یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ ہر مسلمان کی دینی حمیت کا تقاضا ہے

idara letterhead universal2c

یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہر مسلمان کی دینی حمیت کا تقاضا ہے

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿وَلَا تَہِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ﴾․ (سورةآل عمران، آیت:139)
وقال الله سبحانہ وتعالیٰ:﴿کَم مِّن فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ ﴾․ (سورة البقرة،آیت:249)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! آج جو دنیا میں حالات ہیں خاص طو رپر اہل ایمان او راہل اسلام کے حوالے سے ، وہ الله تعالیٰ کی طرف سے مقدر اور مقرر ہیں، چناں چہ اس دنیا کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو عروج وزوال، کام یابی وناکامی، ذلت اور عزت یہ مسلسل اس دنیا میں آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن الله تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے جو کلید اور چابی مقرر فرمائی ہے، وہ ایمان ہے، چناں چہ ایمان اگر دل و جان کے اندر پیوست اور راسخ ہے اور مسنون زندگی امتی نے اختیار کی ہوئی ہے تو بظاہر خون بہتا ہوا محسوس ہو گا، بظاہر جانی، مالی نقصانات ہوتے ہوئے نظر آئیں گے، لیکن الله تعالیٰ ان قربانیوں سے خوش ہوتے ہیں اور قربانیاں دینے والوں کو الله تعالیٰ بہت بڑے بڑے درجات اور مقامات عطا فرماتے ہیں، ہم صبح شام اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ملیریا کا بخار ہوا اور آدمی مر گیا، موشن اور دست کی بیماری لگی اور آدمی مر گیا، بہت بڑی تعداد میں اسباب ہیں، لیکن شہادت کی جو موت ہے، الله تعالیٰ کی رضا او راس کی خوش نودی کے لیے جو جان دی جاتی ہے، جو قربانی دی جاتی ہے وہ الله تعالیٰ کو بہت زیادہ عزیز ہے اور الله تعالیٰ کا عجیب نظام ہے۔ میں نے کئی دفعہ عرض کیا ہے کہ الله تعالیٰ غلبے، کام یابی اور فتح کے لیے اسباب کے محتاج نہیں کہ یہ والا ٹینک ہو گا، یہ والی توپ ہو گی یہ والا میزائل ہو گا، یہ والا جیٹ طیارہ ہو گا، یہ والی ٹیکنالوجی ہو گی تو کام یابی ہو گی۔ نہیں، کام یابی تو الله سے جڑی ہوئی ہے، کام یاب الله فرماتے ہیں۔

ہم بڑے کم زور لوگ ہیں، ہمارا ایمان بہت ضعیف ہے، الله تعالیٰ کا یہ وعدہ حتمی ہے کہ کام یابی ایمان سے ملتی ہے، کام یابی میرے بھیجے ہوئے نبی سید الرسل محمد صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

چناں چہ یہ دو چیزیں اگر مسلمان میں ہوں تو اگر دشمن ہزاروں گنا زیادہ ہو ، دشمن کی تیاری بھی ہزاروں گنا زیادہ ہو، وہ دشمن الله سے نہیں لڑ سکتا، وہ تو الله سے لڑ رہا ہے۔

چناں چہ میں نے کئی دفعہ گزاش کی، ہم لوگ تو بہت کم زور ہیں، ہمارا ایمان بہت ضعیف ہے، لیکن الله تعالیٰ کا ایک نظام ہے کہ وہ ضعیف اورکم زو رایمان والوں کی تقویت کے لیے ان کی تسلی کے لیے دنیا میں ایسے واقعات رونما فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے۔

آپ عقل سے ذرا سوچیں ، غور کریں کہ امریکا باون ریاستوں کا مجموعہ ریاستہائے متحدہ امریکا اس کا نام ہے۔اور ایک ایک ریاست بڑے بڑے ملک کی حیثیت رکھتی ہے۔

افغانستان میں جو کچھ ہوا، امریکا کی کوئی ایک ریاست بھی ان سے جنگ کے لیے آتی یہاں تو کچھ بھی نہیں، نہ ان کے پاس لباس، نہ خوراک، نہ جوتے، بنیادی ضرورت کا سامان بھی نہیں، اسلحہ تو دور کی بات ہے۔

ایک ریاست بھی کافی تھی، لیکن پورا امریکا، ریاستہائے متحدہ امریکا او راس پر بھی بس نہیں، اس کے ساتھ دنیا کے طاقت ور ترین پچاس ملکوں کی فوجیں، اس دنیا کی تاریخ میں اتنی بڑی جنگی مشین روئے زمین پر نہیں لگائی گئی کہ اتنی ٹیکنالوجی ہو، اتنی سائنسی ترقی ہو، ایسا جدید ترین اسلحہ ہو تو عقل تو کہتی ہے کہ ایک منٹ کے اندر سامنے والوں کو ختم ہو جانا چاہیے، لیکن ساری دنیا نے دیکھا کہ الله نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی، یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ یہ سب ہو رہا ہے مسلمانوں کے ایمان، اسلام، الله کی مدد ،اس سے ہماری تقویت کا سامان ہو رہا ہے کہ دیکھو! یہ ساری کی ساری ٹیکنالوجی، یہ سارا کا سارا جدید سامان اسلحہ ،یہ ساری کی ساری سائنسی ترقی میرے ایک حکم کے سامنے ہیچ ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں۔

چناں چہ یہ تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہے، جو دشمن بھی مانتا ہے، دوست بھی مانتے ہیں کہ وہ سب کے سب لوگ، وہ ساری فوجیں، وہ ساری ٹیکنالوجی، وہ ساری سائنسی ترقی، اس کو شکست نہیں ہوئی، بلکہ فرار ہوئے، شکست تو یہ ہوتی ہے کہ فوج نے اسلحہ ڈال لیا، سرنڈر ہو گئے، ایک طریقہ ہے دنیا کے اندر، وہ بھاگ گئے ، رات کے اندھیروں میں بھاگ گئے ،بات وہی ہے الله تعالیٰ کی﴿وَلَا تَہِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ﴾ بو دے اور کم زور نہ بنو، غم زدہ او رافسردہ مت ہو، تم ہی غالب ہو گے، تم ہی بلند وبالا ہو گے، مگر شرط کیا ہے؟﴿إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ﴾ اگر تم ایمان والے ہو۔

او راس کی کوئی فکر نہیں کہ ہمیں کھانا کہاں سے ملے گا؟ کپڑے کہاں سے ملیں گے؟ یہ سارا ذمہ تو الله کا ہے، ﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللَّہِ رِزْقُہَا﴾ زمین پر ہر طرح کی زندگی اور ہر طرح کا چوپایہ اس کا رزق الله کے پاس ہے، کام یابی او رناکامی الله دیتے ہیں، غلبہ او رفتح الله کے ہاں سے آتی ہے۔ آج فلسطین میں 83 دن ہو گئے ( بیان15 جمادی الاولی1445ھ کا ہے اس دن تک 83 دن ہوئے تھے) کہ وہ جو غزہ کی پٹی ہے، وہ چالیس بیالیس میل لمبی ہے اور بارہ تیرہ میل چوڑی ہے، اس سے زیادہ نہیں او ران کے سامنے جو دشمن ہے وہی ساری پارٹی جویہاں سے بھاگی تھی، اسرائیل کی اپنی فوج، اس کی ٹیکنالوجی، اس کی ترقی، اس کی سائنس، چناں چہ اب جو خبریں آرہی ہیں، وہ یہ ہے کہ بھاگ رہے ہیں، ان کے فوجی خود کشیاں کر رہے ہیں، ان کے فوجی ذہنی مریض بن رہے ہیں، نفسیاتی مریض بن رہے ہیں، ان کے فوجیوں نے جو انٹرویو دیے کہ خواب کے اندر ہمیں دہشت کے مناظر نظر آتے ہیں تو ہم چیخنے چلانے لگتے ہیں، یہ سارا کا سارا نظام ِ الله کے پاس ہے۔

شرط وہی ہے، روئے زمین کا کوئی بھی حصہ ہو چاہے غزوہ بدر ہو، چاہے غزوہ احد، غزوہ خندق ہو، چاہے وہ آپ صلی الله علیہ و سلم کے بعد کا زمانہ ہو اور قیامت تک کے لیے اصول ہے کہ ایمان۔

میرے دوستو! آج جو صورت حال ہے وہ سن سن کر ، پڑھ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا کو دھوکہ دیا جاتا ہے انسانی حقوق کا، دنیا کو دھوکہ دیا جاتا ہے انسانی ہم دردی کا، لیکن وہی لوگ جو انسانیت کے حقوق کا درس دیتے ہیں وہ آج معصوم بچے، نوزائیدہ بچے، شیر خوار بچے، عورتیں، مرد، بوڑھے سب کو قتل کررہے ہیں، مساجد، شفاخانے، ہسپتال اور گھروں کو کھنڈر بنا دیا اور موت کا خوف ناک کھیل انہوں نے وہاں مسلط کیا ہوا ہے۔
میرے دوستو! یہ بہت بڑی آزمائش ہے، بہت بڑا ابتلا ہے اورہم میں سے ہر مسلمان کو بحیثیت مسلمان اس آزمائش کو محسوس کرنا چاہیے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہماری ایسی کیفیت ہو گئی ہے کہ بڑیبڑے حادثات ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے اندر کوئی گرمی پیدا نہیں ہوتی، کوئی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، یقیناً ہم مجبو رہیں کہ ہم وہاں جانہیں سکتے، لیکن ہم یہاں ان کے لیے پریشان تو ہو سکتے ہیں، یہاں ہم ان کے لیے دعائیں تو کرسکتے ہیں، یہاں ہم ان کے لیے بہت سی ایسی شکلیں اختیار کر سکتے ہیں جن سے ان کی کسی طرح سے مدد ہو جائے۔

آپ حیران ہوں گے کہ ساری دنیاکو یہودی اقتصاد نے اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے، جکڑا ہوا ہے او ربہت بڑی مقدار سامان، اشیاء کی ایسی ہے کہ جنہیں آج مسلمان استعمال کرتا ہے او راس کے نتیجے میں یہود کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ فائدہ ہمارے مسلمانوں پر بمباری کرنے، ان کو تباہ کرنے میں خرچ ہوتا ہے، لیکن مسلمان غافل ہے۔

کتنی ایسی چیزیں ہیں، جو ضروریات زندگی میں سے بھی نہیں ہیں، مثلاً کولا مشروبات استعمال کیے جاتے ہیں، پیسی کولا، کوکا کولا او راس کے علاوہ بہت سی اشیاء جو ہماری ضرورت نہیں ہیں، لیکن اسے ایسی ضرورت بنا دیا گیا ہے کہ اگر کسی دعوت کے اندر آپ ہر طرح کا اہتمام کر لیں، پیپسی کولا، اور کوکا کولا نہ ہو تو سامنے والا کہتا ہے کہ یہ تو دعوت ہی نہیں ہوئی۔

میرے دوستو! یہ چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں جسم وجان کے اعتبار سے بھی نقصان پہنچارہی ہیں او را س کے ساتھ ہی ساتھ اس کے نتیجے میں ہمارے دشمن کوبھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔

آپ سوچیے کہ جو صورت حال دشمن نے فلسطین میں پیدا کی ہے کیا وہ ہمیں اجازت دیتی ہے کہ ہم اس دشمن کی مصنوعات کو استعمال کریں، یہ سوچنے کی بات ہے، جس حد تک ممکن ہو ،ہم ان چیزوں سے نہ صرف یہ کہ خود اجتناب کریں، بلکہ اپنے اپنے دائرے کے اندر، اپنے گھروں کے اندر، اپنے خاندان کے اندر، اپنے دوستوں کے اندر، اپنے بازاروں کے اندر، ہم اس کی کوشش کریں کہ وہ تمام مصنوعات جو ان دشمنوں کی ہیں ہم ان کا استعمال ترک کریں، اپنے اند ریہ احساس پیدا کریں۔

ایک صاحب امریکا سے آئے، اسی جامعہ میں، ان کے ساتھ ان کے دو چار بچے بھی تھے، گرمیوں کا زمانہ تھا، حالات بھی اس وقت ایسے نہیں تھے، تو ہمارے ہاں جیسے عام معمول ہے کہ پیپسی سے اکرام کیا جاتا ہے، تو پیپسی آگئی، لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھارہا، ایک دفعہ کہا، دو دفعہ کہا، تین دفعہ کہا، لیکن انہوں نے وہ پیپسی نہیں لی تو جب اصرار کیا گیا تو ان میں سے ایک بچے نے کہاکہ انکل یہ جو پیپسی ہے اس کے پینے سے ہمارے امام صاحب نے منع کیا ہے، اس سے یہودیوں کو فائدہ ہوتا ہے، مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہے، یہ کہاں رہتے ہیں؟ پاکستان میں نہیں رہتے، امریکا میں رہتے ہیں، تو یہ شعور او راحساس اور یہ بے داری جب ہمار ے اندر نہیں ہوگی ، تو ہمارے ہی ذریعے سے، ہماری ہی کمائی سے دشمن ہم پر حملہ کرے گا اور ہمیں نقصان پہنچائے گا۔

آپ یقین فرمائیں کہ یہ موضوع اتنا حساس ہے، اتنا اہم ہے کہ ہمارے لیے جانی اعتبار سے تعاون کرنا مشکل ہے، ہم مجبور ہیں، بے بس ہیں، لیکن ہم دعا تو کرسکتے ہیں، ان کے لیے صلوٰة الحاجت تو پڑھ سکتے ہیں، ہم یہ سوشل بائیکاٹ او رمصنوعات کا بائیکاٹ تو کرسکتے ہیں، اس سے ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوگا، میں نے عرض کیا کہ بے شمار چیزیں ایسی ہیں جس کو مجھ سے آپ زیادہ جانتے ہیں کہ جن کا استعمال ہماری ضروریات میں بھی داخل نہیں، ہم اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور میرے خیال میں ان چیزوں کے استعمال کو اگر چھوڑ دیا جائے ،ترک کر دیا جائے تو ہماری صحت بھی اچھی ہو جائے، اس لیے کہ ان تمام چیزوں میں وہ مضر اثرات موجودہوتے ہیں جو انسانی جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

میرے دوستو! ہم سب پر یہ لازم ہے، ہم سب پر یہ ضروری ہے کہ ہم اس حوالے سے ضرور غور کریں۔

اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم اس کا بھی اہتمام کریں کہ نمازیں اہتمام سے پڑھ کر ان کے لیے دعائیں کریں، تلاوت کرکے ان کے لیے دعائیں کریں، اپنے بچوں کے اندر اس کی آگا ہی پیدا کریں اور ایک زندہ باحمیت مسلمان بننے کی خود بھی کوشش کریں اور ان کو بھی اس کی ترغیب دیں۔

اس لیے کہ وہ حالات جو آج وہاں ہیں وہ کہیں پر بھی پیش آسکتے ہیں دنیا میں کہیں پر بھی آزمائش آسکتی ہے، تو اگر ہم اس کے لیے ذہنی طو رپر تیار ہوں گے، ہمارا رجوع الله تعالیٰ کی طرف ہوگا، ہمارا ایمان مضبوط اور قوی ہو گا اور ہم الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی طرف راغب ہوں گے اور ہم مسنون زندگی گزار رہے ہوں گے، تو یاد رکھیں کہ پھر پریشانی نہیں ہوگی ، پھر مشکل نہیں ہو گی۔

لیکن اگر خدا نخواستہ خدا نخواستہ ہمارا یقین بھی اسباب پر ہوا اورہمارا یقین بھی غیر الله پر ہوا تو آپ یاد رکھیں کہ پھر ان چیزیوں کا مقابلہ آسان نہیں ہے۔

اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ ہر ہر شخص اپنے اپنے دائرے کے اندر اس کی بھرپور کوشش اور فکر کرے کہ یہود ونصاری کی بنائی ہوئی چیزوں سے اجتناب کیا جائے او راس کی روک تھام کے لیے جو شخص جو کوشش کر سکتا ہے وہ کرے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ،وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ﴾

خطبات جمعہ سے متعلق