الله تعالیٰ نے کائنات میں قسم قسم کی مخلوقات پیدا کی ہیں، ایک سے ایک طاقت ور اور خوب صورت سے خوب صورت تر، انسان بظاہر ان کے مقابلہ میں کم تر محسوس ہوتا ہے، اس کو نہ ہاتھی کا ڈیل ڈول حاصل ہے، نہ شیر کی قوت، نہ ہرن کی نشیلی آنکھیں، نہ چیتے کی طرح خوب صورت نقش ونگار کا پیرہن اور نہ گلاب کی سی خوش رنگی، لیکن ان سب کے باوجود پوری کائنات گویا اس کے اشاروں پر رقص کرتی ہے، اس کی وجہ انسان کی کچھ امتیازی صلاحیتیں ہیں، انہی امتیازی اوصاف میں ایک اظہار بیان کی قوت ہے، قرآن مجید نے انسان پر الله تعالیٰ کے خصوصی احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ” الله نے اس کو بیان سکھایا“ (الرحمن:2)۔ گفت گو کے ذریعہ اپنے مقصود کا اظہار اورخیالات وافکار کو الفاظ کا جامہ پہنانا، انسان کی ایسی صلاحیت ہے کہ شاید ہی کوئی مخلوق اس میں اس کی ہم سری کرسکے، شیر جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے، لیکن کبھی اس کے اعزاز میں نہ جلسہ ہوا نہ جلوس اور نہ کبھی اس نے اپنے خطاب شاہانہ ہی سے اہل جنگل کو نوازا ہے، مگر یہ حضرت انسان ہیں کہ ان کی تقریروں، نعروں، مشاعروں اور نغموں نے پوری فضاءِ کائنات کو اپنا اسیر بنالیا ہے، اس لیے زبان اور قوت ِ بیان الله کی بڑی نعمت ہے۔
نعمت جتنی بڑی ہوتی ہے، اس کی قدر دانی بھی اسی نسبت سے واجب ہوتی ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جو میرے لیے دو چیزوں کی ضمانت لے میں اس کے لیے جنت کی ضمانت لوں گا: ایک زبان ، دوسرے نفسانی خواہشات۔ زبان کو قابو میں رکھنا نسبتاً دشوار ہوتاہے، اس لیے کہ ہر گناہ نے اپنی فانی لذت کے ساتھ پریشانی اور خطرات کو بھی دوش بدوش رکھا ہے، چور چوری کرتے ہوئے خطرات سے گزرتا ہے اورمشقتیں اٹھاتا ہے، راہزن رہزنی میں اپنی جان ہتھیلی پر لے کرنکلتاہے، لیکن زبان کے گناہ میں نہ کوئی خرچ ہے نہ مشقت اور نہ دنیا میں جان ومال کا خطرہ، اس سے ایسے لوگوں کو بڑی لذت ملتی ہے جن کو کوئی اور کام نہ ہو۔
زبان بگڑے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے او راچھے خاصے ماحول کو بگاڑنے کی بھی، زبان کے ایک بول ہی سے رشتے بنتے بھی ہیں اور بنے بنائے رشتے ٹوٹتے بھی ہیں، ایک ہی بات کو دو طرح سے کہا جاسکتا ہے، ایک انداز ادب کا ہے اور دوسرا بے ادبی کا، کسی نے حضرت عباس رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ بڑے ہیں یا رسول صلی الله علیہ وسلم بڑے ہیں؟ عمر پوچھنی مقصود تھی، اس لیے سیدھا سادہ جواب یہ تھا کہ میں بڑا ہوں، لیکن حضرت عباس رضی الله عنہ نے یہ نہ کہا، فرمایا بڑے آپ صلی الله علیہ وسلم ہیں، عمر میری زیادہ ہے، ”ھو اکبر وانا اسُّن“ حضرت عمر رضی الله عنہ کو الله تعالیٰ نے خاص مومنانہ فراست عطا فرمائی تھی ، کئی مواقع پر حضرت عمر رضی الله عنہ کی جو رائے تھی، اس کے مطابق آیت قرآنی نازل ہوئی، حضرت عمر رضی الله عنہ نے خود اس کو بیان کیا ہے، کوئی کم فہم ہوتا تو کہتا کہ فلاں فلاں بات میں الله نے میری موافقت فرمائی ہے، مگر حضرت عمر رضی الله عنہ کا کمالِ ادب ملاحظہ ہو، فرمایا کہ تین باتوں میں، میں نے اپنے رب کی منشا کے موافق رائے اختیار کی، ”وافقت ربی فی ثلاث“ کتنا ادب ہے اس فقرہ میں!
سب سے بڑھ کر ادب سے معمور زبان الله کے پیغمبروں کی ہوتی ہے ، کیوں کہ #
گفتہٴ او گفتہٴ الله بود
گرچہ از حلقومِ عبدالله بود
قرآن مجید میں نمرود سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مکالمہ نقل کیا گیا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مکالمہ میں الله تعالیٰ کا تعارف کراتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ میرا خدا وہ ہے کہ جب بیمار پڑتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے :﴿وَإِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِینِ﴾․(الشعراء:80)
غور کیجیے کہ اصل میں تو بیماری بھی الله کی طرف سے ہے اور شفاء وصحت بھی، لیکن بیماری بہرحال ایک تکلیف دہ چیز ہے، اس لیے الله تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت سے گریز فرمایا او راپنی طرف نسبت کی ، شفاء میں شرکا کوئی پہلو نہیں، اس لیے اس کو صراحتاً الله تعالیٰ کی طرف منسوب کیا۔
گفت گو کا سلیقہ صرف الله اور اس کے رسول ہی کے ساتھ مطلوب نہیں، اس کی ضرورت ایک انسان کی دوسرے انسان سے باہمی گفت گو میں بھی ہے۔” ماں“ کا لفظ کتنا مقدسّ ہے، اس میں کس قدر محبت، پیار اور احترام ہے! لیکن ماں کا ترجمہ” باپ کی جورُو“ سے کیا جائے تو طبع سلیم کو اس کا سننا بھی گراں گزرتا ہے، خوش سلیقگی کے ساتھ اختلافِ رائے ہو تو اختلافِ رائے سے بھی گرانی نہیں ہوتی، لیکن بد سلیقگی کے ساتھ ”تعریف“ کے بھی گالی ہونے کا خیال گزرتا ہے، مثلاً آپ کو کسی کی رائے سے اختلاف کرنا ہو اور آپ یوں کہیں کہ تمہیں تو عقل ہی نہیں ہے او رتمہاری یہ رائے بالکل غلط اور مطلقاً ناقابل قبول ہے تو بات ”توتو، میں میں“ سے بڑھ کر جیب وگریباں تک بھی آسکتی ہے، لیکن اگر اس بات کو اس طرح کہا جائے کہ آپ تو ماشاء الله سمجھ دار اور ذی رائے آدمی ہیں، مجھ سے زیادہ عقل وفہم رکھتے ہیں، ممکن ہے آپ ہی کی رائے زیادہ صحیح ہو، لیکن میری ناقص عقل میں فلاں فلاں وجہ سے یہ بات اس وقت مناسب محسوس نہیں ہوتی تو اختلاف میں شدت بھی پیدا نہ ہوگی، دوسرے شخص کے لیے اس کی رائے وقار کا مسئلہ بھی نہ رہے گی او را س کے لیے آپ کی رائے کی طرف رجوع کر لینا آسان ہو گا، اس لیے حضرت کلیم کا یہ شعر مجھے بڑا پسند ہے اور شاید آپ کو بھی پسند آئے #
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کرنے کا سلیقہ چاہیے