دین اسلام کامیابی کا ضامن اور داڑھی کی اہمیت واحکام

دین اسلام کامیابی کا ضامن اور داڑھی کی اہمیت واحکام

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ﴾․ (سورة آل عمران،آیة:۱۹) وقال اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ: ﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾․ (سورة الحشر،آیة:۷)
صدق اللّٰہ مولانا العظیم․

میرے محترم بزرگو، بھائیو اور دوستو! اللہ جل جلالہ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ﴾، بے شک دین اور مذہب تو اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف اسلام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ﴾ جودین، طریقہ اور شریعت اللہ کے رسول تمہیں دیں تم اسے لے لو، ﴿وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾ اور اللہ کے رسول جس جس چیز سے تمہیں روک دیں اس سے رک جاوٴ۔پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرمارہے ہیں اور یہ فیصلہ ہے کہ دین، مذہب اللہ کے ہاں، اللہ کی نظر میں صرف اسلام ہے،چناں چہ یہ فیصلہ کسی ہماشما کا نہیں ہے، یہ اس پوری کی پوری کائنات کے اکیلے اور تنہا خالق اور مالک کا ہے، جس نے یہ تمام آسمان بنائے، جس نے یہ تمام زمینیں بنائیں، جس نے جو کچھ کائنات میں ہے وہ سب کچھ بنایا، وہی اکیلا اور تنہا اس پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے اور اللہ کے سوا، اللہ کے علاوہ سب اللہ کی مخلوق اور اللہ کے پیدا کردہ ہیں،چناں چہ وہی فیصلہ درست اور صحیح ہے، اس کے علاوہ کوئی فیصلہ درست اور صحیح نہیں۔

اسلام کا ترجمہ ہے، الاسلام گردن نہادن، گردن جھکادینا،کس کے سامنے گردن جھکانا؟ اللہ کے سامنے، جو اللہ اس پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے، اس کے سامنے گردن جھکادینا یہ اسلام ہے، جب آدمی کلمہ طیبہ پڑھ کر،لاإلٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،أشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأشھد أن محمداً عبدہ ورسولہ، کا اقرار اور اعتراف کرلیتا ہے، تو اب اس کی آزادی ختم،اب آدمی کی آنکھ ، آزاد نہیں ہے، آدمی کے کان ، آزاد نہیں، آدمی کی زبان آزاد نہیں ہے،آدمی کے ہاتھ آزاد نہیں ہیں، آدمی کے پیر آزاد نہیں ہیں، حتٰی کہ اس کا دل ودماغ بھی آزاد نہیں ہے کہ وہ ہر چیز سوچے، اسلام نے جہاں دیکھنے کی اجازت دی ہے وہاں دیکھے، اس پر اجر ہے،ماں باپ کو دیکھے اجر ہے:”عن إبن عباس أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ما من ولد بار ینظر نظرة رحمة إلا کتب الله بکل نظرة حجة مبرورة، قالوا: وإن نظر کل یوم مائة مرة؟ قال: نعم،الله أکبر وأطیب․“(شعب الإیمان للبیہقی، الخامس والخمسون من شعب الإیمان وھو باب في بر الوالدین،رقم الحدیث:7856،ص:421) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نیک اولاد محبت کی نظر سے اپنے والدین کو دیکھے تو اسے ہرنگاہ پر ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے، صحابہ کرام نے پوچھا اگر دن میں سو مرتبہ دیکھے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تب بھی،اللہ بڑا ہے او ربڑا پاکیزہ ہے، یعنی ہر مرتبہ دیکھنے پر حج کا ثواب ملے گا۔ بیوی کو دیکھے اجر ہے، بہنوں کو دیکھے اجر ہے، خالہ، پھوپھی کو دیکھے اجر ہے، لیکن جو محارم ہیں ان کے علاوہ غیر محرم کو دیکھے اس کی اجارت نہیں، پابندی ہے۔ کان ہیں آپ اس سے اپنے والد کی گفت گو سنیں، اجر ہے، والدہ کی باتیں سنیں اجر ہے، بیوی کی باتیں سنیں اجر ہے، علماء اور مشائخ کی باتیں سنیں اجر ہے، قرآن کریم کی تلاوت سنیں اجر ہے، جائز اور حلال چیزوں کو سنیں اجر ہے، لیکن آپ یہ چاہیں کہ میں گانا سنوں، میں موسیقی سنوں اس کی اجازت نہیں۔(موسیقی، گانے سننے کی اسلام میں اجازت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:”إن الغناء ینبت النفاق في القلب․“ (سنن أبی داود،کتاب الأدب ،باب کراھیة الغناء والزمر،رقم:4927)کہ بے شک گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔اور سنن بیہقی کی روایت میں ہے:”الغناء ینبت النفاق کما ینبت الماء البقل․“(السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الشھادات، باب الرجل یغنی، فیتخذ الغناء صناعة یوٴتی علیہ ویأتي لہ، رقم الحدیث:21537)گانا دل میں نفاق کو ایسے پیدا کرتا ہے جیسے پانی سبزہ کو پیدا کرتا ہے۔اس حدیث کی تشریح میں محدثین نے کافی تفصیل بیان کی ہے کہ آخر میں سارے گناہوں میں گانے اور موسیقی ہی کی کیا خصوصیت ہے کہ ان ہی سے نفاق پیدا ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ ان سے پیدا ہونے والے نقصانات میں نفاق ہی کو کیوں خاص طور پر بیان کیا گیا ہے؟

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے: ”إغاثة اللھفان في مصاید الشیطان“ میں نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے کہ وہ خواص اور اثرات کیا ہیں کہ جن سے نفاق پیدا ہوتا ہے؟گانے اور موسیقی میں مشغولیت اس درجے غفلت پیدا کردیتی ہے کہ آدمی میں قرآن کریم کو سمجھنے، اس پر غوروفکر کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ اور شوق ہی ختم ہوجاتا ہے،بسا اوقات تلاوت قرآن بھی بے لذت معلوم ہونے لگتی ہے، اس طرح آدمی قرآن کریم کے انوار وبرکات سے محروم ہوجاتا ہے۔

قرآن کریم انسانوں کو جو کچھ سکھاتا ہے اور جس قسم کی صفات اس میں پیدا کرتا ہے، سرود وموسیقی اس کے برعکس تعلیم دیتے ہیں اور بالکل ہی متضاد صفات پیدا کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور گانا وموسیقی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ قرآن کریم خواہشات نفسانی کی پیروی سے روکتا ہے، عفت وپاک دامنی کا حکم دیتا ہے، شہوانی جذبات میں کنٹرول پیدا کرتا ہے، زنا اور دواعی زناسے باز کھتا ہے اور شیطان کی ہر قسم کی اتباع سے منع کرتا ہے ،جب کہ سرود وموسیقی خواہشات نفسانی اور اتباع ھوی کی دعوت دیتے ہیں،جسم میں ہیجان پیدا کرتے ہیں ،سفلی جذبات کو بھڑکاتے ہیں، آتش شہوت کو ہوا دیتے ہیں اور نفس کو زنا وبدکاری پر ابھارتے ہیں۔
گانا اور موسیقی آدمی کا وقار ختم کردیتے ہیں، حالاں کہ وقار ایک مسلمان کی زندگی کا لازمہ ہے، جب کہ اوچھی حرکتیں اور بے وقاری صرف منافق ہی کا خاصہ ہے، چناں چہ جو لوگ گانے، موسیقی میں اشتغال رکھتے ہیں وہ کبھی سرنچاتے ہیں، کبھی کندھے ہلاتے ہیں، کبھی گدھے کی طرح مستاتے ہیں، کبھی پاگلوں کی طرح چیختے چلاتے ہیں اور بے سری آوازیں نکالتے ہیں، ظاہر ہے یہ سفلہ پن اور حیوانیت قرآن کے تعلیم کردہ اخلاق کے بالکل خلاف ہے۔
نفاق کی حقیقت یہ ہے کہ ظاہر میں کچھ ہو اور باطن میں کچھ، اورگانے، موسیقی میں اشتغال رکھنے والا شخص بھی اسی صفت کا مالک ہوتا ہے، کیوں کہ وہ دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ نماز روزے اور دوسری عبادتوں کا تارک ہوگا اور کھلم کھلا اس گناہ کو کرے گا،تو ایسی صورت میں وہ شخص بدترین قسم کا فاسق وفاجر انسان ہے اور کسی موٴمن سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ خدا کی نافرمانی اس قدر جرأت سے کرے۔
یا پھر بظاہر وہ نماز بھی پڑھتا ہوگا، روزے بھی رکھتا ہوگا اور دوسری عبادتیں بھی کرتا ہوگا، مگر چوری چھپے موسیقی وغنا سے بھی لطف اندوز ہوتا ہوگا، تو اس صورت میں وہ جیسا نظر آتا ہے ویسا نہیں ہے، کیوں کہ ظاہر تو وہ اللہ کی محبت اور آخرت کی فکرکو کرتا ہے، مگر اس کے دل میں شہوات کا دریا موج زن ہے اور وہ ایسی چیزوں کی محبت میں مبتلا ہے جنہیں اللہ اور اس کا رسول ناپسند کرتے ہیں، اس کے دل میں گانے اور موسیقی کی محبت بھری ہوتی ہے، اور شدت محبت کی وجہ سے وہ خدا اور رسول کی کراہیت کو بھی نظر انداز کردیتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں سرود وموسیقی کی محبت خدا اوررسول کی محبت سے زیادہ ہے اور یہ خالص نفاق ہے۔
نفاق کی ایک بڑی علامت یہ بھی ہے کہ ذکر وعبادت میں کمی ہو، نماز میں سستی ہو اور اسے یوں ادا کیا جائے جیسے کوّا ٹھونگیں مارتا ہے۔ سرود وموسیقی میں اشتغال کی وجہ سے ذکر وعبادت بے لطف وبے جان ہو کر رہ جاتے ہیں، اذکار میں بھی دل نہیں لگتا اور طبیعت بھی ہر وقت گناہوں کی طرف مائل رہتی ہے، چناں چہ گانے اور موسیقی میں مبتلا بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن میں یہ صفات نہ ہوں

اللہ تعالیٰ ہماری ہر طرح کے گناہوں سے حفاظت فرمائے، اورخاص کر اس دور کے بڑے فتنے گانے وغیرہ سے ہماری حفاظت فرمائے۔آمین

مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کی کتاب:”إغاثة اللھفان في مصاید الشیطان“فصل من مکاید الشیطان: الرقص والغناء والمعازف،1/409-408،دارابن الجوزی“ اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی کتاب ”اسلام اور موسیقی “۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
گانے کی جانب توجہ بالقصد کرنے سے روحانی امراض پیدا ہوتے ہیں، گو اس وقت اس کا ظہور نہ ہو، لیکن چند دنوں میں وہ امراض ظاہر ہوجاتے ہیں۔(ملفوظات حکیم الامت:13/273)۔فقہاء نے گانا سننے کو مکروہ تحریمی اور حرام قرار دیا ہے، چناں چہ فقہی کتابوں میں مذکور ہے: ”استماع صوت الملاھی کالضرب بالقضیب ونحوھا حرام“․ (الفتاویٰ البزازیة علی ھامش الفتاویٰ العالمکیریة،کتاب الکراھیة، الفصل فیما یتعلق بالمناھی، 6/359، ورد المحتار، کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة:6/55،ومجمع الأنھر، کتاب الکراھیة، فصل في المتفرقات:4/223)۔

زبان کا یہی حال ہے ، کان کا یہی حال ہے، آنکھوں کا یہی حال ہے، جسم کے تمام اعضاء، اسلام ماننے کا نام ہے ، اللہ کا حکم ماننے کا نام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو ماننے کا نام اسلام ہے، بہت سے لوگ اس دنیا میں ماننے کے بجائے عقل چلاتے ہیں، حالاں کہ عقل بھی مخلوق ہے ، ایک حد تک آپ اس سے سمجھ ،سمجھا سکتے ہیں، اس سے آگے نہیں۔

میں نے کئی دفعہ مثالیں دی ہیں کہ آدمی اپنی عقل سے اپنی سمجھ سے اور بھی کئی بڑے بڑے عقل مندوں، دانش مندوں کی عقل سے بہت غور کر کے فیصلہ کرتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کا رشتہ فلاں سے کردوں، بغیر عقل کے نہیں کرتا، بہت سوچتا ہے، بہت غور کرتا ہے، بعض دفعہ کئی کئی مہینے، کئی کئی سال لگادیتا ہے اور اپنے عزیزوں سے، رشتہ داروں سے، دوستوں سے مشورہ کرتا ہے کہ بھائی! میں اپنی بیٹی کا فلاں سے رشتہ کرنا چاہ رہا ہوں، کروں یا نہ کروں؟ ساری محفلیں اکٹھی ہیں اور اس کے بعد نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رشتہ کردیا جاتا ہے، شادی ہوجاتی ہے،لیکن ایک ہی مہینے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ سو فیصد غلط فیصلہ تھا، سب سر پکڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں، سب رورہے ہیں، سب پریشان ہیں کہ یہ کتنا بڑا غلط فیصلہ ہم نے کیا، عقل نے کیا۔

آدمی کاروبار اور تجارت شروع کرتا ہے، عقل استعمال کرتا ہے، موقع کی جگہ ہو، مارکیٹ ہو، فلاں ہو، فلاں ہو، ساتھیوں، تجربہ کاروں سے بھی مشورہ کرتا ہے اور مشورہ کرنے کے بعد ساری عقلیں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ ہاں! یہاں کاروبار کرنا بہت نفع بخش ہوگا، بہت فائدہ ہوگا، لیکن صبح وشام کے واقعات ہیں کہ کاروبار نہیں چلتا، تجارت نہیں چلتی اور بہت بڑا نقصان ہوجاتا ہے، سب سر پہ ہاتھ رکھ کر سوچ رہے ہیں کہ یا اللہ! یہ کیا ہوگیا؟ سب عقل کے فیصلے ہیں ، لیکن قدم قدم پر ہمارا آپ کا یہ تجربہ ہے کہ عقل کا فیصلہ صحیح نہیں ہوتا۔

چناں چہ اسلام کے حوالے سے بھی بہت سے لوگ عقل چلاتے ہیں، لیکن ان کا عقل چلانا سوفیصد ناکام ہوتا ہے اور تسلیم کرلینا، مان لینا، اللہ کے فیصلے کے سامنے گردن جھکادینا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے سامنے سرجھکادینا یہی سب سے صحیح ترین بات ہے، اس کے علاوہ اور کوئی بات صحیح نہیں۔

آپ دیکھیں کہ ابوجہل قریش کا سردار ہے، اہل مکہ، قریش اس کو اپنا سردار مانتے ہیں، اس کے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے اور اس کی ہر بات کو تسلیم کرتے ہیں،لیکن ابو جہل نے عقل چلائی اور حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ حبشی ہیں، غلام ہیں، کالے سیاہ رنگ کے ہیں، آنکھیں زرد ہیں، ہونٹ موٹے موٹے ہیں، لیکن انہوں نے عقل نہیں چلائی،أشھد أن لاإلٰہ إلا الله وأشھد أن محمداً عبدہ ورسولہ ، آپ بتائیے کام یاب کون ہوا؟ عقل کام یاب ہوئی یا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا تسلیم کرلینا کامیاب ہوا؟!

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بڑے عقل والے ، بڑے شجاع، بہادر اور ایسے شجاع اور بہادر ہیں کہ پورا مکہ ان سے ڈرتا ہے اور ان کی جرأت دیکھیے کہ وہ خاکم بدہن،نعوذ بالله آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلے ہیں، کتنا خوف ناک فیصلہ ہے، لیکن اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرمالیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی ہمشیرہ کے گھر گئے، ان کا گھر راستے میں پڑتا تھا ،وہاں دیکھا کہ کچھ پڑھنے کی آوازیں آرہی ہیں، بہنوئی ڈر کر کہ یہ تو عمر ہیں، انہیں پتہ چل گیا کہ میں پڑھا رہاہوں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر ہی ان کا غضب اور غصہ نہ اتر جائے، چھپ گئے، بہن سے پوچھا ، بہن نے کہا کہ ہاں! ہم قرآن پڑھ رہے تھے، تو سخت ناراض ہوگئے، لیکن چوں کہ دعا قبول ہوچکی تھی، انہوں نے کہا کہ لاوٴ! مجھے دکھاوٴ کہ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، تم ناپاک ہو، تم اس مقدس کلام کو ہاتھ نہیں لگاسکتے، غسل کیا ، وہ قرآن ان کے سامنے پڑھا گیا، اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی، وہ جو قتل کرنے کے ارادے سے جارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا فرمادی۔(دلائل النبوة للبیہقي،باب ذکر إسلام عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ حین قرأ القرآن:2/222-215) اب وہ کیا فرماتے ہیں؟ وہ فرماتے ہیں:”نحن قوم أعزنا الله بالإسلام․“ (المستدرک علی الصحیحین،کتاب الایمان، رقم الحدیث:208، والمصنف لابن أبی شیبة، کتاب الزھد، کلام عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ، رقم الحدیث:35585)ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے اسلام کے ذریعے ،اسلام کے سبب، اسلام کی وجہ سے عزت عطا فرمائی۔

میرے دوستو! اسلام ہی اصل ہے، آج بدقسمتی سے پوری دنیا میں باطل اور طاغوت نے جو محنتیں کیں اور طویل محنت ،ان محنتوں کے نتیجے میں ان کی دی ہوئی ناپاک اور نجس تعلیم کے نتیجے میں، ان کی دی ہوئی ناپاک اور نجس تہذیب کے نتیجے میں ہم مسلمان جو آزاد تھے، جو معزز تھے اور وہ عزت کا زمانہ ایک برس یا سو برس کا یا پانچ سو برس کا نہیں ہے، ہزار برس سے زیادہ کا زمانہ ہے، جب دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہراتا تھا، جب اسلام دنیا میں غالب تھا اور یہ کونسا زمانہ ہے؟یہ وہ زمانہ ہے جب تعلیم قرآن وسنت کی تھی، سمجھ میں نہیں آئے گا، غلامی ہمارے رگ وریشے میں اس طرح جذب ہوچکی ہے ،اس طرح رچ بس گئی ہے، سمجھ میں نہیں آئے گا۔
بہت مشکل کام ہے، غلامی سے اپنے آپ کو نکالنا آسان نہیں ہے۔میںآ پ کو عجیب بات بتاوٴں ،انگریز جب ہندوستان میں آیا تو وہ قابض تھا، اس نے مسلمان حکومت پر اور مسلمان سلطنت پر قبضہ کیا تھا، تو انگریز نے آکر اس خطے کا سروے کیا اور یہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ اس نے سروے میں یہ تحقیق کی کہ اس خطے کے رہنے والے پچانوے فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں، یہ ڈیڑھ سوسال پہلے کی بات میں آپ سے عرض کررہا ہوں،انگریز کا سروے ہے۔
اس کو میں مثال سے سمجھاتا ہوں کہ خلافت عثمانیہ کے آخری زمانہ میں جنگ تھی اس کا نام تھا جنگ بلقان، یہاں پر اب بھی میں اگر کسی سے پوچھوں کہ جنگ بلقان کیا ہے؟ کسی کو معلوم نہیں ہوگا، خلافت عثمانیہ کاآخری زمانہ ہے، جنگ بلقان۔علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ نے جس وقت وہ جنگ بلقان ہورہی تھی تو اس جنگ بلقان کے حوالے سے اشعار کہے اورلاہور میں ایک بہت بڑا اجتماع تھا، اس اجتماع سے خطاب کیا، اور وہ اشعار جو جنگ بلقان سے متعلق تھے وہ پڑھے، تو آپ حیران ہوں گے کہ پورا مجمع چیخیں مار مار کر رونے لگا، کیوں؟ اس لیے کہ ہر شخص جنگ بلقان سے اورتاریخ کے اس واقعے سے واقف تھا، تعلیم یافتہ تھا، سب کو پتہ تھا۔

میں عرض کررہاہوں کہ اسلام کی جو تعلیمات ہیں، وہ چاند، سورج اور ستاروں کی طرح ہیں، اسلام ہی کی تو تعلیم ہے جس نے ابوبکر کو ابوبکر صدیق بنایا، کیا اس میں کوئی دو رائے ہیں؟اسلام ہی کی تو تعلیم ہے جس نے عمر کو فاروق اعظم بنایا، کیا اس میں کوئی دو رائے ہیں؟ یا انہوں نے کچھ اور پڑھا تھا؟ اسلام ہی کی تو تعلیم ہے جس نے عثمان کو ذوالنورین بنایا، اسلام ہی کی تو تعلیم ہے جس نے علی کو حیدر کرار بنایا، اسلام ہی کی تو تعلیم ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”أصحابي کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم“ (جامع الأصول في أحادیث الرسول، الباب الرابع في فضائل الصحابة، الفصل الأول، رقم الحدیث:6369) میرے تمام صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کسی کی تم پیروی کرو گے تم ہدایت یافتہ ہوگے۔

آپ مجھے بتائیے کہ یہ صحابہ کرام ، یہ خلفائے راشدین ان میں سے جو سب سے چھوٹے درجے کا صحابی ہے اس کے برابر بھی قیامت تک کوئی نہیں آسکتا (چنانچہ” مرقاة المفاتیح “میں ہے:”سئل عن بعض الأکابر: عمر بن عبدالعزیز أفضل أم معاویة؟ قال: لغبار أنف فرس معاویة حین غزا في رکاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم أفضل من کذا وکذا من عمر بن عبدالعزیز․إذ من القواعد المقررة أن العلماء والأولیاء من الأمة لم یبلغ أحد منھم مبلغ الصحابةالکبراء“․ (مرقاة المفاتیح،کتاب الفتن، الفصل الثاني، 10/31،32)ان صحابہ نے کہاں پڑھا تھا؟انہوں نے کہاں تعلیم حاصل کی تھی؟
میرے دوستو! یہ صرف اور صرف قرآن وسنت کے علوم کو حاصل کرنے والے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ پوری دنیا پر غالب تھے، پوری دنیا کے حکم ران بنے، ہمارے پڑوس افغانستان میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح عطا فرمائی، اسلام کو غلبہ عطا فرمایا، اسلام کا جھنڈا بلند ہوا ہے، اسلام فاتح بنا ہے، تو وہ سب جو اندر سے اسلام سے محبت نہیں کرتے، پریشان ہیں، آج وہ شکلیں وہ صورتیں اجنبی ہیں، اس لیے کہ ہم تو روزانہ سرور کائنات جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو ذبح کرتے ہیں۔ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم والی صورت جو کائنات کی حسین ترین صورت ہے، اس سے زیادہ حسین چہرہ کسی کا ہو ہی نہیں سکتا، لیکن ہم اس صورت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔کتنی عجیب بات ہے؟!

میرے دوستو! خوب یادرکھیں۔ طے شدہ ہے کہ آج بھی اگر اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوگا وہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے طریقے کو پوری قوت کے ساتھ اور پوری حمیت کے ساتھ اور پوری غیرت کے ساتھ اختیار کر کے ملے گا۔ورنہ چاہے آپ ایٹم بم بنالیں، بنالیا یا نہیں بنالیا؟! تو کیا اقوام عالم میں آپ کی عزت ہے؟ چاہے آپ بہت طاقت ور فوج بنالیں، ہے یا نہیں ہے ہمارے پاس؟ ہے، جیٹ طیارے، ٹینک ، توپیں،سب کچھ کرلیں،آج میرے دوستو ! آنکھوں سے نظر آرہا ہے،کیا آج یہ واقعہ نہیں ہے کہ دنیاکی ٹیکنالوجی آخری درجے کی ٹیکنا لوجی ،کیا امریکہ سے زیادہ کسی کے پاس ٹیکنا لوجی ہے؟ کیا C.I.A سے اور پینٹاگون سے بڑی کوئی ایجنسی دنیا کے اندر ہے؟ دعوے تھے کہ زمین پر جب کوئی آدمی چلتا ہے تو ہم اس کے جوتے کی کیلیں بھی گن لیتے ہیں،کہاں ہے وہ پینٹاگون؟اور کہاں ہے وہ C.I.A؟اور کہاں ہے وہ موساد اور کہاں ہے وہ RAWاور کہاں ہیں فلاں اور فلاں ؟ سب ختم۔
آج بزعم خود حالاں کہ اس بیچارے کو کہتے ہوئے شرم آرہی ہوگی کہ جتنی سپر پاور تھیں ان سب کا قبرستان افغانستان بن گیا، خود کہا ہے، ابھی دودن پہلے کہا ہے کہ تمام ایمپائر کا قبرستان اور یہ قبرستان بنانے والے کون ہیں؟ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے غلام، ان غلاموں نے جن کے پیروں میں جوتیاں نہیں ہیں، ان غلاموں نے جن کے پاس دووقت کھانے کے لیے نہیں ہے، وہ غلام جن کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا خیال فرما کر ساری دنیا کو شکست دی۔

اسلام میں داڑھی کی اہمیت
میرے دوستو! ہم سب کے لیے سبق ہے، ہم دین اسلام پر عمل کرتے ہوئے شرماتے ہیں، داڑھی رکھ لوں گاتو بیوی ناراض ہوجائے گی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوجائیں گے اس کا خیال نہیں ہے۔(داڑھی اسلام کا ایسا واجب ہے کہ جس کو اس زمانے میں اکثر عوام نے ترک کردیا ہے اور اس کی اہمیت دلوں سے ختم یا کم ہوگئی ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ داڑھی کی اہمیت اور احکام تھوڑے تفصیل سے بیان کردیے جائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا حکم فرمایا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا اپنی امت کو حکم فرمایا ہے، چناں چہ ارشاد فرمایا:”خالفوا المشرکین، أحفوا الشوارب، وأوفوا اللحی“․ (الجامع الصحیح لمسلم،کتاب الطہارة، باب خصال الفطرة،رقم:259، والجامع الصحیح للبخاري،کتاب اللباس، باب تقلیم الأظفار،رقم:5892)مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں کٹاوٴ اور داڑھی بڑھاوٴ ،اسی طرح حدیث میں ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”عشر من الفطرة: قص الشارب ،وإعفاء اللحیة، والسواک،واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء“․

دس چیزیں امور فطرت میں سے ہیں؛ مونچھوں کا ترشوانا، داڑھی کا چھوڑنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی لے کر اس کی صفائی کرنا، ناخن ترشوانا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغل کے بال لینا، موئے زیر ناف کی صفائی کرنا او رپانی سے استنجاء کرنا۔(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الطہارة،باب خصال الفطرة، رقم الحدیث:604، وسنن أبي داوٴد،کتاب الطہارة، باب السواک من الفطرة، رقم الحدیث:53، وسنن الترمذي، کتاب الطہارة، با ب ماجاء في تقلیم الأظفار، رقم الحدیث:2757)

علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ومعناہ أنہا من سنن الأنبیاء صلوات الله وسلامہ علیہم ،مطلب یہ کہ یہ دس امور سب انبیاء علیہم السلام کی سنت ہیں، یعنی سب انبیاء مونچھوں کو کتراتے تھے اور داڑھی کو بڑھاتے تھے۔(شرح النووي علی الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الطہارة، باب خصال الفطرة،1/128)

داڑھی سے متعلق ایک واقعہ
مرزا بیدل ایک ہندوستانی شاعر تھا، اس نے ایک نعت لکھی اور وہ نعت ایران پہنچ گئی، وہاں ایک آدمی نے وہ نعت پڑھی تو بہت متاثر ہوا کہ یہ کلام لکھنے والا بہت بڑ ابزرگ ہوگا،چناں چہ وہ ایران سے ہندوستان آیا اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کے گھر پہنچ گیا معلوم ہوا کہ وہ حجام کی دکان پر گئے ہیں، چناں چہ وہ حجام کی دکان پر گئے، وہاں کیا دیکھا کہ مرزا بیدل صاحب داڑھی منڈوارہے ہیں، حیران ہوکر پوچھا آغا ریش می تراشی؟ آپ داڑھی کاٹ رہے ہیں؟ تو مرزا بیدل نے جواب دیا :بلے ریش می تراشم، دلے کس رانمی خراشم،یعنی میں داڑھی منڈارہا ہوں، کسی کا دل تو نہیں دکھا رہا؟

تو ایرانی نے آگے سے جواب دیا، ارے نادان! دل سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم می خراشی، ارے بے وقوف تو کہتا ہے کہ میں کسی کا دل تو نہیں دکھا رہا تو تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو دکھا رہا ہے۔یہ سن کر مرزا بیدل کو اپنے اس عمل پر ندامت ہوئی اور کہا:
جزاک اللہ کہ چشمم باز کردی مرابا جان جان ہمراز کردی

اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی جزائے خیر دے، تو نے میری آنکھیں کھول دیں اور محبوب حقیقی کے ساتھ میرا تعلق پیدا کردیا۔

داڑھی منڈے کی شکل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ”البدایة والنھایة“ میں ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہے۔

وہ یہ کہ سن 8ھ میں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوت کے بارے میں خطوط لکھے، تو ان میں ایک خط کسریٰ کے نام بھی تھا، اس بدبخت کے پاس جب خط مبارک پہنچا تو اس نے خط مبارک کو پھاڑ دیا اور یمن کے حاکم کو خط لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو، جو اس شخص کو لے کر آئیں جس نے مجھے یہ خط لکھا ہے، چناں چہ یہ دونوں آدمی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئے اور ان دونوں آدمیوں کی داڑھیاں منڈی ہوئی تھیں اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔

اور ان سے فرمایا: ”ویلکما من أمرکما بھٰذا؟“ تمہارے لیے ہلاکت ہے ،تمہیں کس نے اس بات کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے کہا:”أمرنا ربنا“ یعنیان کسریٰ، ہمارے رب یعنی کسریٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے۔

یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولکن ربي أمرنی بإعفاء لحیتی وقص شاربی“،لیکن میرے رب نے مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے:(البدایة والنھایة،سنة ثمان من الھجرة،ذکر بعثہ إلی کسریٰ ملک الفرس،4/291،دارالکتب)

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب قدس الله سرہ بڑی دل سوزی سے لکھتے ہیں:
مسلمانوں کے سوچنے کی بات ہے کہ مرنے کے بعد سب سے پہلے قبر میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا ہوگا اور اس داڑھی منڈے ہوئے چہرہ سے اس پاک ذات کو کتنی تکلیف ہوگی، جس کی شفاعت پر ہم مسلمانوں کی امیدیں وابستہ ہیں؟!(اسلام میں داڑھی کا مقام،ص:29)

غیروں کے ساتھ مشابہت
آج مسلمان اپنی شکل وصورت، وضع قطع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل وصورت ،وضع قطع کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی شکل وصورت کو نہ صرف اختیار کرتا ہے، بلکہ قابل فخر سمجھتا ہے۔حالاں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”من تشبہ بقوم فھو منہم․“ (سنن أبي داود،کتاب اللباس،باب في لبس الشھرة، رقم:4033) جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی میں سے ہے، اسی حدیث کی تشریح میں ملا علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأھل التصوف والصلحاء الأبرار(فھو منھم) أي في الإثم والخیر، قال الطیبی: ھٰذا عام في الخلق والخلق والشعار ولما کان الشعار أظھر في الشبہ ذکر في ھٰذا الباب، قلت بل الشعار ھو المراد بالتشبہ لاغیر، فإن الخلق الصوری لایتصور فیہ التشبہ والخلق المعنوی لایقال فیہ التشبہ، بل ھو التخلق“․(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،8/255)
لیکن آج کل بہت سے مسلمان اپنی شکل وصورت اور وضع قطع میں کفار فساق کو پیش نظر رکھتے ہیں اور ان جیسا لگنے کی کوشش کرتے ہیں #

شعور وفکر کی یہ کافری معاذ اللہ
فرنگ ترے خیال وعمل کا ہے مسجود

عجیب بات ہے کہ ہر مسلمان کو اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ ہے اور محبت سچی ہو تو محبوب کی ہر ادا اور عادت محبوب ہونی چاہیے، محبوب کی اداوٴں اور عادات سے معاذ اللہ نفرت، محبت نہ ہونے کی علامت ہے اور داڑھی کا منڈانے والاحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پامال کرنے والا ہے، و ہ سچا محب کیسے ہوسکتا ہے؟!

تعصی الرسول وأنت تظھر حبہ
ھٰذا محال في القیاس بدیع
لو کان حبک صادقا لأطعتہ
إن المحب لمن یحب مطیع
(دیوان الإمام الشافعی،ص:78،ط:دارالمعرفة)

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

داڑھی مرد کی زینت ہے
داڑھی کو اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے زینت بنایا ہے، داڑھی سے مرد خوب صورت لگتا ہے، داڑھی سب انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور انبیاء کی سنت اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ ہے۔چناں چہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ مکتوبات میں لکھتے ہیں:
تمام سنن خداوند عالم کی پسند فرمودہ ہیں اور جو چیزیں خلاف سنت ہیں وہ شیطان کی پسند کردہ ہیں۔(مکتوبات :1/55)

ابن نجیم رحمہ اللہ ”البحر الرائق“ میں فرماتے ہیں:
داڑھی اپنے وقت میں خوب صورتی کی چیز ہے اور دلیل میں یہ حدیث پیش فرمائی کہ ملائکہ کی تسبیح ہے اور ملائکہ کہتے ہیں: ”سبحان من زین الرجال باللحاء والنساء بالذوائب“․

پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھی سے اور عورتوں کو لمبے بالوں سے زینت بخشی ہے۔(البحر الرائق، کتاب الدیات، 9/83، دارالکتب)

ہدایہ میں ہے:”أن اللحیة في وقتھا جمال وحلقھا تفویتہ علی الکمال“․(الھدایة،کتاب الدیات،فصل فیما دون النفس، 8/82،83)

یعنی داڑھی اپنے وقت میں یعنی جب سے اُگتی ہے خوب صورت اور زینت کا باعث ہے اور اس کے منڈانے سے زینت وخوب صورتی بالکل ختم ہوجاتی ہے،لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ آج کا مسلمان مرد ،عورتوں جیسی شکل بنانے کو قابل فخر سمجھتا ہے۔

کچھ تو فیشن کاتصدق کچھ کرم حجام کا
رفتہ رفتہ میری صورت ان کی صورت ہوگئی
بنانا عورتوں کی وضع شامل ہو کے مردوں میں
نئی تہذیب کا بخشا ہوا آرائشی حق ہے

داڑھی سے متعلق دندان شکن جواب
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عبدالرحیم نامی ایک شخص مولانا شہید رحمہ اللہ کا ہم سبق تھا، مگر دہری خیال کا تھا، ایک دن مولانا شہید رحمہ اللہ سے کہا کہ داڑھی تو ایک زائد چیزہے، فطری نہیں ہے، کیوں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو داڑھی نہیں ہوتی،”والزوائد أولیٰ بالحذف“․

مولانا نے جواب دیا کہ دانت بھی تو فطری نہیں ہیں، کیوں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو دانت نہیں ہوتے، ان کو بھی توڑ دینا چاہیے۔ یہ سن کر مولانا عبدالحیٴ صاحب نے فرمایا کہ واہ مولانا! کیا خوب دندان شکن جواب دیا ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت،ملفوظ نمبر: 274،14/217)
(جاری)