واقعہ معراج اور شب معراج کی بعض رسوم او ربدعات

idara letterhead universal2c

واقعہ معراج اور شب معراج کی بعض رسوم او ربدعات

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب میں آگے بڑھا تو ندا دینے والے نے ندا دی میں نے اپنا فریضہ نافذ کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کر دی۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب المناقب، باب المعراج، رقم الحدیث:3628)
باقی اس روایت میں راوی نے اختصار سے کام لیا ہے، اس روایت میں مسجد حرام سے آسمان دنیا پر براق کے ذریعے تشریف لے جانے کا ذکر ہے۔ تفصیلی روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ و سلم براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے اور آپ صلی الله علیہ و سلم نے براق کو حلقہ سے باندھ دیا، بیت المقدس کے مشاغل جیسے انبیائے کرام علیہم السلام کو نماز پڑھانا اوران سے ملاقات وغیرہ سے فارغ ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے آسمان کی طرف صعود فرمایا اور یہ عین ممکن ہے کہ سیڑھی کے ذریعے آپ صلی الله علیہ و سلم آسمان پر تشریف لے گئے ہوں۔ جیسا کہ روایات میں بھی مذکور ہے اور براق بدستور مسجد اقصی کے دروازے پربندھا رہا ہو۔ (فتح الباری:7/260، وعمدة القاری:17/3، وارشاد الساری:8/357)

سوال: یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن انبیائے کرام علیہم السلام سے آپ صلی الله علیہ و سلم کی ملاقات کرائی گئی وہ جسم وروح کے ساتھ وہاں موجود تھے یا ان کی موجودگی محض روحانی تھی؟

اور اگر جسم وروح کے ساتھ وہاں موجو دتھے تو پھر اشکال لازم آتا ہے کہ ان کے اجسام تو قبروں میں ہیں، آسمانوں میں ان کی موجود گی کیسے تھی؟

جواب…اس سلسلہ میں علماء نے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ان انبیائے کرام کے اجسام اصلیہ تو قبروں ہی میں رہے اور الله تعالیٰ نے ان کی ارواح کو اجسام مثالیہ کے ساتھ متمثل کرکے آپ صلی الله علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے جمع کیا، البتہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر جسم اصلی کے ساتھ دیکھا، کیوں کہ وہ اسی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے۔

اسی طرح حضرت ادریس علیہ السلام کو جسم اصلی کے ساتھ دیکھا، وہ بھی آسمان پر زندہ اٹھائے گئے تھے، اس قول کی تائید ”بیہقی“ کی روایت سے بھی ہوتی ہے، جس میں ہے ”ثم أتی أرواح الأنبیاء، فأثنوا علی ربھم… إلخ” بیہقی“ کی اس روایت میں ارواح کی تصریح ہے۔

دلائل النبوة للبیہقی، باب الدلیل علی أن النبی صلی الله علیہ وسلم عرج بہ إلی السماء فرأی جبرئیل فی صورتہ عند سدرة المنتہی:2/400․

یا یہ کہ الله تعالیٰ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اعزاز واکرام کے لیے ان انبیائے کرام کو مع اجسام عنصریہ کے مسجد اقصی اور آسمانوں میں جمع کیا، اس طرح آپ صلی الله علیہ و سلم نے تمام انبیاء کو ان کے اجسام اصلیہ کے ساتھ دیکھا اور الله تعالیٰ کی قدرت کے آگے کچھ محال نہیں کہ ایک شب کے لیے ان انبیاء کرام کے اجسام عنصریہ ان کی قبروں سے بیت المقدس اورپھر آسمانوں پر جمع کیے گئے او رپھر ان کو ان کی قبروں میں و اپس کر دیا گیا۔ (فتح الباری:7/263، وعمدة القاری:17/34، وارشاد الساری:8/358، ومرقاة المفاتیح:10/555، وشرح الزرقانی علی المواھب اللدنیة:8/152)

اور اس قول کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے، جس میں ہے ”فنشر لی الانبیاء من سمی الله تعالیٰ ومن لم یسم․“ کہ میرے لیے انبیاء کو اٹھایا گیا، ان کو بھی جن کے نام حق تعالیٰ نے ذکرکیے ہیں او ران کو بھی جن کے نام ذکر نہیں کیے ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ الله فرماتے ہیں: اس قول کو ہمارے بعض شیوخ نے اختیار کیا ہے۔ (شرح الزرقانی:8/152)

معراج کے موقع پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مختلف آسمانوں پر انبیائے کرام علیہم السلام سے ملاقات ہوئی، کس آسمان پر کس نبی سے ملاقات ہوئی اس ترتیب کو یاد رکھنے کے لیے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله نے ایک جملہ بنایا ہے :”أعیاھم“

” الف“ سے آدم علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے”عین“ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام، ”ی“ سے یوسف علیہ السلام، پھر ”الف“ سے حضرت ادریس علیہ السلام، ”ھ“ سے حضرت ہارون علیہ السلام اور ”میم“ سے حضرت موسی علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے اور چوں کہ ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہونا بہت مشہور ہے، اس لیے اس کے لیے کسی حرف کا اضافہ نہیں کیا۔

سدرة المنتہیٰ:
سدرة المنتہیٰ چھٹے آسمان پر ہے، جو چیز زمین سے جاتی ہے سدرة المنتہیٰ پر رک جاتی ہے اوروہاں سے اسے لے لیا جاتا ہے او رعرش سے اترنے والی چیز بھی سدرة المنتہی پر رک جاتی ہے او روہاں سے اسے وصول کر لیا جاتا ہے ،گویا یہ وہ مقام ہے جس سے آگے فرشتے بھی نہیں جاسکتے، یہ سعادت صرف ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کو حاصل ہوئی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس مقام سے بھی آگے تشریف لے گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی اس مقام سے آگے نہیں گیا۔ (عمدة القاری:17/37، فتح الباری:7/267، المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم، کتاب الإیمان:1/394)

سدرة المنتہیٰ اتنا بڑا درخت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اس درخت کی شاخوں کے سائے میں کوئی تیز رفتار سوار سو سال تک چلتا رہے ( اس کا سایہ ختم نہ ہو گا)۔ ( سنن الترمذی، کتاب صفة الجنة، باب ماجاء فی صفة ثمار الجنة، رقم:2541)

معراج پر ملحدین کی طرف سے اعتراضات او ران کے جوابات

اعتراض: ملاحدہ کی طرف سے اعترض کیا جاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جسم رات کے تھوڑے سے حصے میں مکہ سے بیت المقدس اور پھر بیت المقدس سے سبع سمٰوات کی سیر کرکے آجائے؟

جواب: اس کا جواب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله نے یہ دیا ہے، فرماتے ہیں: ہم کہتے ہیں کہ اس میں استحالے کی کیا بات ہے؟ ہاں! استبعاد ہو سکتا ہے، سووہ بھی بطور الزام کے اس طرح مدفوع ہے کہ تمہارے نزدیک زمانہ حرکت فلک الأفلاک کا نام ہے، چناں چہ رات دن کا آنا، طلوع وغروب ہونا یہ سب حرکت فلک سے مرتبط ہے، اگر حرکت فلک موقوف ہو جائے تو جو وقت موجود ہو گا وہی رہے گا، رات موجود ہو گی تو رات رہے گی اور دن موجود ہوگا تو دن رہے گا تو ممکن ہے کہ الله تعالیٰ نے اس رات حرکت فلک کو تھوڑی دیر کے لیے موقوف کر دیا ہو اور اس میں کچھ تعجب نہیں، معزز مہمان کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے دنیا میں بھی یہ قاعدہ ہے کہ جب بادشاہ کی سواری نکلتی ہے تو سڑک پر دوسروں کا چلنا بند کر دیا جاتا ہے، اسی طرح حق تعالیٰ نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے اگر آسمان اور چاند سورج سب کی حرکت کو اس رات کچھ دیر کے لیے بند کر دیا ہو کہ جو چیز جہاں ہے وہیں رہے، پس آفتاب جس جگہ تھا، اسی جگہ رہا اور ستارے جہاں تھے وہیں رہے، کوئی بھی اپنی جگہ سے ہلنے نہ پایا، اس میں کیا استبعاد ہے؟ جب حضور صلی الله علیہ وسلم معراج سے فارغ ہو گئے تو پھر فلک کو حرکت کی اجازت ہو گئی تو اب ظاہر ہے کہ حرکت فلک جس جگہ سے موقوف ہوئی تھی وہیں سے شروع ہوئی، تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیر میں چاہے کتنا ہی وقت صرف ہوا ہو، مگر دنیا والوں کے اعتبار سے سارا قصہ ایک ہی رات میں ہوا،کیوں کہ حرکت اس وقت موقوف ہوچکی تھی۔(اشرف الجواب لحکیم الأمت مولانا اشرف علی تھانوی، ص:574،575)
ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ جب بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تابع دار بن کر آرہی تھی، تو سلیمان علیہ السلام نے اہل دربار سے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو بلقیس کا تخت اس کے آنے سے پہلے ہی میرے پاس لے آئے؟

﴿قَالَ الَّذِی عِندَہُ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ أَنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ أَن یَرْتَدَّ إِلَیْکَ طَرْفُکَ﴾․(سورة النمل،آیت:40)

جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا میں آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی اسے آپ کے پاس لے آتا ہوں۔

جب پلک جھپکنے میں تخت کا اتنی مسافت یمن سے شام پہنچنا ممکن ہے تو اس تیز رفتاری کا حصول تمام اجسام میں ممکن ہوگا اور الله تعالیٰ اس پر قادر ہیں کہ الله تعالیٰ نے یہ تیز رفتاری معراج کی رات آپ صلی الله علیہ وسلم کے جسد مبارک میں رکھ دی ہو اور آپ اتنے مختصروقت میں سبع سموات کی سیر کرکے واپس آگئے۔( سبل الھدی والرشاد، الباب السادس: 3/108)

شب معراج کے اعمال مروجہ

”فتاوی محمودیہ“ میں شب معراج میں کیے جانے والے رسوم ورواج سے متعلق سوال وجواب ہے۔

سوال: یہاں افریقا میں یہ التزام ورواج ہے کہ شب معراج میں عشاء کے وقت خصوصی اعلان ودعوت کے ساتھ لوگوں کو جمع کرکے وعظ، شیرینی او رنماز نوافل کا اہتمام کیا جاتا ہے، آیا شریعت میں اس قسم کا التزام واہتمام کہیں مشروع ہے او راس التزام کا نہ ماننے والا گنہگار ہو گا؟

اس شب میں علاوہ فرض وقت کے آیا کوئی دوسری عبادت فرض، واجب سنت یا نفل مشروع ہے؟

یہاں بیشتر مقامات ایسے ہیں جہاں مساجد نہیں ہیں، وہاں نماز اپنے گھروں میں فرداً فرداً یا نماز باجماعت ادا کر لیا کرتے ہیں…، ایک خاص جگہ تجویز کرکے شب معراج میں اعلان عام اور دعوت ناموں کے ذریعے لوگوں کوجمع کرکے اس مخصوص مقام پر وعظ، شیرینی اور نوافل کا التزام واہتمام کرنا کیسے مشروع ہے؟ جو شخص ان مراسم کو روکے، اسے برا بھلا اور کافر وفاسق کہنا کیساہے؟

جواب: یہ التزام واہتمام بے دلیل، بدعت، خلاف شرع ہے، جو اس التزام کو نہ مانے وہ گناہ گار نہیں بلکہ اس کو روکنے والا ماجور ہے۔

اس شب میں خصوصیت سے کوئی نماز علاوہ روزانہ کی نماز کے مسنون ومشروع نہیں۔

نفس وعظ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے جمع کرنا درست ہے او راس شب کو اس کے لیے مخصوص کرنا بے دلیل ہے، اسی طرح شیرینی کا اہتمام بے اصل ہے ،اس شب کے لیے نوافل کا خصوصی اہتمام کہیں ثابت نہیں، نہ کبھی حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے کیا، نہ صحابہ کرام نے، نہ تابعین عظام رحمہم الله نے کیا، علامہ حلبی، ابن نحیم، علامہ طحطاوی رحمہم الله نے اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور ا سکے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو رد کیا ہے۔ ( فتاوی محمودیہ:3/285-284)

چناں چہ” البحر الرائق“ میں ہے:
ومن ھنا یعلم کراھة الاجتماع علی صلوٰة الرغائب التی تفعل فی رجب فی أول لیلة منہ، وإنھا بدعة․ (البحرالرائق، کتاب الصلوٰة، باب الوتر والنوافل:2/93، وکذا فی مراقی الفلاح، کتاب الصلوٰة، فصل فی تحیة المسجد،ص:402، وکذا فی غنیة المستملی،ص:432)

فضائل رجب کی احادیث کا حکم

”فتاوی محمودیہ “ میں ہے:
سوال: شب معراج کی بے داری کے بارے میں فضائل احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں یا نہیں؟ اس رات اہتمام سے شب بے داری کرنا کیسا ہے؟

نیز اس بارے میں یہ احادیث نقل کی جاتی ہیں وہ صحیح ہیں یا نہیں؟ کہ” جو کوئی پاوے مہینہ رجب کا او راس کی پندرھویں اور آخری تاریخ میں غسل کرے گا تو گویا کہ اس نے گناہوں سے پاکی ایسی حاصل کی ہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو، اس مہینہ کی پانچ راتیں افضل ہیں واسطے عبادت کے، ایک تو اوّل اور ایک اوسط اور تین اخیر کی… الخ

جواب: آخر شب میں بے دار ہو کر نماز پڑھنے اور دعا کرنے کی فضیلت احادیث صحیح سے ثابت ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم کا معمول تھا، اور صالحین کا شیوہ وطریقہ بھی ہے، شب معراج میں خصوصیت سے بے دار رہنے کے متعلق احادیث صحاح میں کوئی روایت میرے علم میں نہیں،ماہ رجب کی مخصوص تاریخوں میں غسل کی جو فضیلت سوال میں درج ہے یہ اصول کے اعتبار سے موضوع ہے، باطل ہے، ہر گز یہ اعتقاد نہ رکھا جائے، ستائیسویں تاریخ کا روزہ سو برس کے روزہ کے برابر ہونے کی بھی حدیث صحیح نہیں۔ (فتاوی محمودیہ:54-53)

اسی طریقے سے یہ جو رجب المرجب کا مہینہ ہے اس میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا اور وہ واقعہ ہے سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی وفات کا اور آپ کے انتقال کا اور یہ واقعہ ہے 22رجب المرجب کا۔

حضرت معاویہ رضی الله عنہ کا انتقال 22 رجب المرجب کو ہوا۔ (سیر أعلام النبلاء، معاویہ بن أبی سفیان، رقم الترجمہ: 25،3/140)

حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ابو سفیان کے بیٹے ہیں اور حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی ہمشیرہ، بہن ،وہ آپ صلی الله علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔ (سیر أ علام النبلاء، أم حبیبة أم المومنین، رقم الترجمہ: 23،2/218) اور حضرت معاویہ رضی الله عنہ فتح مکہ کے موقع پر اپنے والد ابو سفیان کے ساتھ اسلام لائے ہیں اور پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک رہے ہیں، فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین ہوا ہے، غزوہ طائف ہوا ہے، ان غزوات میں حضرت معاویہ رضی الله عنہ شریک رہے ہیں اور جب آپ صلی الله علیہ و سلم مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ بھی ساتھ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور پھر وہیں قیام فرمایا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی صفات، خصوصیات اور خوبیوں کو پیش نظر رکھ کر آپ کو کاتب وحی مقرر فرمایا۔

حضرت معاویہ رضی الله عنہ اس جماعت میں شامل ہیں جنہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کتابت وحی کے لیے مقرر فرمایا او رپھر حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کے زمانے میں جو جنگیں ہوئی ہیں اور بہت اہم قسم کے معاملات ہوئے ہیں جس میں مانعین زکوٰة کا فتنہ تھا تو حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ رضی الله عنہ پوری طاقت اور قوت کے ساتھ کھڑے رہے ،اسی طریقے سے نبوت کے دعوے دار جو اس زمانے میں پیدا ہوئے ان کے خلاف جو جنگیں حضرت صدیق اکبر نے فرمائیں ان میں حضرت معاویہ رضی الله عنہ شریک رہے اور صدیق اکبر رضی الله عنہ کے وصال کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا اور اس زمانے میں جو جنگیں ہوئی ہیں ان تمام کے اندر حضرت معاویہ رضی الله عنہ شریک رہے۔

پھر حضرت عثمان رضی الله عنہ کے زمانے میں تمام جنگوں میں شریک رہے اور پھر جو بہت عجیب بات ہے جس کا عام طور سے ذکر نہیں کیا جاتا ،وہ یہ کہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے زمانے میں آج کا یہ جو یورپ ہے اس کا ایک بہت بڑا حصہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے زمانے میں اسلام کے زیرنگین آیا، اسلام کو اس یورپ کے اندر فتوحات حاصل ہوئیں اور اسلام حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے زمانے میں اس خطے کے اندر گیا اور رومیوں کو شکستوں پہ شکستیں حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے زمانے میں ہوئیں اور وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ چناں چہ وہ جو ایک سازش ہے ،جو یہودیوں کی سازش ہے، جو نصرانیوں کی سازش ہے جو اسلام کے خلاف سازش ہے، اس سازش کے نتیجے میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا، اور وہ پروپیگنڈا اتنا خوف ناک ہے کہ بعض مسلمان بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہیں، حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں بد زبانی کرتے ہیں اور بے ادبی کرتے ہیں، جب کہ امیر معاویہ رضی الله عنہ تو آپ صلی الله علیہ و سلم کے اتنے قریبی رشتہ دار ہیں کہ ان کی بہن آپ صلی الله علیہ وسلم کے عقد کے اندر ہیں، آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں ان کو کاتب وحی قرار دیا، حضرت معاویہ رضی الله عنہ خلیفہ اسلام ہیں اور انہوں نے اسلام کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہیں وہ اسلام کا ایک نہایت زرّیں باب ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے :سیر أ علام النبلاء، معاویہ بن ابی سفیان ، رقم الترجمہ:25،3/119)

لیکن وہ جو پروپیگنڈا ہے اس کے نتیجے میں کیا ہوتا ہے ؟ ہمارے مسلمان بائیس رجب کو جو حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی شہادت کا دن ہے، وفات کا دن ہے، اس دن کونڈے بناتے ہیں، رجب کے کونڈے، کو نڈے کیا ہوتے ہیں؟ کہ حلوہ بنا یا جاتا ہے، پوریاں بنائی جاتی ہیں اور یہ جو آپ نے دودھ دہی والی دکان پر دیکھا ہو گا کہ دہی کا کونڈا (تھال) ہوتا ہے اس کے اندر وہ حلوے اور پوریاں رکھ کر خود بھی کھائی جاتی ہیں اور دائیں بائیں اس کو تقسیم بھی کیا جاتا ہے۔

یہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی وفات کے دن کیا جاتا ہے اوراس طرح دشمن حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی وفات کی خوشی مناتا ہے اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے ہاں شیعہ اور روافض کے امام باڑوں کے اوپر باقاعدہ چراغاں کیا جاتا ہے، حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی وفات پر خوشی مناتے ہوئے۔

”فتاوی محمودیہ“ میں ہے:
سوال:22/رجب کو بعض جگہ کونڈا کرنے کا بڑا رواج ہے، اس میں جو جو رسمیں کی جاتی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ کونڈے کی اصلیت کیا ہے؟ کیا مسلمانان اہل سنت کو یہ رسم کرنی چاہیے؟

جواب: کونڈوں کی مروجہ رسم مذہب اہل سنت والجماعت میں محض بے اصل، خلاف شرع اور بدعت ممنوعہ ہے کیوں کہ بائیس رجب نہ حضرت امام جعفر صادق رحمة الله علیہ کی تاریخ پیدائش ہے او رنہ تاریخ وفات، حضرت امام جعفر صادق رحمہ الله کی ولادت8/رمضان80ھ یا83ھ میں ہوئی اور وفات شوال148ھ میں ہوئی، پھر بائیس رجب کی تخصیص کیا ہے اور اس تاریخ کو حضرت جعفر صادق رحمہ الله سے کیا خاص مناسبت ہے؟ ہاں! بائیسویں رجب حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی تاریخ وفات ہے۔(تاریخ الطبری، سنة ستین وفاة معاویة بن أبی سفیان رضی الله عنہما4/9 )۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس رسم کو محض پردہ پوشی کے لیے حضرت جعفر صادق رحمہ الله کی طرف منسوب کیا گیا، ورنہ درحقیقت یہ تقریب حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے، جس وقت یہ رسم ایجاد ہوئی اہل سنت والجماعت کا غلبہ تھا ،اس لیے یہ اہتمام کیا گیا کہ شیرینی بطور حصہ اعلانیہ نہ تقسیم کی جائے، تاکہ راز فاش نہ ہو، بلکہ دشمنان معاویہ رضی الله عنہ خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاں جاکر اسی جگہ یہ شیرینی کھالیں جہاں اس کو رکھا گیا ہے اور اس طرح اپنی خوشی ومسرت ایک دوسرے پر ظاہر کریں، جب کچھ اس کا چرچا ہوا تو اس کو حضرت جعفر صادق رحمہ الله کی طرف منسوب کرکے یہ تہمت ان پر لگائی کہ انہوں نے خود خاص اس تاریخ میں اپنی فاتحہ کا حکم دیا ہے، حالاں کہ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں لہٰذا برادران اہل سنت کو اس رسم سے بہت دور رہنا چاہیے، نہ خود اس رسم کو بجا لائیں اور نہ اس میں شرکت کریں۔(فتاوی محمودیہ:3/282-281)
میرے دوستو! یہ اسلام اور سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری نہیں ہے، بلکہ خیانت ہے۔

ہمیں توبہ کرنی چاہیے، ہمیں استغفار کرنا چاہیے اور آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے جو احسانات امت پر ہیں ان احسانات کا الله کی بارگاہ میں شکر ادا کرنا چاہیے اور ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی حرمت، ان کی عزت، ان کی ناموس کی حفاظت کے لیے جو کوشش ہم کرسکتے ہیں کریں اور اس طرح کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔

الله تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں اورحق کو سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ﴾

خطبات جمعہ سے متعلق