میلاد منانے کی تاریخی، شرعی حیثیت

idara letterhead universal2c

میلاد منانے کی تاریخی، شرعی حیثیت

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․

﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ﴾․ (سورة الأنبیاء، آیة:107)

وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”إنی لم أبعث لعّانا وانما بعثت رحمة“․ (الجامع الصحیح للمسلم، کتاب البر، باب النھی عن لعن الدواب وغیرھا، رقم الحدیث:6613)

صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․

میرے محترم بزرگو، بھائیو اور دوستو! آج1445ھ کا ربیع الاول اور جمعة المبارک ہے ، آج وہ دن ہے جس دن سرور کائنات، امام الانبیاء ،سید الرسل، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس دنیا سے واپسی ہوئی اور آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں اکثر اصحاب سیر کی رائے یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی آمد 8،9 ربیع الاول کو ہوئی اور12ربیع الاول کے دن آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی، چناں چہ اس 12 ربیع الاول کو12 وفات کہا جاتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا اس دنیاسے پردہ فرمانا وہ متفقہ طور پر 12 ربیع الاول ہے۔

(نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کے بارے میں جمہور اصحاب سیر نے 8 یا9 ربیع الاول کے قول کو اختیار فرمایا ہے ۔

چناں چہ علامہ طبری رحمہ الله اپنی کتاب ”خلاصة سیر سید البشر“ میں فرماتے ہیں:” ولد رسول الله صلی الله علیہ وسلم بمکة عام الفیل… فی یوم الاثنین فی شھر ربیع الاول، قیل للیلتین خلتا منہ، وقیل لثمان، وصححہ کثیر من العلماء․(خلاصة سیر سید البشر، الفصل الثانی في ذکر میلادہ صلی الله علیہ وسلم، ص:9)

علامہ زرقانی رحمہ الله فرماتے ہیں:
”وقد اختلف فی عام ولادتہ صلی الله علیہ وسلم فالأکثرون علی أنہ عام الفیل… وکذا اختلف أیضاً فی أی یوم من الشھر… وقیل لثمان خلت منہ، قال الشیخ قطب الدین القسطلانی وھو اختیار اکثر اھل الحدیث، ونقل عن ابن عباس وجبیر بن مطعم وھو اختیار اکثر من لہ معرفة بھذا الشان، واختارہ الحمیدی وشیخہ ابن حزم، وحکی القضاعی عیون المعارف اجماع أھل الزیج علیہ ورواہ الزھری عن محمد بن جبیر بن مطعم وکان عارفا بالنسب وأیام العرب أخذ ذلک عن أبیہ جبیر․( شرح العلامة الزرقانی، قد اختلف فی عام ولادتہ صلی الله علیہ وسلم :1/247)

علامہ ذہبی رحمہ الله نے اپنے شیخ امام دمیاطی رحمہ الله سے نقل کرتے ہوئے 10 ربیع الاول کے قول کی تصحیح کی ہے۔ فرماتے ہیں:

” قال شیخنا ابو محمد الدمیاطی فی السیرة من تالیفہ عن أبی جعفر محمد بن علی قال: ولد رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین لعشر لیال خلون من ربیع الاول… وقال ابو معشر نجیح: ولد لاثنتی عشرة لیلة خلت من ربیع الاول، قال الدمیاطی: والصحیح قول أبی جعفر․ (السیرة النبویة للذھبی، مولدہ المبارک صلی الله علیہ وسلم:1/7)

متاخرین أصحاب سیر نے بھی 8،9 ربیع الاول کے قول کو اختیار کیا ہے۔

چناں چہ حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ الله اپنی کتاب ”سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم“ میں لکھتے ہیں:
ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور قول تویہ ہے کہ حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے ، لیکن جمہور محدثین اور مؤرخین کے نزدیک راحج او ر مختار قول یہ ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، ابن عباس اور جبیر بن مطعم رضی الله عنہم سے بھی یہی منقول ہے اور اس قول کو علامہ قطب الدین قسطلانی نے اختیار کیا ہے۔ (سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم : 1/52)

علامہ شبلی نعمانی رحمہ الله اپنی کتاب”سیرة النبی صلی الله علیہ وسلم“ میں لکھتے ہیں:تاریخ ولادت کے متعلق مصر کے مشہور ہیئت دان عالم محمود پاشا فلکی نے ایک رسالہ لکھا ہے، جس میں انہوں نے دلائل ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت 9 ربیع الاول، روز دوشنبہ ،مطابق 20 اپریل571 ء میں ہوئی تھی۔ (سیرة النبی صلی الله علیہ وسلم:1/125۔ 126)

قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمہ الله نے بھی 9 ربیع الاول کا قو ل اختیار کیا ہے۔ (رحمة للعالمین:1/47)
حضرت مولانا مفتی کفایت الله صاحب رحمہ الله اور حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمہ الله نے بھی 9 ربیع الاول کا قول اختیار کیا ہے۔ (کفایت المفتی، کتاب العقائد، آٹھواں باب:1/147، و احسن الفتاوی:2/368)

چناں چہ اس دن یعنی12 ربیع الاول کو کئی بدعتوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے، ایک تو یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی اس دنیا سے رخصتی پر جو حال اور جو کیفیت آپ کے سچے اور حقیقی عاشقوں کی ہوئی، وہ کیا تھی؟

جب آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ جیسے جلیل القدر صحابی اور ایسے صحابی جن کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لوکا ن بعدی نبی لکان عمر“․( سنن الترمذی، ابواب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب رضی الله عنہ ، رقم:3686)

آپ صلی الله علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، خاتم الرسل ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اگر کوئی نبوت کا دعوی کرے تو وہ مرتد او رکافر کہلائے گا، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ اگر کسی میں استعداد تھی، صلاحیت تھی وہ حضرت عمر میں تھی۔

چناں چہ حضرت عمر رضی الله عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کا آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر غم سے یہ حال تھا کہ فرمایا: اگر میں نے کسی سے سنا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ (فی السیرة النبویة لابن ھشام:” عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: لما توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم قام عمر بن الخطاب فقال: إن رجالا من المنافقین یزعمون أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قد توفی، وإن رسول الله صلی الله علیہ وسلم ما مات، ولکنہ ذھب إلی ربہ کما ذھب موسی بن عمران فقد غاب عن قومہ أربعین لیلة، ثم رجع إلیھم بعد أن قیل قدمات، ووالله لیرجعن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کما رجع موسی، فلیقطعن أیدی رجال وأرجلھم زعموا أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم مات․“ (السیرة النبویة لابن ھشام، مقالة عمر بعد وفاة الرسول:4/655، و کذا فی الروض الأنف، مقالة عمر بعد وفاة الرسول:4/443)

میرے دوستو! ایک عام صحابی ہیں، اگرچہ ایک عام صحابی بھی قیامت تک آنے والے انسانوں سے فائق اور بلند ہیں، عام صحابی اس حیثیت میں ہیں کہ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے، چناں چہ اپنے کھیت میں تھے، کھیتی باڑی کر رہے تھے ۔کسی نے آ کر بتایا کہ الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا ہے تو یک دم غم کا ایسا پہاڑ ٹوٹا کہ فوراً ہاتھ اٹھائے، مستجاب الدعوات تھے اور الله تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرنے لگے کہ اے الله! جو آنکھیں تھیں یہ تو تھیں ہی اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا دیدار اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہو گی اور یہ جو کان ہیں یہ تو تھے ہی اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے فرامین، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات سنوں اور جب آپ صلی الله علیہ وسلم ہی اس دنیا میں نہ ر ہے تو مجھے نہ ان آنکھوں کی ضرورت ہے اور نہ ان کانوں کی ضرورت ہے۔ اے الله! میری بصارت بھی واپس لے لے اور میر ی سماعت بھی واپس لے لے۔

چناں چہ اسی وقت وہ دعا قبول ہوگئی اور وہ نابینا اور بہرے ہو گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ کرام رضی الله عنہم پر جو غم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں اس کا کوئی تصور نہیں اور یہ کس دن ہوا ہے؟ یہ 12 ربیع الاول کو ہوا ہے، تو 12 ربیع الاول، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کا دن ہے ہم اس دن قمقمے جلائیں، ہم اس دن روشنیاں کریں، ہم جلوس نکالیں، ہم جھنڈے لگائیں، ہم ناچیں گائیں۔إنالله وإنا إلیہ راجعون․

میرے دوستو! یہ تو غم کا دن ہے، افسوس کا دن ہے اور اس مقصد کا دن ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو دین اور شریعت لائے تھے ہم اس پر عمل کریں گے، ہم تجدید عہد کریں گے، لیکن بد قسمتی سے آج شیطان نے ایسا دھوکہ دیا ہے، لیکن آپ خوب یادرکھیں کہ آپ الله تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دے سکتے، آپ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔

دوسری جہت یہ ہے کہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر آپ صلی الله علیہ کی آمد پر خوشی منانا دین اسلام کا حکم ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی ہے، ترپین برس آپ نے مکہ مکرمہ میں گزارے ہیں اور پیدائش کے چالیس سال بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبوت ملی ہے، نبوت ملنے کے بعد تیرہ برس مکہ مکرمہ میں رہے ہیں ،دس برس مدینہ طیبہ میں گزارے ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ایسے عاشق تھے کہ قیامت تک کوئی ایسا عاشق نہیں آسکتا، ان کو چاہیے تھا کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر جشن مناتے، لائٹیں جلاتے، قمقمے جلاتے، جشن مناتے، لیکن آپ کو کسی کتاب میں یہ نہیں ملے گا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے چالیس سال اور بعثت کے بعد 23 سال او رکل تریسٹھ سال مکہ مکرمہ میں ،مدینہ طیبہ میں، یمن میں، جزیرة العرب میں کہیں پر اس طرح، اس دن خوشی کا اظہار کہ جھنڈیاں لگائیں، قمقمے لگائیں، ناچیں …کسی کتاب میں نہیں ملے گا۔

یاد رکھیں میلاد عربی زبان کا لفظ ہے اور میلاد کا ترجمہ ہے پیدائش تو پیدائش کی خوشی، اس کا انگریزی ترجمہ ہیپی برتھ ڈے یہ ہیپی برتھ ڈے کون مناتا ہے؟ کیا اسلام اس کا حکم دیتا ہے؟ پیدائش پر خوشی منانا بالکل وہی طریقہ ہے جو عیسائی اور نصرانی کرتے ہیں، اسی طرح سے کیک بنائے جاتے ہیں اس پر عید میلاد النبی لکھا جاتا ہے اور اس کو درمیان میں رکھا جاتا ہے، لوگ ارد گرد جمع ہوتے ہیں اور جیسے ہیپی برتھ ڈے پر کیک کاٹا جاتا ہے ایسے ہی عید میلاد النبی پر بھی اسی طرح کیک کاٹا جاتا ہے۔

میرے دوستو! محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس لیے تو نہیں آئے تھے، ہاں! اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہوتا ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہوتا کہ میری پیدائش پر خوشی مناؤ، جھنڈیاں لگاؤ لائٹیں اور قمقمے لگاؤ، بتیاں جلاؤ، تو صحابہ کرام اس طرح خوشی مناتے، اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ مناتے، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ مناتے۔ حضرت عثمان رضی الله عنہ مناتے، حضرت علی رضی الله عنہ مناتے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے سب صحابہ مناتے، آپ کے اہل بیت مناتے، تابعین، تبع تابعین مناتے۔

چناں چہ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے، یہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم نہیں ہے، یہ کام خیر القرون میں نہیں ہوا۔

یہ بدعت ہے۔ ( چھے صدیوں تک مسلمانوں میں میلاد کے نام پران خرافات کا رواج نہیں تھا، چھٹی ساتویں ہجری میں ایک مسرف بادشاہ مظفر الدین نامی گزرا ہے، اس کی دینی حالت کے بارے میں آتا ہے : ”کان ملکا مسرفا یأمر علماء زمانہ آن یعملوا باستنباطھم واجتھادھم وأن لا یتبعوا لمذھب غیرھم حتی مالت إلیہ جماعة من العلماء، وطائفة من الفضلاء، واحتفل لمولد النبی صلی الله علیہ وسلم فی ربیع الاول، وھو من أحدث من الملوک ھذا العمل․ (القول المعتمد فی عمل المولد) وہ ایک مسرف بادشاہ تھا، علمائے زمانہ سے کہا کرتا تھا کہ وہ اپنے استنباط اور اجتہاد پر عمل کریں اور غیر کے مذہب کی پیروی نہ کریں۔

حتی کہ (دنیا پرست) علماء اور فضلاء کی ایک جماعت اس کی طرف مائل ہو گئی اور وہ ربیع الاول میں میلاد منعقد کیا کرتا تھا ، بادشاہوں میں وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ بدعت گھڑی ہے۔

”وفیات الأعیان “ میں ابن خلکان رحمہ الله نے اس بادشاہ کی محفل میلاد سجانے کی پوری تفصیلات ذکر فرمائی ہیں کہ وہ اس کو بطور جشن سالانہ مناتا تھا، ماہ صفر سے تیاریاں شروع کرا دیتا، مجلس مولود کے لیے بیس قبے لکڑی کے عالیشان بنواتا، ان کو مزین کراتا اور ہر قبہ میں پانچ پانچ طبقے ہوتے تھے اور ہر طبقہ میں ایک ایک جماعت ناچ گانے والوں او رباجوں کے ساتھ کھیل تماشے، ناچ ورنگ والوں کی بٹھائی جاتی تھی اور بادشاہ مع اراکین اور ہزاروں لوگوں کے ساتھ شرکت کرتا اور پوری رات اس لہو ولعب میں مشغول رہتے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے، وفیات الٴاعیان، رقم الترجمہ:547، مظفر الدین صاحب اربل، 4/117،118)

ابن الحاج المالکی رحمہ الله نے اپنی کتاب ”المدخل“ میں کئی صفحات میں اس مروجہ محفل میلاد کی تردید فرمائی ہے او راس کے مفاسد شمار فرمائے ہیں، شروع میں فرماتے ہیں :” ومن جملة ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادھم أن ذلک من أکبر العبادات واظھار الشعائر ما یفعلونہ فی شھر ربیع الأول من المولد، وقداحتوی علی بدع ومحرمات جملة․“

لوگوں کی بدعتوں میں سے جن کو وہ بڑی عبادت سمجھتے ہیں اور جن کے کرنے کو وہ شعائر اسلامیہ کا اظہار سمجھتے ہیں، وہ مجلس میلاد ہے، جس کو وہ ماہ ربیع الاول میں کیا کرتے ہیں، یہ مجلس بہت سی بدعات او رمحرمات پر مشتمل ہوتی ہے۔ (المدخل لابن الحاج المالکی، فصل فی المولد:2/2)

”فتاوی محمودیہ“ میں”میلاد“ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ہے : نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ذکر مبارک، خواہ ذکر ولادت ہو یا عبادت، معاملات جہاد، شب وروز کے نشست وبرخواست کا ذکر ہو، بلاشبہ باعث ثواب، موجب خیر وبرکت ہے۔

مگر مجلس میلاد مروجہ طریق پر بے اصل، خلاف شرع او ربدعت ہے ،بہت قبائح او رمنکرات پر مشتمل ہوتی ہے ۔ (فتاوی محمودیہ:3/165)

ایک اور جگہ ہے:
میلاد مروج ہیئت مخصوصہ کے ساتھ قرون مشہود لھا بالخیر میں کہیں موجود نہ تھا، صحابہ کرام رضی الله عنہم، تابعین، ائمہ مجتہدین اور علماء حقہ رحمہم الله تعالیٰ نے کبھی نہیں کیا او رکسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں ۔لہٰذا بے اصل بدعت او رناجائز ہے، اس کا ترک واجب ہے، یہ مجلس مفاسد کثیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔

اس مجلس کے انعقاد او رشرکت کو لازم سمجھا جاتا ہے۔

اس کی اہمیت کا اعتقاد فرض عین سے بھی زیادہ ہے، حتی کہ اگر کوئی شخص صلاة خمسہ کا تارک ہو اس پر کوئی نکیر نہیں کرتے او راس مجلس میں شریک نہ ہونے والے پر سب وشتم کیا جاتا ہے۔

مخصوص تاریخوں کی تعیین کو بلادلیل شرعی لازم سمجھ رکھا ہے۔

قیام کو فرض عین اعتقاد کرتے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

اس قیام کے وقت اکثروں کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اس مجلس میں تشریف رکھتے ہیں او رہمار ی تمام نقل وحرکت کو ملاحظہ فرمارہے ہیں، بسا وقات ایک وقت ہزاروں جگہ یہ مجلس منعقد ہوتی ہے اور ہر مجلس والے یہ اعتقاد کرتے ہیں کہ ہماری مجلس میں تشریف رکھتے ہیں، حالاں کہ ہر جگہ حاضر وناظرہونا الله تعالیٰ کی صفت مختصہ ہے ،پس یہ اعتقاد مشرکانہ ہوا کہ الله تعالیٰ کی صفت مختصہ میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو شریک مانا۔

عموماً مجلس میلاد میں روایات موضوعہ بیان کی جاتی ہیں، ان کا بیان کرنا اور سننا اور ان کو سچا جاننا حرام ہے۔
عموماً شرکائے مجلس کی رات کو دیر تک جاگنے کی وجہ سے نماز فجر قضاء ہوتی ہے او راکثرمیلاد خواں بے نماز ی ہوتے ہیں۔

قریب کے رہنے والے لوگ بڑی ضیق میں مبتلا رہتے ہیں، ان کو ( اس شور شرابے سے ) سخت اذیت ہوتی ہے۔
روشنی اور خوش بو وغیرہ میں ضرورت سے زیادہ صرف ہوتا ہے، جو کہ اسراف ہے۔

غرض یہ کہ بے حد مفاسد او رممنوعات کا ارتکاب ان مجالس میں ہوتا ہے ، لہٰذا ان مجالس کا انعقاد او ران کی شرکت بدعت سیئہ اور ناجائز ہے۔ (فتاوی محمودیہ:3/172-169)

محفل میلاد سے متعلق ایک جواب کو کچھ تسہیل کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے:”نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کا ذکر دیگر امور خیر کے ذکر کی طرح ثواب او رافضل ہے ،اگر بدعات اور قبائح سے خالی ہو اس سے بہتر کیا ہے۔
جیسے شاعر نے کہا ہے #
          وذکرک للمشاق شراب خیر
          وکل شراب دونہ کسراب

البتہ جیسا ہمارے زمانہ میں قیودات اور مفاسد کے ساتھ مروج ہے اس طرح بے شک بدعت ہے اور درج ذیل وجوہات کی وجہ سے ناجائز ہے۔

اولاً یہ کہ اکثر مولود خواں ( میلاد پڑھنے والا) جاہل ہوتا ہے، او رروایتیں اکثر غلط اور موضوع بیان کرتا ہے اور جھوٹی روایتیں بیان کرنے والا اور سامعین اس وعید ”من کذب علی متعمدا فیلتبوا مقعدہ من النار“ کے تحت داخل ہوتے ہیں۔
ثانیاً میلاد کا اہتمام ضروریات دین کے اہتمام کی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ کرتے ہیں، کہیں قالین وفروش، کہیں شامیانہ، کہیں گل پاشی کہیں شیرینی، کہیں قندیل وفانوس، کہیں لوبان سلگنا اور بہت سے غیر ضروری امور کو ضروری سمجھتے ہیں اور بغیر ان سامانوں کے مولود کرنے کو خالی پھیکا سمجھتے ہیں، ان چیزوں میں ناحق اسراف ہوتا ہے۔ ﴿ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین﴾․ الأیة۔

ثالثاً یہ کہ تعیین وتقیید روز ولادت کو ضروری سمجھتے ہیں کہ اور کسی دن مولود میں فضیلت نہیں ہے۔

غیر مقید کو مقید سمجھنا اور غیر ضروری کو ضروری جاننا بدعات قبیحہ سے ہے۔”ورھبانیة ابتدعوھا ماکتبناھا علیہم“․
رابعاً یہ کہ اکثر اہل محفل اہل بدعت یا فساق وفجار ہوتے ہیں، ان کے ساتھ ناحق مساہلہ ومداہنت کرنی پڑتی ہے اور بلکہ ان کی تعظیم کرتے ہیں۔

خامساً یہ کہ اکثر نعت کے اشعار جاہلوں کے لکھے ہوتے ہیں، کہیں اس میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی شان میں غلو ہوتا ہے او رکہیں اور انبیاء اور ملائکہ کی نسبت بے ادبی ہوتی ہے۔

سادساً یہ کہ ذکر ولادت کے وقت کھڑے ہوتے ہیں، پھر اس میں بعض کا عقیدہ تو یہ ہے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس وقت تشریف رکھتے ہیں، یہ تو بالکل شرک ہے۔

اور بعض کہتے ہیں کہ ہم ملائکہ کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہیں، یہ بھی جہل ہے ،اول تو ملائکہ ہر وقت آدمی کے ساتھ رہتے ہیں، محفل ذکر کی کیا تخصیص ہے؟ او راگر محفل ذکر ہی کی تخصیص ہے تو محفل ذکر ولادت کی کیا تخصیص ہے ؟ اور اگراس کی بھی تخصیص ہے تو خاص وقت ذکر ولادت کی کیا تخصیص ہے کہ اس وقت ملائکہ کی تعظیم ہو اور وقت نہ ہو؟ او راگر محض تعظیم ذکر کے لیے کھڑے ہوتے ہوں تو اگر اس محفل کے علاوہ اور کسی جگہ کوئی ذکر کرے کہ حضرت صلی الله علیہ وسلم پیدا ہوئے تو کیوں نہیں کھڑے ہوتے؟ معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک حرکت لغو اور بیہودہ ہے۔

سابعاً یہ کہ ان امور پر اصرار کرتے ہیں اور منع کرنے والوں سے جھگڑتے اور عداوت کرتے ہیں اور معصیت پر اصرار سخت معصیت ہے، پس ان مذکورہ مفاسد کی وجہ سے ان محفلوں کا نہ کرنا ہی بہتر ہے،ہاں! اگر بصورت مجلس وعظ کے ان لغویات سے خالی ہو تو کچھ حرج نہیں۔ (امداد الفتاویٰ:5/259-258)

اسی طرح حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله سے ایک اور جگہ منقول ہے:
فرمایا کہ اس ( محفل میلاد) کے متعلق پہلے میرا یہ خیال تھا کہ اس محفل کا اصل کام ذکر رسول صلی الله علیہ وسلم تو سب کے نزدیک خیر وسعادت اور مستحب ہی ہے، البتہ اس میں جو منکرات او رغلط رسمیں شامل کر دی گئی ہیں ان کے ازالہ کی کوشش کرنی چاہیے، اصل امر محل مستحب کو ترک نہیں کرنا چاہیے اور یہ دراصل ہمارے حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کا مسلک تھا، حضرت کی غایت شفقت وعنایت او رمحبت کے سبب میرا بھی ذوق یہی تھا اور یہ عام طو رپر صوفیائے کرام کا مسلک ہے۔

لیکن ہمارے فقہاء حنفیہ کا مسلک ان معاملات میں یہ ہے کہ جو مباح یا مستحب، مقاصد شرعیہ میں سے ہو اس کے ساتھ تو یہ معاملہ کرنا چاہیے، کہ اگر اس میں کچھ منکرات شامل ہو جائیں تو منکرات کے ازالہ کی فکر کی جائے ،اصل کام نہ چھوڑا جائے، مثلاً مسجد میں جماعت، اذان، تعلیم قرآن وغیرہ کہ یہ مقاصد شرعیہ میں سے ہیں، اگر ان میں کچھ منکرات شامل ہوجائیں تو ازالہ منکرات کی کوشش کی جائے گی، اصل کام کو نہ چھوڑا جاوے، لیکن جو مستحبات ایسے ہیں کہ اصل مقاصد شرعیہ ان پر موقوف نہیں، اگر ان میں کچھ منکرات وبدعات شامل ہو جائیں تو ایسے مستحبات ہی کو ترک کر دینا چاہیے، مثلاً زیارت قبور، ذکر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لیے کسی محفل ومجلس کا انعقاد کہ اس پر کوئی مقصود شرعی موقوف نہیں، وہ بغیر اس مجلس خاص صورت کے بھی پورے کرسکتے ہیں، اگر ان میں منکرات وبدعت شامل ہوجائیں تو یہاں ایسی مجالس اور ایسے اجتماعات ہی کو ترک کر دینا لازم ہو جاتا ہے۔

احادیث اور آثار اصحابہ اور اقوال ائمہ میں اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں ،جس درخت کے نیچے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا بیعت لینا اس پر الله تعالیٰ کی رضا قرآن میں مذکور ہے، جب اس درخت کے نیچے لوگوں کا اجتماع اور بعض منکرات کا خطرہ حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ نے محسوس فرمایا تو اس درخت ہی کو کٹوا دیا، حالاں کہ اس کے نیچے جمع ہونے والے حضرات صحابہ کرام کوئی ناجائز کام نہ کرتے تھے، محض تبرکاً جمع ہوتے اور ذکر الله اور ذکر رسول صلی الله علیہ وسلم ہی میں مشغول رہتے تھے، مگر چوں کہ ایسا اجتماع مقصود شرعی نہیں تھا اور آئندہ اس میں شرکت وبدعت کا خطرہ تھا، اس لیے اس اجتماع ہی کو ختم کر دیا گیا۔ (ملفوظات حکیم الامت:24/147-146)

قرآن کریم کی آیت ہے:﴿إنا أعطیناک الکوثر﴾ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے حوض پر جو آب خورے ہوں گے وہ آسمان میں جو ستارے ہیں ان سے بھی زیادہ ہیں۔

(عن أنس بن مالک قال: بینا رسول الله صلی الله علیہ وسلم ذات یوم بین اظھرنا إذ أغفی إغفاء ة، ثم رفع رأسہ متبسما، فقلنا: ما أضحکک یا رسول الله؟ قال: انزلت علی آنفا سورة، فقرأ بسم الله الرحمن الرحیم: ﴿إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ، فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ، إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ﴾ ثم قال: أتدرون ما الکوثر؟ فقلنا: الله ورسولہ أعلم، قال: فإنہ نھر وعدنیہ ربی عزوجل ، علیہ خیر کثیر وھو حوض ترد علیہ امتی یوم القیامة آنیتہ عدد النجوم․ ( الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الصلاة، باب حجة من قال: البسملة آیة من أول کل سورة سوی براء ة ، رقم:894)

اور ایک روایت میں آیا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ میں یہاں سے اپنے اس حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔

عن عقبة بن عامر أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم خرج یوماً فصلی علی أھل أحد صلاتہ علی المیت ثم انصرف إلی المنبر، فقال إنی فرطکم وأنا شھید علیکم وإنی والله لأنظر إلی حوضی الأن․ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفضائل، باب إذا اراد الله تعالیٰ رحمة أمة قبض نبیھا قبلھا، رقم:5976)

اورآپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے ہر ہر اُمتی کو اپنے ہاتھ سے حوض کوثر سے سیراب کروں گا۔ اسے آب کوثر پلاؤں گا۔

لیکن صحیح روایت ہے، امام بخاری رحمہ الله نے بھی اپنی کتاب ”الجامع الصحیح“ میں نقل فرمائی ہے، امام مسلم نے بھی نقل فرمائی ہے۔

امام بخاری رحمہ الله نے ”باب الحوض“ میں نقل فرمائی ہے اور اس میں ہے کہ حوض کوثر پر میر ے اُمتی آئیں گے اور میں ان کو آثار وضو سے پہچانوں گا۔

آثار وضو کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جو وضو کرتے ہیں، ہاتھ کہنیوں تک دھوتے ہیں، چہرہ دھوتے ہیں، پاؤں د ھوتے ہیں، تو قیامت کے دن مسلمانوں کے یہ اعضاء جو وضو میں دھوتے ہیں یہ اعضاء چمک دمک رہے ہوں گے۔

میں عرض کر رہا ہوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی امت کو حوض کوثرپر ان کے آثار وضو سے پہچانیں گے، چناں چہ کچھ لوگ آئیں گے اور ان کے اوپر آثار وضوبھی ہوں گے، لیکن الله تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو حکم ہو گا کہ یہ جو لوگ آئے ہیں ان کو واپس کر دیں، کیوں کہ انہوں نے آپ کے بعد بدعات کی ہیں، یہ بدعتی ہیں، انہوں نے دین کو بدلا۔

”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ترد علی أمتی الحوض وأنا أذود الناس عنہ کما یذود الرجل إبل الرجل عن إبل، قالوا: یا نبی الله، أتعرفنا؟ قال: نعم، لکم سیما لیست لاحد غیرکم، تردون علي غرا مجلین من آثار الوضوء، ولیصدن عنی طائفة منکم فلا یصلون فاقول: یارب، ھؤلاء من أصحابی، فیجیبنی ملک، فیقول: وھل تدری ما أحدثوا بعدک“․ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الطھارة، باب استحباب إطالة الغرة والتجیل فی الوضوء ، رقم الحدیث:582)

میرے دوستو! یہ معمولی با ت نہیں ہے کہ ہم کوئی بات دین سمجھ کر کریں تو ہم پوچھیں کہ کیا یہ کام دین ہے یا نہیں؟

چناں چہ آج جو تماشا چل رہا ہے وہ صرف یہیں پر ہے، آپ عمان چلے جائیں، امارات چلے جائیں، کویت چلے جائیں، اس کے بعد سعودی عرب چلے جائیں، کہیں بھی چلے جائیں آپ کو یہ تماشا کہیں نظر نہیں آئے گا۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے، ہمارا جو ساتھ رہا ہے وہ ہندؤوں کے ساتھ رہا ہے او ران کی بہت ساری چیزیں ہمارے اندر سرایت کر گئی ہیں، یہ گانا بجانا، یہ ہولی، یہ پھول چڑھانا، چادریں چڑھانا، آپ مزارات پر چلے جائیں وہ الله والے جن کے یہ مزارات ہیں، جنہوں نے پوری زندگی رب کی بندگی میں گزاری، اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی اتباع او رمحبت میں گزاری، آپ ان کے مزارات پر جائیں، کیا تماشے ہو رہے ہیں؟!

میرے دوستو! یہ بہت سنگین معاملہ ہے، ہمیں خود بھی ا سے سمجھنا چاہیے او راپنے دائرے میں، اپنی بیویوں کو، اپنے بچے بچیوں کو سمجھائیں کہ یہ چیزیں ، ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اگر ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہوتا تو صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین یقینا یہ کرتے، اہل بیت رسول ضرور کرتے اور وہ حضرات کرتے جو صحابہ کرام سے مستفید ہوئے، تابعین، تبع تابعین یہ کرتے، خیر القرون کے زمانے میں ہوتا۔

چناں چہ بجائے اس کے کہ ہم ان خرافات میں اور شیطانی چیزوں میں اپنی صلاحیتیں صرف کریں، ہم اس کا عہد کریں کہ ہم سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سچی اور حقیقی محبت کریں گے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے سچی او رحقیقی محبت کا مطلب کیا ہے؟ کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہر ہر ادا اور ہر ہر سنت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے ،ہم اس پر عمل کریں گے، ہمارے اندر تڑپ ہو کہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا وفا دار امتی بنوں گا، میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے نقش قدم پر اپنے آپ کو قربان کروں گا، خود بھی عمل کروں گا اپنی اولاد سے بھی کرواؤں گا۔یہ ہے اسلام، یہ ہے حقیقت۔

چناں چہ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے ایسا ہی کیا، بھرپور کیا کہ قیامت تک ان کی کوئی نظیر نہیں آسکتی۔

ہم جتنی الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کریں گے اتنا ہی الله ہم سے خوش ہوں گے، چناں چہ آج کا دن ہمارے لیے سبق ہے کہ ہم بجائے اس کے کہ رسومات میں مبتلا ہوں، الله تعالیٰ کو بھی ناراض کریں، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو بھی ہم غم پہنچائیں، تکلیف پہنچائیں، ہم عہد کریں کہ ہم الله کے سچے بندے بنیں گے اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع کریں گے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے وہ محبت کریں گے جو صحابہ کرام رضی الله عنہم نے کی، یقینا ہم اس درجے کی نہیں کرسکتے ،لیکن کوشش اور نیت تو کر سکتے ہیں، ہم اپنی زندگیوں میں، اپنے گھروں میں روزانہ کسی نہ کسی سنت کا اضافہ کریں، آپ اگر یہ طے کر لیں کہ ہم مر جائیں گے، لیکن الٹے ہاتھ سے کھانا نہیں کھائیں گے، پانی نہیں پئیں گئے، آج دیکھ کر بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ ایک مسلمان الٹے ہاتھ سے کھا پی رہا ہوتا ہے، انہیں یہ تمیز ہی نہیں کہ میں کس ہاتھ سے کھا رہا ہوں، سیدھے ہاتھ سے کھانا کھانے کا حکم ہے، سیدھے ہاتھ سے پانی پینے کا حکم ہے، بیٹھ کر کھانے اوربیٹھ کر پانی پینے کا حکم ہے، اس طرح پوری زندگی کے معاملات ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرکے، ہمیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی واقعی شفاعت نصیب ہوگی، الله تعالیٰ کی محبت حاصل ہو گی۔

الله تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾․

خطبات جمعہ سے متعلق