اولاد کے حقوق

اولاد کے حقوق

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ﴾․ (سورة آل عمران،آیة:19) صدق اللّٰہ مولانا العظیم․

میر ے محترم بھائیو، بزرگو: اور دوستو! الله تعالیٰ کا فرمان ہے: ”بے شک دین تو الله کی نظر میں اسلام ہی ہے“۔
آپ جانتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے جب یہ دنیا بنائی تو اس میں سب سے اعلیٰ اور اشرف مخلوق انسان پیدا فرمایا، مخلوقات تو بے شمار ہیں، آسمان، زمین، چاند، تارے، جنات، فرشتے ۔الله تعالیٰ کے علاوہ جو کچھ ہے وہ الله کی مخلوق ہے اور الله اس کے خالق ہیں، وہ سب الله تعالیٰ کا بغیر کسی شریک کے خود سے بنایا ہوا ہے، فرشتوں کو الله نے بنایا، الله تعالیٰ کیعلاوہ جو کچھ ہے وہ سب الله کا بنایا ہوا ہے، ان تمام مخلوقات کا سردار، ان تمام مخلوقات میں اشرف اور اعلیٰ انسان ہے اور انہی انسانوں میں سے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے پیارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم تک ، سارے انبیا کو انہی انسانوں میں سے پیدا کیا اور امام الانبیا سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم تمام انسانوں میں افضل ہیں اور نہ صرف یہ کہ انسانوں میں سب سے افضل اور اشرف ہیں، بلکہ تمام انبیاء اور مرسلین میں بھی سب سے افضل اور اشرف ہیں۔

الله تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے، اپنے کرم سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی اُمت میں پیدا فرمایا، یہ بہت بڑا اعزاز ہے ،جس کے حصول کی تمنا انبیاء علیہم السلام نے کی، الله تعالیٰ نے ہمیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا، یہ اعزاز اور یہ فضیلت جو الله تعالیٰ نے ہمیں اور آپ کو عطا فرمائی ہے، اس اعزاز کو سنبھالنا ، اس اعزاز کے ساتھ وفا دار رہنا، اس اعزاز کو ہر حال میں کچھ بھی ہو جائے اس سے روگردانی نہ کرنا ہماری ذمے داری ہے۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے 23 برس محنت فرمائی اور اس محنت کے نتیجے میں ایک بڑی جماعت اسلام لائی، آپ تمام صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ فرمائیں، ان کی جو سب سے بڑی خوبی ہے اور سب سے بڑا اعزاز ہے وہ یہ ہے کہ ہر اعتبار سے وہ اسلام کے وفادار تھے، کیسے وفادار تھے کہ اگر اسلام کے خلاف باپ ہے، اسلام کے خلاف ماں ہے، اسلام کے خلاف او رکوئی رشتہ دار ہے، تو ہر چیز کو انہوں نے اسلام کے مقابلے میں دفع کیا ہے، انہوں نے اسلام کے لیے قربانی ، جان نثاری اختیار کی ہے۔ (صحابہ کرام رضی الله عنہم کی اسلام سے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے بے نظیر وفا داری کے چند واقعات ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کا واقعہ:
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ غزوہ بدر میں موجود ہیں اور آپ کا بیٹا عبدالرحمن اس وقت کافر تھا اورمسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے آیا ہوا ہے اور لشکر کفار کی طرف سے مبارزت کے لیے پکار رہا ہے، تو حضرت ابو بکرصدیق رضی الله عنہ نے حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم سے لڑنے کی اجازت طلب کی، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے اجازت نہیں دی۔ (الإستیعاب فی معرفة الأصحاب بھامش الإصابة، عبدالرحمن بن أبی بکر:2/399)

حضرت عبدالله بن عبدالله بن أبی کا واقعہ:
حضرت عبدلله رضی الله عنہ ایک صحابی ہیں، جو عبدالله بن ابی بن سلول رأس المنافقین کے بیٹے ہیں، مخلص اور صادق الإیمان صحابی ہیں، ایک موقعہ پر عبدالله بن ابی بن سلول رأس المنافقین نے کہا: لیخرجن الأعز منھا الأذل․
عبدالله بن أبی منافق کی یہ بات حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم تک پہنچی، قرآن کریم کے ذریعہ اس بات کی تصدیق ہوئی، تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس منافق کی گردن اڑا دینے کی اجازت مانگی، آپ نے اجازت نہیں دی۔

حضرت عبدالله رضی الله عنہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا کہ اے الله کے رسول! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ عبدالله بن أبی (میرے باپ) کو قتل کروانا چاہتے ہیں، اگر آپ کا ایسا ارادہ ہے تو مجھے حکم دیجیے، میں اس کا سر لا کر حاضر کرتا ہوں، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے منع فرما دیا اور فرمایا کہ ہم اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے رہیں گے۔ (السیرة النبویة لابن ھشام،غزوہ بنی المصطلق:2/293-292)

آج میرے دوستو! جو اس وقت اس امت کی بڑی مشکل ہے ،وہ یہ کہ الحمدلله ہم مسلمان ہیں ،ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن ہماری وابستگی اسلام کے ساتھ بہت کم زور ہے، آج ہمارا معیار کیا ہے ہم الله تعالیٰ کی الوہیت کا، اس کی وحدانیت کا، اس کی قدرت اور عظمت کا، جس طرح سے استحضار ہونا چاہیے اس طرح کا استحضار نہیں رکھتے کہ ہر مشکل میں، ہر پریشانی میں، ہر دکھ میں، ہر سکھ میں ہر حالت میں، ایک مسلمان، کا رجوع الله کی طرف ہونا چاہیے۔

خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو آج ہمارا حال یہ ہے کہ سب پہلے موبائل فون نکال کر یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کا نمبر میرے پاس ہے یا نہیں ہے ؟ ہم فوراً اس سے رجوع کرتے ہیں، اندر سے یہ آواز نہیں آتی کہ مجھے سب سے پہلے الله کی طرف رجوع ہونا ہے، مجھے سب سے پہلے الله سے مانگنا ہے، یقینا ہم عالم اسباب میں رہتے ہیں، ہمیں ڈاکٹر کی بھی ضرورت ہے، ہمیں کسی عہدے دار کی بھی ضرورت ہے، اس سے انکار نہیں ہے، لیکن سب سے پہلی آواز اندر سے کیا آنی چاہیے؟ سب سے پہلے ایک مسلمان کی ذمہ دار ی کیا ہے؟ سب سے پہلے ہم الله کی طرف رجوع ہوں، اس کے بعد ہم اسباب اختیار کریں، اسی طرح جب کوئی خوشی کا موقع ہو، الله تعالیٰ کی نعمت حاصل ہو، جوہمیں مسلسل، بغیر کسی استحقاق کے حاصل ہوتی رہتی ہیں، ہمیں الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، ہم بیٹھے ہیں، سب سانس لے رہے ہیں، الله تعالیٰ اگر سانس بند کر دے تو کوئی زندہ رہ سکتا ہے؟ ہرحال میں الله کا شکر ادا کریں، ہر وقت ہماری زبان پر الله کا شکر ہو اور الله تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿لئن شکرتم لأزیدنکم﴾ اگر تم میری نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہو گے تو میں تمہاری نعمتوں میں البتہ ضرور بالضرور اضافہ کروں گا، ہم کھانا کھاتے ہیں، ہم پانی پیتے ہیں، زندگی کی نعمتوں سے مسلسل استفادہ کر رہے ہیں تو ہر وقت آدمی الله تعالیٰ کا شکر ادا کرے، مشکلات، دکھوں اور تکالیف میں بھی الله تعالیٰ کی طرف رجوع ہوں اور سہولتوں اور آسانیوں اور عافیتوں کے اندر بھی الله کی طرف رجوع ہوں۔ جب ہم شکر ادا کریں گے تو نتیجہ کیا ہو گا؟ الله تعالیٰ نعمتوں میں اضافہ فرمائیں گے، نعمتیں بڑھا دیں گے، یہ ساری چیزیں جتنی میں نے عرض کیں اس کا طریقہ کیا ہے؟ دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو ایسی راہ نمائی کرتاہو، محمد رسول الله کا جو طریقہ ہے اس کو اختیار کیا جائے، پیدائش سے لے کر موت تک۔

گھر میں بچے کی پیدائش ہو فوراً علماء سے رجوع کریں، ہمارے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے، کیا کریں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ہاں بچہ پیدا ہو اس کا بہت اچھانام رکھو:”عن أبی الدرداء قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : إنکم تدعون یوم القیامة بأسمائکم وأسماء آبائکم، فأحسنوا أسمائکم․“ (سنن أبی داود، کتاب الأدب، باب في تغییر الأسماء رقم:4948)

الله ہمیں معاف فرمائے کہ ایسے فضول قسم کے نام رکھتے ہیں جن کا نہ سر نہ پیر، نام تو ایسے ہونے چاہییں جن کا کوئی مطلب ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ لوگ اسلام لاتے، آپ پوچھتے کیا نام ہے؟ اگر نام اچھا ہوتا تو ٹھیک او راگر نام اچھا نہ ہوتا تو بدل دیتے۔

(چناں چہ امام بخاری رحمہ الله نے کتاب الادبمیں باب قائم کیا ہے”باب تحویل الاسم الی اسم احسن منہ“ اسی طرح امام مسلم نے ”صحیح مسلم“ میں باب قائم کیا ہے ”باب استحباب تغیر الاسم القبیح الی حسن“ اسی طرح امام ابوداؤد نے کتاب الأدب میں باب قائم کیا ہے، ”باب فی تغییر الاسم القبیح“ اوراس باب میں ان حضرات نے وہ روایات ذکر کی ہیں جن میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان صحابہ کرام رضی الله عنہم کے نام، جو نامناسب تھے، تبدیل کیے اور یہ بات احادیث سے ثابت ہے کہ ہر آدمی کے نام کا اس کی زندگی میں اثر ہوتا ہے، لہٰذا نام رکھنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے، چناں چہ بخاری شریف کی روایت ہے: حضرت سعید بن المسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ مسیب کے والد حزن نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے نام پوچھا، انہوں (حضرت سعید کے دادا) نے عرض کیا کہ میرا نام حزن ہے ( جس کا معنی غم اور سختی کے ہیں) تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تو سہل ہے ( یعنی تمہارا نام آج سے سہل ہے اور سہل کا معنی نرم کے ہیں) تو حزن نے عرض کیا کہ جونام میرے باپ نے رکھا ہے میں اس کو نہیں بدلوں گا۔

حضرت سعید فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے ہمیشہ ہمارے خاندان میں سختی باقی رہی۔ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الأدب، باب اسم الحزن، رقم:619)

اسی طرح ” مؤطا امام مالک“ میں ایک روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے ایک آدمی سے پوچھا تمہارا کیا نام ہے؟ اس نے کہا جمرہ (انگارہ) حضرت عمر رضی الله عنہ نے پوچھا کس کے بیٹے ہو؟ اس نے کہا شہاب کا ( اور شہاب کا معنی شعلہ ہے) پھر پوچھا کس سے تعلق ہے؟ اس نے کہا حرقہ سے ( اور حرقہ کا معنیٰ گرمی اور جلن کے ہیں ) حضرت عمررضی الله عنہ نے پوچھا کہاں رہتے ہو؟ اس نے کہا حرة النار پر۔ (اور حرة النار کا معنی آگ کا ٹیلہ )حضرت عمر رضی الله عنہ نے پوچھا کس جگہ؟ تو اس نے کہا ذات لظی پر۔ (اور لظی کا معنی بھی آگ کی لپٹ ، شعلہ) یہ سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا: جلدی گھر پہنچو، اس لیے کہ تمہارے اہل وعیال آگ میں جل کر ہلاک ہو گئے ہیں اور واقعی ایسا ہی ہوا جیسا کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا تھا ( یعنی اس کے سب گھر والے جل کر مر گئے۔ ( المؤطا، باب مایکرہ من الأسماء، رقم:1753)

آپ نے فرمایا: عبدالله نام رکھو، عبدالرحمن نام رکھو۔ ”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: أحب الأسماء إلی الله عبدالله وعبدالرحمن“․

چناں چہ علماء سے پوچھ کر انبیاء علیہم السلام کے ناموں پر نام رکھیں،صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کے ناموں پر نام رکھیں۔

آپ سوچیں مثلاً آپ کا بیٹا ہے اور الله تعالیٰ اس کو سو سال کی عمر عطا فرمائے، تو اس کا نام کتنی مرتبہ لیا جائے گا؟ ماں باپ، بہن، بھائی کتنی مرتبہ اس کا نام لیں گے، جہاں وہ رہتا ہے لوگ کتنی مرتبہ اس کا نام لیں گے؟ تو اس نام کا جو اثر ہے وہ اس کے اندر جائے گا، اگر اچھا نام ہے اچھے اثرات جائیں گے اور اگر بُرا نام ہے بُرے اثرات جائیں گے۔
چنا ں چہ بچہ پیدا ہوا ہے تو فوراً اگر طریقہ مسنون معلوم ہے الحمدلله اس کے مطابق کریں او راگر معلوم نہیں ہے تو شرمائیں نہیں، بلکہ فوراً کسی عالم دین کے پاس جائیں او رجاکر عرض کریں کہ میرے یہاں بچہ پیدا ہوا ہے، اب آپ بتائے اسلام کیا بتاتا ہے؟ وہ آپ کو سار ی تفصیل بتائیں گے، اس کے مطابق آپ کریں، مثلاً اسی میں آپ کو بتائیں گے کہ ساتویں دن آپ عقیقہ کریں ۔

(بچہ جس دن پیدا ہو اس دن کو شمار کرکے ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے، مثلاً ایک بچہ پیر کو پیدا ہوا تو آئندہ آنے والے اتوار کے دن اس کی پیدائش کا ساتواں دن ہو گا، اسی طرح اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکا تو چودہویں دن اور چوہودیں دن نہ کر سکا تواکیسویں دن عقیقہ کرلے او راگر اکیسویں دن بھی نہ کرسکا تو بچے کے بالغ ہونے سے پہلے پہلے عقیقہ کیا جاسکتا ہے۔ (المغنی لابن قدامہ، کتاب الأضاحی:9/364، روضة الطالبین، کتاب الضجایا، باب العقیقہ:2/498، الحاوی الکبیر فی فقہ مذہب الإمام الشافعي کتاب الضحایا، باب العقیقہ:15/129)

اگر بیٹا ہے تو دو بکرے ذبح کریں اور اگر بیٹی ہے تو ایک بکرا ذبح کر دو۔ (رد المحتار، کتاب الأضحیة:5/236، والمغني لابن قدامہ، کتاب الأضاحي:9/363)

اس کے سر کے بال صاف کر دیں، سارا مسنون طریقہ ہے، آپ کو معلوم ہے کہ یہ جو آپ نے عقیقہ کیا او ربکرے ذبح کیے، یہ اس بچے کا آپ نے آفات، بلیات، مصیبتیں، بیماریاں ان سب کا مسنون علاج کیا ہے ۔ ( سنن الترمذی کی راویت ہے:” الغلام مرتھن لعقیقتہ، تذبح عنہ یوم السابع، ویسمی، ویحلق رأسہ․“(سنن الترمذی، کتاب الأضاحی، باب من العقیقہ، رقم:1522)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ لڑکا گروی رکھا ہوا ہے عقیقہ کے بدلے میں، یعنی آفات میں محبوس ہے، پس اس کی طرف سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سرمنڈایا جائے۔

الغلام مرتھن لعقیقتہ کے حضرات محدثین نے کئی مطلب بیان کیے ہیں، ایک مطلب جس کو حضرات محدثین نے پسند فرمایا ہے وہ امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے بیان فرمایا ہے، فرماتے ہیں کہ یہ شفاعت کے متعلق ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر بچے کی طرف سے عقیقہ نہیں کیا گیا اور وہ مر گیا تو والدین کے حق میں سفارش نہیں کرسکے گا، اس کی سفارش والدین کے حق میں قبول نہیں کی جائے گی۔ (فتح الباري:12/742، عمدة القاري:21/130 النھایہ :1/709)
ایک مطلب علامہ ابن القیم رحمہ الله نے”تحفة المودود“ میں بیان کیا ہے، فرماتے ہیں کہ بچے کاا پنے عقیقے میں مرہون ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پیچھے لگ جاتا ہے، لہٰذا جب تک بچے کا عقیقہ نہیں کیا جاتا وہ شیطان کے تسلط سے آزاد نہیں ہوتا،عقیقہ کرنے کے بعد وہ شیطانی تسلط کے آثار سے آزاد او رمحفوظ ہو جاتا ہے۔( تحفة المودود بأحکام المولود، الباب السادس، الفصل الحادی عشر، ص: 49)

کون نہیں چاہتا کہ اس کا بچہ محفوظ رہے؟ کون نہیں چاہتا کہ اس کا بچہ صحت مند رہے؟ کون نہیں چاہتا کہ اس کا بچہ نیک اور صالح رہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بچے کی تربیت کے حوالے سے فرمایا کہ والد کی طرف سے بچے کو بہترین ہدیہ یہ ہے کہ بچے کو ادب سکھائے۔

(قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: مانحل والد ولداً من نحل أفضل من أدب حسن․ سنن الترمذي، أدب الولد، رقم:1952)

بچے کو ادب سکھائیں، بد تمیز بے ادب نہ بنائیں، باادب بنانے کامطلب کیا ہے؟ جو بڑوں کا احترام کرے، جو چھوٹوں پر شفقت کرے، بار بار بتائیں کہ یہ آپ کے بڑے ہیں، ان کا احترام کرو، یہ آپ سے چھوٹے ہیں ان پر شفقت کرو، ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ جو باادب بچے ہیں، وہ اپنے ماں باپ کی کیسی خدمت کرتے ہیں، اپنے رشتہ داروں کی کیسی خدمت کرتے ہیں اور یہ تو رشتے ہیں، کوئی بھی بڑی عمر کا آدمی ہو اس کا ادب، اس کا احترام کرتے ہیں، آج بدقسمتی سے ہم مثالیں دیتے ہیں دوسروں کی، ویسٹ او رمغرب کی، وہاں کچھ نہیں ہے، سب کچھ یہیں ہے۔
میں ایک شادی میں شریک ہوا تو جس بچے کی شادی تھی اس کا دوسرا بھائی حافظ قرآن تھا، دنیا دار لوگ، تاجر لوگ تھے، ان کے والد کافی ضعیف تھے، تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ جب ان کے والد اس جگہ سے جہاں قالین بچھے ہوئے تھے ننگے پیر گئے، اور وہاں سے باہر نکلے تو حافظ بیٹا اور وہ بھی صرف حافظ اور دنیا کے کاروبار میں مصروف ہے تو وہ فوراً اپنے ضعیف والدکے جوتے لے کر والد کے پیروں میں پہنا رہا ہے، کتنی خوشی کی بات ہے، دنیا دیکھ رہی ہے، یہ کون سکھاتا ہے؟ اسلام سکھاتا ہے، اپنی ماں کی خدمت کرنی ہے، آپ سے عمر میں جو بھی بڑے ہیں ان کا ادب کریں۔

آپ بس میں ہیں، ایک ضعیف بڑی عمر کا آدمی ہے، آپ کو سیٹ ملی ہے تو آپ فوراًکھڑے ہو جائیں، اس کا حق ہے، آپ تو جوان ہیں، آپ کھڑے ہو کر بھی سفر سکتے ہیں، اس کا یہ حق ہے کہ آپ فوراً جگہ خالی کرکے ان کو بٹھائیں، یہی بات ہم اپنے بچوں کو سکھائیں، ہمارے ہاں اب آہستہ آہستہ انحطاط ہے، اب تو بڑے میاں کو دیکھ کر نوجوان ہنستے ہیں۔
میرے دوستو! بڑوں کااحترام کریں:” من لم یوقر کبیرنا“ جوہمارے بڑوں کا احترام نہیں کرتا،جوان کا ادب نہیں کرتا او رجو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، ہمارے پیارے حبیب صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لیس منا، وہ ہم میں سے نہیں:” قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لیس منا من لم یوقر کبیرنا ویرحم صغیرنا․ “(مسند الإمام احمد، رقم:6937، والمعجم الأوسط، من اسمہ عبید، رقم:4812)

چناں چہ یہ تو میں نے ایک رخ لیا ہے، زندگی کے تمام رخ …میاں بیوی ہیں،تعلیم، جو تربیت، آداب دین اسلام سکھاتا ہے دنیا میں کہیں نہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیرکم خیرکم لأھلہ“ تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین ہو۔” وأنا خیرکم لأھلي“ اور میں تم سب میں اپنے گھروالوں کے ساتھ سب سے بہترین ہوں۔(سنن الترمذي، باب فضل أزواج النبي صلی الله علیہ وسلم، رقم:3895، وسنن ابن ماجہ باب حسن معاشرة النساء، رقم:1977)

حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: گھر کے اندر ہم اگر کسی کام میں مصروف ہوتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم ہمارے ساتھ ہمارے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، یہ دین ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم اگر کوئی کپڑا پھٹ جاتا تو اس کو خود سی لیا کرتے، آپ صلی الله علیہ وسلم بکری کا دودھ خود نکال لیا کرتے تھے: ”عن عائشة رضي الله عنہا أنھاسئلت ما کان عمل رسول الله صلی الله علیہ وسلم في بیتہ؟ قالت: ماکان إلا بشرا من البشر، یفلی ثوبہ، ویحلب شاتہ، ویخدم نفسہ․“ (صحیح ابن حبان، ذکرما یستحب للمرء أن لا یأنف من العمل المستحقر فی بیتہ بنفسہ، رقم:5675،و مسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم:2619)

وفي روایة: عن عروة قال: قلت لعائشة: یا أم المومنین أي شيء کان یصنع رسول الله صلی الله علیہ وسلم إذا کان عندک؟ قالت: ما یفعل أحدکم فی مھنة أھلہ، یخصف نعلہ، ویخیط ثوبہ ویرقع دلوہ․“ (صحیح ابن حبان ، رقم الحدیث:5676)

اگرکوئی بات معلوم نہیں ہے فوراًعلماء سے رجوع کیاجائے۔
الله تعالیٰ ہمیں اسلام کو سیکھنے کی، اس پر عمل کرنے کی اور نہ صرف یہ کہ اس پر عمل کی بلکہ غیرت اور حمیت کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔