حضرت ڈاکٹر محمد عبدالحئی صاحب عارفی (رحمة الله علیہ) ہمارے زمانے کی ان درخشاں شخصیتوں میں سے تھے جو عمر بھر شہرت ، پبلسٹی اور نام ونمود سے دامن بچا کر زندگی گزارتے ہیں، لیکن ان کی سیرت وکردار کی خوش بو خود بخود دلوں کو کھینچتی اور ماحول کو معطر کرتی ہے، وہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله علیہ کے تربیت یافتہ اور تصوف وسلوک میں ان کے خلیفہٴ مجاز تھے، چناں چہ لوگ اپنے اعمال واخلاق کی اصلاح کے لیے ان سے رجوع کرتے او ران کی ہدایات سے فیض یاب ہوتے تھے، ایک مرتبہ ایک صاحب حضرت ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور اپنا حال بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ” الحمدلله“ مجھے احسان کا درجہ حاصل ہوگیا ہے ، ( احسان ایک قرآنی اصطلاح ہے جس کی تشریح حدیث میں یہ کی گئی ہے کہ الله تعالیٰ کی عبادت اس دھیان کے ساتھ کی جائے جیسے عبادت کرنے والا الله تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم اس دھیان کے ساتھ کہ الله تعالیٰ اسے دیکھ رہے ہیں) ان صاحب کا مطلب یہ تھا کہ عبادت کی ادائیگی کے دوران بحمدالله مجھے یہ دھیان حاصل ہوگیا ہے، جسے حدیث کی اصطلاح میں احسان کہا جاتا ہے۔
حضرت ڈاکٹر صاحب نے جواب میں انہیں مبارک باددی اور فرمایا کہ ” احسان واقعی بڑی نعمت ہے، جس کے حاصل ہونے پر شکر ادا کرنا چاہیے، لیکن میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ احسان کا یہ درجہ صرف نماز ہی میں حاصل ہوا ہے یا جب آپ اپنے بیوی بچوں سے ،دوست احباب سے کوئی معاملہ کرتے ہیں اس وقت بھی یہ دھیان باقی رہتا ہے؟ اس پر وہ صاحب کہنے لگے کہ ہم نے تو یہی سنا تھا کہ احسان کا تعلق نماز اور دوسری عبادتوں کے ساتھ ہے، لہٰذامیں نے تو اس کی مشق نماز ہی میں کی ہے اور بفضلہ تعالیٰ نماز کی حد تک یہ مشق کام یاب رہی ہے، لیکن نماز سے باہر زندگی کے عام معاملات میں کبھی احسان کی مشق کا خیال ہی نہیں آیا۔ حضرت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میں نے اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے آپ سے یہ سوال کیا تھا، بے شک نماز اوردوسری عبادتوں میں یہ دھیان مطلوب ہے، کہ الله تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں، لیکن اس دھیان کی ضرورت صرف نماز ہی کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ زندگی کے ہر کام میں اس کی ضرورت ہے، انسان کو لوگوں کے ساتھ زندگی گزارتے او ران کے ساتھ مختلف معاملات انجام دیتے ہوئے بھی یہ دھیان رہنا چاہیے کہ الله تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں، خاص طور پر میاں بیوی کا تعلق ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے دم دم کے ساتھی ہوتے ہیں او ران کی رفاقت میں بے شمار اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، بہت سی ناگواریاں بھی پیش آتی ہیں اور ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب انسان کا نفس اسے ان ناگواریوں کے جواب میں ناانصافیوں پر ابھارتا ہے، ایسے موقع پر دھیان کی ضرروت کہیں زیادہ ہے کہ الله تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں، اگر یہ احساس ایسے وقت دل میں جاگزین نہ ہو تو عموماً اس کا نتیجہ نا انصافی اور حق تلفی کی صورت میں نکلتا ہے۔
اس کے بعد حضرت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے تمام عمر کبھی اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ طبعی غصے اور ڈانٹ ڈپٹ کا معاملہ نہیں فرمایا۔ (صحیح البخاری، کتاب الحدود، باب إقامة الحدود والانتقام لحرمة الله، حدیث:6786) او راس سنت پر عمل کی کوشش میں، میں نے بھی یہ مشق کی ہے کہ میں اپنے گھر والوں پر غصہ نہ اتاروں، چناں چہ میں الله تعالیٰ کے شکر کے طور پر کہتا ہوں کہ آج مجھے اپنی اہلیہ کے ساتھ رفاقت کواکیاون سال ہوچکے ہیں، لیکن اس عرصے میں الحمدلله میں نے کبھی ان سے لہجہ بدل کر بھی بات نہیں کی، بعد میں ایک مرتبہ حضرت ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ محترمہ نے از خود حضرت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ تمام عمرمجھے یاد نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کبھی ناگواری کے لہجے میں بات کی ہو اور نہ کبھی مجھے یہ یاد ہے کہ انہوں نے مجھ سے براہِ راست اپنا کوئی کام کرنے کو کہا ہو، میں خود ہی اپنے شوق سے ان کے کام کرنے کی کوشش کرتی تھی، لیکن وہ مجھ سے نہیں کہتے تھے۔
حضرت ڈاکٹر صاحب کی یہ باتیں آج مجھے اس لیے یاد آگئیں کہ میں نے پچھلے ہفتے خطبہٴ نکاح کا پیغام کی تشریح کرتے ہوئے یہ عرض کیا تھا کہ پر مسرت اور خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے تقویٰ ضروری ہے، حضرت ڈاکٹر صاحب کا یہ عمل ( جو ہوا میں اڑنے او رپانی پر چلنے کی کرامتوں سے ہزار درجہ اونچے درجے کی کرامتہے ) در حقیقت اسی تقوی کا نتیجہ اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد کی عملی تصویر تھا کہ :
” تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہوں“۔ ( سنن التزمذی، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی حق المرأة علی زوجھا، رقم الحدیث:1162)
بے شک قرآن کریم نے مردوں کو عورتوں پر قوام(نگران) قرار دیا ہے۔ ( سورة النساء:34) لیکن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ارشادات او راپنے عمل سے یہ بات واضح فرما دی ہے کہ نگران ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد ہر وقت عورتوں پر حکم چلایا کرے، بیوی کے ساتھ خادمہ جیسا معاملہ کرے یا اسے اپنی آمریت کے شکنجے میں کس کر رکھے، حقیقت یہ ہے کہ خود قرآن کریم نے ہی ایک دوسری جگہ میاں بیوی کے رشتے کو مودّت ( دوستی) اور رحمت سے تعبیر فرمایا ہے۔
نیز اسی آیت میں شوہر کے لیے بیوی کو سکون کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ( سورة الروم:21)
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اصل رشتہ دوستی اورمحبت کا ہے اور دونوں ایک د وسرے کے لیے سکون اور راحت کا ذریعہ ہیں، لیکن اسلام ہی کی ایک تعلیم یہ ہے کہ جب کبھی کوئی اجتماعی کام کیا جائے تو لوگوں کو چاہیے کہ وہ کسی کو اپنا امیر بنالیں، تاکہ کام نظم وضبط کے ساتھ انجام پائے، یہاں تک کہ اگر دو شخص کسی سفر پر جارہے ہوں، تب بھی مستحسن یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالیں، خواہ وہ دونوں آپس میں دوست ہی کیوں نہ ہوں، اب جس شخص کوابھی امیر بنایا جائے وہ ہر وقت دوسرے پر حکم چلانے کے لیے نہیں، بلکہ سفر کے معاملات کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے امیر بنایا گیا ہے، اس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھی یا ساتھیوں کی خبر گیری کرے، سفر کا ایسا انتظام کرے جو سب کی راحت وآرام کے لیے ضروری ہو اور جب وہ یہ فرائض انجام دے تو دوسروں کا کام یہ ہے کہ وہ ان امور میں اس کی اطاعت اور اس کے ساتھ تعاون کریں۔
جب اسلام نے ایک معمولی سے سفر کے لیے بھی یہ تعلیم دی ہے تو زندگی کا طویل سفر اس تعلیم سے کیسے خالی رہ سکتا تھا؟ لہٰذا جب میاں بیوی اپنی زندگی کامشترک سفر شروع کر رہے ہوں تو ان میں سے شوہر کو اس سفر کا امیر یا نگران بنایا گیا ہے، کیوں کہ اس سفر کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے جو جسمانی قوت اور جو صفات درکار ہیں وہ قدرتی طور پر مرد میں زیادہ ودیعت کی گئی ہیں، لیکن اس انتظام سے یہ حقیقت ماند نہیں پڑتی کہ دونوں کے درمیان اصل تعلق دوستی، محبت اور رحمت کا تعلق ہے او ران میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے ساتھ ایک نوکر کا سا معاملہ کرے یا شوہر اپنی امارت کے منصب کی بنیاد پر یہ سمجھے کہ بیوی اس کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے پیدا ہوئی ہے یا اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیوی سے اپنی ہر جائز یا ناجائز خواہش کی تکمیل کرائے، بلکہ الله تعالیٰ نے مرد کو جو قوت اور جو صفات عطا کی ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے اس منصب کو جائز حدود میں رہتے ہوئے ،بیو ی کی دل داری میں استعمال کرے او راس کی جائز خواہشات کو حتی الامکان پورا کرے، اسی طرح الله تعالیٰ نے بیوی کو جو مقام بخشا ہے اور اسے جو حقوق عطا کیے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتیں اپنی شریک زندگی کے ساتھ تعاون او راسے خوش رکھنے میں صرف کرے، اگر دونوں یہ کام کر لیں تو نہ صرف یہ کہ گھر دونوں کے لیے دنیوی جنت بن جاتا ہے، بلکہ ان کا یہ طرز عمل مستقل عبادت کے حکم میں ہے، جو آخرت کی حقیقی جنت کا وسیلہ بھی ہے، اسی لیے دونوں کو نکاح کے خطبے میں تقوی کا حکم دیا گیا ہے اور اسی لیے حضرت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ احسان کا موقع صرف نماز ہی نہیں، بلکہ میاں بیوی کے تعلقات بھی ہیں۔
قرآن کریم کی بے شمار آیات میں سے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کے خطبے کے لیے خاص طو رپر انہیں تین آیات کا جو انتخاب فرمایا یقینا اس میں کوئی بڑی مصلحت ہو گی ، غور کیا جائے تو ان تینوں آیتوں میں جو بات مشترکہ طور پر کہی گئی ہے وہ تقوی کا حکم ہے، تینوں آیتیں اسی حکم سے شروع ہو رہی ہیں کہ تقوی اختیار کرو، کوئی نادان یہ کہہ سکتا ہے کہ تقوی کا شادی بیاہ سے کیا جوڑ؟ لیکن جو شخص حالات کے نشیب وفراز او رمیاں بیوی کے تعلق کی نزاکتوں کو جانتا ہے او رجسے ازدواجی اُلجھنوں کی تہہ تک پہنچنے کا تجربہ ہے وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میاں بیو ی کے خوش گوار تعلقات او رایک دوسرے کے حقوق کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی کے لیے تقوی ایک لازمی شرط ہے، میاں بیوی کا رشتہ نازک ہوتا ہے او ران دنوں کے سینے میں چھپے ہوئے جذبات او ران کی حقیقی سر شت ایک دوسرے کے سامنے اتنی کھل کر آتی ہے کہ کسی اور کے سامنے اتنی کھل کر نہیں آسکتی، دوسروں کے سامنے ایک شخص اپنی بد طینتی کو ظاہری مسکراہٹوں کے پردے میں چھپا سکتا ہے، اپنے اندر کے انسان پر خوب صورت الفاظ اورپوری خوش اخلاقی کا ملمع چڑھا سکتا ہے، لیکن بیوی کے ساتھ اپنے شب وروز کے معاملات میں وہ یہ ملمع باقی نہیں رکھ سکتا، اسے اپنی ظاہر دار ی کے خول سے کبھی نہ کبھی باہر نکلنا ہی پڑتا ہے او راگر اندر کا یہ انسان تقوی سے آراستہ نہ ہو تو اپنے شریک زندگی کا جینا دوبھر کر دیتا ہے، ایک بیوی کو اپنے شوہر سے جو تکلیف پہنچتی ہیں، ان کا ازالہ ہمیشہ عدالت کے ذریعہ نہیں ہوسکتا، ان میں سے بے شمار تکلیفیں ایسی ہیں جو وہ عدالت تو کُجا، اپنے کسی قریبی رشتہ دار کے سامنے بھی بیان نہیں کرسکتی، اسی طرح ایک شوہرکو بیوی سے جو شکایتیں ہوسکتی ہیں بسا اوقات شوہر کے پاس ان کا کوئی حل نہیں ہوتا، نہ کسی اور کے ذریعے وہ انہیں دور کرنے کا کوئی سامان کرسکتا ہے، اس قسم کی تکلیفوں اور شکایتوں کا کوئی علاج دنیا کی کوئی طاقت فراہم نہیں کرسکتی، ان کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ دونوں کے دل میں تقوی ہو، یعنی وہ اس احساس کی دولت سے مالا مال ہوں کہ وہ ایک دوسرے کے لیے امانت ہیں اور اس امانت کی جواب دہی انہیں اپنے الله کے سامنے کرنی ہے، اپنے شریک زندگی کو اپنے کسی طرز عمل سے ستا کر وہ شاید دنیا کی جواب دہی سے بچ جائیں، لیکن ایک دن آئے گا جب وہ الله کے سامنے کھڑے ہوں گے او رانہیں اپنی ایک ایک حق تلفی کا بھگتان بھگتنا پڑے گا، اسی احساس کا نام تقوی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل پر ان تنہائیوں میں بھی پہرہ بٹھاتی ہے، جہاں اسے کوئی اور دیکھنے والا نہیں ہوتا، آں حضرت صلی ا لله علیہ وسلم یہ چاہتے ہیں کہ جب دو مرد وعورت زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے ساتھی بنیں تو وہ روانہ ہونے سے پہلے اپنے دلوں پر یہ غیبی پہرہ بٹھالیں، تاکہ ان کی دوستی پائیدار ہو اوران کے دل میں ایک دوسرے کی محبت محض وقتی نفسانیت کی پیدا وارنہ ہو، جو نئی نویلی زندگی کا جوش ٹھنڈا ہونے کے بعد فنا ہو جائے، بلکہ وہ تقوی کے سائے میں پلی ہوئی پائیدار محبت ہو، جو خود غرضی سے پاک او رایثار، وفا او رخیر خواہی کے سدابہار جذبات سے مزین ہوتی ہے او رجسم سے گزر کر واقعی قلب وروح کی گہرائیوں تک سرایت کرجاتی ہے، اس لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کے خطبے میں ان تین آیات کا انتخاب فرمایا، جن میں سے ہر آیت تقوی کے حکم سے شروع ہو رہی ہے اور وہ اس کا بنیادی پیغام ہے۔