مسلمانان فلسطین کی حالت زار

idara letterhead universal2c

مسلمانان فلسطین کی حالت زار

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․

﴿إِنَّ الدِّینَ عِندَ اللَّہِ الْإِسْلَامُ﴾․(سورہ آل عمران، آیت:19)

وقال سبحانہ وتعالیٰ﴿کَم مِّن فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ وَاللَّہُ مَعَ الصَّابِرِینَ﴾․ (سورة البقرة، آیت:249)

وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:” المسلم أخو المسلم“․ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الإکراہ، باب یمین الرجل……، رقم :6951، وسنن الترمذی، کتاب الحدود، باب الستر علی المسلم، رقم:1426)

وقال صلی الله علیہ وسلم:” المسلمون کرجل واحد“․ (سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب المؤاخاة، رقم:4895)

وقال صلی الله علیہ و سلم:” الدعاء سلاح المؤمن“․(المستدرک علی الصحیحین، کتاب الدعاء، رقم الحدیث:1812)

أوکما قال علیہ الصلاة والسلام․صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله رب العزت نے اپنے پیدا کردہ انسانوں کی ہدایت کے لیے حضرت آدم علی نبینا وعلیہ السلام سے لے کر امام الانبیاء سید الرسل محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک کم وبیش سوا لاکھ انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔

چناں چہ یہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام اس دنیا میں آئے بہت سے حضرات انبیاء کرام ایسے ہیں جن کے ناموں سے ہم واقف نہیں اور بہت سے وہ ہیں جن سے ہم واقف ہیں، جیسے حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل ، حضرت عیسی علیہم السلام تک بہت سے انبیائے کرام کا ذکر قرآن وحدیث میں موجو دہے۔

چناں چہ جو انبیا ئے کرام علیہم السلام تشریف لائے وہ اپنی اپنی شریعتیں اور اپنی اپنی تعلیمات لے کر آئے، جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، آپ صلی الله علیہ وسلم کوبطور امام الانبیاء، خاتم الرسل بنا کر بھیجا گیا، آپ آخری نبی ہیں، آپ کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا، یہ آخری امت ہے، اس کے بعد کوئی اور امت نہیں اور یہ کتاب قرآن کریم بھی آخری کتاب ہے، اس کے بعد کوئی اور کتاب نہیں، چناں چہ الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے جتنی شریعتیں آئیں، جتنے ادیان آئے، جتنی کتابیں آئیں ان سب کو منسوخ فرمایا، البتہ ہم پر بطور مسلمان یہ فرض ہے کہ ہم ہر ہر نبی پر ایمان لائیں ،ہم پر یہ لازم ہے جو کتابیں ان انبیاء پر نازل کی گئیں ان کتابوں پر بھی ایمان لائیں، لیکن تعلیمات اور شریعت صرف محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی چلے گی، چوں کہ یہ آخری نبوت ہے آخری کتاب ہے، آخری امت ہے، تو وہ تمام کتابوں اور تمام شریعتوں کی جامع ہے، اس میں کوئی کمی، نقص نہیں اور یہ الله تعالیٰ کی نظر میں کامل اور مکمل دین ہے۔

چناں چہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿إِنَّ الدِّینَ عِندَ اللَّہِ الْإِسْلَامُ﴾دین تمام ادیان کے مقابلے میں الله تعالیٰ کے نزدیک صرف اور صرف اسلام ہے، اسلام کتنا مبارک مذہب ہے ،کتنا جامع مذہب ہے، کتنا انسانیت دوست او رانسانیت پر رحم کرنے والا مذہب ہے۔ اگر مسلمان کسی علاقے پر فتح حاصل کرلیں اور اس کے حکم راں بن جائیں تو مسلمانوں پر یہ لازم ہے اور مسلمان حکومت پر لازم ہے کہ اس کی قلمرو میں جتنے مذاہب ہیں، ان تمام مذاہب کا احترام کرے اور ان غیر مذہب کے لوگوں کو، خواہ وہ یہودی ہوں، نصرانی ہوں، بدھسٹ ہوں، کوئی بھی ہوں، ان سب کی جان، مال، ان سب کی عزت، ان سب کا احترام مسلمان حکومت کے فرائض میں شامل ہے اور بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ ان مذاہب کی جو عبادت گاہیں ہیں ان عبادت گاہوں کا تحفظ بھی مسلمان حکومت کی ذمہ داری ہے۔ (اسلامی حکومت کا کفار ذمیوں سے برتاؤ کے حوالے سے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کا فیصلہ موجود ہے۔

اسلامی حکومت اور ذمیوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ درج ذیل چند نکات پر مشتمل تھا۔

شام اور مصر کے عیسائیوں نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کو لکھا کہ جس وقت آپ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے اپنی اولاد کی اور اپنی قوم کی جان ومال کی حفاظت کے لیے آپ سے عرض کی تھی، چناں چہ اس کے بدلے میں ہم مندرجہ ذیل شرائط کی پابندی کریں گے۔

شرائط

∗… ہم اپنے شہروں میں او ران کے آس پاس نہ ہی کوئی نئی خانقاہ تعمیر کریں گے اور نہ گرجا اور نہ راہبوں کے لیے کوئی نئی عمارت، بلکہ اگر کسی نئی عمارت کی تعمیر شروع ہوچکی ہوئی تو اسے مکمل نہ کریں گے اور اگر کوئی عمارت تباہ ہوچکی ہوئی تو اس کو نئے سرے سے تعمیر نہ کریں گے۔

∗… ہم مسافروں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھیں گے اور کوئی مسلمان مسافر آیا تو تین دن تک اسے اپنے پاس رکھیں گے او رکھانا کھلائیں گے۔

∗…ہم اپنے گھروں اور گرجوں میں کسی جاسوس کو نہ چھپائیں گے اور نہ کوئی عیب مسلمانوں سے چھپا کر رکھیں گے۔

∗…اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم نہ دیں گے اورانہیں اپنے مذہب کی تبلیغ کریں گے۔

∗… ہم میں سے یا ہمارے رشتہ داروں میں سے اگر کوئی مسلمان ہونا چاہے تو اسے نہیں روکیں گے۔

∗… مسلمانوں کا احترام کریں گے او راگر وہ ہمارے پاس بیٹھنا چاہیں تو ہم کھڑے ہو کر ان کا استقبال کریں گے۔

∗…ہم مسلمانوں جیسے لباس عمامہ ٹوپی اور جوتے استعمال نہیں کریں گے اور نہ مسلمانوں جیسے بال بنائیں گے اور نہ ان جیسے نام رکھیں گے او رنہ کنیت استعمال کریں گے۔

∗…نہ ہم گھوڑے پرسوار ہوں گے، نہ تلوار لٹکائیں گے، نہ ہتھیار بنائیں گے اور نہ اپنے پاس رکھیں گے۔

∗…اپنی انگوٹھیوں اورنگینوں پر عربی میں نقوش نہیں بنوائیں گے۔

∗… ہم اپنی کمر پر زنار باندھیں گے اور صلیبوں کو واضح نہ کریں گے۔

∗… ہم اپنے دریچہ یا آرام گاہ نہ مسلمانوں کے راستوں میں کھولیں گے او رنہ ان کے بازاروں میں۔

∗… نہ ہم مسلمانوں کے سامنے ناقوس بجائیں گے اور نہ اپنے خاص مذہبی رسم ورواج کا اظہار کریں گے۔

∗… ہم اپنے جنازوں میں اپنی آواز بلند نہ کریں گے او رنہ اپنے مردے ان کے پاس دفنائیں گے۔ (تاریخ ابن خلدون:5/416، وکذا فی کتاب الخراج للإمام ابی یوسف، فصل فی لباس أھل الذمة وزیہم،ص:127)

چناں چہ ایک سال نہیں، دو سال نہیں، پچاس سال نہیں، سو سال نہیں، صدیوں اسلام کا جھنڈا اس روئے زمین پر لہرایا اور تمام مسلم حکم رانوں کا اس کا اہتمام تھا، اس کے برخلاف جتنے بھی مذاہب ہیں، خواہ وہ یہودی ہوں، نصرانی ہوں، خواہ وہ ہندو ہوں، بدھسٹ ہوں، ان کو جب بھی حکم رانی کو موقع ملا ہے تو انہوں نے انسانیت کی تذلیل کی ہے، انہوں نے انسانیت کو نقصان پہنچایا ہے، انہوں نے اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کا قتل عام کیا ہے وہ بہت خوف ناک تاریخ ہے۔

چناں چہ یہ جو اسرائیل کا مسئلہ ہے اس کو بھی خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسرائیل اور یہودیت یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، ایک ہے یہودیت اور ایک صہیونیت، آج کے دن بھی اسرائیل میں جو یہودی ہیں، یہووی سے مراد جو اپنے یہودی مذہب پر کسی بھی طرح عمل پیرا ہیں، آج بھی وہ چیخ رہے ہیں ان کے علماء اور رَبِّی چیخ رہے ہیں کہ اگر اسلام کی حکومت ہو تو ہمیں اس اسرائیل سے زیادہ امن ملے۔

یہ جو صہیونیت ہے یہ یہودیت نہیں، یہ الگ چیز ہے اور یہ ایک ناپاک منصوبہ ہے اس منصوبے کے تحت عالم عرب کے قلب میں، عالم عرب کے بیچوں بیچ ایک ناجائز اور حرام حکومت کا قیام اور اس کے مقاصد میں یہ شامل ہے کہ کسی طرح سے اس جگہ کا قبضہ کیا جائے اور قبضہ کرنے کے بعد پوری دنیا میں جہاں جہاں یہودی آباد ہیں ان کو لالچ دے کر حرص دے کر کسی طرح سے ان کو یہاں لایا جائے اور اس جگہ کو بتدریج بڑھایا جائے اور یہاں کی زمین ، جہاں کے اصل باشندے عرب ہیں مسلمان ہیں ،فلسطین کے جو اصل باشندے ہیں ان کو لالچ دے کر خریدا جائے۔

آپ حیران ہوں گے 1940ء کے آگے پیچھے کی بات میں آپ کو بتا رہوں اس وقت پاکستان بھی نہیں بنا تھا، پاکستان 1947ء میں بنا ہے، اس وقت سے یہ سازش شروع ہوئی اور اس سازش کی پشت پر سب سے پہلے برطانیہ کی حکومت تھی، پھر اس کے بعد امریکا اور دیگر مغربی ممالک اس کی پشت پر آئے اور انہوں نے بے دریغ پیسہ استعمال کیا کہ وہاں کے مسلمانوں کو پیسہ دے کر زمین خریدنے لگے تو اس وقت1940 ء میں جب اسرائیل کا وجود نہیں ہوا تھا، اس کا ناپاک اور حرام وجود نہیں ہوا تھا، اس وقت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے فتوی جاری کیا، فلسطین کے مسلمانوں کے لیے کہ خدا را فلسطین کی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت مت کرو اور فلسطین کی زمین کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ (حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله کا یہ فتوی ”امداد الفتاوی“ میں موجو دہے، وہ فتوی عربی میں ہے، اس سوال اورجواب کو کچھ اختصار سے نقل کیا جاتا ہے۔

سوال:” ما حکم الشریعة الإسلامیة المطھرة فی بعض المسلمین الذین یبیعون أراضی بلاد فلسطین المقدسة أو یتوسطون ببیعھا الیھود الطامعین الذین یقصدون من شراء ھذہ الأراضی والعقارات جلاء المسلمین عن ھذہ البلاد المقدسة والاستیلاء علی المسجد الأقصی الذی بارک الله حولہ وانشاء کنیستھم الھیکل مکانہ وتشکیل دولة یہودیة فی فلسطین بمساعدة بعض الدول المعادیة للإسلام والتی تبذل کل جھد فی محاربة وما ھو الرادع لھم عن ھذا العمل المنکر ، وھل إذا أفتی بعض العلماء بکفر من باع أرضہ للیہود أو توسط ببیع أرض غیرہ لھم لمساعدة أھل الکفر علی المسلمین ولموالاتہ للیھود الذین یعملون لیلاً ونھاراً لطرد المسلمین وإبعادھم عن بلاد فلسطین والمسجد الأقصی الذین اسری الله برسولہ محمد إلیہ وحرمانھم من الصلاة علیہم ومن الدفن فی مقابر المسلمین لخروجھم عن الإسلام وفیہ عبرة لغیرھم ممن تسول لہ نفسہ اقتراف مثل خطیئتھم فما قولکم فی فتواھم وإذا کان ھناک زاجر خلافھاذکر افیدونا ولکم من الله الأجر والثواب․

الجواب: وھو الموفق للصدق والصواب، أما عن الجزء الاوّل فلنمھد أولاً الدلائل ثم نشید بھا السائل، ففی الدر المختار، فصل الجزیة أحکام أھل الذمة مانصہ ولا یعمل بسلاح، وفی رد المحتار رأی لا یستعملہ ولا یحملہ، لانہ عزوکل ما کان کذلک یمنعون عنہ، قلت: ومن ھذا الأصل تعرف أحکام کثیرة․

وھذا أصل کلی وھھنا جزئیات نسردھا ففی الدر المختار: والذمی (إذا اشتری دارا) أی أراد شراء ھا(فی المصر لا ینبغی) أن تباع منہ فلو اشتری یجبر علی بیعھا من المسلم) وقیل لا یجبر إلا إذا کثر دور، فی رد المحتار قولہ: الذمی إذا اشتری داراًإلخ قال السرخسی فی شرح السیر: فإن مصر الإمام فی أراضیھم للمسلمین کما مصر عمر رضی الله عنہ البصرة والکوفة، فاشتری بھا أھل الذمة دورا وسکنوا مع المسلمین لم یمنعوا من ذلک، فإنا قبلنا منھم عقدالذمة لیقفوا علی محاسن الدین فعسی أن یومنوا و اختلاطھم بالمسلمین والسکن معھم یحقق ھذا المعنی وکان شیخنا الإمام شمس الأئمة الحلوانی یقول: ھذا إذا قلوا وکان بحیث لا تتعطل جماعات المسلمین ولا تتقلل الجماعة بسکناھم بھذہ الصفة فأما إذا کثروا علی وجہ یؤدی إلی تعطیل بعض الجماعات أو تقلیلھا منعوا من ذلک، وأمرواأن یسکنوا ناحیة لیس فیھا للمسلمین جماعة، وھذا محفوظ من أبي یوسف في الآمالی، ثم فی الدر المختار بعد أسطر ( وإذا تکاری أھل الذمة دوراً فیما بین المسلمین لیسکنوا فیھا) فی المصر (جاز) لعود نفعہ إلینا ولیروا تعاملنا فیسلموا بشرط عدم تقلیل الجماعات بسکناھم… وإن لم یلزم ذلک یسکنون فی المصربین المسلمین مقھورین لا فی محلة خاصة لأنہ یلزم منہ أن یکون لھم فی مصرالمسلمین منعة کمنعة المسلمین بسبب اجتماعھم فی محلتھم فافھم…

قلت وفي الباب روایات لا تحدولا تعد وفیما ذکرنا کفایة ان شاء الله تعالیٰ وإذا کان حکم الکراء والشراء للدار والتعلی فی البناء والجدار فکیف حکم بیع المسلمین أراضیھم من الکفار وھو أقوی أسباب العزة والشوکة والقوة والصولة وإذا کان ھذا حکم الذمیین وھم مقھورون تحت حکم الإسلام فکیف حکم غیر الذمیین الذین لیسوا فی شیء من الاستسلام…
والله أعلم بالصواب
کتبہ اشرف علی التھانوی
(امداد الفتاوی، کتاب البیوع:3/61-59)

”اس سوال وجواب کا خلاصہ یہ ہے کہ سائل نے سوال کیا کہ ایسے مسلمانوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو فلسطین کی مقدس زمینوں کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت کر رہے ہیں یا زمینوں کو یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کا واسطہ بن رہے ہیں؟ جن کا مقصد یہ ہے کہ ان کی زمینیں خرید کر ان کو جلا وطن کر دیں او ران کی مسجد اقصیٰ پر ناحق غلبہ حاصل کر لیں اورمسجد اقصی کی جگہ پر اپنا ہیکل نامی کنیسہ تعمیر کر لیں اور فلسطین میں ان اسلام دشمن ممالک کی مدد او رتعاون سے ایک یہودی ریاست قائم کر لیں … الخ

جواب: (جواب میں حکیم الامت نے فقہی عبارات نقل کی ہیں:مثلاً رد المحتار سے حوالہ نقل کیا ہے) کہ ذمی نہ تو ہتھیار استعمال کرسکتا ہے اور نہ ہی ہتھیار اٹھا سکتا ہے، اس لیے کہ ذمی کے ہتھیار اٹھانے میں ایک طرح کی اس کی عزت ہے، لہٰذا جو چیز بھی اس قبیل سے ہوگی ذمی کو اس سے روکا جائے گا، یہ ایک کلی اصول ہے، اس سے بہت ساری جزئیات متفرع ہوتی ہیں چناں چہ در مختار میں لکھا ہے کہ ذمی نے کوئی گھر خریدا یعنی شہر میں خریدنے کا ارادہ کیا تو یہ صحیح نہیں ہے کہ ذمی کے ہاتھوں اس گھر کو فروخت کیا جائے لیکن اگر اس نے خرید لیا تو کیا اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ مسلمان کے ہاتھ فروخت کرے؟ تو کہا گیا ہے کہ اس کو مجبور نہیں کیا جائے گا، إلایہ کہ ذمی کثیر تعداد میں جمع ہو جائیں۔

علامہ سرخسی لکھتے ہیں کہ اگر امام مسلمانوں کی زمینوں میں مسلمانوں کے لیے بستی آبادکرے جس طرح حضرت عمر رضی الله عنہ نے کوفہ اور بصرہ میں مسلمانوں کو بسایا تھا پھر وہاں ذمی گھر خرید لیں اورمسلمانوں کے ساتھ رہنے لگیں تو ان کو اس سے نہیں روکا جائے گا، کیوں کہ ہم نے ان کے ذمہ کے عقد کو قبول کر لیا ہے تاکہ وہ وہاں رہ کر دین کی اچھی باتیں سیکھیں اور امید ہے کہ ایمان لے آئیں۔

اور علامہ حلوانی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس وقت ہے جب ذمی کم تعداد میں وہاں ہوں، اگر بہت ہی زیادہ تعداد میں ذمی ہوں گے او را س بات کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہو کہ مسلمانوں کی جماعتوں میں انتشار پیدا ہو گا اور ان کے ساتھ رہ کر مسلمانوں کی جماعت میں کمی آجائے گی تو اس وقت ان کو وہاں رہنے سے منع کر دیا جائے گا اور ان کو شہر کے کنارے رہنے پر مجبور کیا جائے گا… میں (حکیم الامت رحمہ الله) کہتا ہوں کہ اس بات میں بے شمار روایتیں اور جزئیات ہیں اور جو بات ہم نے ذکر کی ہے وہ کافی ہے، جب کرایہ پر گھر لینا اور خریدنا اور اونچی عمارت بننے کے متعلق یہ حکم ہے تو مسلمانوں کا اپنی زمینیں کفار کے ہاتھوں بیچنے کا کیا حکم ہو گا؟!

حالاں کہ یہ تو اور زیادہ عزت، شان وشوکت اور غلبہ کا سبب ہے جب ذمیوں کے یہ احکام ہیں جو کہ مسلمانوں کی ماتحتی میں رہ کر زندگی گزارتے ہیں تو ان غیرذمیوں کا کیا حکم ہو گا جو اسلام کے ماتحتی میں نہیں ہیں۔“

تو میرے دوستو! اسلام تو امن کا مذہب ہے، اسلام امن کی تعلیم دیتا ہے اور آج بھی فلسطین میں رہنے والے، یروشلم میں رہنے والے اور تل ابیب میں رہنے والے جو یہودی ہیں وہ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اگر آج اس ناجائز اور صہیونی حکومت کے بجائے اسلام کی حکومت ہو تو وہ ہمارے لیے امن اور سلامتی کا ذریعہ ہو۔

آپ سوچیں کہ پچھہتر سال ہو گئے ہیں کیا ایک دن کے لیے بھی اسرائیل میں امن ہوا ہے؟ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ موت سے ڈرنے والی قوم یہودی ہے۔ ( یہود کی زندگی سے محبت کے حوالے سے قرآن کریم میں آیات مذکور ہیں: ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاکُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَأُشْرِبُوا فِی قُلُوبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ قُلْ بِئْسَمَا یَأْمُرُکُم بِہِ إِیمَانُکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ،قُلْ إِن کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّہِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ، وَلَن یَتَمَنَّوْہُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیہِمْ وَاللَّہُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ، وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَیٰ حَیَاةٍ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہِ مِنَ الْعَذَابِ أَن یُعَمَّرَ وَاللَّہُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ﴾․ (سورة البقرہ، آیت:96-93)

” اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر طور کو بلند کر دیا اور ( یہ کہا کہ ) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی سے تھامو اور (جو کچھ کہا جائے اسے ہوش سے) سنو، کہنے لگے ہم نے ( پہلے بھی) سن لیا تھا، مگر عمل نہیں کیا تھا( اب بھی ایسا نہیں کریں گے) اوردراصل ان کے کفر کی نحوست سے ان کے دلوں میں بچھڑا بسا ہوا تھا، آپ (ان سے) کہیے کہ اگر تم مومن ہو تو کتنی بری ہیں وہ باتیں جو تمہارا ایمان تمہیں تلقین کر رہا ہے۔

آپ ان سے کہیے کہ اگر الله کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے (جیسا کہ تمہارا کہنا ہے) تو موت کی تمنا تو کرکے دکھاؤ، اگر واقعی سچے ہو اور ہم ( بتائے دیتے ہیں کہ ) انہوں نے اپنے جو کرتوت آگے بھیج رکھے ہیں ان کی وجہ سے یہ کبھی ایسی تمنا نہیں کریں گے، الله ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
(بلکہ) یقینا تم ان لوگوں کو پاؤگے کہ انہیں زندہ رہنے کی حرص دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ مشرکین سے بھی زیادہ، ان میں کا ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار سال عمر پائے ، حالاں کہ کسی کا بڑی عمر پالینا اسے عذاب سے دور نہیں کرسکتا اور یہ جو بھی عمل کرتے ہیں الله اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔)
اور وہ لوگ جو جہاد کر رہے ہیں ان کی ایک تاریخ ہے، انہیں کم سے کم تر جگہ میں محصور کیا گیا او رجیسا کہ میں عرض کر رہا تھاکہ ساری دنیا سے یہودیوں کو کھینچ کھینچ کر لایا گیا۔ زبردستی آباد کیا گیا، ہزاروں ہزار یہودی روس سے لائے گئے، مشرقی یورپ سے لائے گئے، مغربی یورپ سے لائے گئے اور دنیا جہاں سے کھینچ کھینچ کر یہودی لائے گئے اور زبردستی ان کو وہاں آباد کیا گیا، لیکن ایک دن بھی وہاں امن نہیں ہوا۔

وہ جو جہاد کرنے والے ہیں ان سے ساری دنیا نے ہاتھ اٹھا لیے مغرب ظاہر ہے کہ انہیں پسند ہی نہیں کرتا، عالم اسلام آپ یقین کریں آپ جغرافیہ دیکھیں، کبھی ہمارے اندر یہ جذبہ بھی پیدا ہونا چاہیے کہ ہم پورے روئے زمین پر مسلمان ممالک کہاں کہاں ہیں۔ مشرق ، مغرب، شمال، جنوب، مسلمان ممالک کی نوعیت کیا ہے؟

مراکش (مغرب) سے مسلمان ممالک کا سلسلہ شروع ہوتا ہے انڈونیشا تک اور اگر آپ نقشہ دیکھیں گے تو یہ ایک زنجیر ہے یہ زنجیر شروع ہوتی ہے مراکش سے اور یہ جاتی ہے ا نڈونیشیا تک اور اس پوری زنجیر میں ان تمام کڑیوں میں جو ملتی چلی گئی ہیں مراکش سے لے کر انڈونیشا تک صرف دو کڑیاں غیر مسلم ہیں اور وہ ایک اسرائیل ہے اور دوسرا ہندوستان ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ان دونوں کا تعلق آپس میں کیا ہے؟ ایک وہ ہے جو زور زبردستی کے ذریعے، سازش کے ذریعے 76 سال پہلے قائم کیا گیا۔ اور الحمدلله ثم الحمدلله اس وقت تک اس کو استحکام حاصل نہیں او راس سازش کا جو مقصد ہے وہ پورے عالم عرب اور عالم اسلام پر قبضہ کرنا ہے، چناں چہ اسی صہیونیت کا ایک ہدف عظیم اسرائیل ہے اور اس گریٹر اسرائیل کا نقشہ انہوں نے باقاعدہ جار ی کیا، آپ کو سن کر دکھ بھی ہو گا اور تعجب بھی کہ اس گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔

میرے دوستو! اسلام امن کا مذہب ہے ،امن کی تعلیم دیتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ طیبہ آئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان یہودیوں کے ساتھ جن کے وہاں باغات تھے، امن معاہدے کیے، لیکن ان سب نے ،بنو قینقاع نے بھی، بنو قریظہ نے بھی، بنو نضیر نے بھی، یہ سب یہود قبائل کے نام ہیں، جو مدینہ منورہ میں آباد تھے، سب نے ان معاہدوں کی خوف ناک خلاف ورزیاں کیں او ران خلاف ورزیوں کے نتیجے میں اور ان معاہدہ شکنیوں کے نتیجے میں انہیں مدینہ منورہ سے جلا وطن کیا اور وہاں سے نکالا اور یہ یہودی پھر خیبر میں جاکر آباد ہوئے او رخیبر مدینہ منورہ سے تقریباً شمال کی طرف تبوک والی سمت میں دو سو میل کے فاصلے پر ہے۔

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے خبیر پر حملہ کیا اور خیبر کو فتح کیا اور خیبر کے تمام قلعے فتح کیے گئے اورآپ صلی الله علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ یہودیوں کو خیبر سے بھی نکالو، خیبر میں بھی رہنے کی اجازت نہیں، کیوں کہ یہ یہاں رہ کر مدینہ منورہ کی ریاست کے خلاف سازشیں کر رہے تھے، یہ خیبر میں رہ کر مشرکین مکہ سے مل کر سازشیں کر رہے تھے اور مسلمانوں کے خلاف ناپاک منصوبے بنا رہے تھے۔

جب خیبر فتح ہو گیا تو یہ یہودی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور منت خوشامد کی کہ اے الله کے رسول! آپ فاتح ہیں، آپ فتح حاصل کرچکے ہیں، خیبر آپ کا ہے، وہ آپ کے زیرنگیں اور زیر حکم رانی ہے، ہماری ایک درخواست ہے کہ آپ ہمیں یہاں مزدور بن کر رہنے کی اجازت دے دیں۔

یہ جو کھیت ہیں، باغات ہیں، ان میں ہم مزدوری کریں گے اور یہاں سے جو سالانہ آمدن ہو اس میں سے آدھی آپ لے لیا کریں اور آدھی ہم لے لیں گے، ملک آپ کا ہو گا، خیبر آپ کا ہو گا، زمینوں کے مالک آپ ہوں گے، لیکن ہمیں آپ مزدوری کی اجازت دے دیں محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم جو رحمة للعالمین بنا کر بھیجے گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول فرمائی کہ ٹھیک ہے تم لوگ یہیں رہو، مزدوری کرو اور سالانہ آمدن میں سے نصف تمہارا ہو گا اور نصف ہمارا ہو گا، اب انہوں نے مزدوری شروع کی، خیبر کے کھجوروں کے باغات بہت بڑے بڑے باغات ہیں، ان سے جب آمدنی ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عبدالله بن رواحہ رضی الله عنہ کو بھیجا کہ وہ جائیں اور تقسیم کے عمل کو انجام دیں، چناں چہ حضرت عبدالله بن رواحہ رضی الله عنہ گئے اور انہوں نے یہودیوں سے کہا کہ اس کو تم خود دو حصوں میں تقسیم کرو، چناں چہ یہودیوں نے ان کھجوروں کے دو حصے کیے او رجب وہ دو حصے بن گئے تو حضرت عبدالله بن رواحہ رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اب ان دو حصوں میں جو تمہیں اچھا لگے وہ تم لے لو۔

چناں چہ جب یہودیوں سے پوچھا گیا کہ تم لوگوں کے ساتھ سلوک کیسا ہے؟ تو یہودیوں نے کہا کہ یہ آسمان وزمین جو قائم ہیں، یہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم، آپ کے صحابہ کے انصاف کی وجہ سے قائم ہیں۔(مدینہ منورہ میں یہود کے تین بڑے قبائل تھے بنو قریظہ بنو نضیر بنو قینقاع، ان قبائل کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا کہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے اور نہ ایک دوسرے کے خلاف کسی اور قبیلہ کی مدد کریں گے، لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی پاس داری نہیں کی۔ سب سے پہلے بنو قینقاع قبیلے نے یہ معاہدہ توڑا اور ان کو مدینہ منورہ سے جلا وطن کیا گیا۔ یہ واقعہ شوال 2ھ میں پیش آیا۔

اس کے بعد بنو نضیر نے عہد شکنی کی او ران کو بھی مدینہ منورہ سے جلا وطن کیا گیا اور بنو نضیر کا واقعہ بعض حضرات کے نزدیک غزوہ بدر کے چھ ماہ بعداور بعض کے نزدیک غزوہ احد کے بعد پیش آیا۔ اور بنو قریظہ نے غزوہ خندق کے موقع پر اپنا عہد توڑا اور مسلمانوں کے خلاف قریش کے ساتھ جا ملے، چناں چہ جب کفار ناکام ونامراد ہو کر واپس لوٹ گئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم 23ذوالقعدہ5ھ کو بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے اور 25 دن تک ان کا محاصرہ کیا گیا اور بالآخر بنو قریظہ کے یہود بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھے، کشف الباری، کتاب المغازی، ص:182-179 اور ص:299-296، اسی طرح غزوہ خیبر کی تفصیل کے لیے کشف الباری، کتاب المغازی،ص:414-409 ملاحظہ فرمائیں۔)

میرے دوستو! یہ اسلام کی تعلیمات ہیں، لیکن بد قسمتی سے آج کا اگر ہم جائزہ لیں تو آج صورت حال، مادیت، نفسانیت، افراتفری، اتنی بڑھ گئی ہے کہ آج ہم آپس میں ایک دوسرے سے غافل ہیں، وہ تو فلسطین کا مسئلہ ہے، آج ہمارے گھر کے اندر صورت حال کیا ہے؟ نفسانیت ، افراتفری، ظلم وزیادتی، عیاشی اور فحاشی، عریانی تمام گناہوں میں آج امت مبتلا ہے اور یہ تو بہت دور کی بات ہے ، آج اگر ہمارے پڑوس میں آگ لگ جائے، ہمارے پڑوس میں کوئی حادثہ ہو جائے توشاید ہم مدد کے لیے بروقت نہ پہنچیں، کیوں ؟ اس لیے کہ آج اسلامی تعلیمات کو ہم نے بھلا دیا ہے، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم فرمار ہے ہیں:” المسلم اخو المسلم“ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، اگر آنکھ میں تکلیف ہو تو پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے، اگر کان میں تکلیف ہو تو پورے جسم میں تکلیف ہوتی ہے، اگر سر میں تکلیف ہو تو پورے جسم میں تکلیف ہوتی ہے اور اس کا مشاہدہ ہم کرتے رہتے ہیں ،اگر ایک دانہ جسم میں نکل آئے تو پورا جسم بخار میں تپنا شروع ہو جاتا ہے دانت میں تکلیف ہو جائے تو پورا جسم درد سے بے تاب ہو جاتا ہے۔

میرے دوستو! مسلمان کی مثال یہی ہے کہ مسلمان چاہے مغرب میں رہتا ہو، مشرق میں رہتا ہو، شمال میں رہتا ہو، جنوب میں رہتا ہو اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو ہم سب اس تکلیف کی وجہ سے بے تاب ہوں۔

ہمارے بزرگوں میں ایک بزرگ گزرے ہیں، حضرت تھانوی رحمہ الله کے خلیفہ ہیں، حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارف رحمہ الله ،یہ شاید 80 کی دہائی یا 90 کی دہائی کا واقعہ ہے، کراچی دہشت گرد ی کا شکار تھا، بدامنی کا شکار تھا۔

حضرت عارفی رحمہ الله نے اس زمانے میں فرمایا: افسوس صد افسوس کہ آج صبح ہم اخبار میں پڑھتے ہیں کہ بیس آدمی قتل ہو گئے، پچاس مسلمان قتل ہو گئے او رہمارے منھ سے :﴿إِنَّا لِلَّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ﴾ بھی نہیں نکلتا، ہم دردی تو بہت دور کی بات ہے۔

آج ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں، صبح شام کی خبریں ہیں تین سو کو شہید کر دیا، چار سو کو شہید کر دیا، پانچ سو کو شہید کر دیا اور شہید ہونے والوں میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں، بچے بھی ہیں، ان کے گھر بھی تباہ کیے جارہے ہیں، ان کا ناطقہ بھی بند کر دیا گیا ہے، نہ ان کے پاس کھانے کو ہے ،نہ پینے کو ہے، نہ ہسپتال ہیں ، نہ بجلی ہے، لیکن ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم پر کیا اثر ہوا ہے؟ ہم کرکٹ میچ دیکھ رہے ہیں، آج کا میڈیا، میں الحمد الله ان چیزوں سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا ،لیکن جو ساتھیوں سے سننے کو ملتا ہے وہ یہ کہ فلاں صاحب آگئے ہیں، فلاں صاحب جارہے ہیں، فلاں صاحب جیل میں ہیں،فلاں صاحب عدالت میں ہیں، پہلی جو لائن ہے میڈیا کی وہ یہ ہے۔ دوسرے نمبر پر کرکٹ، تیسرے، چوتھے ، پانچویں نمبر پر کہیں بے چارے فلسطینی مسلمانوں کا ذکر ہے، ساری دنیا کے مسلم حکم راں ہم یہ کریں گے، ہم ایسا کر دیں گے ، ایسا ہونا چاہیے وہاں ہر روز مر مر کر ختم ہو رہے ہیں، جب کہ چاروں طرف مسلم ممالک ہیں اور اسرائیل ایک نقطہ ہے، اگر آپ مراکش سے انڈونیشیا تک نقشے کو دیکھیں گے تو اسرائیل ایک چھوٹا سا نقطہ ہے، لیکن وہ سر چڑھ کر بول رہا ہے، ساری غیر مسلم طاقتیں اس کی پشت پر کھڑی ہیں، ان کے صدور وہاں جارہے ہیں، ان کے وزرائے خارجہ وہاں جارہے ہیں، ان کے بحری بیڑے وہاں پہنچ رہے ہیں ، ان کا اسلحہ وہاں پہنچ رہا ہے ،لیکن عالم اسلام کا کیا حال ہے، وہ مجھ سے زیادہ آپ جانتے ہیں۔

میرے دوستو! یہ بہت افسوس کی بات ہے، باقی ان حالات میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ تو میں نے عرض کیا کہ ہمارے حکم ران، ہماری حکومتیں ان کی یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسلمانوں کی مدد کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں او رعالمی قوانین کے مطابق اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اگر امریکا کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، برطانیہ کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، کسی بھی غیر مسلم ملک کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، تو مسلمانوں کے لیے کیوں رکاوٹ ہے؟! مسلمانوں کے لیے بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے، ضرورت ہے ہمت کی۔جہاں تک میرا اور آپ کا تعلق ہے، ظاہر ہے ہم سب غمگین ہیں، ہم کم سے کم ان کے لیے دعا تو کر سکتے ہیں، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الدعاء سلاح المؤمن، وعماد الدین، ونور السموات والأرض․ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب الدعاء ، رقم الحدیث:1812، و مسند أبي یعلی، مسند علی بن أبی طالب، رقم الحدیث:439)

ہم اس ہتھیار کو کیوں استعمال نہیں کر رہے؟

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میدان جنگ میں ہوتے تھے، ہم جہاد میں ہوتے تھے او رجب کسی نماز کا وقت ہوتا ہم پر ایسی اطمینان کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی کہ جو دور دراز مسلمان ہیں وہ بھی نماز پڑھ رہے ہیں او رنماز پڑھ کر ہمارے لیے دعائیں کریں گے تو میدان جنگ میں مجاہدین کو حوصلہ ملتا ہے، الله تعالیٰ کی مدد ونصرت ملتی ہے تو کم از کم ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ہم دل سے ان کے لیے دعا کریں، الله تعالیٰ قادر مطلق ہے، آزمائش ہے، کڑی آزمائش ہے، سخت آزمائش ہے ،لیکن الله تعالیٰ اس پر قادر ہیں کہ وہ اس آزمائش میں خیر کی کوئی صورت پیدا فرما دیں، اپنے بندوں کی اور اپنی بندیوں کی حفاظت فرمائے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ،وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ﴾․

خطبات جمعہ سے متعلق