الله تعالیٰ ان سے بارش کو روک دیتے ہیں۔“
ہمارے ملکی بحران، بجلی او رگیس کی کمی، بدامنی اور دہشت گردی کا حقیقی سبب ان احادیث سے بخوبی واضح ہے۔
جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ایک غلام ایک جنگ میں غنیمت کی چادر میں خیانت کا مرتکب ہو کردشمن کے حملہ میں راہی اجل ہوا، لوگوں نے اس کے حصول جنت پر مبارک باد دی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ چادر میں خیانت کی وجہ سے آگ کے شعلے اس کو لپیٹیں گے، لوگوں نے کہا کہ مال غنیمت میں سے کچھ چیزیں تقسیم سے پہلے ہم نے لی ہیں ، فرمایا:”شراک أو شراکان من نار“․(صحیح بخاری:4234)
”کسی نے ایک تسمہ چرایا یادو تسمے اٹھائے وہ جہنم میں جائے گا۔“
معلوم ہوا کہ کرپشن، دنیا وآخرت میں ہلاکت، ذلت، قلت اوربحران کا باعث ہے، رشوت خور افسر، سود خورتاجر، جوئے باز مال دار،نیز چوری ڈکیتی کا مجرم، سرکاری او رمشترکہ مال میں خیانت کا مرتکب ذمہ دار جو کمائی کرتا ہے، حقیقت میں وہ کمائی اس کے او راس کے اہل خانہ کی بربادی کا باعث ہوتی ہے، تجربہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی اولاد بد کار وبد چلن او راہل خانہ باغی ہوتے ہیں، علاوہ ازیں دنیا میں مقدمات، امراض او رمصیبتوں میں ابتلا مستقل اذیت کا باعث ہوتا ہے، جب کہ آخرت کی رسوائی اورتکلیف تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔