دینی تعلیم وتربیت کی ضرورت واہمیت

idara letterhead universal2c

دینی تعلیم وتربیت کی ضرورت واہمیت

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَق، خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ، الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ،عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ﴾․ (سورة العلق، آیة:5-1)
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ“․(سنن الترمذي، ابواب فضائل القرآن، باب ماجاء في تعلیم القرآن، رقم:2907)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․

میرے محترم بھائیو! بزرگو اور دوستو! قرآن کریم الله تعالیٰ کا کلام ہے اور الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتابوں میں سب سے آخری کتاب ہے، اس کے بعد کوئی کتاب نہیں اور یہ آیات جو میں نے تلاوت کیں یہ سب سے پہلی وحی ہے اور ان آیات میں ہے، ”اقرأ“ پڑھیے، توآخری نبی کو آخری کتاب میں جو سب سے پہلا حکم ہے، وہ ہے ”اقرأ“ امر ہے، حکم ہے، پڑھیے۔

چناں چہ اسلام وہ مبارک دین ہے جس میں سب سے پہلا جو حکم نازل ہوا ہے وہ پڑھنے کا ہے اورجب یہ حکم نازل ہوا، اس وقت پوری دنیا جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، ان اندھیروں کے زمانے میں جو سب سے پہلا حکم الله نے دیا ہے وہ پڑھنے کا ہے، اورقرآن کریم کی یہ آیات انسان کی تخلیق کو بھی بتا رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے لکھنے اورپڑھنے دونوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

یہاں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ علم سے مراد کیا ہے؟ خوب یاد رکھیں کہ علم سے مراد وہ نور ہے ،خواہ وہ نور الہٰی ہو، یا الله کی طرف سے دیا گیا نور نبوت ہو، جس کی روشنی میں آدمی الله تعالیٰ تک پہنچ سکے، اسے علم کہتے ہیں۔

چناں چہ اُمت میں سب سے پہلا پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ امام الانبیاء، سید الرسل محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے شروع فرمایا اور اس کی ابتدا آپ نے مکہ مکرمہ سے فرمائی، پھر آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے ان مخصوص حالات میں، جو مکہ میں پیش آئے اورجس کی تفصیلات کا آپ کو علم ہے، آپ کو ہجرت کرنی پڑی اور آپ مکہ چھوڑ کر مدینہ آگئے اور مدینہ منورہ آکر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پڑھنے پڑھانے کے سلسلے کو پھر جاری فرمایا اور وہ زمانہ جس میں مسلمان ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ منورہ جارہے تھے تو وہ زمانہ جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم ابھی مدینہ نہیں پہنچے تھے اس زمانے کو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے خالی نہیں چھوڑا، اس زمانے میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے معلمین اوراساتذہ مقرر فرمائے، جو اہل مدینہ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ ( بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے انصار صحابہ کرام کے ساتھ حضرت عبدالله بن اُم مکتوم او رحضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہما کو قرآن اور اسلام کے احکام سکھانے اور اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجا۔

اور یہ دونوں حضرات مدینہ منورہ میں اسلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیم کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے السیرة النبویة لابن ھشام، العقبة الاولی، مصعب بن عمیر:2/435، ودلائل النبوة للبیہقی، باب ذکر العقبة الأولی:2/432)․

پھر جب آپ مدینہ پہنچ گئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو جاری فرمایا اور وہ مسجد نبوی کے ایک چبوترے پر، جس کا نام صفہ ہے ، وہ حضرات جو اس چبوترے پر آپ صلی الله علیہ وسلم سے علوم حاصل کرتے تھے وہ أصحاب صفہ کہلاتے ہیں، میں یہ تفصیل اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ جب جب اُمت نے اس مبارک سلسلے کو چھوڑا اور اس سے بے اعتنائی برتی تو خوف ناک نقصانات ہوئے، ایسے نقصانات جس سے دنیا بھی تباہ وبرباد ہوئی اور دین بھی تباہ وبرباد ہوا، چناں چہ آپ نے سنا کہ اندلس میں مسلمانوں نے سات سو سال حکومت کی، سات صدیاں اور بڑے بڑے محلات، بڑی بڑی مساجد، بڑی بڑی عمارتیں ایسی تعمیر کیں کہ وہ آج تک موجود ہیں، لیکن اس مبارک سلسلے کی طرف سے بے اعتنائی برتی گئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج اندلس میں مسلمانوں کا نام ونشان ختم ہو گیا، سات صدیاں حکومت رہی، لیکن مدرسہ نہیں بنا، مکتب نہیں بنا اور اس مدرسے اورمکتب کے نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہواکہ جب سات سو سال بعد حکومت ختم ہوئی تو ایک دم سے سب کچھ ختم ہو گیا، دنیا بھی گئی اور دین بھی کچھ باقی نہ رہا۔

یہ جو مدارس کا سلسلہ اس خطے میں ہے ،الحمدلله ثم الحمدلله ،آج قدم قدم پر، جگہ جگہ یہ شمعیں روشن ہیں نورالہٰی کی، نور نبوت کی۔ آپ پورے ہندوستان میں گھومیں، آپ پورے بنگلہ دیش میں گھومیں، آپ پورے پاکستان میں گھومیں، آپ کو جنگلوں میں بھی، صحراؤں میں بھی، پہاڑوں میں بھی،شہروں میں بھی، قصبوں میں بھی، دیہاتوں اور چھوٹی چھوٹیبستیوں میں بھی، یہ شمع روشن نظر آئے گی۔

اور بد قسمتی ہمار ی ہے کہ ہمار ی حکومتیں او رہمارے حکم رانوں کی یہ ترجیح نہیں ہے وہ اس کو پسند نہیں کرتے، بلکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس ملک کی چھہتر، پچھتر سال کی ہر حکومت اور ہر حکم ران ان مدارس کو ختم کرنے کی، ان مدارس کے کردار کو محدو دکرنے کی اور ان کو کم سے کم کرنے کی کوشش میں لگا رہا ہے، میری گزارش جو ہمارے طلباء ہیں وہ تو الحمد لله ثم الحمدلله اس کی ایک بین دلیل ہیں، واضح دلیل ہیں کہ ان کے ماں باپ نے اس کا احساس کیا، انہیں اس کا شعور تھا، میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ جو بچے، جو طلباء آ ج پورے ملک کے مدارس کے اندر علوم نبوت حاصل کرنے کے لیے آرہے ہیں، اگر ان کے ماں باپ انہیں سکول کالج میں داخل کرتے تو آرام سے کرسکتے تھے، کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ اسکول کالج میں بھی بھیج سکتے تھے، لیکن انہوں نے مدرسے کو ترجیح دی کہ نہیں، ہم اپنے بچے کو عالم بنائیں گے، ہم اپنے بچے کو نورالہیٰ اور نور نبوت کے لیے مخصوص کریں گے۔
میرے دوستو! آج الحمدلله ہمارے شہروں میں مکاتب کا سلسلہ ہے، لیکن جیسے ہماری ترجیح ہونی چاہیے آج ہم اپنے بچے کے مستقبل کے لیے اس کی معاشی ضرورتوں کے لیے جس طرح فکر مند ہیں ہم اس کی آخرت کے لیے اس طرح فکر مند نہیں۔ ہر ماں ہر باپ اپنے نوجوان بچے کے لیے او راب تو معاملہ شہروں میں بچوں سے بڑھ کر بچیوں پر بھی آیا کہ ہم انہیں کیسے اعلی سے اعلیٰ دنیاوی تعلیم دلوائیں او رپھر اس کے بعد ان کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ او ربہتر سے بہتر روز گار کا بندوبست او رانتظام کریں، یہ ہماری سوچ ہے، ہم میڈیکل میں بھی داخل کروانا چاہتے ہیں، ہم انجینئرنگ میں بھی داخل کروانا چاہتے ہیں، کمپیوٹر کے شعبوں میں بھی داخل کروانا چاہتے ہیں، ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی داخل کروانا چاہتے ہیں، سب کچھ کرنا چاہتے ہیں اور میں پہلے بھی یہ بات عرض کرچکا اور پھر کہتا ہوں کہ دنیا چوں کہ اس وقت ایک ہتھیلی پر آچکی ہے اور کوئی بھی گاؤں، کوئی بھی قصبہ، شہر، کوئی بھی ملک ، جب تک تمام شعبے اس کے اندر نہ ہوں وہ چل نہیں سکتا، ظاہر ہے کہ جیسے علماء کی ضرورت ہے ایسے ہی انجینئروں کی بھی ضرورت ہے ،ایسے ہی ڈاکٹروں کی بھی ضرورت ہے، ایسے ہی تاجروں کی بھی ضرورت ہے۔

خوب سمجھ لیں اس بات کو کہ غیرت مند، ایمان والے مسلمان ڈاکٹر کی ضرورت ہے، غیرت مند ایمان والے مسلمان انجینئر کی ضرورت ہے، جو ڈاکٹری سے پہلے یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں، مجھے اس مریض کا علاج پیشے اور پیسے کے لیے نہیں کرنا، بلکہ یہ میرا فرض ہے، چاہے مجھے پیسے ملیں نہ ملیں، یہ میرا ایک مومن بھائی ہے، یہ ایک انسان ہے، مجھے اس کی خدمت کرنی ہے، مجھے پیسے سے غرض نہیں، ایک انجینئر کے جذبات بھی یہ ہوں ، ایک تاجر کے جذبات بھی یہ ہوں، اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہاں ہو گا؟ کیسے ہو گا؟ آپ یاد رکھیں کہ ہر شخص اس کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ میرا بیٹا، میری بیٹی، کم عمری کے زمانے میں جیسے ہم اس کے سکول کی فکر کرتے ہیں، اوربہت سی دفعہ اس کے اندر بڑے غلط فیصلے کر لیتے ہیں کہ ہم پیسے دے کر، بھاری بھر کم فیس دے کر، ہم اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں کے حوالے کر دیتے ہیں جہاں وہ ہمارے بچوں کو عیسائی اور یہودی اور ہندوبناتے ہیں، وہاں ناچ گانا سکھا یا جاتا ہے، وہاں وہ تمام حرکتیں اور چیزیں سکھائی جاتی ہیں جس سے اسلام منع کرتا ہے، لیکن ہم بھاری فیس دیتے ہیں، جانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہماری ترجیح وہ ہوتی ہے۔

میری گزارش ہے اور درخواست ہے کہ آپ پہلے دیکھیں کہ آپ کس اسکول میں اپنے بچے کو داخل کر رہے ہیں، کہیں وہاں اس کا عقیدہ تو خراب نہیں ہو گا، کہیں وہاں اس کی تربیت تو متاثر نہیں ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ ہر مسلمان اپنے اوپر یہ فرض سمجھے کہ میں اپنے بچے کو مدرسے کے مکتب میں ضرور بھیجوں گا، کچھ بھی ہو جائے۔ پڑھائیں اسکول، ہم منع نہیں کرتے، لیکن اس کے ایمان او راس کے عقیدے کی فکر، یہ اسکول کی تعلیم سے کہیں زیادہ اہم ہے، قبر کے اندر اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم انجینئر ہو یا تم ڈاکٹر ہو یا تم سائنٹسٹ ہو، یا تم کو ٹیکنالوجی کے کون کون سے فارمولے آتے ہیں یا تمہارے پاس دولت اورمال کتنا تھا! تم کتنا بینک بیلنس چھوڑ کر آئے ہو، وہاں تو پوچھا جائے گا، من ربک؟ تمہارا رب کون ہے؟ ا وہ رب کہا سکھایا جائے گا؟ وہ رب سکھایا جائے گا مکتب میں، آپ اپنے بچے او ربچی کو مکتب میں بھیجتے ہیں، آپ خود اس کی فکر کریں کہ میرے بچے کا عقیدہ، میں مسلمان ہوں، صاحب ایمان ہوں، بچے کے بارے میں پہلی ترجیح کہ وہ مسلمان اور ایمان والا ہونا چاہیے۔ قرآن آنا چاہیے، اس کو نماز آنی چاہیے، اس کو آداب زندگی جو مسنون ہیں وہ آنے چاہییں او راگر خدانخواستہ ہم نے اس کی فکر نہ کی، تو میں نے اندلس کا قصہ سنا دیا کہ سب ختم ہو گیا، دین بھی گیا، دنیا بھی گئی، کچھ باقی نہیں بچا، ہزاروں ہزار مسلمان قتل کر دیے گئے، خون پانی کی طرح بہایا گیا، نشانات موجود ہیں، عمارتیں موجود ہیں، محلات موجو دہیں، لیکن مسلمان موجود نہیں۔

میرے دوستو! ہم یہ سوچیں کہ آج ہمارے اپنے ایمان کی کیفیت کیا ہے؟ آج ہمارے اپنے اسلام کی کیفیت کیا ہے؟ اور ہم اپنے بچوں کو کتنا ایمان اور اسلام فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا میرے مرنے کے بعد میرے بچے مسجد جائیں گے؟میرے مرنے کے بعد کیا میرے بچے نماز پڑھیں گے؟ کیا میرے مرنے کے بعد میرے بچے حلال اور حرام کا اہتمام کریں گے؟ کیا میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کو جائز، ناجائز کی تمیز ہوگی؟ کیا میرے مرنے کے بعد وہ الله اور رسول کا نام جانیں گے؟ یہ ہے اصل بات اور بدقسمتی سے ہمارے ملک کے اسکولوں کے اندر یہ نہیں سکھایا جاتا، آپ بھیجیں اسکول میں، لیکن پہلے خوب آنکھیں کھول کر، خوب مشورہ کرکے کہ ہمیں کیسے اسکول میں داخل کرنا چاہیے۔ پیسے دے کر، فیس دے کر، بھاری فیس دے کر ہمارے بچوں کو ناچنا سکھایا جارہا ہے، ہمارے بچوں کو گانا سکھایا جارہا ہے، ہمارے بچے اسلام او رایمان کے بارے میں شکوک اور شبہات میں مبتلا ہو رہے ہیں، کیا ہماری آنے والی نسل اسلام کے قریب ہو رہی ہے یا کفر اور شرک کے قریب ہو رہی ہے؟ بے دینی اور لادینی کے قریب ہو رہی ہے؟
میرے دوستو! یہ مسلمان کا سب سے پہلا فرض ہے، آپ کے ذمے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ اس کی فکر کریں، اس کی کوشش کریں اور اس کا بہت آسان ذریعہ، آپ اپنے علماء کو دعائیں دیں کہ انہوں نے پورے ملک کے اندر جان جوکھوں میں ڈال کر، بہت بڑی بڑی مشکلات برداشت کرکے اپنے ذمے اتنے بڑے بڑے بوجھ لیے ہیں۔

آپ مجھے بتائیں کہ آج چار یا پانچ افراد کے کنبے کو پالنا آسان کام ہے؟ بجلی کا بل، گیس کا بل، پانی کا بل، پیٹرول کا بل، دو تین بچے بیمار ہو جائیں تو ڈاکٹر کی دوائیں، فلاں فلاں، ابھی تو میں نے روٹی سالن کا ذکر ہی نہیں کیا۔

میرے دوستو! آج ہر شخص آزمائش میں ہے، پانچ چھ بچے، چار پانچ بچے ان کو پالنا آج آزمائش بنا ہوا ہے۔

آپ مجھے بتائیں کہ ہمارے علماء پانچ ہزار طلبا کو سنبھال رہے ہیں، ان کے کھانے کا انتظام کر رہے ہیں، ان کے رہنے کا انتظام کر رہے ہیں، ان کی بجلی گیس کا انتظام کر رہے ہیں۔ ان کے علاج معالجے کا انتظام کر رہے ہیں، ان کے اساتذہ کا انتظام کر رہے ہیں۔ یہ آسان کام نہیں ہے اورکوئی ان پر جبر نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر کرتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر ہم نے یہ نہیں کیا تو ہماری قوم اور ہماری نسل ہم سے دور چلی جائے گی، اب ایسی کوششوں کے ہوتے ہوئے بھے آپ یقین فرمائیں کہ بہت سے ممالک میں، ہمارے ہاں جامعہ سے ”الفاروق“ رسالہ نکلتا ہے، مجھے اسٹریلیا سے ایک خط آیا اور وہ خط میاں بیوی دونوں نے لکھا، انہوں نے لکھا کہ ہمارے پاس آپ کا ماہنامہ الفاروق آتا ہے او راس کے 60 صفحات ہوتے ہیں اور ہم شہر سے، سڈنی وہاں کا ایک شہر ہے، اس سڈنی شہر سے بہت دور رہتے ہیں کہ ہمارے لیے شہر میں آمدورفت آسان نہیں ہے، جب ہمارا رسالہ آتا ہے تو ہم میاں بیوی دونوں روزانہ ڈیڑھ یا دو صفحہ اس کا پڑھتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں پڑھتے، اس لیے کہ اگر ہم زیادہ پڑھ لیں گے تو وہ رسالہ ایک مہینے سے پہلے ختم ہو جائے گا، پھر ہم کیا پڑھیں گے… یہاں تو کوئی کتاب ہی نہیں ہے، یہاں کوئی عالم نہیں ہے ،یہاں کوئی مسجد نہیں ہے، یہ ایک چیز دین کے حوالے سے ہر مہینے آپ کے پاس سے ہمارے ہاں پہنچتی ہے۔ ہم اس کو ڈیڑھ، دو صفحے سے زیادہ نہیں پڑھتے، اس لیے کہ اگر زیادہ پڑھ لیں گے تو بقیہ دن کیا پڑھیں گے۔

میرے دوستو! لوگ تر سے ہوئے ہیں، پوری دنیا کے اندر لوگ دین کے حوالے سے، جنہیں الله تعالیٰ نے فہم او رسمجھ عطا فرمائی ہے، ان کے پاس اسباب نہیں ہیں، آپ کے پاس تو اسباب ہیں، آپ تو بہت زیادہ اس حوالے سے امیر ترین ہیں، قدم قدم پر مساجد، مدارس، مکاتب موجودہیں، قدم قدم پر کتب خانے موجود ہیں جیسی کتاب آپ چاہیں آپ کو مل جاتی ہے، علماء سے آپ ملنا چاہیں بہت سہولت سے ملاقات ہو جاتی ہے، دارالافتاء قائم ہیں،آپ کے مسائل وہاں سے آسانی سے حل ہو جاتے ہیں، آپ اپنے بچوں، بچیوں کو دین کی تعلیم دلوانا چاہیں قدم قدم پر یہ انتظام موجود ہے، دیگر بہت سی دنیا میں ایسا نہیں۔

یہ تو الله تعالیٰ ہمارے بزرگوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے قربانیاں دے کر، مجاہدے، جدوجہد کرکے اپنے اوپر، بوجھ لے کر، یہ سارے کے سارے سلسلے قائم کیے ہیں، اس کے باوجود بھی اگر ہم اپنے بچوں کو مکتب میں نہ بھیجیں، ہم ان کو بہت منظم او ربہت مبارک انداز میں جو تربیت دی جاتی ہے ان کو نماز سکھائی جا تی ہے، ان کو آداب زندگی سکھائے جاتے ہیں، ان کو مسنون دعائیں سکھائی جاتی ہیں اور مکتب کے زمانے کی جو زندگی ہے اس میں اگر ان کو قرآن پڑھا دیا جائے ،اس میں ان کو آداب زندگی سکھا دیے جائیں اور ان کو مسنون دعائیں سکھا دیں جائیں، تو یہ مرتے دم تک ان کے دل ودماغ سے محو نہیں ہوتیں، وہ محفوظ رہتی ہیں۔

چناں چہ میں گزارش کروں گا اپنے محلے کے دوستوں سے کہ اپنے بچوں کو مکتب کے اندر ضرور بھیجیں، الحمدلله ہمارے ہاں سات ساڑھے سات سو بچے اور بچیاں ہمارے محلے کے ارد گرد کے علاقوں سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے مکتب میں آتے ہیں۔ لیکن اس میں اہتمام اور کریں، اس کو اور بڑھائیں، ہم اس کی فکر کریں کہ ہمارے بچے کا ایمان محفوظ ہو، ہماریبچے کا اسلام محفوظ رہے، ہم اس دنیا سے جارہے ہوں توہمیں اس حوالے سے اطمینان ہو کہ میرا بچہ، بچی مسلمان ہے، میرے بچے کو الله اور اس کے رسول کا پورا تعارف موجود ہے۔

میرا بچہ میرے مرنے کے بعد میرے لیے صدقہ جاریہ ہو گا، وہ قرآن پڑھ پڑھ کر مجھے ایصال ثواب کرے گا، میرے بعد گھر کے اندر وہ اسلام او رایمان کے چراغ کو روشن رکھے گا۔

میرے دوستو! اگر خدانخواستہ ایسا نہیں ہے تو یہ بہت زیادہ فکر کی بات ہے ،ہم جیسے اپنے بچوں کے دنیا کے معاملات کے لیے فکر مند ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہمیں ان کے دین کے حوالے سے اور ان کی آخرت کے حوالے سے فکر کرنی چاہیے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾․

خطبات جمعہ سے متعلق