انسان پر جیسے دوسروں کے حقوق ہیں، اسی طرح اس پر خود اپنی ذات کا، اپنے بال بچوں اور اپنے عزیزوں کا بھی حق ہے، بلکہ یہ حق نسبتاً زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے اور آخرت میں اس کے بارے میں جواب دہی بھی زیادہ ہے۔ انسان پر اس کی ذات کے اور اس کے اہل وعیال کے کیا حقوق ہیں اور اپنے زیر پرورش لوگوں کے تئیں اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں… قرآن وحدیث میں جا بجا اس کا ذکر ہے۔ یہ حقوق انسان کی مادّی ضروریات سے متعلق بھی ہیں اور اس کی دینی اور اخروی حاجات سے متعلق بھی اور یقینا اس کی دینی حاجات سے متعلق حقوق زیادہ اہم ہیں، کیوں کہ مادی ضرورتوں کا تعلق تو ایسے مستقبل سے ہے جو چند سالہ ہے اورجس کی انتہا قبر کی منزل پر ہوجاتی ہے، لیکن دینی اور اخروی ضرورتیں ایسے مستقبل سے متعلق ہیں، جس کی کوئی نہایت نہیں، اُس لیے ایک صاحب ایمان، جو آخرت میں جواب دہی کا احساس رکھتا ہو اور جو اُس دنیا پر یقین کرتا ہو، یقینا اس وسیع اور نہ ختم ہونے والے مستقبل سے بے پروا نہیں ہو سکتا۔
قرآن مجید نے انسان کو اسی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے، کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ:﴿قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیکُمْ نَارًا﴾ ․ (التحریم :6)
یہ آگ سے بچانا کیوں کر ہو گا؟ ایمان اور عمل ِ صالح کے ذریعہ۔ ایمان کیا ہے؟ قرآن وحدیث میں جن جن باتوں کا ذکر آیا ہے، ان سب کو ماننا اوربے کم وکاست ان کا یقین کرنا۔ ایمان صرف کلمہ پڑھ لینے کانام نہیں، اگر ایک شخص اپنی زبان سے توحید کا اقرار کرتا ہو اور قرآن کے کسی حکم کا انکار بھی، رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کی کسی سنت کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہ کرتا ہو، آپ کو نبی مانتا ہو، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی اورنبی کے آنے کا قائل ہو، تو بظاہر وہ صاحب ایمان محسوس ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ کفر کی راہ پر ہے۔ ایمان کا مسئلہ بہت نازک ہے، بعض اوقات انسان ہنسی مذاق میں، غیظ وغضب اور ضد وعناد میں ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو اسے دولت ایمان سے محروم کر دیتی ہیں او راسے خبر تک نہیں ہوتی، ظاہر ہے اس نادانستہ خسران ومحرومی سے بچنے کے لیے ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے علم کے زیور سے آراستہ اور احکام دین سے واقف ہونا، بے علمی او رنا آگہی وجہالت ونادانی انسان کو راہ ِ حق سے دورلے جاتی ہے اورگم راہی کے راستہ پر ڈال دیتی ہے۔
آگ سے بچنے کے لیے دوسری ضروری چیز عمل صالح ہے۔ عمل صالح کے معنی اچھے کام کے ہیں۔ کوئی کام اس وقت اسلام کی نگاہ میں عمل ِ صالح بنتا ہے جب اس میں تین باتیں پائی جائیں، اوّل وہ حکم خدا وندی کے مطابق ہو، دوسرے اس عمل کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ پر انجام دیا جائے، تیسرے: اس کا مقصد الله کی خوش نودی اور رضا کا حاصل کرنا ہو، شہرت ونام وری، عہدہٴ جاہ اور دنیا طلبی مقصود نہ ہو، اگر یہ تینوں باتیں جمع ہوں تو وہ عمل صالح ہے اور ان میں سے کوئی ایک بات بھی نہ پائی جائے تو وہ عمل صالح نہیں ۔ ظاہر ہے کہ عمل صالح کو جاننے او راس کو اختیار کرنے کے لیے قدم قدم پر علم کی ضرورت ہے، ایک وضو او رنماز ہی کو دیکھ لیجیے کہ اس سے متعلق کتنے مسائل واحکام ہیں؟ انسان بوڑھا ہو جائے اور اپنی پوری عمر طے کر لے، پھر بھی ان مسائل کا احاطہ نہیں کر پاتا، ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے، اہل ِ علم سے استفسار کرنا پڑتا ہے، بلکہ خود اصحابِ علم بھی ایک دوسرے سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، فقہ کا ایک سمندر بیکراں، جوانہی اعمال صالحہ کی تشریح وتوضیح سے عبارت ہے۔
غرض انسان کے اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو آخرت کی آگ سے بچانے اور جہنم کی بھٹی سے محفوظ رکھنے کا واحد راستہ ایمان اور عمل ِ صالح ہے او رایمان ہو یا عمل صالح، جب تک دین کا علم نہ ہو، احکام ِ شریعت سے آگہی نہ ہو، کتاب وسنت سے واقفیت اور دین کا فہم نہ ہو، حاصل نہیں ہو سکتا اور ایمان وعمل کا حق جہل وناآگہی کے ساتھ ادا نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس لیے ہر مسلمان کے لیے اپنی ضروریات کے مطابق علم دین کا حصول فرائض میں سے ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بہ وضاحت ارشاد فرمایا کہ : علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے :”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“ شاید ہی دنیا کے کسی مذہب میں علم کی یہ اہمیت ظاہر کی گئی ہو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد میں او رکوئی علم داخل ہو یا نہ ہو، علم ِ دین تو ضرور ہی داخل ہے، کیوں کہ یہ ایسا فریضہ ہے کہ جس کے بغیر دین کا کوئی فرض ادا ہو ہی نہیں سکتا، وضو اس لیے فرض ہے کہ اس سے نماز ادا کی جائے، حرمین شریفین کا سفر اس لیے فرض ہے کہ حج کی ادائیگی ہوسکے، تو علم سے تو تمام ہی فرائض متعلق ہیں، نماز وروزہ، حج وزکوٰة، نکاح وطلاق، حلال وحرام، خلوت وجلوت اور رزم وبزم ، کون سی جگہ ہے او رکون سا موقع ہے جہاں انسان علم کا محتاج نہ ہو، اس لیے علم دین اہم ترین فریضہ ہے، ایسا فریضہ کہ جس پر تمام فرائض کی ادائیگی منحصر ہے۔
اس لیے یقینا قرآن مجید نے اپنے آپ کو او راپنے اہل وعیال کو آگ سے بچانے کا حکم دے کربالواسطہ علم کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہندوستان کے موجودہ حالات میں اس کی اہمیت او ربھی بڑھ گئی ہے، ہمارے سرکاری نظام تعلیم میں آزادی کے بعد ہی سے ہندو تہذیب کی چھاپ ڈالنے کی کوشش رہی ہے، لیکن اب یہ کوشش بے لباس اور تیز رفتار ہے، مسلمان بچوں کو مشرکانہ فکرسے مانوس کیا جارہا ہے، دیویوں اور دیوتاؤں کا تقدس ا ان کے ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے، ہندوبزرگوں کی عظمت ان کے قلوب میں راسخ کی جاتی ہے، مسلمانوں کی تاریخ کو ڈاکوؤں اور لیٹروں کی تاریخ کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے، تاکہ مسلمان بچے احساس کم تری میں مبتلا ہوں، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ِ مبارکہ او راسلام کے قرن ِ اوّل کی تاریخ کو بھی مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے، تاکہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے رفقاء کی عظمت نئی نسل کے دل سے نکل جائے۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کی نئی نسل کے لیے دینی تعلیم کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔
دینی تعلیمی کا ایک درجہ تو ضروریات ِ دین کی تعلیم کا ہے۔ یہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، ہمارے جو بچے عصری درس گاہوں میں زیرِ تعلیم ہیں، ان کے لیے بھی قرآن مجید کا با تجوید ناظرہ، کچھ سورتوں کا حفظ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ، ضروری فقہی مسائل اور شب وروز کے مختلف احوال سے متعلق جو ادعیہ واذکار منقول ہیں، ان کا یاد کرانا تو ہر مسلمان بچے کے لیے ضروری ہے، اب اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہو گئی ہے کہ ان کو اسلام کی اور مسلمانوں کی تاریخ بھی پڑھائی جائے، تاکہ وہ احساس ِ کم تری سے بچ سکیں اور اسلام پر مغربی مصنفین او ران سے متاثر ہو کر مشرق کے اہل ِ علم جو اعتراضاات کرتے ہیں ان کے جواب میں بھی راہ نمائی کی جائے، تاکہ غلط فہمیوں اور پروپیگنڈوں کے دام ِ ہم رنگِ زمین سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔
علم ِ دین حاصل کرنے کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ امت میں کچھ لوگ قرآن وحدیث کا تفصیلی علم حاصل کریں، کتاب وسنت پر ان کی گہری نگاہ ہو، فقہ ِ اسلامی پر ان کی وسیع نظر ہو۔
ایمانیات اور عقائد کی گہرائیوں تک ان کی رسائی ہو، ہر عہد میں اسلام کے خلاف جو فتنے کھڑے ہوں، وہ ان کے مقابلہ کی صلاحیت کے اہل ہوں، وہ اسلام کی فکری سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں او راپنے عہد کے پیدا ہونے والے مسائل کو فراست ِ ایمانی کے ساتھ کتاب وسنت کی روشنی میں حل کریں۔ یہ امت پر فرضِ کفایہ ہے، جیسے کسی ملک کی سرحد پر فوج کا دستہ کھڑا رہتا ہے، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس پر مفت میں کثیر اخراجات ہو رہے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ ملک کے سب سے بڑے محسن او راس کی سلامتی کے ضامن ہیں، یہی مقام فکری اعتبار سے کسی بھی سماج میں علماء ِ دین کا ہے، یہ ہمارے معنوی وجود، ہمارے فکری تشخص او رہمارے تہذیبی امتیازات کے محافظ ہیں، کسی سماج میں اگر کوئی عالم نہ ہو تو کافرانہ طاقتیں علانیہ یا نادانستہ ان کو اُچک سکتی ہیں، عالم ِ ممکن ہے عمل کے اعتبار سے کوتاہ ہو، لیکن انشا ئا لله وہ کسی گم راہی کے بارے میں غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا اورپروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہو سکتا، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کا کوئی خاندان ایسا نہ ہو جو عالم ِ دین سے خالی ہو، یہ انشاء الله اس پورے خاندان کے لیے حفاظت ِ دین کی ضمانت ہے۔
بدقسمتی سے مسلمانوں نے ایسا سوچ لیا ہے کہ یہ عظیم الشان علم صرف غریب اور پس ماندہ مسلمانوں کے لیے ہے، مسلمانوں میں مرفہ الحال اور اصحاب ثروت کا طبقہ علم دین کی طرف سے بالکل ہی بے توجہ ہے، بلکہ وہ اسے حقارت او رکم تری کی نظرسے دیکھتا ہے۔ یہ نہایت ہی افسوس ناک بات ہے۔ یہ سمجھنا تو درست نہیں کہ یہ غریب طلبہ، کند ذہن اور فکری اعتبار سے مفلس ہوتے ہیں، کیوں کہ ذہانت کا دولت وغربت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہتجربہ یہ ہے کہ غریب ماحول کے بچے علم کی طرف زیادہ متوجہ رہتے ہیں، چناں چہ اس وقت آئی اے ایس اور اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں زیادہ تراسی طبقہ سے طلبہ کا م یابیحاصل کر رہے ہیں، لیکن اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ جو طالب علم معاشی اعتبار سے پست ماحول سے اٹھتا ہے، وہ بہر حال نفسیاتی اعتبار سے احساس کم تری کا شکار رہتا ہے اور سماج میں جو مرفہ الحال طبقہ ہے، اس سے آنکھیں ملا کر بات کرنے کی قوت اپنے اندر نہیں پاتا، اس سے سماج میں کچھ لوگ دینی راہ نمائی او راپنی کوتاہیوں کی اصلاح سے محروم رہتے ہیں۔ اگر سماج کے معزز سمجھے جانے والے لوگ علم دین حاصل کریں تو وہ اپنے طبقہ کے لوگوں سے آنکھیں ملا کر باتیں کرسکیں گے اور بے جھجک اسلامی تعلیمات کو ان کے سامنے پیش کریں گے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کے معزز اور مرفہ الحال لوگ علم دین کی طرف متوجہ ہوں او راس علم کو حاصل کرنے میں آگے آئیں۔
قابل ِ فکر امر یہ ہے کہ آخر علم ِ دین کی طرف سماج کے اونچے طبقے کی توجہ کیوں نہیں ہے؟ حالاں کہ ہر شخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ جو بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں تہذیب وشائستگی اور بڑوں کی توقیر، چھوٹوں کے ساتھ شفقت ، اپنے پرائے کے ساتھ حسن ِ سلوک، نگاہ اور زبان کی حفاظت او راپنے فرائض کے تئیں جواب دہی کے احساس کا عنصر زیادہ ہوتا ہے، لیکن کیا بات ہے کہ اس کے باوجود علم کا یہ شعبہ لوگوں کے التفات سے محروم ہے؟؟ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جو لوگ دین اور علم دین کی خدمت میں مشغول ہیں، ان کے پاس مادی وسائل کم ہیں، ان کو کم تنخواہوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے، یہی ایک بات ہے جس نے مادہ پرست اذہان اور حریصانہ فکر وذہن کے حاملین کو علم دین کی طرف آنے سے روکا ہوا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ وہ کیا کھائیں گے؟
اس سلسلہ میں مسلمان سماج کے لیے د وباتیں قابل توجہ ہیں: اوّل یہ کہ کیا مسلمانوں کا معاشرہ اپنے دینی تحفظ کے لیے ایک ایسے طبقہ کی صحیح طریقہ پر کفالت نہیں کر سکتا جن کی تعداد بہ مشکل ایک فی ہزار ہو گی؟ اگر مسلمان اپنی دوسری ضروریات کی طرح دینی خدمت گزاروں کو بھی اپنے لیے ایک ضرورت باور کریں اور فراخ حوصلگی کے ساتھ ان کے تعاون کے لیے ہاتھ بڑھائیں اور خادمین دین کو کم سے کم معاشی اعتبار سے اس لائق بنائیں کہ وہ متوسط طریقہ پر سماج میں اپنی زندگی بسر کرسکیں، تو یقینااس علم سے بے اعتنائی اور بے رغبتی کی یہ کیفیت باقی نہیں رہے گی۔ اور یہ کچھ مشکل نہیں ہے، بعض وہ قومیں جو باطل فکر ونظر کی حامل ہیں، اپنے مذہب اورمذہبی شخصیتوں کے لیے کل آمدنی کا دس فیصد وقف کی ہوئی ہیں، مسلمان اتنی بڑی قوم ہے کہ اگر وہ آمدنی میں دین کے خدمت گزاروں کے لیے ایک فی صد، بلکہ نصف فی صد بھی حصہ مقرر کر لیں تو ان کے ائمہ، مؤذنین، علماء اوردینی کام کرنے والے بہتر حالات میں اپنی زندگی گزار سکتے ہیں ۔کاش! مسلمان اس پہلو سے غور کریں کہ خادمین ِ دین کے وقار کو بلند کرنا دراصل خود دین کے وقار کو بلند کرنا ہے۔
دوسری ضروری بات یہ ہے کہ آج کی دنیا میں معیشت کا علم سے کچھ زیادہ ربط نہیں ہے، ہمارے اسی شہر میں کتنے لوگ ہیں جو نشان ِ ابہام سے کام چلاتے ہیں، لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ان کے ملازم ہیں اور دولت ان کے قدموں میں نثار ہے، کتنے انجینئر بیکار ہیں او رکتنے ڈاکٹر بے روز گار ہیں او رکتنے قانون داں مؤکل کی تلاش میں خاک چھانتے نظر آتے ہیں، اس لیے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ایک شخص علم دین حاصل کرے گا تو بھوکا مرے گا اور دوسرے علوم حاصل کرے گا تو اس کے گھر میں ”ہن“ برسنے لگیں گے، حقیقت یہ ہے کہ الله تعالیٰ رزاق اور روزی رساں ہیں، چاہیں تو پڑھے لکھے لوگوں کو محروم رکھیں اور چاہیں تو جاہلوں کو سرفراز فرما دیں، پھریہ ایک نظر یہ نہیں، بلکہ تجربہ اور آزمودہ حقیقت ہے کہ جو لوگ الله کے دین کے کام میں مشغول ہیں، الله ان کو ضائع نہیں کرتا اور غیب سے ان کی کفالت کا سروسامان کرتا ہے۔ آخر اسی معاشرہ میں وہ دینی تعلیم یافتہ لوگ بھی موجود ہیں جو خوش پوش بھی ہیں، باعزت طریقہ پر اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور کسی کے سامنے دست ِ سوال پھیلانے پر مجبو رنہیں ہیں، بلکہ الله تعالیٰ نے امت کے دل میں ان کی محبت اس طرح ڈال دی ہے کہ مشکل مواقع پر بلا کہے سنے اور بلاطمع واشراف وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں، اس لیے بھروسہ الله پر ہونا چاہیے۔ اگر ایک مسلمان میں الله کی رزاقیت کا یقین بھی نہ پیدا ہو، تو یہ کیسا کھوکھلا اور بے روح ایمان ہے؟
پس موجودہ حالات میں او رعالمی حالات کے پس منظر میں یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان دینی تعلیم کی اہمیت کی طرف متوجہ ہوں۔ آج ہمارے ملک میں مدارس اسلامیہ کے خلاف آوازیں اٹھائی جارہی ہیں، عالمی سطح پر بھی ان کو بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا مرکز قرار دیا جارہا ہے، یہ سب ان لوگوں کی زبان ہے کہ اسلام سے جن کی عداوت ظاہر وباہر ہے۔ اعداءِ اسلام کا یہ رویہ سرمایہ عبرت ہے، جو لوگ حق وراستی کے دشمن ہوں، وہ تو مدارس کی اہمیت کو سمجھ لیں ،لیکن جو لوگ صاحب ِ ایمان اور اسلام کے نام لیوا ہیں، وہی اسلام کی حفاظت اور اس کی بقا میں مدارس کے کردار کی اہمیت کو نہ سمجھیں، اس سے زیادہ قابل ِ افسوس او رکیا بات ہوگی؟